اَزل سے ڈُھونڈتے ہیں اک نگارِ فتنہ ساماں کو
لِیے پِھرتے رہیں گے تا ابد تصویرِجاناں کو
ہمَیں بھی آپ ہی کرنا ہیں اپنے َدشت و َدر پیدا
کہ مجنُوں ساتھ لے کر گھر سے ِنکلا تھا بیاباں کو
مجھے تجھ سے چھڑایا ہے مِری بے اختیاری نے
مَیں اپنی بے بسی سے ناپتا ہوں طُولِ ہجراں کو
تِرے وحشی کو لے کر یُوں...
آ سجن گل لگ اساڈے، کیہا جھیڑا لایو ای ؟
سُتیاں بیٹھیاں کجھ نہ ڈٹھا، جاگدیاں شوہ پایو ای
قم باذنی شمس بولے، الٹا کر لٹکایو ای
عشقن عشقن جگ وچ ہوئیاں، دے ولاس بٹھایو ای
میں تیں کائی نہیں جدائی، پھر کیوں آپ چھپایو ای
مجھیاں آئیاں ماہی نہ آیا، پھوک برہوں رلائیو ای
ایس عشقَ دے ویکھے کارے، یوسف...
غالب اور سرکاری ملازمت
(تحریر: سعادت حسن منٹو)
حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔
مسجد کے زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا کا ہے
آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔...
ایہ دکھ جا کہوں کس آگے
رُم ڑہم گھاہ پریم کے لاگے
سکت سکت ہو رین وہانی
ہمرے پیا نے پیڑ نہ جانی
کیا جانوں پیا کیا من بھانی
بلکت بلکت رین وہاسی
ہاسے دی گل پے گئی پھاسی
کرت پھرت نت موئی رے موہی
کون کرے مُوں سے دل جوئی
شام پیا میں دیتی ہوں دھروئی
دُکھ جگ کے موہے پُوچھن آئے
جن کے پیا پردیس...
ایہہ اچرج سادھو کون کہاوے
چھن چھن روپ کِتے بن آوے
مکہ لنکا سہدیو کے بھیت، دویو کو ایک بتاوے
جب جوگی تم وصل کرو گے، بانگ کہے بھانویں ناد وجاوے
بھگتی بھگت نتارو ناہیں بھگت سو ای جیہڑا من بھاوے
ہر پرگٹ پرگٹ ہی ویکھو کیا پنڈت پڑھ وید سُناوے
دھیان دھرو ایہ کافر ناہیں، کیا ہندو کیا ترک کہاوے...
ایسا جگیا گیان پلیتا
نہ ہم ہندو نہ تُرک ضروری
نام عشق دی ہے منظُوری
عاشق نے ہر جیتا
ایسا جگیا گیان پلیتا
ویکھو ٹھگاں شور مچایا
جمناں مرناں چا بنایا
مُورکھ بُھلّے رَولا پایا
جس نوں عاشق ظاہر کیتا
ایسا جگیا گیان پلیتا
عاشق دی ہے بات نیاری
پریم والیاں بڑی کراری
مُورکھّ دی مت ایویں...
مقرّبین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی اپنے رازداں نکلے
حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دیرِ راہب میں
تو اہلِ دیر ہمارے مزاج داں نکلے
بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعدا کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے
قلندروں سے ملا مژدۂ سبک روحی
جو بزمِ ہوش سے نکلے تو سر گراں نکلے
قبیلۂ حرم و...
ایس نیونہہ دی اُلٹی چال
صابر نے جد نیونہہ لگایا
ویکھ پیا نے کیہہ دکھلایا
رگ رگ اندر کِرم چلایا
زوراور دی گل محال
ایس نیونہہ دی اُلٹی چال
زکریا نے جد پایا کھارا
جس دم وجیا عشق نقارا
دھریا سر تے تکھا آرا
کیتا ایڈ زوال
ایس نیونہہ دی اُلٹی چال
جد یحیی نے پائی جھاتی
رمز عشق دی لائی کاتی
جلوہ دِتا...
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں
ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں
زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا
اسی کو اہلِ جہاں انقلاب سمجھے ہیں...
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی تو شامل ہے غمِ یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأت اظہار...
