ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے..لمبی بحر میں کی گئی دوطویل کوششیں..

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے​
یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے​
یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے​
سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے​
کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں​
کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے​
یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں​
ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے​
کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو​
نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے​
وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں​
ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے​
چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا​
وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے​
عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے​
دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے​
طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی​
جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے​
عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے​
نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے​
ایک اور کوشش، اسی بحر میں، اتفاق سے قافیہ بھی یہی ہے:​
کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے​
ہمیں زمین لے اڑی، تم آسمان بن گئے​
میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے​
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے​
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے​
میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا​
وہ رہزنی کے شوق ہی میں پاسبان بن گئے​
میں پر خلوص ہو کے بھی جہاں میں نامراد تھا​
وہ نفرتوں میں کامیاب و کامران بن گئے​
مسافروں کی ہڈیاں بھی راہ سے نہیں ملیں​
وہ پتھروں کا ڈھیر تھے جو کاروان بن گئے​
وہ شعر خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں​
جو کاغذوں میں قید ہوکے داستان بن گئے​
مریض غم کو جن پہ اعتماد و اعتبار تھا​
وہ چارہ گر تو خود عدوئے جسم و جان بن گئے​
ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے​
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے​
سراغ جو بھی مل گیا، الٹ پلٹ دیا گیا​
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے​
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں​
کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے​
بن آئی جان پر تو شہنواز یہ کرم ہوا​
سب ایک جسم و جان، ایک خاندان بن گئے​
ان دو طویل کاوشوں پر تنقید کی درخواست ہے۔۔۔​
الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد وارث
مہدی نقوی حجاز
سیدہ سارا غزل
محمد اظہر نذیر
فاتح
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
شمشاد
اسد قریشی
محمد بلال اعظم
 

عسکری

معطل
مجھے تو ٹیگ ہی نہیں کیا میں ورنہ اس پر ایساکمنٹ دیتا جیسے کو جدی پشتی شاعری کا پوسٹ مارٹم کرنے والا حکیم دے سکتا ہے بلکہ حکیم امت :roll:
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھے تو ٹیگ ہی نہیں کیا میں ورنہ اس پر ایساکمنٹ دیتا جیسے کو جدی پشتی شاعری کا پوسٹ مارٹم کرنے والا حکیم دے سکتا ہے بلکہ حکیم امت :roll:
آپ کا نام انگریزی میں لکھا ہے، ورنہ ضرور کرتا۔ لیکن آپ سے بھی یہی درخواست ہے۔ پوسٹ مارٹم کرڈالیے جو کرنا ہے۔۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
جناب شاہنواز صاحب،
آپ کی پہلی غزل تو مجھے سمجھ میں نہ آ سکی شائد میری نااہلی ہی ہو۔ لیکن آپ کی دوسری غزل بہت اچھی ہے، اس میں میرے ناقص علم کے مطابق جو ترامیم ممکن ہیں اور بہتری کا باعث بھی وہ تجاویز آپ کی نزر کر رہا ہوں قبول کیجئے:

ملا نہ کوئی نام جب تو بس نشان بن گئے​
ہمیں زمین کھا گئی، تم آسمان بن گئے​
میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا​
تھا شیوا جن کا رہزنی وہ پاسبان بن گئے​
ستمگری کے شوق میں نہ تھک سکے نہ مر سکے​
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے​
سراغ جوملا اسے، الٹ پلٹ دیا گیا​
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے​
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں​
کبھی یقین ہو گیا ، کبھی گمان بن گئے​
جو مصرع سُرخ رنگ میں ہے، وہ مجھ سے مُبتدی کی سمجھ سے بالاتر ہے، اس کے بارے میں اعجاز صاحب یا کوئی اور قابل دوست مشورہ دے سکتے ہیں، آپ کا ایک اور شعر​
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے
یہ بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے، باقی تمام اشعار بہت خوب ہیں، داد قبول کیجئے۔
 
