اقتباسات صید الخاطر از امام ابن جوزی( اردو ترجمہ )

یاسر شاہ

محفلین
کتاب کا نام : صید الخاطر (اردو ترجمہ :نفیس پھول )
مصنف : امام جمال الدین ابن الجوزیؒ (مترجم :مولانا عبد المجید انور )
موضوع کتاب :مجھے یہ ایک الله والے کی بیاض (ڈائری )لگتی ہے جس میں انھوں نے اپنے روز مرّہ کے منتشر و متفرق خیالات، واردات قلبی ، مشاہدات اور ان سے حاصل نتائج کا مختلف عنوانات کے تحت، اختصاریوں کی شکل میں، نہایت متاثر کن انداز میں احاطہ کیا ہے -
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
نار کی بجائے عار

جب کسی عالم کا قصد صحیح ہو جاتا ہے تو وہ تکلّفات سے بری ہو جاتا ہے ،بہت سے علماءحضرات ایسے ہیں جنھیں "لا ادری " (میں نہیں جانتا ) کہتے ہوئے حیا آتی ہے چنانچہ وہ اپنی وجاہت قائم رکھنے کے لیے فتویٰ صادر کر دیتے ہیں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ انھیں جواب نہیں آیا اگرچہ خود انھیں بھی اپنی بات پر یقین نہیں ہوتا اور یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کی بات ہے -حضرت امام مالک بن انسؒ کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے ان سے مسئلہ پوچھا ،آپ نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا "لا ادری "-سائل کہنے لگا میں نے آپ تک پہنچنے کے لیے کئی شہر عبور کیے ہیں ،فرمانے لگے اپنے شہر میں واپس جا کر کہہ دینا کہ میں نے مالک سے مسئلہ پوچھا تھا انھوں نے جواب میں کہا کہ میں نہیں جانتا -اس شخص کے دین اور عقل کو دیکھیے کہ اس نے تکلّف سے کس طرح جان بچا لی اور الله تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوا اور پھر اگر لوگوں کے ہاں اپنی وجاہت ہی مقصود ہے تو ان کے قلوب کسی اور کے قبضے میں ہیں -والله میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نفلی صوم و صلواة کی کثرت کے ساتھ ساتھ خاموش مزاج بظاہر مسکین طبع اور سادہ لباس والے تھے مگر لوگوں کے دل ان سے بیزار تھے اور ان کی نگاہ میں وہ کچھ عزت نہ رکھتے تھے اور ایسے حضرات بھی دیکھے جو فاخرہ لباس پہنتے ہیں ،بظاہر مسکنت اور نوافل کی کثرت بھی نہیں مگر لوگوں کے قلوب ان کی محبّت میں کٹے جاتے ہیں -میں نے اس کے سبب میں غور کیا ،وہ میرے نزدیک ان کا حسن باطن تھا جیسا کہ حضرت انس بن مالکؒ کے بارے میں ہے کہ ان کے ہاں نفلی صوم و صلواة کی کثرت نہ تھی بلکہ باطن کا نور تھا -بس جس کا باطن درست ہو جائے اس کی فضیلت کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے اور لوگوں کے قلوب اس سے مہک اٹھتے ہیں لہٰذا باطن کے معاملے میں الله تعالیٰ سے ڈرتے رہو کہ اس کے فساد کے ہوتے ہوئے ظاہری اصلاح کچھ فائدہ نہیں دیتی -

صفحہ نمبر :207
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
عمر کے مراحل :

".........مجالس ذکر میں میرے ہاتھ پر دو لاکھ سے زائد لوگوں نے توبہ کی ہے اور دو سو سے زائد انسان میرے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور بہت سے سخت مزاج لوگوں کی آنکھیں میرے وعظ سے بہنے لگیں جو کبھی نہیں بہتی تھیں -جو شخص اس قسم کے انعامات کا مشاہدہ کر رہا ہے اسے حق ہے کہ ان کی تکمیل کی امید رکھے مگر ساتھ ہی اپنی خطاؤں اور لغزشوں کو دیکھ کر اسباب خوف بھی رونما ہونے لگتے ہیں .......میں ایک دن بیٹھا تھا اور اپنے آس پاس دس ہزار سے زائد کا مجمع دیکھ رہا تھا، کوئی ایسا نہ تھا جس کے دل میں رقت یا آنکھ میں آنسو نہ ہو ،میں نے اپنے نفس کو خطاب کیا اور کہا کہ اگر یہ سب نجات پا گئے اور تو ہلاک ہو گیا تو بتا تیرا کیا بنے گا؟، بس میں وجدان کی زبان سے چیخ چیخ کر کہنے لگا میرے آقا میرے الله! اگر تو مجھ پر کل قیامت کو عذاب کا بھی فیصلہ کر دے تو ان لوگوں کو پتا نہ چلے ،میری وجہ سے نہیں تو اپنے کرم کے تحفظ ہی کے لیے سہی تاکہ وہ لوگ یوں نہ کہیں کہ جس ذات کی طرف رہنمائی کی تھی اسی نے عذاب دے دیا -میرے الله! تیرے نبی ﷺ سے سوال ہوا تھا کہ کیا ابن ابی منافق کو قتل کر دیں ؟ تو منع فرمایااور ارشاد فرمایا لوگ کہیں گے کہ محمّد(ﷺ) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگا -میرے الله ! اپنے کرم کے صدقے میرے حق میں ان کے حسین اعتقاد کو قائم رکھ اور ایسے شخص کے عذاب کی ان کو خبر نہ ہو جو تیری ذات کا راستہ انھیں بتاتا رہا -والله یا رب تیری ذات پاک ہے اس سے جو صفائی میں گدلاپن ہونے دے -

اشعار کا ترجمہ :اس لکڑی کو مت چھیل جسے خود مزین کیا ہے -سخاوت کا بانی کبھی اس کے خلاف نہیں کرتا -اس کھیتی کو پیاسا مت رکھ جسے خود اگایا ہے اور تیرے انعام کی بارش سے وہ باغ و بہار بن چکی ہے -"


