نتائج تلاش

  1. یاسر شاہ

    نظیر ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا

    مذمتِ اہلِ دنیا کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مُشفِقوں کا پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجے دشمنوں کا ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا یاں ُٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا ___________ گر دِن کو ہے اُچَکّا تو چور رات میں ہے...
  2. یاسر شاہ

    اقتباسات صید الخاطر از امام ابن جوزی( اردو ترجمہ )

    کتاب کا نام : صید الخاطر (اردو ترجمہ :نفیس پھول ) مصنف : امام جمال الدین ابن الجوزیؒ (مترجم :مولانا عبد المجید انور ) موضوع کتاب :مجھے یہ ایک الله والے کی بیاض (ڈائری )لگتی ہے جس میں انھوں نے اپنے روز مرّہ کے منتشر و متفرق...
  3. یاسر شاہ

    مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

    غزل مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو میں تری طلب ترے شوق میں درِ آشیاں سے گزر گیا ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر...
  4. یاسر شاہ

    توبہ و رجوع إلى الله پہ اشعار

    تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں درد
  5. یاسر شاہ

    عجیب طرح کا اک پیچ گفتگو میں ہے---سید سلیمان ندوی

    غزل عجیب طرح کا اک پیچ گفتگو میں ہے وگرنہ "میں" میں وہی بات ہے جو "تو" میں ہے ہے کائنات کا ہر ایک ذرہ گردش میں پتہ جو مل نہ سکا تیری جستجو میں ہے خطابِ غیر میں گو لاکھ احترام رہے مگر وہ لطف کہاں ہے جو لفظ تو میں ہے دہن میں تیغ کے اب بھی ہے تشنگی باقی عجیب لذّتِ پنہاں مر ے لہو میں ہے...
  6. یاسر شاہ

    ہم بھی عجیب لوگ ہیں---غزل

    غزل ہم بھی عجیب لوگ ہیں دار البقا سے تنگ دار الفنا میں لڑتے ہیں اپنی بقا کی جنگ علم اک حجاب ہے جو ہو سودائے نام و ننگ بے نام و ننگ ہو گئے اچھے رہے ملنگ ہر شخص اپنے رنگ میں رنگنے لگا ہمیں شاید چڑھا نہیں ابھی ہم پر خدا کا رنگ مرنے کی آرزو ہو مگر آرزو تو ہو وہ آدمی ہے مردہ کہ جس میں نہ ہو امنگ...
  7. یاسر شاہ

    جو بھی ہم ہیں جیسے بھی ہیں ویسا ہم کو دکھنا ہے--غزل

    غزل بات ہمیں وہ کہنی ہے اور شعر ہمیں یوں لکھنا ہے جو بھی ہم ہیں جیسے بھی ہیں ویسا ہم کو دِکھنا ہے شعر ہے کیا بازارِ جہاں میں شاعر کو ہی بِکنا ہے ایک ہی فن کی قدر یہاں ہے اور وہ اچھا دِکھنا ہے لوگ پکاریں حضرت جی اب باغِ نبی ہے چہرے پر (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ریش نہ تھی تو سب کہتے...
  8. یاسر شاہ

    رمزِ اَخلاق

    رمزِ اَخلاق خُلق نہیں جو خدا کے لیے وہ کچھ بھی نہیں فنکاری ہے باتیں بنانا اور مسکانا رسم ہے، ظاہرداری ہے دو لفظی بھی ان کے ہاں کی ساری کتب پر بھاری ہے جب سے پڑھا "وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر" صبر میں کیف سا طاری ہے بچ کے وبا سے بھی مرنا تو ہے اس کی بھی کچھ تیّاری ہے جلنا بھی تو سیَد صاحب اک مہلک...
  9. یاسر شاہ

    وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے ۔محشر بدایونی

    وہ حال ہے کہ تلاش نجات کی جائے کسی فقیر دعا گو سے بات کی جائے یہ شہر کیسا خوش اوقات تھا اور اب کیاہے جو دن بھی نکلے تو وحشت نہ رات کی جائے کوئی تو شکل گماں ہو کوئی تو حیلۂ خیر کسی طرح تو بسر اب حیات کی جائے گھروں میں وقت گزاری کا اب ہے شغل ہی کیا یہی کہ گفتگوئے حادثات کی جائے اگر یہی ہے اب...
  10. یاسر شاہ

    اقبال غلام قادر رہیلہ

    رہیلہ کس قدر ظالم جفاجو کینہ‌پرور تھا نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم‌گر نے یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے بنایا آہ سامان طرب بیدرد نے ان کو نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و...
  11. یاسر شاہ