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے​
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے​
آہا واہ واہ کئی جہان پیار نے جنم بھی دیے اور کئی جہان کا فاصلہ بھی دنیائیں اور خلیج واہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے​
یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے​
یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے​
سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے​
کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں​
کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے​
یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں​
ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے​
کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو​
نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے​
وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں​
ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے​
چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا​
وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے​
عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے​
دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے​
طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی​
جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے​
عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے​
نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے​
ایک اور کوشش، اسی بحر میں، اتفاق سے قافیہ بھی یہی ہے:​
کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے​
ہمیں زمین لے اڑی، تم آسمان بن گئے​
میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے​
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے​
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے​
میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا​
وہ رہزنی کے شوق ہی میں پاسبان بن گئے​
میں پر خلوص ہو کے بھی جہاں میں نامراد تھا​
وہ نفرتوں میں کامیاب و کامران بن گئے​
مسافروں کی ہڈیاں بھی راہ سے نہیں ملیں​
وہ پتھروں کا ڈھیر تھے جو کاروان بن گئے​
وہ شعر خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں​
جو کاغذوں میں قید ہوکے داستان بن گئے​
مریض غم کو جن پہ اعتماد و اعتبار تھا​
وہ چارہ گر تو خود عدوئے جسم و جان بن گئے​
ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے​
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے​
سراغ جو بھی مل گیا، الٹ پلٹ دیا گیا​
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے​
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں​
کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے​
بن آئی جان پر تو شہنواز یہ کرم ہوا​
سب ایک جسم و جان، ایک خاندان بن گئے​
ان دو طویل کاوشوں پر تنقید کی درخواست ہے۔۔۔​
الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد وارث
مہدی نقوی حجاز
سیدہ سارا غزل
محمد اظہر نذیر
فاتح
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
شمشاد
اسد قریشی
محمد بلال اعظم


واہ واہ سبحان اللہ
بعض اشعار تو لاجواب ہیں۔
لکھتے رہیئے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جناب شاہنواز صاحب،
آپ کی پہلی غزل تو مجھے سمجھ میں نہ آ سکی شائد میری نااہلی ہی ہو۔ لیکن آپ کی دوسری غزل بہت اچھی ہے، اس میں میرے ناقص علم کے مطابق جو ترامیم ممکن ہیں اور بہتری کا باعث بھی وہ تجاویز آپ کی نزر کر رہا ہوں قبول کیجئے:

