نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو آو پھر یادِ عزیزاں ہی سے میخانہ ء جاں گرم کریں دیر کے بعد یہ محفل تو جمی ہم نفسو شکر کرو آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی دیر کے بعد کوئی ناو چلی ہم نفسو شکر کرو رات بھر شہر میں...
  2. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دل میں اور تو کیا رکھا ہے تیرا درد چھپا رکھا ہے اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں دل کا دیپ جلا رکھا ہے دھوپ سے چہروں نے دنیا میں کیااندھیر مچا رکھا ہے اس نگری کے کچھ لوگوں نے دکھ کا نام دوا رکھا ہے وعدہء یار کی بات نہ چھیڑو یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے بھول بھی جاو بیتی باتیں ان...
  3. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے جہاں تنہایاں سر پھوڑ کے سوجاتی ہیں ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے کردیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے کبھی اُس شخص کو ہم پیار کیا...
  4. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل رات ڈھل رہی ہے ناو چل رہی ہے برف کے نگر میں آگ جل رہی ہے لوگ سو رہے ہیں رت بدل رہی ہے آج تو یہ دھرتی خوں اگل رہی ہے خواہشوں کی ڈالی ہاتھ مل رہی ہے جاہلوں کی کھیتی پھول پھل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  5. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا جو گراں تھے سینہ چاک پر وہی بن کے...
  6. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل گا رہا تھا کوئی درختوں میں رات نیند آگئی درختوں میں چاند نکلا افق کے غاروں سے آگ سی لگ گئی درختوں میں مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے چھیڑ دی بانسری درختوں میں یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا کس نے آواز دی درختوں میں ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین دور آندھی چلی درختوں میں لیے...
  7. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل میں ہوں رات کا ایک بجا ہے خالی رستہ بول رہا ہے آج تو یوں خاموش ہے دنیا جیسے کچھ ہونے والا ہے کیسی اندھیری رات ہے دیکھو اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے آج تو شہر کی روش روش پر پتوں کا میلہ سا لگا ہے آو گھاس پہ سبھا جمائیں میخانہ تو بند پڑا ہے پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن تیری یاد...
  8. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں پھرتی ہیں تصور میں کھلے سر تری یادیں جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام برساتی اطراف...
  9. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کارواں‌سست رہبر خاموش کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش دیکھ اور دیکھ کے گزر خاموش یوں ترے راستے میں‌ بیٹھا ہوں جیسے ایک شمعِ رہگزر خاموش تو جہاں ایک بار آیا تھا ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش اس گلی کے گزرنے والوں کو تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش اٹھ گئے...
  10. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل درد کانٹا ہے اس کی چھبن پھول ہے درد کی خامشی کا سخن پھول ہے اڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا برگِ آوارہ جیسے پون پھو ل ہے اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے دشتِ غربت میں یادِ وطن پھو ل ہے تختہ ء ریگ پر کوئی دیکھے اسے سانپ کے زہر میں رس ہے پھن پھول ہے میری لے سے مہکتے ہیں کوہ...
  11. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اک جہاں ہے کبھی تیری آنکھوں کے تل میں جو دیکھا تھا میں نے وہی ایک پل محملِ شوق کا سارباں ہے کہیں تو مرے عشق سے بدگماں ہو نہ جائے کئی دن...
  12. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹادوں گا مجال کیا ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دوں گا تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دوں گا مری خموش نگاہوں کو چشم کم سے نہ دیکھ میں رو پڑا تو دلوں...
  13. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا جانے کیا اضطراب میں دیکھا گل کدوں کے طلسم بھول گئے وہ تماشا نقاب میں دیکھا آج ہم نے تمام حسنِ بہار ایک برگِ گلاب میں دیکھا سر کھلے، پابرہنہ، کھوٹے پر رات اُسے ماہتاب میں دیکھا فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ جیسے اک خواب، خواب میں دیکھا...
  14. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دل کے لیے دردبھی روز نیا چاہیئے زندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیئے میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے باغ ترا...
  15. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل تو ہے یا ترا سایا ہے بھیس خدائی نے بدلا ہے دل کی حویلی پر مدت سے خاموشی کا قفل پڑا ہے چیخ رہے ہیں خالی کمرے شام سے کتنی تیز ہوا ہے دروازے سر پھوڑ رہے ہیں کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے تنہائی کو کیسے چھوڑوں برسوں میں ایک یار ملا ہے رات اندھیری ناو ساتھی رستے میں دریا پڑتا...
  16. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل اس دنیا میں اپنا کیا ہے کہنے کو سب کچھ اپنا ہے یوں تو شبنم بھی دریا ہے یوں تو دریا بھی پیاسا ہے یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر یوں تو مٹی بھی سونا ہے منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب کس نے کس کو یاد کیا ہے تیرے ساتھ گئی وہ رونق اب اس شہر میں کیا رکھا ہے بات نہ کر صورت تو دکھادے...
  17. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے اک دبستانِ ہنر کھولیں گے وہیں رک جائیں گے تاروں کے قدم ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے بحر ایجاز خطرناک سہی ہم ہی اب اس کے بھنور کھولیں گے کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے آج کی رات نہ سونا یارو آج تو ساتواں در کھولیں گے...
  18. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل پیارے دیس کی پیاری مٹی سونے پرہے بھاری مٹی کیسے کیسے بوٹے نکلے لال ہوئی جب ساری مٹی دکھ کے آنسو سکھ کی یادیں کھاری پانی کھاری مٹی تیرے وعدے میرے دعوے ہوگئے باری باری مٹی گلیوں میں اڑتی پھرتی ہے تیرے ساتھ ہماری مٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  19. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل دل بھی عجیب عالم ہے نظر بھر کے تو دیکھو نقشے کبھی اس اجڑے ہوئے گھر کے دیکھو اے دیدہ درد دیدہء پرنم کی طرف بھی مشتاق ہو لعل و زر و گوہر کے تو دیکھو بے زادِ سفر جیب تہی شہر نوردی یوں میری طرح عمر کے دن بھر کے تو دیکھو کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر یہ قافیہ پیمائی ذرا کرکے...
  20. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    غزل کب تلک مدعا کہے کوئی نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی غیرت عشق کو قبول نہیں کہ تجھے بے وفا کہے کوئی منتِ ناخدا نہیں منظور چاہے اس کو خدا کہے کوئی ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف کس کو درد آشنا کہے کوئی کون اچھا ہے اس زمانے میں کیوں کسی کو برا کہے کوئی کوئی تو حق شناس ہو یارب...
Top