صفحہ نمبر :233
 

یاسر شاہ

محفلین
مشقت اور امتحان میں ثابت قدمی

جس شخص کو نفس نے ایک حرام لذّت کی طرف کھینچا اور یہ اس میں مشغول ہو کر اس کی سزا اور انجام میں غور بھی نہ کر سکا اور عقل کی پکار بھی سنی کہ تیرا ناس ہو ایسا مت کر ورنہ ترقی رک جائے گی اور تنزل شروع ہو جائے گا اور تجھے یہ کہہ دیا جائے گا کہ جس حال کا تو نے انتخاب کر لیا ہے بس اسی میں پڑا رہ، پھر بھی اگر اپنی خواہش میں مشغول رہ کر اس پکار پر کان نہ دھرا تو مسلسل تنزل میں ہی رہے گا اور اس انتخاب میں اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے مشہور ہے کہ ایک کتے نے شیر سے کہا اے درندوں کے سردار ! میرا نام بدل دیجیے کہ یہ قبیح نام ہے ،شیر نے کہا تو خائن ہے لہٰذا تیرے لیے کوئی اور نام مناسب ہی نہیں ،کہنے لگا آپ میرا تجربہ کر لیجیے اور آزما لیجیے -شیر نے گوشت کا ایک ٹکڑا دیتے ہوئے کہا کہ کل تک اس کی حفاظت کر پھر تیرا نام بدل دوں گا -کتے کو بھوک لگی ،گوشت کو دیکھ رہا ہے مگر صبر کیے ہوئے ہے بالآخر جب بالکل ہی مجبور ہو گیا تو کہنے لگا بھلا میرے نام کو کیا ہے ؟"کتا " تو بہترین نام ہے -یہ کہا اور گوشت کھا گیا -بس پست ہمت لوگ اور گھٹیا مقام پر خوش رہنے والے، نقد خواہشات کو آخرت کے فضائل و کمالات پہ ترجیح دینے والے اسی قسم کے ہوتے ہیں -خواہشات کی آگ میں پڑنے سے جبکہ وہ بھڑک رہی ہو الله کا خوف کھاؤ اور سوچو کہ اس کو کیسے بجھانا ہے کہ بہت سی لغزشیں ہلاکت کے کنویں میں ڈال دیتی ہیں اور بہت سے آثار ایسے ہوتے ہیں جو مٹتے نہیں اور ہلاک ہونے والی چیز کی کبھی تلافی نہیں ہوتی لہٰذا اسباب فتنہ سے بہت دور رہو کہ ان سے قریب ہونا ایسی آزمائش ہے جس میں پڑنے والا کم ہی سلامت رہتا ہے -

صفحہ نمبر :191
بندے نے اسی حکایت کو کچھ اضافے کے ساتھ یہاں نظم کیا ہے :

تاویل
ایک نظم

نظم ہم نے جویہ حکایت کی
ابنِ جوزی (رح) سے ہے روایت کی

کتے نے ایک روز ہمّت کی
شیر کے آگے جا شکایت کی

سارے جنگل کے بادشاہ ہیں آپ
ہم رعایا ہیں عالی حضرت کی

کتا بھی کوئی نام ہے شا ہا !
ایک دشنام ہے حقارت کی

اسمِ نعمُ البدل پہ غور کریں
کہ ہے ایجاد ماں ضرورت کی

شیر بولا ہے نام تیرا درست
خو بری تجھ میں ہے خیانت کی

کر چکا توبہ میں خیانت سے
اپنی کتے نے یوں وکالت کی

شیر کہنے لگا کہ دیکھتے ہیں
پائیداری تری ندامت کی

لے یہ رکھ گوشت ایک دن کے لئے
ہم نے تیرے سپرد امانت کی

شیر رخصت ہوا تو کتے نے
ہر طرح گوشت کی حفاظت کی

رال ٹپکی تو سانس روک لیا
نفس للچایا تو ملامت کی

جبرِ وقتی تو کوئی چیز نہیں
بات ہے اصل استقامت کی

آخر کار سوچنے لگا جب
عود آئی خرابی فطرت کی

نام کتے میں کیا برائی ہے
ایک خوبی یہ بھی ہے قسمت کی

نام سب سے برا ہے سوّر کا
ہائے کیا زندگی ہے راحت کی

گوشت کے لوتھڑے پہ ٹوٹ پڑا
چند لمحوں میں چٹ امانت کی

سگ سے پرہیزگاری مشکل ہے
منھ نہ مارے 'یہ خواری مشکل ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
عشق کے متعلق خیالات

میں نے اس گفتگو میں غور کیا جو حکما نے عشق اور اس کے اسباب اور علاج کے بارے میں کی ہے - میں نے اس سلسلہ میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام "ذم الھویٰ " ہے ،میں نے اس کتاب میں بعض حکما کا قول نقل کیا ہے کہ عشق کا سبب بےکار نفس کی حرکت ہے اور پھر ان کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ ہوشیار لوگوں کا عارضہ ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ جو لوگ حقائق میں غور و فکر سے غافل اور فارغ ہیں وہ اس میں مبتلا ہوتے ہیں-