ملا نہ کوئی نام جب تو بس نشان بن گئے​
ہمیں زمین کھا گئی، تم آسمان بن گئے​
میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا​
تھا شیوا جن کا رہزنی وہ پاسبان بن گئے​
ستمگری کے شوق میں نہ تھک سکے نہ مر سکے​
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے​
سراغ جوملا اسے، الٹ پلٹ دیا گیا​
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے​
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں​
کبھی یقین ہو گیا ، کبھی گمان بن گئے​
جو مصرع سُرخ رنگ میں ہے، وہ مجھ سے مُبتدی کی سمجھ سے بالاتر ہے، اس کے بارے میں اعجاز صاحب یا کوئی اور قابل دوست مشورہ دے سکتے ہیں، آپ کا ایک اور شعر​
تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے
کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے
یہ بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے، باقی تمام اشعار بہت خوب ہیں، داد قبول کیجئے۔
آپ کی تبدیلیوں پر اعتراض نہیں لیکن اس کے ساتھ اگر وضاحت ہوجاتی کہ وہ تبدیلی کیوں کی جارہی ہے اور پہلے مصرعے میں کیا کمی رہ گئی تھی تو آئندہ کے لیے میں خود خیال رکھنے لگ جاتا تاکہ آپ کو کم زحمت اٹھانی پڑے۔۔۔
میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
میری نظر میں تو اس کی وضاحت صرف اتنی ہے کہ راکھ اور مٹی ہونا ایک ہی بات ہے کہ دونوں کامطلب فنا ہونا یا تباہ و برباد ہوجانا لیاجاسکتا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے وہ آگ میں جل کر خود خاکستر ہوگیا اور جنہیں خاک سمجھ رہا تھا، وہ مضبوط نکلے۔لیکن میری وضاحت غلط بھی ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعر کے بارے میں شاعر کا اپنا خیال ہی درست مانا جائے۔ بعض اوقات شاعر جسے بہت بڑی بات سمجھ رہا ہوتا ہے وہ کچھ نہیں ہوتی اور جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، وہی شعر بعض اوقات اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی لوگ اسے صرف اسی شعر کی داد دیا کرتے ہیں۔ پہلی غزل ، بلکہ دوسری بھی صرف اور صرف ہمارے اردگرد ہونے والی تباہی اور بربادی پر اظہار خیال ہیں۔ دونوں کی بحر ایک ہے، الگ الگ نہیں۔ اگر آپ یہ بتاتے کہ کیا بات فہم سے بالا تر ہے تو میں ضرور وضاحت کرتا۔۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
آپ کی تبدیلیوں پر اعتراض نہیں لیکن اس کے ساتھ اگر وضاحت ہوجاتی کہ وہ تبدیلی کیوں کی جارہی ہے اور پہلے مصرعے میں کیا کمی رہ گئی تھی تو آئندہ کے لیے میں خود خیال رکھنے لگ جاتا تاکہ آپ کو کم زحمت اٹھانی پڑے۔۔۔
میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا​
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
میری نظر میں تو اس کی وضاحت صرف اتنی ہے کہ راکھ اور مٹی ہونا ایک ہی بات ہے کہ دونوں کامطلب فنا ہونا یا تباہ و برباد ہوجانا لیاجاسکتا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے وہ آگ میں جل کر خود خاکستر ہوگیا اور جنہیں خاک سمجھ رہا تھا، وہ مضبوط نکلے۔لیکن میری وضاحت غلط بھی ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعر کے بارے میں شاعر کا اپنا خیال ہی درست مانا جائے۔ بعض اوقات شاعر جسے بہت بڑی بات سمجھ رہا ہوتا ہے وہ کچھ نہیں ہوتی اور جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، وہی شعر بعض اوقات اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی لوگ اسے صرف اسی شعر کی داد دیا کرتے ہیں۔ پہلی غزل ، بلکہ دوسری بھی صرف اور صرف ہمارے اردگرد ہونے والی تباہی اور بربادی پر اظہار خیال ہیں۔ دونوں کی بحر ایک ہے، الگ الگ نہیں۔ اگر آپ یہ بتاتے کہ کیا بات فہم سے بالا تر ہے تو میں ضرور وضاحت کرتا۔۔۔

گوکہ مشکل کام ہے پھر بھی آپ کا حکم سر آنکھوں پہ:

ملا نہ کوئی نام جب تو بس نشان بن گئے
ہمیں زمین کھا گئی، تم آسمان بن گئے
مذکورہ شعر کے مصرعہ اولٰی میں صرف الفاظ کی نشست تبدیل کی ہے تاکہ مصرعہ میں روانی آجائے اور ایک لفظ "جب" کا اضافہ کیا ہے۔ مصرعِ ثانی میں "زمین لے اُڑی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کیوں کہ زمین اُڑ سکتی ہےیہ بات اب تک میرے علم میں نہیں آئی۔

میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
مصرعہَ اُولٰی میں بھی مجھے روانی محسوس نہیں ہوئی جس کی بنا پر یہ تجویز پیش کی، نیز مصرعہِ ثانی میں مجھے راکھ کے مقابل چٹان کی ترکیب سمجھ نہیں آئی آپ کی وضاحت میں جو بیان ہے وہ بیان آپ کے مصرعہ میں نہیں ہے۔اس لیے سمجھ نہیں پایا۔معذرت!

میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا
تھا شیوا جن کا رہزنی وہ پاسبان بن گئے

آپ کے مصرعہِ ثانی میں رہزنی کے شوق کا ذکر تھا، میرے ناقص علم کے مطابق رہزنی شوق نہیں فطرت ہوتی ہے اس لیے اس کو شیوا سے تبدیل کرنے کی تجویز نزر کی۔
ستمگری کے شوق میں نہ تھک سکے نہ مر سکے
وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے
یہاں آپ کا مصرعہِ تھا "ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے" ستم کے شوق سے مجھ پریہ واضح نہ ہوسکا کہ شوق ستم ڈھانے کا ہے یا سہنے کا، جب مصرعہِ ثانی پر پہنچا تو ابلاغ ہواکہ ذکر ستم ڈھانے کا ہو رہا ہے اس لیے تبدیلی تجویز کی۔
سراغ جوملا اسے، الٹ پلٹ دیا گیا
گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے
یہاں بھی مصرعہ میں روانی کی غرض سے تبدیلی تجویز کی۔
محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں
کبھی یقین ہو گیا ، کبھی گمان بن گئے

یہاں آپ کا مصرعہ تھا "کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے۔ محبتوں کی داستاں اور جمالِ یار کے فسوں کا تعلق مکین ومکاں سے زیادہ یقن و گماں سے ہوتا ہےاس لیے تجویز پیش کی۔
اُمید ہی کہ مذکورہ وضاحت آپ کی آئندہ کاوش میں مددگار ثابت ہوگی۔ بہت شکریہ​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
توجہ اور اصلاح پر ممنون احسان ہوں جناب اسد قریشی صاحب اور استاد محترم الف عین صاحب۔۔ لیکن ایک غزل اور بھی تھی جسے اسد قریشی پوری کی پوری ناقابل غور سمجھ رہے ہیں، کیا وہ خیال بھی درست سمجھنا چاہئے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
گوکہ مشکل کام ہے پھر بھی آپ کا حکم سر آنکھوں پہ:

ملا نہ کوئی نام جب تو بس نشان بن گئے
ہمیں زمین کھا گئی، تم آسمان بن گئے
مذکورہ شعر کے مصرعہ اولٰی میں صرف الفاظ کی نشست تبدیل کی ہے تاکہ مصرعہ میں روانی آجائے اور ایک لفظ "جب" کا اضافہ کیا ہے۔ مصرعِ ثانی میں "زمین لے اُڑی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کیوں کہ زمین اُڑ سکتی ہےیہ بات اب تک میرے علم میں نہیں آئی۔
÷÷÷زمین واقعی اڑ رہی ہے۔۔۔ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے ۔۔۔ کیا یہ استدلال آپ کو پسند آیا؟؟
میں آگ میں جلا تو یوں کہ جل کے راکھ ہوگیا
وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
مصرعہَ اُولٰی میں بھی مجھے روانی محسوس نہیں ہوئی جس کی بنا پر یہ تجویز پیش کی، نیز مصرعہِ ثانی میں مجھے راکھ کے مقابل چٹان کی ترکیب سمجھ نہیں آئی آپ کی وضاحت میں جو بیان ہے وہ بیان آپ کے مصرعہ میں نہیں ہے۔اس لیے سمجھ نہیں پایا۔معذرت!
÷÷ تو یہ شعر چھوڑ ہی دیتے ہیں۔۔۔
الف عین صاحب۔۔۔ استاد محترم! کیا اس گفتگو کو یہیں ختم کیاجائے؟؟حالانکہ ہمیں پہلی غزل پر کوئی تبصرہ یا اصلاح ہنوز نہیں مل سکی۔۔۔ صرف اتنی وضاحت ہوجاتی کہ اس غزل کو چھوڑدیا جائے کیونکہ وہ اسد قریشی بھائی کو سمجھ میں نہیں آئی اور آپ بھی اس سے متفق ہیں تو ہم آگے بڑھتے۔۔۔ اسد قریشی صاحب آپ کی طرف سے بھی وضاحت درکار ہے،آپ نے کہا ’’
آپ کی پہلی غزل تو مجھے سمجھ میں نہ آ سکی شائد میری نااہلی ہی ہو۔​
‘‘ تو نااہلی والی بات تو میں نہیں مان سکتا اور سمجھ میں نہ آنے والی بھی کوئی بات نہیں۔۔ اگر ممکن ہو تو اتنا بتا دیجئے گا کہ اس غزل میں کیا ایک بھی شعر کام کا نہیں تھا؟؟ بس اتنا معلوم ہوجائے تو اس ٹاپک کویہیں ختم کردیں گے۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھائی، اچھی غزلیں ہیں دونوں۔ اسی لئے کہا تھا کہ تفصیل سے بعد میں دیکھوں گا۔ اگر بالکل قابل رد ہوتی تو یہاں ہی اظہار کر دیتا، سب جانتے ہیں کہ میں اس معاملے میں بالکل بے تکلف ہوں، لیکن تم کو جلد بازی کی ضرورت ہے، اپنی زود گوئی کی وجہ سے۔ تو یوں کرو کہ اپنی ساری غزلیں ایک ہی فائل میں مجھے ای میل کر دو۔ میں ان کو بھی برقی کتاب سمجھ کر جلد ہی تدوین و اصلاح کر دوں گا۔ مجھ سے ورنہ ایسی جلدی متوقع نہیں ہے!!!
 

