نتائج تلاش

  1. شاہد شاہنواز

    نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک ۔۔۔ برائے تنقید

    نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک وہ آگ تھی زمیں سے آسمان تک کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا ملا نہیں مرا کوئی نشان تک ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے نہ ہوسکا مگر وہی بیان تک وہ کوہسار کیا جو بس جما رہے ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک وطن میں آگیا تو گھر نہیں ملا بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک عدو کا...
  2. شاہد شاہنواز

    سوال ہے : شاعری کے حوالے سے حدیث اور قرآ ن کیا کہتے ہیں؟

    شعر و شاعری اسلام میں جائز ہے اور بالکل اس کی اجازت ہے جیسا کہ میں نے پڑھا ہے ’’شعر بمثل کلام کے ہے‘‘ اگر کلام میں جھوٹ کی ممانعت ہے تو شعر میں بھی ہے۔ یہ کس حدیث کا مفہوم ہے؟ شعر و شاعری جائز ہے تو کیسے اور ناجائز ہے تو کیونکر؟ یہ حدیث کے حوالوں سے بتانے کی درخواست ہے۔۔۔ اگر قرآن کے بھی حوالہ...
  3. شاہد شاہنواز

    زمین لگتی نہیں آسماں نہیں لگتا۔۔ و دیگر بغرض تنقید

    اس بحر کی تقطیع نہیں کرسکتا۔۔۔ صرف اندازے پر لکھتاہوں، سو معذرت کے ساتھ پیش ہے: زمین لگتی نہیں آسماں نہیں لگتا ہمیں ہمارا جہاں، یہ جہاں نہیں لگتا یوں زیرِ سایہء اشجار دھوپ چبھتی ہے کہ سائباں بھی ہمیں سائباں نہیں لگتا وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے ، میں اس کو تکتا ہوں کوئی خیال مگر درمیاں نہیں لگتا...
  4. شاہد شاہنواز

    بدل پائے جسے تدبیر، وہ تقدیر ہی کیا ہے؟ اور تین قطعات برائے تنقید

    اس غزل کے قوافی کچھ عجیب سے ہیں۔ میں انہیں صوتی قافیہ سمجھتا رہا ہوں لیکن بقول مزمل شیخ بسمل یہ غلط ہے۔ سو یہ قافیے بھی درست ہیں یا غلط، تنقید کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے۔ بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟ ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے وہ میدان اپنی مرضی...
  5. شاہد شاہنواز

    وفا کرنے سے کترانے لگی ہے، برائے تنقید

    یہ غزل ایک رواں بحر میں ہے، معلوم نہیں یہ مفولن فاعلاتن فاعلاتن کے وزن پر ہے یا مفاعیلن مفاعیلن مفولن کے وزن پر ۔۔۔ مجھے یا دآرہا ہے ، اس کے افاعیل اور بھی ہوسکتے ہیں۔۔ تو اس کی تقطیع کیسے ممکن ہے؟بہرحال، وزن میں ہے یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، مجھے اس پر معنوی اعتبار سے بھی تنقید کی حاجت ہے۔۔۔ سو...
  6. شاہد شاہنواز

    نہیں بجھاتے، جلا رہے ہیں چراغ اپنے ۔۔۔۔ برائے تنقید

    یہ غزل نامکمل ہے، ابھی اس میں اضافہ بھی کرنا باقی ہے ، تاہم یہاں پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ جو اشعار فضول ، بے معنی یا ناقص ہوں، ان کو حذف کردیاجائے۔ نہیں بجھاتے، جلا رہے ہیں چراغ اپنے مثالِ گل ہم کھِلا رہے ہیں چراغ اپنے مہک چراغوں سے آرہی ہے گُلوں کی یا پھر ہمِیں گُلوں کو بتا رہے ہیں چراغ اپنے؟...
  7. شاہد شاہنواز

    سنگدل دونوں ہیں برابر کے۔۔۔ برائے تنقید

    یہ غزل تنقید اور وزن کے اعتبار سے یا معانی میں کوئی کمی بیشی ہو تو نشاندہی کے لیے پیش ہے۔۔۔ سنگ دل دونوں ہیں برابر کے تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے ’’دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘ دام کچھ اور بڑھ گئے سر کے اشک میرا ہے، اُن کی آنکھیں ہیں بوند بدلے میں ہے سمندر کے دیکھنے سے نشہ سا ہوتا ہے لائے...
  8. شاہد شاہنواز

