نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں ۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید...
  2. وہاب اعجاز خان

    لفظ افغان اور افغان کی حقیقت

    اہل ایران انہیں افغان کہتے ہیں وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب بخت نصر نے ان لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو یہ لوگ اس ظلم کے خلاف آہ فغاں کرتے تھے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شاہ دول کے پوتے کا نام افغان تھا یہی افغانوں کا مورث اعلیٰ ہے۔ ہندوستان والے انہیں پٹھان کہتے ہیں قندہار اور قزن کے باشندے خود...
  3. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل زندگی کس ڈگر پہ چلتی ہے نت نئے راستے بدلتی ہے تشنگی بجھ رہی ہے کھیتوں کی برف کہسار پر پگھلتی ہے میرا چہرہ جھلس گیا کیسے! آگ تو میرے دل میں جلتی ہے دھیرے دھیرے اُبھر رہا ہے چاند روشنی پاوں پاوں چلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد
  4. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل پاس جو کچھ تھا وار آیا ہوں بوجھ سر سے اتار آیا ہوں چھا گیا ہوں تمام رستوں پر مثلِ موجِ غبار آیا ہوں پھر اٹھائے ہیں خلق نے پتھر پھر سرِ رہگزار آیا ہوں کب رہائی ملے گی بارِ خدا کتنی صدیاں گزار آیا ہوں گھر، گھروندے دکھائی دیتے ہیں میں سرِ کوہسار آیا ہوں کوئی آیا نہ...
  5. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    قطعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں‌نہیں کہ وہ گم گشتہ قافلہ نہ ملا پلٹنا چاہا تو پھر گھر کا راستہ نہ ملا پھر اُس کے بعد سردشت ایسی خاک اڑی میں دور دور گیا تیرا نقشِ پا نہ ملا وفا کے شہر سے گزری ہوں آندھیان جیسے کسی منڈیر پہ جلتا ہوا دیا نہ ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  6. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملازمت مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میرا ذہن میرا وقت اور میری توانائی حصولِ رزق کی خاطر بہت ہی چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر صرف ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  7. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل آنکھ میں رنگ بھریں ، روح کو تازہ کرلیں شہر سے دور کسی بن میں بسیرا کر لیں ایسا کھلتا ہوں موسم ہے کہ جی چاہتا ہے ہم بھی کلیوں کی طرح بند قبا وا کرلیں بادلوں سے کوئی کہدے کہ گھڑی بھر کے لیے دھوپ میں جلتے ہوئے دشت پہ سایہ کرلیں دور سے اپنی زمیں کیسے نظر آتی ہے آو کہسار سے...
  8. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل اس ایک ذات سے اپنا عجیب ناتا ہے میں جب بھٹکتا ہوں وہ راستہ دکھاتا ہے سوادِ شب میں بھی روشن ہے راستہ میرا وہ چاند بن کے مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے یہ سوز و ساز ، یہ تابندگی، یہ ہالہء جاں کوئی چراغ کی صورت مجھے جلاتا ہے میں کھو بھی جاوں اگر زندگی کے میلے میں وہ مہربان مجھے پھر...
  9. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    ایک نوجوان محنت کش کا نغمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان محنت کش کا نغمہ دن بھر کی محنت سے تھک کر شام کوجب گھر جاتا ہوں افسردہ دہلیز کو اپنا رستہ تکتا پاتا ہوں اپنی تھکن کی میلی چادر آنگن کی رسی پہ ڈال کے پھر باہر آجاتا ہوں رات گئے تک بازاروں میں اپنا جی بہلاتا ہوں چمپا کے ہاروں سے...
  10. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل وہ خواب ٹوٹے ہوئے کتنے ماہ و سال ہوئے جو عمر بھر کےلیے باعث ملال ہوئے ہوائے شام دریچوں سے یوں گزر آئی کہ سارے ٹوٹے ہوئے سلسلے بحال ہوئے تمام عمر جنہیں مجھ سے اختلاف رہا تمہارے باب میں وہ میرے ہم خیال ہوئے اکیلے ہم ہی نہیں ہیں شکستہ پا جاناں! رہِ وفا میں کئی لوگ پائمال...
