نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں...
  2. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا نئے پیالےسہی تیرے دور میں ساقی یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں‌کے چراغ زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا...
  3. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر ستارہء شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ ء جاں مرے تو...
  4. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں کہ انتخابِ سخن ہے یہ انتخابوں میں مری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ کہ آسمان مقید ہیں ان حبابوں میں ہر آن دل سے الجھتے ہیں دو جہان کے غم گھرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں ذرا سنو تو سہی کان دھر کے نالہء دل یہ داستاں نہ ملے گی تمہیں...
  5. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو تھوڑی سی خاکِ کوچہء دلبر ہی چلیں یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے...
  6. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر...
  7. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دیس سبز جھلیوں کا یہ سفر ہے میلوں کا راہ میں جزیروں کی سلسلہ ہے ٹیلوں کا کشتیوں کی لاشوں پر جمگھٹا ہے چیلوں کا رنگ اڑتا جاتا ہے شہر کی فصیلوں کا دیکھ کر چلو ناصر دشت ہے یہ فیلوں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  8. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل غم ہے یا خوشی ہے تو میری زندگی ہے تو آفتوں کے دور میں چین کی گھڑی ہے تو میری رات کا چراغ میری نیند بھی ہے تو میں خزاں کی شام ہوں رُت بہار کی ہے تو دوستوں کے درمیاں وجہِ دوستی ہے تو میری ساری عمر میں ایک ہی کمی ہے تو میں تو وہ نہیں رہا ہاں مگر وہی ہے تو ناصر اس...
  9. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمو کوئی اور ہے جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے...
  10. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل جنت ماہی گیروں کی ٹھنڈی رات جزیروں کی سبز سنہرے کھیتوں پر پھواریں سرخ لکیروں کی اس بستی سے آتی ہیں آوازیں زنجیروں کی کڑوے خواب غریبوں کے میٹھی نیند امیروں کی رات گئے تیری یادیں جیسے بارش تیروں کی مجھ سے باتیں کرتی ہیں خاموشی تصویروں کی ان ویرانوں میں ناصر کان دبی...
  11. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے کہتا، سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے اے منصفو حقائق و حالات سے الگ کچھ بحث خاص و عام نہیں آپ سے مجھے یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیئے یہاں مگر امیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے فرصت ہے اور شام...
  12. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے چلے تھے اور کسی راستے کی دھن میں مگر ہم اتفاق سے تیری گلی میں‌ آ نکلے غمِ فراق میں‌کچھ دیر رو ہی لینے دو بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے نصحیتیں ہمیں‌کرتے ہیں ترکِ الفت کے یہ خیر خواہ ہمارے کدھر سے آنکلے یہ...
  13. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل چند گھرانوں نے مل جل کر کتنے گھروں کا حق چھینا ہے باہر کی مٹی کے بدلے گھر کا سونا بیچ دیا ہے سب کا بوجھ اٹھانے والے تو اس دنیا میں تنہا ہے میلی چادر اڑھنے والے تیرے پاوں تلے سونا ہے گہری نیند میں جاگو ناصر وہ دیکھو سورج نکلا ہے
  14. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی فکر یہ تھی شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا...
  15. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے اگلے وقتوں کی یادگاروں کو آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے سوکھتے جارہے ہیں گل بوٹے باغ کانٹے اگائے جاتا ہے جاتے موسم کو کس طرح روکوں پتہ پتہ اڑائے جاتا ہے حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی اپنی اپنی سنائےجاتا ہے کیا خبر کون سی...
  16. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے گزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائگاں کی طرح وہ چند روز مری زندگی...
  17. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی اب سجے گی انجمن بسنت آگئی اُڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ جگمگا اٹھا گگن بسنت آگئی موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ دیکھنا چمن چمن بسنت آگئی سبز کھیتوں پہ پھر نکھار آگیا لے کے زرد پیرہن بسنت آگئی بچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے لے کے پھر نئی...
  18. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برف گرتی رہے آگ جلتی رہے آگ جلتی رہے رات ڈھلتی رہے رات بھر ہم یونہی رقص کرتے رہیں نیند تنہا کھڑی ہاتھ ملتی رہے برف کے ہاتھ پیانو بجاتے رہیں جام چلتے رہیں مے اچھلتی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  19. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے وہ شکل ہی نہ رہی جو دیے جلاتی تھی وہ تو دن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل خوشا وہ دن کہ ہمیں روز موت آتی تھی ذرا سی بات سہی تیرا یاد آجانا ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی اداس...
  20. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل سو گئی شہر کی ہر ایک گلی اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی کون ہے تو کہاں سے آیا ہے کہیں‌ دیکھا ہ تجھ کو پہلے بھی تو بتا کیا تجھے ثواب ملا خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال سامنے ہے ترے کتاب کھلی...
Top