نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں ترے بغیر وہ دن بھی گزر گئے آخر ترے بغیر یہ دن بھی گزرتے جاتے ہیں لیے چلو مجھے دریائےشوق کی موجو کہ ہمسفر تو مرے پار اترتے جاتے ہیں تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری اب اس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں...
  2. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے آج تو جسیے ساری دنیا ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے تو ہے اور بے خواب دریچے میں اور سنسان گلی ہے خیر تجھے تو جانا ہی تھا جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے اب تو آنکھ لگا لے ناصر دیکھ تو کتنی رات گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  3. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل جلوہ ساماں ہے رنگ و بو ہم سے اس چمن کی ہے آبرو ہم سے درس لیتے ہیں خوش خرامی کا موجِ دریا و آبِ جو ہم سے ہر سحر بارگاہِ شبنم میں پھول ملتے ہیں باوضو ہم سے ہم سے روشن ہے کارگاہِ سخن نفسِ گل ہے مشکبو ہم سے شب کی تنہائیوں میں پچھلے پہر چاند کرتا ہے گفتگو ہم سے شہر میں اب...
  4. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کسی کا درد ہو دل بے قرار اپنا ہے ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے ہو کوئی فصل مگر زخم کھل ہی جاتے ہیں سدا بہار دلِ داغدار اپنا ہے بلا سے ہم نہ پیئیں میکدہ تو گرم ہوا بقدرِ تشنگی رنجِ خمار اپنا ہے جو شاد پھرتے تھے کل آج چھپ کے روتے ہیں ہزار شکر غمِ پائیدار اپنا ہے اسی لیے...
  5. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا جو پچھلی رات سے یاد آرہا ہے کسے ڈھونڈو گے ان گلیوں میں ناصر چلو اب گھر چلیں...
  6. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل یوں تیرے حسن کی تصویر غزل میں آئے جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے جبر سے ایک ہوا ذائقہء ہجر و وصال اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا وہ مقامات بھی کچھ سیرِ جبل میں آئے یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم حلقہء فکر سے میدانِ عمل میں آئے...
  7. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی صبحدم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل اس بیاباں میں نہ اب آئے گا دیوانہ کوئی ہمنشیں خاموش، دیواریں بھی سنتی ہیں یہاں رات ڈھل...
  8. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل تیری مجبوریاں درست مگر تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر تو جہاں چند روز ٹھہرا تھا یاد کرتا ہے تجھ کو آج وہ گھر ہم جہاں روز سیر کرتے تھے آج سنسان ہے وہ راہگزر تو جو ناگاہ سامنے آیا رکھ لیے میں ہاتھ آنکھوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  9. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل چراغ بن کے وہی جھلملائے شامِ فراق بچا لیے تھے جو آنسو برائے شامِ فراق کدھر چلے گئے وہ ہم نوائے شامِ فراق کھڑی ہے در پہ مرے سرجھکائے شامِ فراق پلک اٹھاتے ہی چنگاریاں برستی ہیں بچھی ہے آگ سے کیا زیرِ پائے شامِ فراق یہ رینگتی چلی آتی ہیں کیا لکیریں سی یہ ڈھونڈتی ہے کسے سائے سائے...
  10. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل ساری رات جگاتی ہے بیتے لمحوں کی جھانجھن لال کھجوروں نے پہنے زرد بگولوں کے کنگن چلتا دریا، ڈھلتی رات سن سن کرتی تیز پون ہونٹوں پر برسوں کی پیاس آنکھوں میں کوسوں کی تھکن پہلی بارش، میں اور تو زرد پہاڑوں کا دامن پیاسی جھیل اور دو چہرے دو چہرے اور اک درپن تیری یاد سے...
  11. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل ہم جس پیڑ کی چھاوں میں بیٹھا کرتے تھے اب اُس پیڑ کے پتے جھڑتے جاتے ہیں ایک انوکھی بستی دھیان میں رہتی ہے اُس بستی کے باسی مجھے بلاتے ہیں میں تو آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوں مگر دل کے دروازے کیوں کھلتے جاتے ہیں تو آنکھوں سے اوجھل ہوتا جاتا ہے دور کھڑے ہم خالی ہاتھ ہلاتے ہیں جب...
  12. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں ہر آدمی نہیں شائستہء رموزِ سخن وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں...
  13. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ تو نے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ ہاتھ زخمی ہیں تو پلکوں سے گلِ منظر اٹھا پھول تیرے ہیں نہ میرے باغ کس کا ہے نہ پوچھ رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ جوترا محرم ملا اس کو...
  14. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی دو دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں یارانِ زُود نشہ کا عالم یہ ہے کہ آج یہ رات ڈوب جائے گی جامِ شراب میں...
  15. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی کتنی مردم شناس ہے دنیا منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی کون اٹھاتا شبِ فراق کے ناز یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی بے...
  16. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل پھر نئی فصل کے عنواں چمکے ابر گر جا گلِ باراں چمکے آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے کیا بگڑ جائے گا اے صبحِ جمال آج اگر شامِ غریباں چمکے اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال کچھ تو شامِ شب ہجراں چمکے پھر کوئی دل کو دکھائے ناصر کاش یہ گھر کسی عنواں چمکے...
  17. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل جب تک لہو دیدہء انجم میں ٹپک لے اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے ذرے ہیں ہوس کے بھی زرنابِ وفا میں ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے گونگا ہے تو لب بستیوں سے آدابِ سخن سیکھ اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے...
  18. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل آج تو بے سبب اداس ہے جی عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں جانے کیا چیز کھو گئی میری وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے پھیلتی جارہی ہے رسوائی ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے چھوڑ یہ بات نیند اڑنے...
  19. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل تو اسیر برم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالہء نےَ نہیں ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں ترا ہر کمال ہے ظاہری تر ہر خیال ہے سرسری کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں جس سن کے روح مہک اٹھے جسے پی کے درد چہک اٹھے ترے ساز میں وہ صدانہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں...
  20. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دھوپ نکلی دن سہانےہو گئے چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے اس قدر رویا ہوں‌ تیری یاد میں آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس جیسے وہ تھے ہم بھی...
Top