نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    میرے ندیم! خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے وہ جن کے نور سے شاداب تھےمہ و انجم جنونِ عشق کی ہمت جوان تھی جن سے وہ آرزوئیں کہاں سو گئیں ہیں میرے ندیم؟ وہ ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں وہ پاسِ ضبط سے دل میں دبی ہوئی آہیں وہ انتظار کی راتیں، طویل...
  2. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    ایک منظر بام و در خامشی کے بوجھ سے چور آسمانوں سے جوئے درد رواں چاند کا دکھ بھرا فسانہء نور شاہراہوں کی خاک میں غلطاں خواب گاہوں میں نیم تاریکی مضمحل لے رباب ہستی کی ہلکے ہلکے سروں میں نوحہ کناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  3. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    غزل چشمِ میگوں ذرا ادھر کر دے دستِ قدرت کو بے اثر کر دے تیز ہے آج دردِ دل ساقی تلخیء مے کو تیز تر کر دے جوشِ وحشت ہے تشنہ کامی ابھی چاکِ دامن کو تا جگر کر دے میری قسمت سے کھیلنے والے مجھ کوقسمت سے بے خبر کر دے لٹ رہی ہے مری متاعِ نیاز کاش وہ اس طرف نظر کر دے فیض تکمیلِ...
  4. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    ایک رہگزر پر وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پہناں وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پہناں ہزار فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں ہر اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں ادائے لغزشِ پا پر قیامتیں قرباں بیاضِ رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں سیاہ...
  5. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    غزل ہمتِ التجا نہیں باقی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی اک تری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی اپنی مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ میں نہیں یا وفا نہیں باقی تیری چشمِ الم نواز کی خیر دل میں کوئی گلا نہیں باقی ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال زندگی میں مزا نہیں باقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  6. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    آج کی رات آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے اور کل کی خبر کسے معلوم؟ دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟ زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات ایزدیت ہے ممکن آج کی رات آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو فکرِ فردا اتار...
  7. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    یاس بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل! بزمِ ہستی کے جام پھوٹ گئے چھن گیا کیفِ کوثر و تسنیم زحمتِ گریہء و بکا بے سود شکوہء بختِ نارسا بے سود ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول بند ہے مدتوں سے بابِ قبول بے نیازِ دعا ہے ربِ کریم بجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل یاد باقی...
  8. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    سرود موت اپنی، نہ عمل اپنا، نہ جینا اپنا کھو گیا شورشِ گیتی میں قرینہ اپنا ناخدا دور، ہوا تیز ، قریں کامِ نہنگ وقت ہے پھینک دے لہروں میں سفینہ اپنا عرصہء دہر کے ہنگامے تہِ خواب سہی گرم رکھ آتشِ پیکار سے سینہ اپنا ساقیا رنج نہ کر جاگ اُٹھے گی محفل اور کچھ دیر اٹھا رکھتے ہیں پینا اپنا بیش...
  9. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    تین منظر تصور شوخیاں مضطر نگاہِ دیدہء سرشار میں عشرتیں خوابیدہ رنگِ غازہء رخسار میں سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مئے گلنار میں سامنا چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنائیں کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے کچھ اشک جو...
  10. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    حسن اور موت جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں خزاں کے جورو ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے کئی دلوں کی امیدوں کا جو...
  11. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    تہِ نجوم تہِ نجوم ، کہیں چاندنی کے دامن میں ہجومِ شوق سے اک دل ہے بے قرار ابھی خمارِ خواب سے لبریز احمریں آنکھیں سفید رخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں چھلک رہی ہے جوانی ہر اک بنِ مو سے رواں ہو برگِ گلِ تر سے جیسے سیلِ شمیم ضیاء مہ میں دمکتا ہے رنگِ پیراہن ادائے عجز سے آنچل اُڑا رہی ہے نسیم...
  12. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    انتظار گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں ریاضِ زیست ہے آزردہء بہار ابھی مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری اداس آنکھوں تری دید کوترستی ہیں بہارِ حسن ، پہ پابندیء جفا کب تک؟ یہ آزمائشِ صبرِ گریز...
  13. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    قطعات وقفِ حرمان و یاس رہتا ہے دل ہے، اکثر اداس رہتا ہے تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ فضائے دل پہ اداسی بکھرتی جاتی ہے فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے فریبِ زیست سے قدرت کا مدعا معلوم یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  14. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    اشعار وہ عہدِ غم کی کاہشہائے بے حاصل کو کیا سمجھے جوان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے یہاں وابستگی، واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہے؟ نہ ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم اُن کی ادا سمجھے فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے تمہاری ہر نظر سے منسلک ہے...
  15. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    سرودِ شبانہ نیم شب، چاند خود فراموشی محفلِ ہست و بود ویراں ہے پیکرِ التجا ہے خاموشی بزم انجم فسردہ ساماں ہے آبشارِ سکوت جاری ہے چار سو بے خودی سی طاری ہے زندگی جزوِ خواب ہے گویا ساری دنیا سراب ہے گویا سورہی ہے گھنے درختوں پر! چاندنی کی تھکی ہوئی آواز کہکشاں نیم وا نگاہوں سے کہہ رہی...
  16. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    بعد از وقت دل کو احساس سے دوچار نہ کر دینا تھا سازِ خوابیدہ کو بیدار نہ کر دینا تھا اپنے معصوم تبسم کی فروانی کو وسعتِ دید پہ گلبار نہ کر دینا تھا شوقِ مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر واقفِ لذتِ تکرار نہ کر دینا تھا چشمِ مشتاق کی خاموش تمناوں کو یک بیک مائلِ گفتار نہ کر دینا تھا...
  17. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو ابھی تک دل میں تیرے عشق کی قندیل روشن ہے ترے جلووں سے بزمِ زندگی جنت بدامن ہے مری روح اب بھی تنہائی میں تجھ کو یاد کرتی ہے ہر اک تارِ نفس میں آرزو بیدار ہے اب بھی ہر اک بے رنگ ساعت منتظر ہے تیری آمد کی...
  18. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    حسینہ ء خیال سے! مجھے دے دے رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی، حسیں آنکھیں کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں! مری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاؤں ضیائے حسن سے ظلماتِ دنیا میں نہ پھر آؤں گزشتہ حسرتوں کے داغ میرے دل سے دھل جائیں میں آنے والے غم کی فکر...
  19. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    غزل ہر حقیقت مجاز ہو جائے کافروں کی نماز ہو جائے دل رہین نیاز ہو جائے بے کسی کارساز ہو جائے منتِ چارہ ساز کون کرے؟ درد جب جاں نواز ہو جائے عشق دل میں رہے تو رسوا ہو لب پہ آئے تو راز ہو جائے لطف کا انتظار کرتا ہوں جور تا حدِ ناز ہو جائے عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض کاش افشائے راز ہو جائے...
  20. وہاب اعجاز خان

    نقشِ فریادی ( فیض احمد فیض)

    آخری خط وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں چھن چائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی شاید مری الفت کو بہت یاد کرو گی اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی آؤ گی...
Top