    حبیب جالب ماں

    ماں بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی یہ دل کے مرے ٹکڑے یوں روئے مرے ہوتے میں دور کھڑی دیکھوں یہ مجھ سے نہیں ہوگا میں دور کھڑی دیکھوں اور اہل ستم کھیلیں خوں سے مرے بچوں کے دن رات یہاں ہولی بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی یہ دل کے مرے ٹکڑے یوں روئیں مرے ہوتے میں دور کھڑی...
  12. یاسر شاہ

    فیض شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ۔نظم

    موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا تم ناحق ٹکڑے چن چن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو شاید کہ انھی ٹکڑوں میں کہیں وہ ساغر دل ہے جس میں کبھی صد ناز سے اترا کرتی تھی صہبائے غم جاناں کی پری پھر...
  13. یاسر شاہ

    قمر جلالوی مجھ پر ہے ابھی نزع کا عالم کوئی دم اور

    مجھ پر ہے ابھی نزع کا عالم کوئی دم اور پھر سوچ لو باقی تو نہیں کوئی ستم اور ہے وعدہ خلافی کے علاوہ بھی ستم اور گر تم نہ خفا ہو تو بتا دیں تمھیں ہم اور یہ مے ہے ذرا سوچ لے اے شیخِ حرم اور تو پہلے پہل پیتا ہے کم اور ارے کم اور وہ پوچھتے ہیں دیکھیے یہ طرفہ ستم اور کس کس نے ستایا ہے تجھے ایک تو...
  14. یاسر شاہ

    جون ایلیا رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی

    رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی وہ حالت سکوت جو اس کے سخن میں تھی تھے دن عجب وہ کشمکش انتخاب کے اک بات یاسمیں میں تھی اک یاسمن میں تھی رم خوردگی میں اپنے غزال ختن تھے ہم یہ جب کا ذکر ہے کہ غزالہ ختن میں تھی محمل کے ساتھ ساتھ میں آ تو گیا مگر وہ بات شہر میں تو نہیں ہے جو بن میں تھی کیوں...
  15. یاسر شاہ

    بخل کی مذمت۔۔۔( سلسلہ وار)

    السلام علیکم بخل کی مذمت میں اپنا یا اوروں کا علمی و شگفتہ مواد یہاں پیش کیا جا سکتا ہے تا کہ اس مرض کا علمی علاج ہو سکے یہی علمی علاج بعد میں عملی علاج کی صورت بھی اختیار کر لے گا ان شاء الله- ظاہر ہے جب تک کسی جسمانی مرض کی خرابی اور نقصان کا علم نہ ہو گا عملی طور پر اس سے بچنا بھی محال ہے...
  16. یاسر شاہ

    جون کی لکھت میری پڑھنت

    نظر آنا - جون ایلیا اس دور کا سب سے نمایاں رجحان یہ ہے کہ جو تم ہو وہ نظر نہ آؤ۔ یہ معاشرے کا دباؤ ہے جو ہمیں اس بے معنی اداکاری پر مجبور کرتا ہے۔ ہم باہر سے بہت ثابت و سالم اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں لیکن اندر سے ریزہ ریزہ اور اذیت زدہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہم نے معاشرے کے اس ظالمانہ دباؤ کو...
  17. یاسر شاہ

    سترھویں سالگرہ انگلش نثر اور اردو شعر

    السلام علیکم ! سوچا کہ کیوں نہ ایک سلسلہ سترھویں سالگرہ کے موقعے پہ شروع کیا جائے جس میں اپنے پسندیدہ انگریزی اقوال کی اردو منظوم ترجمانی کی جائے -یعنی انگریزی نثر کو اردو شعرمیں ڈھالا جائے جس سے عبارت کا ہوبہو ترجمہ نہ سہی کم از کم مفہوم ادا ہو جائے - محمد عبدالرؤوف محمد خلیل الرحمٰن صریر...
  18. یاسر شاہ

    اصلاح العقائد

  19. یاسر شاہ

    گرنے دے گرگئی اگر دستار::::غزل

    السلام علیکم ! اپنی ایک پرانی غزل چند تازہ اضافی اشعار کے ساتھ پیش خدمت ہے - یہ نامکمل شکل میں ریختہ پہ بھی موجود ہے : https://www.rekhta.org/ghazals/girne-de-gir-gaii-agar-dastaar-yasir-shah-rashidi-ghazals?sort=popularity-desc&lang=ur غزل گرنے دے گرگئی اگر دستار دونوں ہاتھوں سے تھام...
  20. یاسر شاہ

    جون ایلیا ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

    غزل جون ایلیا ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں اور ستم یہ کہ ہم تمھارے ہیں دلِ برباد یہ خیال رہے اُس نے گیسو نہیں سنوارے ہیں ان رفیقوں سے شرم آتی ہے جو مرا ساتھ دے کے ہارے ہیں اور تو ہم نے کیا کِیا اب تک یہ کیا ہے کہ دن گزارے ہیں اس گلی سے جو ہو کے آئے ہوں اب تو وہ راہرو بھی پیارے...
Top