  11. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل شب کی تلخی شبِ غم سے پوچھو ہم پہ جو گزری وہ ہم سے پوچھو منزلیں گردِ سفر میں ڈھونڈو راستہ نقشِ قدم سے پوچھو کتنی جاں سوز ہے فن کی تخلیق صاحبِ لوح و قلم سے پوچھو ہم نے دامن جو نہیں پھیلایا اپنے ہی دستِ کرم سے پوچھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  12. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل رات بیٹھا تھا مرے پاس خیالوں میں کوئی انگلیاں پھیر رہا تھا مرے بالوں میں کوئی دیدہء تر نے بڑی دیر میں پہچانا اُسے روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں‌کوئی غمزدہ شب کی گلو گیر ہوا کہتی ہے یاد کرتا ہے مجھے جاگنے والوں میں‌کوئی میں‌ شبِ شہر میں‌تھا اور ادھر گاوں‌میں جلتی...
  13. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔پیاسے کو شبنم پھر اک بار میں تیرے شہر میں‌آیا ہوں لیکن اب کے تجھ سے ملنا جان سے جانا لگتا ہے! پچھلے برس کا وہ منظر اب تک میری آنکھوں ہے جب تو مجھ کو رخصت کرنے دروازے تک آئی تھی اور تری بھیگی آنکھوں میں میرا چہرہ لرز رہا تھا ہجر کے اس بے انت...
  14. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    نظم ۔۔۔۔۔۔۔ نیلا رنگ اک دن باتوں ہی باتوں میں اس نے پوچھا کونسا رنگ تمہیں بھاتا ہے؟ میں نے نیلا رنگ بتا کر؟ اُس سے پوچھا تم ایسا کیوں پوچھ رہی ہو؟ وہ شرمائی اور کہا بس ایسے ہی لیکن کچھ دن بعد وہ میرے گھر آئی تو میں نے دیکھا وہ سرتاپا نیلے رنگ میں رنگی ہوئی تھی...
  15. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت آنکھوں کے لیے ایک نظم تری آنکھیں بہت گہری بہت ہی خوبصورت ہیں اجازت ہو تو میں کچھ دیر ان میں جھانک کر دیکھوں کہ مجھ کو چاند کی مانند جھیلوں میں اترنا لطف دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  16. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل سکوتِ شب سے تکلم کی ابتدا تو کرو حدیثِ دل تو کہو، ذکرِ آشنا تو کرو زمانے والا کبھی اہل دل سے جیتے ہیں! شکست ان کا مقدر ہے تم دعا تو کرو تمہیں میں عکس تمہارا دکھا نہ دوں تو کہو تم آئینے کی طرح میرا سامنا تو کرو بجا ہے ترکِ تعلق مگر کبھی نہ کبھی کسی بہانے سرِ رہگزار ملا تو...
  17. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل جو گم ہوئے وہ زمانے تلاش کرتا ہوں میں واپسی کے بہانے تلاش کرتا ہوں جسے اجاڑ سمجھ کر کسی نے چھوڑ دیا میں اُس کھنڈر میں خزانے تلاش کرتاہوں سدا کریدتا رہتا ہوں اپنی ذات کا ڈھیر میں‌ خود میں‌کس کو نجانے تلاش کرتا ہوں میں اپنے کھوئے ہوئے روپ کے تعاقب میں گئی رتوں کے ٹھکانے...
  18. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    غزل غزل تجھے باہوں میں بھرنا چاہتا ہوں پھر اس کے بعد مرنا چاہتا ہوں صدف پھر موتیوں سے بھر گئے ہیں تہہِ دریا اترنا چاہتا ہوں میں ہم آغوش ہو کر چاندنی سے تجھے محسوس کرنا چاہتا ہوں جہاں سے لوگ واپس آگئے ہیں میں‌اُس حد سے گزرنا چاہتا ہوں ذرا بھیگی ہوائیں‌ بھیج دینا کہ میں پھر سے...
  19. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    گیت دیارِ سبزہ و گل دیارِ سبزہ و گل! میری چاہتوں کے نگر ترے جمال نے بخشا ہے مجھ کو حسنِ نظر صبا سے رقص کناں تیرے سبز ٹیلوں میں فلک سے چاند اُترتا ہے تیری جھیلوں پر دھنک کے رنگ میں ڈوبے ہیں تیرے شام سحر دیار سبزہ و گل! میری چاہتوں کے نگر یہ تیری دھوپ کی زرتار روشنی ، یہ فضا گلوں کی...
  20. وہاب اعجاز خان

    دیے کی آنکھ - مقبول عامر

    دھنک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھنک فضا تیز بارش کے بعد آئینے کی طرح جھلملانے لگی ہے! ہوائیں‌معطر ہیں اور نور کی ایک چادر افق تا افق تن گئی ہے دریچوں کو وا کرکے باہر تو جھانکو دلوں میں‌ بسی آرزو رنگ بن کر دھلے آسماں پر دھنک بن گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Top