نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو - سرمد صہبائی

    غزل (نذرِ سراج اورنگ آبادی) آنکھوں کے سامنے کوئی تصویر ہُو بہُو کُھلتی ہے میرے خواب کی تعبیر ہُو بہُو چشمِ سیہ وہ زلفِ گرہ گیر ہُو بہُو نظارۂ طلسمِ اساطیر ہُو بہُو بالوں کے درمیاں برہنہ ہوئی وہ مانگ کُھبتی چلی گئی کوئی شمشیر ہُو بہُو بوسہ خدا گواہ اس آتش پرست کا ہے موسمِ بہشت کی تاثیر ہُو...
  2. فرحان محمد خان

    ناصر کاظمی غزل : ﺗﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﻟَﻮ ﺩﮮ ﺍﭨﮭﯽ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ - ناصر کاظمی

    غزل ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی رہِ...
  3. فرحان محمد خان

    ہزل : کافر ہوئے جاتے ہیں مسلمان دھڑادھڑ - راحیلؔ فاروق

    ہزل کافر ہوئے جاتے ہیں مسلمان دھڑادھڑ اسلام ہے اور شیخ کے احسان دھڑادھڑ عہد ایک بھی قرآن میں امّت سے نہ باندھا مُلّا سے کیے وعدہ و پیمان دھڑادھڑ ہم چار کتابوں میں رہے ڈھونڈتے حکمت کر بھی گئے ڈنڈے سے وہ درمان دھڑادھڑ کام ایک کا تھا اور لگے رہتے ہیں دو دو شیطان دھڑادھڑ ادھر انسان دھڑادھڑ...
  4. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : بیتِ تازہ کی ہوا ، کوئے حریفاں کی ہوا - عزیز حامد مدنی

    غزل بیتِ تازہ کی ہوا ، کوئے حریفاں کی ہوا پیچ در پیچ چلی میرے گریباں کی ہوا ایک دو نام تو ایسے درِ زنداں پہ ملے سرپٹکتی ہوئی گزری ہے بیاباں کی ہوا جب کسی تازہ تغیر سے بدلتا ہے اُفق تیز تر چلتی ہے کچھ جنبشِ مژگاں کی ہوا تیری آنکھوں کے مد و جزر میں ہنگامِ وصال قعرِ دریا کے گہر جنبشِ مژگاں...
  5. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے۔نصیر ترابی

    محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے ہوا کے پیچ میں آئے ہیں رشتہ و پیوند گلیم میں ہے وہ سج دھج نہ اب کُلاہ میں ہے ادھر تو وقت عجب کچھ قیامتی آیا اماں اسے بھی نہیں جو تری پناہ میں ہے یہ رُخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی جو تیرے دل میں ہے وہ بھی مری نگاہ...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : وقوفِ ہجر میں ہر زغمِ بندگی موقوف - م م مغل

    محمود بھائی کی کتاب غزال آباد سے
  7. فرحان محمد خان

    غزل : مجھے چند باتیں بتا دی گئیں -ارتضیٰ نشاط

    غزل مجھے چند باتیں بتا دی گئیں سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں بڑا شور گونجا ، بڑا شر اُٹھا رگیں دکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں سہولت سے مہمان کھیلیں شکار درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں کڑی...
  8. فرحان محمد خان

    رباعی :مقامِ اردو - فرحان محمد خان

    محبت ہے آپ کی! اردو میرا عشق ہے
  9. فرحان محمد خان

    غزل : وقوفِ ہجر میں ہر زغمِ بندگی موقوف - م م مغل

    غزل وقوفِ ہجر میں ہر زغمِ بندگی موقوف نمازِ صوت و سخن کی ادائگی موقوف ہنر ملال کے قالب میں رقص کرتا رہے سو دائروں سے اُلجھنے کی تندہی موقوف میں خیر گاہ سے نکلا دریدہ دامنِ دل مراجعت کا سفر ختم سرخوشی موقوف وہ خوش مثال زقند اختیار کرتا ہے سراب زاریِ دل پر سپردگی موقوف اُسے ملال نہ ہو مجھ...
  10. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : ہے دگر سب سے مرے سَروِ سر افراز کا رنگ - نصیر ترابی

    غزل ہے دگر سب سے مرے سَروِ سر افراز کا رنگ وہ تو بول اُٹھتا ہے رنگوں میں اس انداز کا رنگ میرے موسم کو طبق مرے لہو کی گردش تیرے الفاظ کی خوشبو تری آواز کا رنگ تیری آنکھوں سے نمایاں مرے دل میں پیچاں کسی انجام کا پرتو کسی آغاز کا رنگ فصلِ آئندہ کے قصوں میں بھی کام آئے گا میرے پندار کا اسلوب...
  11. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو - نصیر ترابی

    غزل وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو نظر نہ آئے تو اسکی تلاش میں رہنا کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا ہوا کے ساتھ چلا لے اڑی ہوا اُس کو وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو جب اس کو میں بھی نہ دیکھوں تو...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس - سرمد صبہائی

    غزل ظاہر نہیں ہوں حرفِ نمایاں کے آس پاس میں نقش ہوں کتابتِ نسیاں کے آس پاس ہم ایسے غرقِ عشق تھے ہم کو خبر نہ تھی کچھ اور غم بھی ہیں غمِ جاناں کے آس پاس اک تم نہیں جو گُم ہو زمانے کی بھیڑ میں ہم بھی ہیں ایک شہرِ پریشاں کے آس پاس فُرصت ہمیں مدارتِ گُل کی نہ مل سکی پھرتی رہی بہار بیاباں کے آس...
  13. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا - نصیر ترابی

    غزل یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا کبھی یارِ دل شکن سے کبھی دل سے کام رکھنا یو نہی دُور دُور رہنا وہ ملے تو کچھ نہ کہنا پسِ حرفِ بے تکلم اُسے ہمکلام رکھنا کسی شامِ دل دہی سے کسی صبح جاں کنی سے جو چراغ بجھ رہا ہو اُسے میرے نام رکھنا کسی یاد کی حنا کو گلِ دستِ شب بنایا کسی آنکھ کے...
Top