    اس قدر زندگی بے ثمر تو نہیں ۔۔۔ برائے تنقید

    اس قدر زندگی بے ثمر تو نہیں زندگی گردِ راہِ سفر تو نہیں زندگی زہرِ آفات کا نام ہے زندگی زہرِ تیرِ نظر تو نہیں زندگی مثلِ بادِ صبا، مثلِ گُل زندگی مثلِ دردِ جگر تو نہیں بن کے انجان پھرتی ہے بے شک مگر زندگی موت سے بے خبر تو نہیں اس میں تکرارِ شام و سحر ہے مگر زندگی صرف شام و سحر تو نہیں...
  9. شاہد شاہنواز

    کچھ نہ کرنے کو ہم جہان میں تھے ۔۔۔ بروزن جون ایلیا: ہم کو سودا تھا، سر کے مان میں تھے

    اس غزل میں شعر اچھے بھی ہوسکتے ہیں، وزن سے گرے ہوئے بھی اور احمقانہ بھی، تو بہتر ہے کہ اس کے بارے میں آپ سے جان لیاجائے کیا درست ہے ، کیا غلط۔۔۔ کچھ نہ کرنے کو ہم جہان میں تھے جی جلانے کو آسمان میں تھے مل گئے داستان میں تم سے ہم مگر کب سے داستان میں تھے؟ بادشاہوں کے بیچ تھے یعنی ہم فقیروں کے...
  10. شاہد شاہنواز

    حسین ابن علی ّ کیا مقام ہے تیرا! ۔۔ ایک منقبت بغرض تنقید

    حسین ابنِ علیؑ کیا مقام ہے تیرا کہ ذکر سب کے لب پہ صبح و شام ہے تیرا یزید فخر کا کوئی مقام پا نہ سکا ہر ایک دل میں فقط احترام ہے تیرا مثال بن گئی قبرِ یزید عبرت کی ترا ہے نام، زمانہ غلام ہے تیرا کٹا کے سر کو یہ اعلان کردیا تُو نے کہ تیری کوئی بھی قیمت نہ دام ہے تیرا نظر ہے خاص تری اب...
  11. شاہد شاہنواز

    ’نہیں آتا نظر کوئی ‘ اور ’کبھی یہ سوال نہ پوچھنا ‘ برائے تبصرہ

    محرم کے حوالے سے یہ دو تخلیقات فیس بک پر شیئر کی تھیں لیکن کسی نے کوئی غلطی نہیں بتائی، سو یہاں بغرض تنقید پیش ہیں۔ اصلاح ہوسکے تو ضروری ہے لیکن غلطی کی نشاندہی تو ازحد ضروری ہے کہ یہ معاملہ ہی بے حد نازک ہے۔ کبھی یہ سوال نہ پوچھنا ، ہے کہاں ٹھکانہ حسین ّ کا کسی اہلِ دل کا جو گھر ملے، ہے وہی...
  12. شاہد شاہنواز

    کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح

    کٹ گئے ہاتھ مرے آج مرے پر کی طرح دےگیا مجھ کو دغا دل بھی مرے سر کی طرح کوئی صورت ہے محبت کی نہ اپنوں کی جھلک مجھ کو لگتا ہی نہیں میرا مکاں گھر کی طرح اس نے آندھی کی طرح مجھ پہ گرائے پتھر چپ رہا میں بھی مگر آج سمندر کی طرح یوں نہ تھا بن کے نصیب آج مرے ساتھ رہا اس نے دھوکا بھی دیا مجھ کو مقدر کی...
  13. شاہد شاہنواز

    دُوسرا کون ہے؟ ۔۔۔ میری ایک حمدیہ نظم، برائے اصلاح و تبصرہ

    دُوسرا کون ہے؟ زندگی ہی نہیں تھی، قضا بھی نہ تھی حُسن تھا ہی نہیں، پھر اَدا بھی نہ تھی جب نہیں تھی محبت، وفا بھی نہ تھی جب خلا بھی نہ تھا، جب فضا بھی نہ تھی جو یہاں پھر بھی تھا، اے خدا کون ہے؟ ایک تُو ہی تو ہے، دوسرا کون ہے؟ کس کے جلوے نمایاں ہیں افلاک میں؟ کون چھپ کر عیاں بھی ہے اِدراک میں؟ کس...
  14. شاہد شاہنواز