مگر اس کے بعد مجھے ایک عجیب بات سمجھ میں آئی جسے میں ذرا تفصیل سے لکھوں گا ،وہ یہ کہ عشق اپنی جڑیں ایسے شخص میں مضبوط کرتا ہے جو جامد طبیعت رکھتا ہے ،اس میں ٹھہراؤ ہے ،ہلنے کا نام نہیں لیتا ،ہاں جو لوگ بلند ہمّت ہیں ،بڑھتے ہوئے عزائم رکھتے ہیں ،ان کے خیال میں جب بھی محبّت کوئی نقشہ لاتی ہے اور ان پر اس کے عیوب کھلنے لگتے ہیں ،چاہے محبوب میں غور و فکر کر کے یا اس کے ساتھ میل جول کرنے سے تو ان کو ادھر سے سکون ہو جاتا ہے اور وہ کسی اور کی طلب میں لگ جاتے ہیں- لہٰذا عشق کے اس درجے پر جس میں ایک ہی صورت کے ساتھ تعلّق کا انحصار ہو اور اس کے عیوب سے یکسر چشم پوشی ہو وہی شخص قائم رہتا ہے جو طبیعت میں جمود رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کا قائل نہیں البتہ نقائص سے بیزار ہمیشہ ترقی کرتے رہتے ہیں ،کوئی رکاوٹ ان کے لیے مانع نہیں ہوتی اور جب طبیعت میں کسی کی محبّت کا تعلّق قائم ہوتا ہے تو وہ عشق کے درجہء انتہا کو نہیں پہنچ جاتے اور کبھی کبھی وہ شدید میلان محسوس کرتے ہیں یا تو اس لیے کہ ابتدا میں فکر و تدبّر نہ ہو سکا یا اختلاط کم رہا یا عیوب و نقائص پہ اطلاع نہ ہو سکی اور یا بعض خوبیوں میں باہم اشتراک اور مناسبت کی وجہ سے جیسے ایک عاقل کو دوسرے عاقل کے ساتھ ایک دانا کو دوسرے دانا کے ساتھ محبّت ہوتی ہے، تاہم عشق ان کی زندگی میں ناپید ہوتا ہے بلکہ طبیعت کا اونٹ فہم کے حدی خواں کے پیچھے لگایا جاتا ہے کیونکہ بعض ہمتوں کے ہدف ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں نایاب ہیں اس لیے کہ ان کا مطلوب وہ کمال ہے جو اشخاص میں پایا ہی نہیں جا سکتا ،پس جب وہ عیوب کو دیکھتے ہیں تو نفرت کرنے لگتے ہیں -

اور باری تعالیٰ کی محبّت کا تعلّق جو قلوب میں ہوتا ہے تو وہ اپنے ماسوا کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا سو یہ محبّت مخلوق کی محبّت کی ہم جنس نہیں ہے -جی ہاں ! ارباب معرفت بے خود ہوتے ہیں ،خالق کی محبّت انھیں مخلوق کی محبّت سے مشغول و مصروف رکھتی ہے -معرفتِ قلوب کی قوت اور محبّت کی وجہ سے طبیعت ہمہ وقت مستغرق رہتی ہے جیسا کہ رابعہ بصریہ کا قول ہے :

(ترجمہ ) مجھے ایسے محبوب سے محبّت ہے جس کی محبّت پر مجھے طعن نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی محبّت میں تو طعن کرنے والا بھی مجھے محبوب ہے -

کسی زاہد فقیر کا واقعہ ہے کہ اس کی چلتے ہوئے راستے میں ایک عورت پر نظر پڑ گئی ،اس نے اس کے باپ کے پاس نکاح کا پیغام بھجوایا ،باپ نے منظور کر لیا ،اسے گھر بلایا اور گودڑی اتروا کر اچھا لباس پہنایا ،نکاح ہوگیا -رات آئی تو فقیر نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ ہائے میری گودڑی ،ہائے میری گودڑی،میرے تو احوال و مقامات سب کھو گئے -

فقیر کے لیے راستے کی یہ ایک لغزش تھی ،جس نے بتایا کہ وہ اپنی منزل سے ہٹ گیا ہے اور اس قسم کے حالات اہل معرفت کو ہی پیش آتے ہیں اور انھیں جو رذائل سے نفرت رکھتے ہیں ،اور اس حالت کی مثال کچھ یوں ہے کہ مرغوب و لذیذ کھانوں کی لذت میں عقل کو یہ دھیان کبھی نہیں آتاکہ یہ چبایا کیسے جا رہا ہے ،منھ میں ادھر ادھر کیونکر منتقل ہو رہا ہے اور پھر حلق سے نیچے کیسے اتر رہا ہے ،اسی طرح جماع کے لمحات میں کئی ایک مکروہات طبعی سے غلبہء شہوت کی وجہ سے ذہول ہو جاتا ہے ،لعابِ دہن کو نگلتے وقت یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ غذائی تحلیل کا کام دیتا ہے اور اس قسم کی باتیں پردہ ہی میں رہیں تو بہتر ہے ،ہاں مگر بیدار مغز لوگوں کا یہ احساس غیر شعوری طور پر لذت عیش میں بھی اکثر و بیشتر باقی رہتا ہے اور خواہشات و محبّت کے نقائص سے نفرت کا باعث بنتا ہے بس انجام پر نظر کے حساب سے قلبِ عاشق میں عشق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور ذہنی جمود کے بقدر اس کا قلق و اضطراب بڑھتا رہتا ہے بقول متنبی :

(شعر کا ترجمہ) اگر عاشق اس حسن کے انجام کو سوچ لیتا جس نے اسے قید کر رکھا ہے تو یہ کبھی قید نہ ہوتا-