اسد قریشی

محفلین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے​
یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے​
یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے​
سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے​
کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں​
کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے
میری ناقص رائے میں تقابل درست نہیں یعنی حلق میں دل اور لبوں پہ جاں میں کچھ خاص فرق نہیں، دونوں حالتیں قریب ایک سی ہیں
یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں​
ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے​
ہوا میں گھر کس کا ہوتا ہے؟
کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو​
نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے
بھائی جب جسم میں جان ہی نہیں تو خواہ جوان ہویا بُوڑھا کون سینے سے لگائے رکھتا ہے؟ میری نظر میں مصرع بے معنی ہے۔
وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں​
ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے​
چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا​
وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے​
عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے​
دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے​
طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی
جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے
دونوں مصرعوں میں ربط نہیں
عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے​
نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے​
[quote/]

شاہنواز بھائی آپ کی خواہش پر تین مرتبہ پڑھی اور اپنی کیفیت پر قابو رکھتے ہوئے آپ کی خواہش کو فوقیت دیتے ہوئے کچھ نقص نکالے ہیں۔ دراصل پہلی نظرمیں ہی مجھے اس میں روانی محسوس نہیں ہوئی تھی، اس میں بہت سے الفاظ کا تلفظ مکمل طور پر ادا نہیں ہو رہا ہے۔اور بیشتر مقامات پر آپ نے لفظ "نہ" کو فع کے وزن پر باندھا ہے جو کہ مناسب نہیں۔ نیز "یا" عربی زبان سے ماخوذ ہے اور اساتذہ کے مطابق اس کی الف گرائی نہیں جا سکتی جب کہ آپ کے مصرع
سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے میں الف گر رہی ہے۔

باقی جناب اعجاز صاحب کی رائے کا انتظار کرتے ہیں، کہ اُستاد تو وہی ہیں میں تو صرف اُنکا کام آسان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اسد قریشی صاحب بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکال کر اظہار خیال فرمایا۔ میں آپ کی کچھ باتوں سے متفق ہوں،کچھ سے نہیں، لیکن آخری فیصلہ استاد محترم پر چھوڑتے ہوئے اس گفتگو کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
الف عین صاحب، استاد محترم ! میرا ارادہ تھا کہ آپ کویہ برقی کتاب اسی ہفتے میں بھیج دی جائے لیکن پھر سوچا آپ کتنا کاٹھ کباڑ الگ کریں گے، کچھ صفائی میں بھی کر لوں کیونکہ یہ پوری کتاب ہے۔ سو اس پر تفصیل سے غور کرکے اپنی طرف سے تدوین مکمل کرنے کے بعد ان شاء اللہ آپ کو اگلے ہفتے یا پھر اس سے اگلے ہفتے میں بھیجنے کا ارادہ ہے۔ آپ کو صرف وہی کلام بھیجنے کا ارادہ ہے جسے میں اچھا سمجھتا ہوں یا جس پر میرا فیصلہ تذبذب کا شکار ہے ۔۔۔ میری گزارش ہوگی کہ صرف اچھا کلام رکھا جائے اور جسے آپ ناقابل فہم یا احمقانہ بات سمجھیں، اسے رد یعنی ڈیلیٹ کردیاجائے، چاہے اس سے پوری غزل سمٹ کر ایک ہی شعر کی کیوں نہ رہ جاتی ہو۔۔۔یہی ڈیلیٹ کرنے کی تجویز ایسے کلام کے لیے بھی ہے جسے آپ درست نہ کرسکیں اور وہ اچھا ہونے کے باوجود ناقص ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے۔۔۔ یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے
قدموں کی جگہ پیروں ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ قلب بھی یہاں فٹ نہیں ہو رہا ہے۔ دل لانے کی کوشش کرو۔

**یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے۔۔۔ سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے
//’یا‘ کا الف کا اسقاط جائز نہیں، اور اچھا بھی نہیں لگتا۔ یہاں ’کہ‘ کر دیں۔

کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں۔۔۔ کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے
//حلق کا تلفظ غلط ہے، لام پر جزم ہونی چاہئے۔بسمل کی بات بھی درست ہے کہ یہ دونوں ایک ہی بات ہے۔ لیکن یہاں یہ مضمون تو نہیں آ سکتا کہ کہیں کوشی ہے، کہیں ماتم۔ دونوں طرف ہی ۔۔ تیز بارشوں یا سیلاب اور خشک سالیوں کا عذاب ہے۔ اپنا ہی ایک مصرع یاد آ گیا۔
کہ جس طرف بھی دیکھئے عذاب ہی عذاب ہے۔
اس مصرع کو بدل ہی دو۔

**یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں۔۔۔ ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے
//ہوا میں گھر؟
درخت پر ہے آشیاں، نہ خاک پر مکان ہے
بلکہ
نہ عرش پر ہے آشیاں، نہ فرش پر مکان ہے
زیادہ بہتر ہو گا۔

کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو۔۔۔ نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے
//اس شعر کو نکال ہی دو

**وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں۔۔۔ ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے
اسلحہ کیا گولیوں، تیر کمان سے الگ ہوتا ہے؟ یوں بھی بیانئے کے اعتبار سے یوں ہونا چاہئے
نہ ان کے پاس گولیاں، نہ تیر نے کمان ہے۔

چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا۔۔۔ وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے
//مطلب؟ ’نہ‘ کے تلفظ سے قطع نظر۔

عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے۔۔۔ دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے
//اس کا بھی مطلب، شعر دو لخت ہے۔دونوں مصرعوں میں ربط نہیں۔

**طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی۔۔۔ جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے
//دوسرے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ یوں بہتر ہو گا۔
اناج تک نہ پا سکا، کہاں کا وہ کسان ہے؟

عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے۔۔۔ نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے
//اگر عظیم لوگ ابھی بھی حیات ہوتے تو ۔۔۔۔ شعر مفہوم سے عاری لگتا ہے۔

کوئی بھی نام نہ ملا تو بس نشان بن گئے۔۔۔ ہمیں زمین لے اڑی، تم آسمان بن گئے
//مفہوم سے عاری؟

**میں آگ میں جلا تو یوں جلا کہ راکھ ہوگیا۔۔۔ ۔ وہ دیکھنے میں خاک تھے، مگر چٹان بن گئے
//دیکھنے میں ہی کیوں؟ ’مگر‘ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ اور بننا چاہئے تھا۔ یہ صورت کچھ بہتر ہو۔
جو خاک لگ رہے تھے، کس طرح چٹان بن گئے

تمہارے میرے پیار میں کئی جہان بن گئے۔۔۔ کئی جہاں تمہارے میرے درمیان بن گئے
پیار میں جہان کا بننا سمجھ میں نہیں آیا۔

