مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا

یاسر شاہ

محفلین
غزل

مرے آس پاس تھے آپ بھی میں جہاں جہاں سے گزر گیا
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی میں کہاں کہاں سے گزر گیا


کبھی واپسی میں جو دیر ہو مرے اہلِ خانہ کی خیر ہو
میں تری طلب ترے شوق میں درِ آشیاں سے گزر گیا


ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر
بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا


کبھی ہو سکی نہ مجاوری مجھ سے کسی بھی مزار کی
مری آستین پکڑ کے ذوق ہر اک آستاں سے گزر گیا


وہ نظامِ کفر کی تھی جو دھاک نہ تھی بیشتر از مشتِ خاک
کوئی دھول آنکھوں میں جھونک کر صفِ دشمناں سے گزر گیا


وہ جو شاہِ خانہ خراب تھا نہ تھا کام کا پہ بقولِ فیض
جو رکا تو کوہِ گراں تھا اک جو چلا تو جاں سے گزر گیا​
 

سیما علی

لائبریرین
ابھی دل ہیں زخم سے بے خبر ذرا گفتگو کریں سوچ کر
بات اک زباں سے ادا ہوئی تیر اک کماں سے گزر گیا
بہت عمدہ ۔جیتے رہیے ۔
اتنی خوبصورت اور گہری بات ۔۔ سلامتی ہو آپ پر اور آپ کہ اہلِ خانہ پہ ۔۔
سلیقہ بات کرنے کا ہی انسان کو معتبر کرتا ہے ۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاسر شاہ ، اچھی کاوش ہے ۔ زمین اچھی منتخب کی ۔لیکن اشعار آپ کے عمومی معیار تک نہیں پہنچ سکے۔
۔ ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی ٹھیک نہیں ہے ۔ گرامر کی رو سے تو: اب سوچتا ہوں کبھی کبھی ہونا چاہئے ۔
۔ در آشیاں غریب لگا۔ آشیانے کا در تو شاید نہیں ہوتا۔ کم از میری نظر سے یہ ترکیب کبھی نہیں گزری ۔ یہ میرے مطالعے کی کوتاہی ہوسکتی ہے ۔
۔ تیسرےشعر کا مصرع ثانی بحر سے خارج ہوگیا ہے ۔ اس بحر میں صرف ایک متفاعلن کو تسکین اوسط کے ذریعے مستفعلن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک سے زیادہ اراکین بدلنے سے بحر بدل جاتی ہے ۔ اب آپ کے مصرع کی بحر مستفعلن متفاعلن مستفعلن متفاعلن بن گئی ۔

۔ مقطع میں گڑبڑ یہ ہے کہ آپ نے بقول فیض کہنے کے بعد فیض کا مصرع جوں کا توں رکھنے کے بجائے اس میں تصرف کرلیا ۔ بقول فیض کہنے کے بعد تو کسی تصرف کی گنجائش نہیں ۔

یاسر، امید ہے آپ میری ناقص رائے کو مثبت انداز میں لیں گے ۔ کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔:)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاسر شاہ ، ایک اور بات جو لکھنے سے رہ گئی وہ اس غزل کی بحر کے بارے میں ہے ۔ بحرِ کامل یوں تو مثمن سالم میں مستعمل ہے لیکن اس کا مسدس سالم وزن بھی ملتا ہے ۔ البتہ آپ نے اس غزل میں مربع مضاعف وزن استعمال کیا ہے جو میری نظر سے کبھی نہیں گزرا ۔ عروض کی جو چھ سات کتب میرے پاس موجود ہیں ان میں بھی اس وزن کی مثال تو درکنار کوئی تذکرہ بھی نہیں ملا۔ اس پر کچھ روشنی ڈالیے گا ۔ اگر اس مربع مضاعف وزن کی کوئی مثال بھی عطا ہوجائے تو بہت مشکور رہوں گا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی آپ کی یہ اچھی بات ہے جو شاید امریکہ میں رہ کے آئی ہے کہ دل کی بات کہہ دیتے ہیں ورنہ ہم غلام ذہنیت کے لوگ تائیدیں ہی کرتے پائے جاتے ہیں۔جزاک اللہ خیر ۔

پہلی بات تو بحر کے متعلق یہ کہ یہ بحر کامل ہے جس میں متفاعلن کی تکرار ہے یعنی

متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

میزان سخن میں صفحہ 99 پہ اس کے متعلق درج ہے کہ اس بحر میں اگر کسی جگہ متفاعلن سالم کی جگہ مستفعلن مضمر آجائے تو جائز ہے۔عربی میں تو اس کی مثال مشہور شیخ سعدی کا نعتیہ کلام ہے

بلغ العلیٰ بکمالہٖ، کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ، صلو علیہ وآلہٖ

بلغ العلیٰ بکمالہٖ۔متفاعلن متفاعلن
کشف الدجیٰ بجمالہٖ۔متفاعلن متفاعلن
حسنت جمیع خصالہٖ۔متفاعلن متفاعلن
صلو علیہ وآلہٖ۔مستفعلن متفاعلن

میزان سخن میں اس گنجائش کے تحت ایک اردو شعر بھی پیش ہے:

نہ ہوئی کبھی مجھ سے خطا نہ ہواکرو مجھ پر خفا
نہ دیا کرو تم گالیاں نہ کیا کرو مجھ پر جفا
 

محمد وارث

لائبریرین
دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت لیکن یہاں بحث دیکھ کر رہ نہیں سکا۔ :)