میری پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ بیدار مغز لوگوں کی طبائع ترقی پسند ہوتی ہیں ،کسی ایک پسندیدہ شخص پر رکتی نہیں ہیں اور اس کی ترقی کا سبب اس شخص کے عیوب و نقائص میں غور و فکر کرنا ہے یا پھر اس سے بھی بڑھ کر کسی اور کی تلاش- عارفین کے قلوب اپنے معروف کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور اعتبار و امتحان کے میدان میں چلتے رہتے ہیں اور رہ گئے اہل غفلت تو ان کی دونوں حالتوں کا جمود اور ہر دو مقام کی غفلت و بے حسی ان کو اسیر و پابند اور حیران و سرگرداں کر کے چھوڑتی ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
اعتبار انجام کا ہے
جو شخص سلامتی کے ایّام میں الله تعالیٰ کے فیصلوں پر برضا و رغبت زندگی گزارتا ہے اسے بہادر نہیں کہتے ،ہاں مصیبت کے دنوں میں بھی حالات کی الٹ پلٹ جب اسے ناگوار نہ ہو تو یہ بہادری ہے اور یہی پیمانہ و معیار ہے- مالکِ مطلق ایک آن میں بناتا اور توڑ ڈالتا ہے -دیتا ہے اور واپس لے لیتا ہے، بس الله تعالیٰ کے امور میں خوش اور راضی رہنے والا ان حالات میں پرکھا جاتا ہے- جس پر نعمتیں مسلسل اتر رہی ہیں وہ خوش ہے تو نعمتوں کے اس تسلسل کی وجہ سے اور جوں ہی مصیبت کا ذرا جھونکا آیا تو اس کی ثابت قدمی دور نکل جاتی ہے ----حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ نعمت و خوش حالی کے ایّام میں سب یکساں دکھائی دیتے ہیں اور جب کوئی آفت اترتی ہے تو فرق و امتیاز نمایاں ہوتا ہے- پس عاقل وہ ہے جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ،زاد تیّار کرتا ہے ،مصائب میں اترنے کا سامان مہیّا کرتا ہے-
آفات و مصائب کا آنا ناگزیر ہے، اور نہیں تو موت کی پچھاڑ کے وقت ہی سہی کیونکہ موت جب آتی ہے اور بندے کو اتنی بھی معرفت حاصل نہ ہو جو صبر اور رضا کا ذریعہ بنے تو معاذ الله یہی موت اسے کفر تک پہنچا دیتی ہے ،میں نے بعض ایسے لوگوں کو سنا جن کے بارے میں میرا گمان بہت ہی اچھا تھا کہ وہ موت کے ایّام میں کہہ رہے تھے "کیا میرا رب یہ ہے جو مجھ پر ظلم کر رہا ہے" بس اس وقت سے مجھ پر ایک اضطراب کی کیفیّت ہے ،ہر وقت اس اہتمام میں ہوں کہ اس دن کی ملاقات کے لیے کچھ سامان جمع ہو جائے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ روایت میں ہے کہ شیطان اس موقعہ پر اپنے رفقاء سے کہتا ہے کہ اس کو شکار کر لو کہ اگر اب تم سے جاتا رہا پھر نہیں پا سکو گے اور کون سا دل ہے جو سانس کے رکنے کے وقت ،گلا گھٹنے کے وقت ،جان کے نکلنے کے وقت اور محبوب و مرغوب چیزوں سے جدا ہونے کے وقت ثابت رہ سکتا ہے اور جدائی بھی ایسی سمت میں جس کا کچھ علم نہیں اور بظاہر قبر اور آفت و بلا کے سوا کچھ نہیں -
بس ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا یقین مانگتے ہیں جو ہمیں اس دن کے شر سے بچائے تاکہ ہم اس کی قضاء و قدر پر صبر کر سکیں یا اس پر راضی رہ سکیں اور مالکِ امور کی بارگاہ میں اس بات کی رغبت رکھتے ہیں کہ اپنے احباب پر اتاری ہوئی نعمتوں کا کچھ حصّہ ہمیں بھی عطا فرمائیں حتّیٰ کہ اس کی ملاقات ہمیں اپنی بقا سے زیادہ محبوب ہو جائے اور اس کی تقدیر پر اپنے کو حوالے کر دینا ،اپنا اختیار استعمال کرنے سے زیادہ مرغوب ہو جائے اور ہم اپنی تدابیر کے کمال کا معتقد ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ جب وہ تدبیر الٹی پڑنے لگے تو تقدیر پر ناراض ہونے لگیں کہ یہ محض جھانسا ہے اور رسوائی ہی رسوائی ہے "خدا کی پناہ بار بار پناہ "-
 

یاسر شاہ

محفلین
فاضل علما

مجھے بہت سے مشائخ کی ملاقات میسر آئی ،ان کے احوال اپنے اپنے علمی مقام کے لحاظ سے مختلف تھے اور سب سے زیادہ نفع مجھے اس عالم کی صحبت میں ہوا جو اپنے علم پر عمل رکھتا تھا گو علم میں کوئی اور اس سے بڑھ کر ہی ہو -میں علمائے حدیث کی جماعت سے ملا جو حدیث کی معرفت رکھتے تھے اور اسے یاد بھی کرتے تھے مگر غیبت کے معاملے میں کمزوری دکھا جاتے اور اسے جرح و تعدیل کے پلڑے میں ڈال دیتے تھے اور حدیث پڑھانے پر اجرت لیتے تھے اور جواب دینے میں جلدی کرتے تاکہ علمی مقام پر حرف نہ آ جائے چاہے جواب میں غلطی ہی ہوجائے -


میں عبدالوہاب الانماطیؒ سے ملا ،انھیں میں نے سلف کے طریق پر پایا ،اپنی مجلس میں کسی کی غیبت نہ سنتے تھے اور نہ ہی درسِ حدیث پر اجرت لیتے تھے اور رقائق کی احادیث جب میں پڑھتا تو مسلسل روتے رہتے تھے -میں ان دنوں میں چھوٹی عمر کا تھا مگر پھر بھی ان کا رونا میرے دل پر اثر کرتا تھا اور ادب کی بنیادیں میرے دل میں مضبوط ہوتی تھیں اور وہ ان مشائخ کے بالکل نقش قدم پر تھے جن کے اوصاف ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے اور میں شیخ ابو منصور الجوالیقیؒ سے ملا جو بہت ہی خاموش طبع تھے ،بہت سوچ سوچ کر بولنے والے ،محقق اور ثقہ تھے اور کبھی ان سے ایسا سوال بھی ہوتا جس کا جواب ان کے شاگرد بہت جلد آسانی سے دے سکتے تھے مگر وہ اس میں بھی توقف اور غور فرماتے حتّیٰ کہ یقین ہوجاتا -کثرت سے روزہ رکھنے والے ،خاموش رہنے والے تھے ،مجھے ان دو مشائخ کی ملاقات و زیارت سے جو نفع ہوا اور کسی سے نہیں ہوا ،جس سے میں یہ سمجھا کی عملی دلیل رہنمائی میں محض علمی اور قولی دلیل سے بڑھی ہوئی ہے -