    یہ کون سی بحر ہے؟

    یہ کون سی بحر ہے؟ میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی۔۔۔ پروین شاکر۔۔۔ اور میری غزل بھی شاید اسی میں ہے۔۔۔ یا پتہ نہیں الگ الگ بحریں ہیں۔۔۔ جب کھلا تھا مرا کردار مری موت کے بعد یاد کرتے تھے مجھے یار مری موت کے بعد
  15. شاہد شاہنواز

    ساتھ یہ زمیں جائے۔۔۔۔ برائے اصلاح و تبصرہ

    ساتھ یہ زمیں جائے، ساتھ آسماں جائے میں جہاں جہاں جاؤں، تیری داستاں جائے تیرا نام لکھا ہو اور ترا نشاں جائے جس طرف یقیں ٹھہرے جس طرف گماں جائے موت ایک جھونکا ہے، لے کے صرف جاں جائے زیست ایک آندھی ہے، لے کے امتحاں جائے کوئی عشق کی بازی جیت کر بھی روتا ہے کوئی گرچہ ہارا ہو، پھر بھی شادماں...
  16. شاہد شاہنواز

    کچھ کیجے بگڑتا ہے۔۔۔ برائے اصلاح و تبصرہ

    یہ غزل ان دنوں لکھی تھی جب 2003ء میں پتہ نہیں کس بات پر بہت بھڑکے بیٹھے تھے۔۔۔ بہت غصہ آرہا تھا۔۔۔ اب اس میں اضافہ بھی کردیا ہے۔۔۔ کچھ کیجے بگڑتا ہے، کچھ بھی نہ کیا کیجے بے کل ہے دلِ مضطر، تسکیں کی دُعا کیجے غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے ہنسنے پہ ہنسی آئے، یوں بھی نہ ہنسا کیجے جاں...
  17. شاہد شاہنواز

    اسے دیکھنا تو نصیب تھا ۔۔۔ برائے اصلاح و تبصرہ

    اسے دیکھنا تو نصیب تھا، اسے چاہنا تو نصیب تھا اسے چاہ کر بھی نہ پا سکے، یہ نصیب کتنا عجیب تھا تھے عجیب عجیب سے مخمصے، نہ وہ قربتیں تھیں، نہ فاصلے نہ میں اُس سے دُور ہی جا سکا، نہ وہ شخص میرے قریب تھا وہ مَرَض کا کچھ بھی نہ کرسکے، سوئے راہِ شہر ِعدم چلے کھلی آنکھ جب رہِ عشق میں نہ مریض...
  18. شاہد شاہنواز

    ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے..لمبی بحر میں کی گئی دوطویل کوششیں..

    ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں ہوا میں...
  19. شاہد شاہنواز

    دل میں طوفان سا بپا کرکے۔۔۔۔ فی البدیہہ غزل برائے اصلاح و تبصرہ

    اس بحر سے ملتی جلتی ایک اور بحر ہے اور میں اکثر یہ غلطی کرتا ہوں کہ غزل کے کچھ مصرعے دوسری سمت نکل جاتے ہیں اور مجھے پتہ نہیں چلتا۔۔۔ دل میں طوفان سا بپا کرکے ۔۔۔۔کوئی اپنا گیا دغا کرکے ساری دنیا کو منانے نکلے۔۔۔۔۔ساری دنیا کو ہم خفا کرکے کیا مجھے مل سکا وفا کرکے اس نے کیا پالیا جفا کرکے خار...
  20. شاہد شاہنواز

    میں نے کچھ نہیں کیا... تین غزلیں یا سہ غزلہ جو طویل ہے... برائے اصلاح و تبصرہ

    مجھ سے تُو ہے کیوں خفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا! رُوٹھنا ہے بے وجہ، میں نے کچھ نہیں کیا! جا رہی ہے کیوں بھلا؟ میں نے کچھ نہیں کیا! اے صبا ٹھہر ذرا ، میں نے کچھ نہیں کیا! یار کی تلاش میں زندگی گزر گئی یار جب نہیں ملا، میں نے کچھ نہیں کیا! چپ ہیں لوگ پوچھ کر مجھ سے سرکشی مری دے رہا ہوں میں صدا، میں نے...
Top