اول، یہ کہ بحر کامل مثمن سالم یعنی متفاعلن چار بار ایک معروف بحر ہے اور فارسی اردو میں عام استعمال ہوتی ہے۔ اس میں سب سے مشہور اردو کلام سراج اورنگ آبادی کی شہرہ آفاق غزل "خبرِ تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی"، مومن کی "وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو" اور علامہ اقبال کی " کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں" ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار کلام مل جائے گا بلکہ یہ بحر تو بالی وڈ کے گانوں میں بھی استعمال ہوئی ہے، کسی فلم میں ساحر لدھیانوی کی ایک مشہور قوالی ہے"نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے"۔

شاہ صاحب کی زمین میں عرش ملسیانی کی بھی ایک مشہور غزل ہے:

کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
ترے آستاں کی تلاش میں ہر آستاں سے گزر گیا

دوم، یہ کہ اس بحر میں چاروں میں سے کسی بھی متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف کی مدد سے مستفعلن سے بدلا جا سکتا ہے جیسا کہ شاہ صاحب نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا ایک مشہور شعر لکھا بھی۔دیگر مثالیں بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔

سوم، یہ کہ یہ ایک مقطع بحر نہیں ہے یعنی اس کے درمیان میں متفاعلن کو متفاعلان نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ شاہ صاحب نے پانچویں شعر کے پہلے مصرعے میں "دھاک" استعمال کر کے کیا ہے۔

والسلام
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ کہ اس بحر میں چاروں میں سے کسی بھی متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف کی مدد سے مستفعلن سے بدلا جا سکتا ہے جیسا کہ شاہ صاحب نے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا ایک مشہور شعر لکھا بھی۔دیگر مثالیں بھی تلاش کرنے پر مل جائیں گی۔

سوم، یہ کہ یہ ایک مقطع بحر نہیں ہے یعنی اس کے درمیان میں متفاعلن کو متفاعلان نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ شاہ صاحب نے پانچویں شعر کے پہلے مصرعے میں "دھاک" استعمال کر کے کیا ہے۔
جنابِ عالی ، وضاحت کا بہت شکریہ!
نہ صرف دھاک والے مصرع میں دوسرے رکن پر اذالہ استعمال کیا گیا ہے بلکہ چوتھے شعر کے مصرعِ ثانی میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ (مری آستین پکڑ کے ذوق ہر اک آستاں سے گزر گیا)۔
جیسا کہ آپ نے کہا کامل مثمن سالم چونکہ مقطع بحر نہیں ہے اس لیے ایسا نہیں کیا جاسکتا ۔ صرف مصرع کے آخر ی رکن میں ایک ساکن اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔
دوسرے رکن کے آخر میں اذالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مربع مضاعف وزن استعمال کیا گیا ہو ۔ لیکن اس وزن کا ذکر اور مثال مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

یاسر شاہ

محفلین
سوم، یہ کہ یہ ایک مقطع بحر نہیں ہے یعنی اس کے درمیان میں متفاعلن کو متفاعلان نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ شاہ صاحب نے پانچویں شعر کے پہلے مصرعے میں "دھاک" استعمال کر کے کیا ہے۔

والسلام
جزاک اللہ خیر وارث بھائی یہ واقعی مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ مقطع بحر نہیں ،میں اسے مقطع سمجھتا رہا ہوں کہ ترنم کے وقت وسط مصرع میں سانس ٹوٹ جاتا ہے۔

مصرعے بدل دیے ہیں ایک نظر ڈال لیجیے:


وہ جو کفر کی بڑی دھاک تھی نہ تھی کچھ ذرا سی وہ خاک تھی

اور دوسرے بے وزن مصرع کو بھی سوچتا ہوں-کچھ اور نہیں سوجھا تو "ہر اک" سے اک ہٹا دوں گا-آپ تشریف لاتے رہا کریں کسی نے آپ ایسو ں کے لیے ہی کہا ہے:
ہمیں ہی جرات اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ابھی سوچتا ہوں کبھی کبھی ٹھیک نہیں ہے ۔ گرامر کی رو سے تو: اب سوچتا ہوں کبھی کبھی ہونا چاہئے ۔

۔ در آشیاں غریب لگا۔ آشیانے کا در تو شاید نہیں ہوتا۔ کم از میری نظر سے یہ ترکیب کبھی نہیں گزری ۔ یہ میرے مطالعے کی کوتاہی ہوسکتی ہے ۔
ظہیر بھائی ماننا پڑے گا ان دونوں باتوں میں آپ کی وزن ہے۔جزاک اللہ خیر
مطلع میں «ابھی» کی جگہ «یہی»،کیسا لگے گا اور« در آشیاں» کی جگہ «حد آشیاں» یعنی دال بلاتشدید کیسا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین عطا کرے ۔آمین۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس میں ٹائپو رہ گیا شاید ۔یعنی میں دو دفعہ ہو گا۔
میں نے ریختہ سے کاپی کیا تھا، وہاں ایک بار ہی ہے۔ ویسے ایک بار" میں" رکھنے سے بھی بحر کے وزن پر فرق نہیں پڑتا، بس متفاعلن مستفعلن بن جائے گا، یہ بحر ہی کچھ ایسی ہے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں نے ریختہ سے کاپی کیا تھا، وہاں ایک بار ہی ہے۔ ویسے ایک بار" میں" رکھنے سے بھی بحر کے وزن پر فرق نہیں پڑتا، بس متفاعلن مستفعلن بن جائے گا، یہ بحر ہی کچھ ایسی ہے۔ :)
یہاں محفل میں اپنے محفلی ساتھی فاتح کے ایک دھاگے مین محفلی فرحان صاحب نے کسی کتاب کا تصویری عکس لگا یا ہے اس میں بھی میں دو دفعہ نظر آیا، جس کا اقتباس محمد عبد الرؤوف صاحب نے دیا ۔ خیر بات واضح ہو گئی ۔ واللہ اعلم ۔

Screenshot-36.png
 
Top