میں نے ایسے مشائخ دیکھے جن کی خلوتیں بےتکلفی اور مزاح میں ڈوبی ہوئی تھیں جس سے وہ دلوں میں نہ جم سکے اور ان کی اس کمزوری نے ان کے جمع کردہ علم کو بھی بکھیر دیا ،زندگی میں ان سے انتفاع (فائدہ ) بہت کم ہوا اور فوت ہونے کے بعد تو ان کی یاد بھی باقی نہ رہی اور کوئی نہیں جو ان کی کتابوں ہی کو اٹھا کر دیکھ لے -لہٰذا عمل والے علم میں الله تعالیٰ کا بہت دھیان رکھو کہ یہی اصل اکبر ہے اور وہ شخص حد درجہ کا مسکین ہے جس کی عمر ایسے علم میں ضائع ہو گئی جس پر عمل نہ کر سکا ،دنیا کی لذتیں بھی گئیں اور آخرت کی بھلائیاں بھی نہ پا سکا ،پس وہ بحالتِ افلاس اپنے خلاف قوی دلیل ساتھ لے کر آگے پہنچ گیا -
 

یاسر شاہ

محفلین
اہل حال کی حقیقت

کبھی ایک بیدار مغز آدمی کوئی شعر سنتا ہے اور اس سے کوئی اشارہ سمجھ کر نفع حاصل کر لیتا ہے -جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں مجھے سری سقطیؒ نے ایک رقعہ پکڑایا جس میں لکھا تھا کہ مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک ساربان کو میں نے یہ حدی پڑھتے ہوئے سنا :

(شعر کا ترجمہ) میں رو رہا ہوں اور تجھے کیا معلوم کہ مجھے کیا چیز رلا رہی ہے -میں اس خوف کی وجہ سے رو رہا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے گی اور میرا تعلق قطع کر کے مجھے اکیلا چھوڑ دے گی -

دیکھیے الله تعالیٰ آپ کا بھلا کرے اور توفیق بخشے کہ ان ابیات(اشعار ) نے سری سقطیؒ پر کیا اثر کیا کہ انھوں نے جنیؒد کو بھی اس پر مطلع کرنا پسند کیا کہ جس پر وہ خود مطلع ہوئے تھے اور اس کے لیے انھیں جنیدؒ کے علاوہ کوئی اور دکھائی نہیں دیا کیونکہ بہت سے لوگ طبیعت کے کثیف اور فہم کے موٹے ہوتے ہیں -
ایسے بیت سن کر بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ ان میں اشارہ کس طرف ہو سکتا ہے ،کیا الله تعالیٰ کی طرف ؟...اگر ایسا ہے تو الفاظ مونث کے کیونکر جائز ہیں ؟ اور اگر کسی مونث کی طرف ہی اشارہ ہے تو بزرگی کہاں گئی؟ -بخدا یہ غافل لوگوں کا اعتراض ہے جو اس قسم کے شعر سن کر کر دیتے ہیں ،اسی لیے ان لوگوں کو قصائد وغیرہ کے سماع سے روکا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے اشعار کا استعمال اکثر و بیشتر نفسانی خواہشات اور غلبۂ محبت کے لیے ہوتا ہے اور جنید اور سری سقطی رحمہ الله علیھما کے بارے میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ان جیسے حضرات جو سنتے ہیں وہ اس کی خوب خبر رکھتے ہیں -

باقی اس کثیف الطبع آدمی کے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ سری نے اشارہ لفظوں کا نہیں کیا اور نہ ہی ان الفاظ کو اپنے مطلوب پر منطبق کیا ہے کہ یہاں مذکر و مونث کی بات کی جائے -ان کا اشارہ تو معنی سے ہے گویا وہ اپنے محبوب کو ان ابیات کے معنی کا مخاطب بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا رونا تیرے اعراض اور بعد کے خوف کی وجہ سے ہے اور یہی ان کا مقصد ہے ،الفاظ کی تذکیر و تانیث ان کے پیش نظر نہیں ہے اور بیدار عقل والے لوگ اس قسم کے الفاظ سے اپنے مطلوب کے لیے اشارے اخذ کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ عام زبان زد باتوں سے بھی اشارہ سمجھ لیتے ہیں جسے لوگ بازاری وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں -
میں نے ابن عقیل کی تحریر میں دیکھا کہ ایک الله والے نے ایک عورت کو پڑھتے ہوئے سنا:

ترجمہ :میں نے اسے رات بھر غسل دیا اور دن بھر صاف کیا اور وہ نکل کر کسی اور کو دیکھنے میں لگ گیا بس پھسلا اور کیچڑ میں گر گیا-

اس بزرگ نے اس سے یہ اشارہ اخذ کیا کہ اے میرے بندے !میں نے تجھے بہترین شکل و صورت میں بنایا ،تیرے حال احوال درست کیے ،جسم کو تنومند و توانا بنایا اور تو میرے غیر کے ساتھ جا لگا اب میری مخالفت کا انجام خود ہی سوچ لے -
 

سیما علی

لائبریرین
لہٰذا عمل والے علم میں الله تعالیٰ کا بہت دھیان رکھو کہ یہی اصل اکبر ہے اور وہ شخص حد درجہ کا مسکین ہے جس کی عمر ایسے علم میں ضائع ہو گئی جس پر عمل نہ کر سکا ،دنیا کی لذتیں بھی گئیں اور آخرت کی بھلائیاں بھی نہ پا سکا ،پس وہ بحالتِ افلاس اپنے خلاف قوی دلیل ساتھ لے کر آگے پہنچ گیا -
پروردگار ہمیں ایسے علم سے باز رکھیے جو ہمیں عمل سے دور رکھے ۔۔اے اللہ پاک ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر۔آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے

بدن میں بعض اشیاء مثلا خون ،منی وغیرہ کے ذخیرے ہوتے ہیں جن سے نفس قوت پاتا ہے اور جب ذخائر ختم ہو جائیں تو یہ بھی باقی نہیں رہتا اور انھی ذخائر میں سے مال ،جاہ اور دیگر فرحت بخش چیزیں ہیں ،جن سے قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ جب ناپید ہوتی ہیں ،جبکہ یہ قابل قدر و افتخار تھیں، تو نفس تنگی محسوس کرتا ہے اور کبھی اس پر خوف کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ رجاء کے ذخیرے میں اس کے مقابلے کے لیے کچھ نہیں ملتا تو ختم ہو جاتا ہے اور ایسے ہی کبھی فرحت اتنی غالب آتی ہے کہ حزن اس کے مقابلے میں نہیں آسکتا تب بھی ہلاکت ہو جاتی ہے لہٰذا ان ذخائر کی حفاظت میں محنت کرنی چاہیے ،خصوصاً بوڑھے لوگوں کو چنانچہ ان کو خون اور منی کے اخراج کے ذریعے کوئی مسرّت و فرحت نہ لینی چاہیے ،گو اس کا تقاضہ بھی ہو - ہاں اگر تقاضہ شدید ہو جائے ،حد سے بڑھ جائے ایسے وقت میں تو موذی چیز کا اخراج ہونا ہی چاہیے اور اس کے موذی ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے خروج کے وقت راحت محسوس ہوتی ہے اور اگر ضعف محسوس ہو تو خروج مضر ہوگا -
خوددار لوگوں پہ اپنی عزت نفس کی حفاظت ضروری ہے کہ عیب لگنے کے موقعہ محل سے بچتا رہے کیونکہ وہ عزت و خودداری کے ذریعے سے نفع لیتا ہے اور اس کی مخالف چیزیں نفس کے خلاف ہوتی ہیں -اسی طرح بہتر ہے کہ آخر عمر کے لیے کچھ مال جمع رکھے ممکن ہے کل ضرورت پڑ جائے پھر ذلّت اٹھائے گا یا محنت کرنی پڑے گی جبکہ اعضا جواب دے رہے ہوں گے اور مال کی مذمت کرنے والوں کو مت دیکھو کہ وہ احمق و جاہل ہیں جو راحت کی روٹی پر آس لگائے ہوئے ہیں راحت اور مال و آرام اور سستی پر خوش رہتے ہیں -صدقہ وصول کرنے یا سائلانہ انداز اپنانے میں انھیں کوئی عار نہیں اور پھر ہر نبی کا کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش تھا اور صحابہ کرام کا بھی اور یہ حضرات بہت سے اموال میراث میں بھی چھوڑ کر گئے ہیں -اس اصل کو سمجھو اور جاہلوں کی بات کو خاطر میں مت لاؤ -
 

یاسر شاہ

محفلین
طاعت اور بندگی پر پختگی کے لیے نفس کو تیّار کرنا

دو مزدور ایک بھاری شہتیر اٹھائے ہوئے میرے پاس سے گزرے اور وہ باری باری کچھ گیت کے بول اور خوش کن کلمات کہتے جاتے تھے ،ایک بولتا تھا تو دوسرا خاموشی سے سنتا تھا پھر دوسرا انھی کلمات کو دہراتا تھا یا اسی طرح کے اور کلمات بولتا تھا اور پہلا چپ رہتا اور سنتا تھا -میں نے اس سے یہ سمجھا کہ اگر یہ ایسا نہ کریں تو ان کی مشقت اور بوجھ بڑھ جائے گا اور ایسا کرنے سے ان کو یہ کام ہلکا اور آسان لگتا ہے - میں نے اس کے سبب میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس قصّے میں ہر ایک نے اپنی فکر اور دھیان کا تعلّق دوسرے کی آواز اور قول کے ساتھ لگا رکھا ہے اور وہ اس میں نشاط بھی محسوس کرتا ہے اور پھر دوسرے کے جواب کے لیے اپنے ذہن کو حرکت دیتا ہے،اس سے ان کا راستہ قطع ہو رہا ہے اور اٹھائے ہوئے بوجھ کی طرف دھیان نہیں ہے .......

مجھے اس سے ایک عجیب اشارہ ملا ،وہ یہ کہ انسان کو مشکل امور کا پابند بنایا گیا ہے اور سب سے گراں پابندی اپنے نفس کو تیّار کرنا اور اس کو مرغوبات سے رکنے اور مکروہات پہ جمنے کا پابند بنانا ہے -میں نے دیکھا کہ اس میں صحیح طریق یہ ہے کہ نفس کو تسلّی دے کر اور نرم انداز کے ساتھ صبر اور پابندی کی منزل طے کرانا ہے جیسا کہ شاعر کا قول ہے :

ترجمہ :اگر وہ شکایت ظاہر کرے تو اس کو بہلاؤ ،چلنے کے لیے صبح صادق کے وقت سے اور ضحی کے وقت آرام کرنے کا وعدہ دو -