**میں کارواں کا راہبر تھا، دفن کردیا گیا۔۔۔ وہ رہزنی کے شوق ہی میں پاسبان بن گئے
//راہبر کی تدفین کی جگہ گمراہی بہتر ہوگی۔
میں کارواں کا راہبر تھا، راہ گم کیا گیا

میں پر خلوص ہو کے بھی جہاں میں نامراد تھا۔۔۔ وہ نفرتوں میں کامیاب و کامران بن گئے
بن گئے یا ہو گئے؟ ہر جگہ بن گئے درست نہیں ہوتا۔ اگر رکھنا بھی ہو تو یہ شکل بہتر ہے
وہ نفرتوں کے باوجود کامران بن گئے

مسافروں کی ہڈیاں بھی راہ سے نہیں ملیں۔۔۔ وہ پتھروں کا ڈھیر تھے جو کاروان بن گئے
راہ سے یا راہ ’میں‘؟ کاروان کس طرح بن گئے۔ اس شعر کو بھی نکال دو،

وہ شعر خون سے لکھے گئے تھے اپنے وقت میں ۔۔۔ جو کاغذوں میں قید ہوکے داستان بن گئے
شعر تو نثری داستان نہیں بن سکتے۔ پہلے مصرع میں محض تحریر کا ذکر کرو تو بہتر ہے۔ لیکن پھر ردیف کہاں جائے گی؟

**مریض غم کو جن پہ اعتماد و اعتبار تھا۔۔۔ ۔ وہ چارہ گر تو خود عدوئے جسم و جان بن گئے
//درست

ستم کے شوق سے جو تھک نہیں سکے نہ مر سکے۔۔۔ ۔ وہ خون پی کے مفلسوں کا حکمران بن گئے
ستم کا شوق یا ستم گری کا شوق؟ اس کے علاوہ تھکن اور موت سے کیا مراد ہے ظالموں کی۔

**سراغ جو بھی مل گیا، الٹ پلٹ دیا گیا۔۔۔ گماں یقیں سے جا ملے، یقیں گمان بن گئے
//درست

محبتوں کی داستاں، جمال یار کا فسوں۔۔۔ کبھی مکین ہو گئے، کبھی مکان بن گئے
//شعر دو لخت ہے۔

**بن آئی جان پر تو شہنواز یہ کرم ہوا۔۔۔ سب ایک جسم و جان، ایک خاندان بن گئے۔۔۔
اس کے مفہوم پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ ویسے درست لگتا ہے
ستارہ کے نشان والے اشعار بہتر ہیں، ان کے علاوہ دوسرے اشعار کو نکالا جا سکتا ہے، یا جس طرح مشورہ دیا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہے قدموں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے۔۔۔ یہ پتھروں سے سخت قلب والوں کا جہان ہے
قدموں کی جگہ پیروں ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ قلب بھی یہاں فٹ نہیں ہو رہا ہے۔ دل لانے کی کوشش کرو۔
ہے پیروں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے ۔۔۔۔ یہ تنگ دل منافقوں کا سنگ دل جہان ہے (لیکن کچھ زیادہ ہی تلخ ہے، منافقوں کی جگہ کچھ اور ہونا چاہئے)
ہے پیروں کے تلے زمیں نہ سر پہ آسمان ہے۔۔۔ جہاں ہیں سنگ دل سبھی، وہی مرا جہان ہے(کیا یہ صورت بہتر ہے؟)


**یہ شور، یہ دھواں، یہ آگ، یہ لہو، یہ زلزلے۔۔۔ سزا ہے میرے جرم کی یا میرا امتحان ہے
//’یا‘ کا الف کا اسقاط جائز نہیں، اور اچھا بھی نہیں لگتا۔ یہاں ’کہ‘ کر دیں۔
درست

