رئیس امروہوی مقرّبین میں رمز آشنا کہاں نکلے ۔ رئیس امروہوی

فرخ منظور

لائبریرین
مقرّبین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی اپنے رازداں نکلے

حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دیرِ راہب میں
تو اہلِ دیر ہمارے مزاج داں نکلے

بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعدا کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے

قلندروں سے ملا مژدۂ سبک روحی
جو بزمِ ہوش سے نکلے تو سر گراں نکلے

قبیلۂ حرم و قومِ دیر و فرقۂ رند
ہمارے چاہنے والے کہاں کہاں نکلے؟

سکوت شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ نطق
جو ذاکران سحر تھے وہ بے زباں نکلے

میانِ راہ کھڑے ہیں اس انتظار میں ہم
کہ گرد راہ ہٹے اور کارواں نکلے

گماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزارات بے نشاں نکلے

گرے زمیں پہ جو ہفت آسماں سے ٹکرا کے
تو ہر قدم پہ یہاں اور ہفت خواں نکلے

افق سے اپنے تو دھندلا سا اک غبار اٹھا
پھر اس کے بعد ستاروں کے کارواں نکلے

کبھی کبھی تو ہر اک سانس پر ہوا محسوس
کہ جیسے قالبِ آتش زدہ سے جاں نکلے

سمجھ رہا تھا زمانہ جنہیں نفوسِ جمال
وہ صرف چند نفسِ ہائے خونچکاں نکلے

کمال شوق سے چھیڑا تھا جن کو مطرب نے
وہ راگِ ساز کے سینے سے نوحہ خواں نکلے

رئیسؔ حجرۂ تاریکِ جاں کو کھول تو دوں؟
جو کوئی آفتِ قتالۂ جہاں نکل

(رئیس امروہوی)
 
Top