اسی قسم کی یہ حکایت ہے کہ بشر حافؒی سفر میں تھے ،ایک اور شخص بھی ساتھ ہو لیا ،اس ساتھی کو پیاس لگی تو کہنے لگا اس کنویں سے پانی پی لیں ،بشر نے فرمایا اگلے کنویں تک صبر کرو ،وہاں تک پہنچے تو پھر فرمایا اگلے کنویں تک اور ایسے ہی اسے بہلاتے رہے پھر متوجہ ہو کر فرمایا کہ دنیا کا سفر یوں طے ہوتا ہے -بس جو شخص اس اصول کو سمجھ گیا وہ نفس کو بہلاتا ہے اور اس کے ساتھ نرمی کرتا ہے اور اچھے اچھے وعدے سناتا ہے تاکہ وہ ذمے لگے ہوئے احکام کی پابندی کرتا رہے -جیسا کہ ایک بزرگ اپنے نفس سے کہا کرتے تھے بخدا میں جو تجھے تیری اس مرغوب و محبوب چیز سے روکتا ہوں تو تیری بھلائی اور بہتری کے لیے -ابو یزؒید کا مقولہ ہے میں اپنے نفس کو الله تعالیٰ کی طرف چلاتا رہا اور یہ رویا کرتا تھا حتی کہ اب یہ ہنستے ہوئے چلتا ہے ،لہٰذا جان رکھیے کہ نفس کے ساتھ خاطر مدارات رکھنا اور نرم معاملہ کرنا لازم ہے اور یہ راہ اسی سے طے ہوگی بس یہ ایک اشارہ ہے جس شرح طویل ہے -
 

سیما علی

لائبریرین
اسی طرح بہتر ہے کہ آخر عمر کے لیے کچھ مال جمع رکھے ممکن ہے کل ضرورت پڑ جائے پھر ذلّت اٹھائے گا یا محنت کرنی پڑے گی جبکہ اعضا جواب دے رہے ہوں گے اور مال کی مذمت کرنے والوں کو مت دیکھو کہ وہ احمق و جاہل ہیں جو راحت کی روٹی پر آس لگائے ہوئے ہیں راحت اور مال و آرام اور سستی پر خوش رہتے ہیں -صدقہ وصول کرنے یا سائلانہ انداز اپنانے میں انھیں کوئی عار نہیں اور پھر ہر نبی کا کچھ نہ کچھ ذریعہ معاش تھا اور صحابہ کرام کا بھی اور یہ حضرات بہت سے اموال میراث میں بھی چھوڑ کر گئے ہیں -اس اصل کو سمجھو اور جاہلوں کی بات کو خاطر میں مت لاؤ -
جزاک اللہ خیرا کثیرا
جیتے رہیے !بہت خوش اسلوبی سے بات سمجھائی گئی ہے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ابو یزؒید کا مقولہ ہے میں اپنے نفس کو الله تعالیٰ کی طرف چلاتا رہا اور یہ رویا کرتا تھا حتی کہ اب یہ ہنستے ہوئے چلتا ہے ،لہٰذا جان رکھیے کہ نفس کے ساتھ خاطر مدارات رکھنا اور نرم معاملہ کرنا لازم ہے اور یہ راہ اسی سے طے ہوگی بس یہ ایک اشارہ ہے جس شرح طویل ہے -
بے شک ایسا ہی ہے ۔۔یہ طویل و مشکل ترین راہ اسی طرز پہ طے ہوگی ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جو شخص سلامتی کے ایّام میں الله تعالیٰ کے فیصلوں پر برضا و رغبت زندگی گزارتا ہے اسے بہادر نہیں کہتے ،ہاں مصیبت کے دنوں میں بھی حالات کی الٹ پلٹ جب اسے ناگوار نہ ہو تو یہ بہادری ہے اور یہی پیمانہ و معیار ہے-
بلاشبہ یہی پیمانہ ہے ۔۔پروردگار کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ ہر حال میں رآضی بہ رضا رکھے ۔۔آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
خواہش اندھا اور بہرا کر دیتی ہے

انسان کا خودپسندی میں مبتلا ہونا اور اپنے علم پہ قناعت کر بیٹھنا مصیبتِ عظمیٰ ہے اور یہ آفت تقریباً عام ہو چکی ہے ،چنانچہ یہودی ہو یا نصرانی وہ اپنے کو صحیح سمجھتا ہے اور ہمارے نبیﷺ کی نبوت کی دلیل سے کوئی سر وکار نہیں رکھتا اور کوئی موثر بات مَثَلاً قرآن وغیرہ کی سن پاتا ہے تو بھاگنے لگتا ہے تاکہ سنائی نہ دے اسی طرح ہر مذہب والا اپنی اپنی پسند پر قائم ہے یا تو اس لیے کہ اس کے باپ دادا کا یہی مذہب ہے یا اس لیے کہ اس نے اول مرتبہ میں اسے ہی دیکھا اور درست سمجھ بیٹھا پھر اس کے خلاف میں غور ہی نہیں کیا نہ ہی علماء سے گفتگو کی کہ اس کی غلطی کی نشاندہی ہو جاتی -امیر المومنین حضرت علیؓ کے مقابلے میں خوارج کی غلطی کچھ اس قسم کی تھی ،ان کے سامنے جو کچھ آیا اسے پسند کر لیا اور پھر کسی عالم کی طرف رجوع نہیں کیا اور جب حضرت عبد الله بن عبّاسؓ سے گفتگو ہوئی اور ان کی خطا واضح ہو گئی تو ان میں سے دو ہزار نے اپنے مذہب سے رجوع کر لیا اور ابن ملجم رجوع نہ کرنے والوں میں سے تھاجو اپنے مذہب کو حق سمجھتا رہا اور امیر المومنین حضرت علیؓ کے قتل کو جائز بلکہ دین سمجھتا تھا چنانچہ اس کے اعضاء کاٹے گئے تو کسی عضو کے کٹنے پر اس نے رکاوٹ نہیں کی مگر زبان کاٹنے لگے تو روکتے ہوئے کہنے لگا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر میں ایک ساعت بھی نہیں گزار سکتا ( حضرت علیؓ کو شہید کرنے کے باوجود )اور ایسی بیماری کا کوئی علاج نہیں -