الٹے ہور زمانے آئے
کاں لگڑ نوں مارن لگے
چڑیاں جرّے کھائے
الٹے ہور زمانے آئے
عراقیاں نوں پئی چابک پوندی
گَدّوں خود پوائے
الٹے ہور زمانے آئے
اپنیاں دے وچ الفت ناہیں
کیا چاچے کیا تائے
الٹے ہور زمانے آئے
پیو پُتراں وچ اتفاق نہ کائی
دھِیّاں نال نہ مائے
الٹے ہور زمانے آئے
سچیاں نوں پئے ملدے دھکے...
حاِصل ہو کسی کو نگہِ عُقدہ کُشا بھی
کھُلنے کو تو کھُل جائے تِرا بندِ قبا بھی
برہم مِری رِندی سے قدر بھی ہے قضا بھی
اب ان میں اضافہ ہے تِری زُلف ِ دوتا بھی
اِک عشق ہے آزاد سزا اور جزا سے
ہر اِک کیلئے ورنہ سزا بھی ہے جزا بھی
تا دیر تِری زُلف ِ سمن بُو رہی موُضوع
کل خلوت ِ مے خانہ میں ہم بھی تھے...
اکسا رہا ہے ملنے کو موسم بہار کا
پر دل میں خوف ہے ترے ابا کی مار کا
بھائی بھی تیرے دھوش ہیں خوں خوار شکل کے
اک دو نہیں یہ گینگ مکمل ہے چار کا
تگڑا سا اک پٹھان بھی ہے گیٹ پر ترے
مونچھیں ہیں جس کی ہو بہو تلوار مارکا
اِک اور بھی بلا ہے ترے گھر میں ان دنوں
"قیدو" سا ایک چاچا ترا دور پار کا
اوپر...
گردشِ شام و سحر سے ہیں قدح خوار بَری
بَھر نہ اے موسمِ گُل اِن سے دَمِ ہم سفری
ہو کے میخانے سے گُزری جو نسیمِ سحری
مے گُساروں میں اُٹھا ولولۂ ہم سفری
شب کو کیا شے تھی سبُو میں کہ سحر کے ہنگام
چشمِ مَے خوار میں ہے نُورِ فراست نظری
بات اُس زُلف کی کرتا ہُوں تو کُھل جاتے ہیں
مَیرے الفاظ میں...
وُہ رِند ہُوں کہ فنا ہے مِری بقا کی طرح
ابد کے دوش پہ ہُوں پیرِ تسمہ پا کی طرح
فریبِ معنی و صُورت ہے یہ جہانِ خراب
سبُو اُٹھا کہ خُدا بھی نہیں خُدا کی طرح
غزالِ شہر کو دعوائے رم تو تھا ، لیکن
کھڑے تھے ہم بھی سرِ رہ گُزر قضا کی طرح
حریمِ ناز میں تھی تیزیِ نفَس بھی گراں
معاملہ کِسی گُل رُخ سے...
اک نقطے وچ گل مکدی ہے
پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں
کر دور کفر دیاں بایاں نُوں
چَھڈ دوزخ گور عذاباں نُوں
کر صاف دلے دیاں خواباں نُوں
گل ایسے گھر وچ ڈھُکدی ہے
اک نقطے وچ گل مکدی ہے
اِینویں متھا زمین گھسائیدا
پا لمّا محراب وکھائیدا
پڑھ کلمہ لوک ہسائیدا
دل اندر سمجھ نہ لیائیدا
کدی بات سچی بھی...
دل خدا جانے کس کے پاس رہا
ان دنوں جی بہت اُداس رہا
کیا مزا مجھ کو وصل میں اُس کے
میں رہا بھی تو بے حواس رہا
یوں کھلا، اپنا یہ گُلِ اُمید
کہ سدا دل پہ داغِ یاس رہا
شاد ہوں میں کہ دیکھ میرا حال
غیر کرنے سے التماس رہا
جب تلک میں جیا حسنؔ تب تک
غم مرے دل پہ بے قیاس رہا
(میر حسنؔ)
رُخ پہ یوں جھوم کر وہ لَٹ جائے
خضر دیکھے تو عمر کٹ جائے
اس نظارے سے کیا بچے کوئی
جو نگاہوں سے خود لپٹ جائے
یہ بھی اندھیر ہم نے دیکھا ہے
رات اک زلف میں سمٹ جائے
جانے تجھ سے ادھر بھی کیا کچھ ہے
کاش تو سامنے سے ہٹ جائے
موت نے کھیل ہم کو جانا ہے
کبھی آئے کبھی پلٹ جائے
ڈوبنے تک میں...