ریلوے اسٹیشن پر
(نظم)
آہنی ، سبز رنگ ، جنگلے کے پاس
باتوں باتوں میں ایک برگِ عقیق
تو نے جب توڑ کر مسل ڈالا
مجھے احساس بھی نہ تھا کہ یہی
جاوداں لمحہ ، شاخِ دوراں سے
جھڑ کے ، اک عمر ، میری دنیا پر
اپنی کملاہٹیں بکھیرے گا
اسی برگِ دریدہ جاں کی طرح
آج بھی اس دہکتی پٹڑی پر
گھومتے گھنگھناتے پہیوں کو...