یہی حال حجاج بن یوسف کا تھا جو کہا کرتا تھا بخدا مرنے کے بعد میں خیر ہی کی توقع رکھتا ہوں اور اس کے باوجود کتنے ناحق قتل اس نے کیے جن میں حضرت سعید بن جبیر بھی ہیں اور اس کی جیل میں ٣٣ ہزار قیدی پائے گئے جن پر شریعت کی کوئی سزا بھی ثابت نہ ہوئی تھی اور میرے خیال سے اکثر سلاطین قتل اور قطع وغیرہ کی سزائیں اپنے طور پر جائز سمجھ کر لگاتے رہتے ہیں اگر علماء سے پوچھ لیں تو جائز ناجائز ہونا واضح ہو جائے اور عوام الناس معافی پر اعتماد کر کے گناہوں کا حوصلہ کرتے رہتے ہیں اور عذاب کو بھلا بیٹھتے ہیں اور بعض اپنے اہل السنت ہونے پرہی اکتفا کر لیتے ہیں یا بعض اپنی نیکیوں کے نافع ہونے پر بھروسہ کر لیتے ہیں اور یہ سب کچھ شدتِ جہل کا ثمر ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ دلیل کو سمجھنے کی کوشش کرے محض دلیل کے خیال پر مطمئن نہ ہو بیٹھے اور نہ ہی اپنے علم پر اعتماد کلی کرے -ہم الله تعالیٰ سے جملہ آفات سے تحفّظ کی دعا کرتے ہیں -
 

سید عمران

محفلین
مصیبت کے دنوں میں بھی حالات کی الٹ پلٹ جب اسے ناگوار نہ ہو تو یہ بہادری ہے اور یہی پیمانہ و معیار ہے
یہاں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے...
صبر و برداشت کرنا الگ ہے اور ناگوار نہ گزرنا الگ...
اللہ تعالی نے انسان کی فطرت بنائی ہے کہ آسائشوں میں خوش ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے جبکہ مصائب طبیعت پر ناگوار گزرتے ہیں اس لیے ان پر روتا اور آہ فغاں کرتا ہے اپنے رب سے اپنے دکھڑے بیان کرتا ہے جیسے حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کے غم میں رو رو کر آنکھیں سفید کرلی تھیں کما قال اللہ
انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ
اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آدمی سرد راتوں میں ناگواری کے باوجود وضو کرتا ہے...
تو طبائع انسانی جو خدا نے بنائے ہیں وہ انسان سے ان کے خلاف چاہتا بھی نہیں ہے!!!
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
یہاں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے...
صبر و برداشت کرنا الگ ہے اور ناگوار نہ گزرنا الگ...
اللہ تعالی نے انسان کی فطرت بنائی ہے کہ آسائشوں میں خوش ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے جبکہ مصائب طبیعت پر ناگوار گزرتے ہیں اس لیے ان پر روتا اور آہ فغاں کرتا ہے اپنے رب سے اپنے دکھڑے بیان کرتا ہے جیسے حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کے غم میں رو رو کر آنکھیں سفید کرلی تھیں کما قال اللہ
انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ
اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آدمی سرد راتوں میں ناگواری کے باوجود وضو کرتا ہے...
تو طبائع انسانی جو خدا نے بنائے ہیں وہ انسان سے ان کے خلاف چاہتا بھی نہیں ہے!!!
جزاک الله خیر -عمران بھائی یہ تحریر ترجمہ ہے عربی عبارت کا اس لیے ترجمے میں بھی جا بجا اغلاط ہیں جنھیں کہیں کہیں تو میں ہی درست کر لیتا ہوں -آگے تفصیل میں انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ کونسی ناگواری مراد ہے -
جس پر نعمتیں مسلسل اتر رہی ہیں وہ خوش ہے تو نعمتوں کے اس تسلسل کی وجہ سے اور جوں ہی مصیبت کا ذرا جھونکا آیا تو اس کی ثابت قدمی دور نکل جاتی ہے

یں نے بعض ایسے لوگوں کو سنا جن کے بارے میں میرا گمان بہت ہی اچھا تھا کہ وہ موت کے ایّام میں کہہ رہے تھے "کیا میرا رب یہ ہے جو مجھ پر ظلم کر رہا ہے" بس اس وقت سے مجھ پر ایک اضطراب کی کیفیّت ہے

آپ کوایسی تھوڑی سی زحمت یہاں اٹھانی چاہیے تھی جہاں آپ نری داد دے کر چلے آئے-
آپ نے مسنی الضر کہا ہے تو سہی
یہ بھی یا حضرت ایوب گلا ہے تو سہی

ظاہر ہے چچا غالب کا کلام ہے تو ہر شعر ہی لاجواب ہے...
اس پہ مستزاد میں میں کا استعمال بھی کیا خوب کیا ہے!!!
آپ کو یہاں یہ کہنا چاہیے تھا کہ الله تعالیٰ کے آگے آہ و زاری صبر کے منافی نہیں ہاں بندوں کے آگے ہے لہذٰا ایوب علیہ السلام نے صبر کے منافی کچھ نہیں کیا، غالب نے بالکل بے جا بات کی ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
خود سے عبرت حاصل کرو

تعجّب ہے اس شخص پر جو کہتا ہے میں قبرستان میں جاتا ہوں اور بوسیدہ ہو جانے والوں کے ذریعے عبرت پکڑتا ہوں اور اگر وہ سمجھ رکھتا تو جان لیتا کہ وہ خود مقبرہ ہے جس سے عبرت پکڑنے کے بعد اوروں سے عبرت پکڑنے کی اسے حاجت نہ رہتی خصوصا اس شخص کو جو عمر میں آگے جا چکا ہے کہ اس کی شہوت ضعیف ہو چکی ہے ،اس کی قوت کمزور پڑ گئی ہے اور حواس تھک چکے ہیں ،نشاط میں فتور آچکا ہے اور بال سفید ہو گئے ہیں ،اسے چاہیے کہ اپنی ان مفقود چیزوں سے عبرت پکڑے اور مفقود ہو جانے والے لوگوں کا تذکرہ چھوڑے کہ خود اس کے اپنے ایسے احوال ہیں جو دوسروں کی طرف التفات کی بجائے کافی ہیں -
 
Top