کہیں پہ تیز بارشیں، کہیں پہ خشک سالیاں۔۔۔ کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے
//حلق کا تلفظ غلط ہے، لام پر جزم ہونی چاہئے۔بسمل کی بات بھی درست ہے کہ یہ دونوں ایک ہی بات ہے۔ لیکن یہاں یہ مضمون تو نہیں آ سکتا کہ کہیں کوشی ہے، کہیں ماتم۔ دونوں طرف ہی ۔۔ تیز بارشوں یا سیلاب اور خشک سالیوں کا عذاب ہے۔ اپنا ہی ایک مصرع یاد آ گیا۔
کہ جس طرف بھی دیکھئے عذاب ہی عذاب ہے۔
اس مصرع کو بدل ہی دو۔
میں نے لکھا تھا: کہیں پہ حلق میں ہے دل، کہیں لبوں پہ جان ہے، لیکن ایک بزرگ دوست نے کہا ل پر زبر ہوتی ہے، میں نے مان لیا۔ شاید عربی میں ہوتی ہو، اردو میں نہیں۔ بہرحال، اس کو یہیں چھوڑتے ہیں۔

**یہ آندھیاں اڑا کے لے کے جائیں گی مجھے کہاں۔۔۔ ہوا میں کوئی گھر نہیں، نہ خاک پر مکان ہے
//ہوا میں گھر؟
درخت پر ہے آشیاں، نہ خاک پر مکان ہے
بلکہ
نہ عرش پر ہے آشیاں، نہ فرش پر مکان ہے
زیادہ بہتر ہو گا۔یہی بہتر ہے۔۔

کہاں پہ خاک میں دبا کے چل دئیے ہو دوستو۔۔۔ نہیں ہے روح نہ سہی، یہ جسم تو جوان ہے
//اس شعر کو نکال ہی دو۔ ٹھیک ہے، لیکن ہم استاد قمرجلالوی کے پاس پہنچے ہوئے تھے:
دبا کے چل دئیے سب قبر میں دعا نہ سلام ، ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو؟

۔۔۔۔ جاری ہے۔۔
 

الف عین

لائبریرین
باقی کا منتظر ہوں۔
یہ تنگ دل منافقوں کا سنگ دل جہان ہے
ہی اچھا لگ رہا ہے۔
کہیں پہ ہے حلق میں دل، کہیں لبوں پہ جان ہے​
کو یوں کر دو:​
کہیں ہیں خار حلق میں، کہیں لبوں پہ جان ہے​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
**وہ خالی ہاتھ ہیں مگر ہرا کے رکھ دیا ہمیں۔۔۔ ہیں گولیاں، نہ اسلحہ، نہ تیر نہ کمان ہے
اسلحہ کیا گولیوں، تیر کمان سے الگ ہوتا ہے؟ یوں بھی بیانئے کے اعتبار سے یوں ہونا چاہئے
نہ ان کے پاس گولیاں، نہ تیر نے کمان ہے۔
÷÷درست÷÷÷
چلو وہ پھول نہ سہی کہ جس کو پھول کہہ دیا۔۔۔ وہ خار بھی ہے کیا کہ جس پہ خار کا گمان ہے
//مطلب؟ ’نہ‘ کے تلفظ سے قطع نظر۔
÷÷رد÷÷÷
عجیب سے ہیں لوگ ہم، عجب ہمارے حوصلے۔۔۔ دھواں دھواں سی زندگی پہ موت مہربان ہے
//اس کا بھی مطلب، شعر دو لخت ہے۔دونوں مصرعوں میں ربط نہیں۔
÷÷رد÷÷÷
**طبیب خود تڑپ رہا ہے جب دوا نہیں ملی۔۔۔ جسے نہ مل سکی ذرا سی گندم، اک کسان ہے
//دوسرے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ یوں بہتر ہو گا۔
اناج تک نہ پا سکا، کہاں کا وہ کسان ہے؟
÷÷درست÷÷÷
عظیم لوگ چل بسے تو شاہد آج ہم بچے۔۔۔ نہ جسم ہے نہ جان ہے، نہ نام ، نہ نشان ہے
//اگر عظیم لوگ ابھی بھی حیات ہوتے تو ۔۔۔ ۔ شعر مفہوم سے عاری لگتا ہے۔
÷÷یہ بھی رد÷÷÷
÷÷÷جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top