نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک ۔۔۔ برائے تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک
وہ آگ تھی زمیں سے آسمان تک

کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک

ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے
نہ ہوسکا مگر وہی بیان تک

وہ کوہسار کیا جو بس جما رہے
ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک

وطن میں آگیا تو گھر نہیں ملا
بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک

عدو کا تیر دل کے آر پار تھا
گئے تھے ہاتھ بس مرے کمان تک

توقعات تھیں کسی خطاب کی
ہلائی جب نہیں گئی زبان تک

کہا گیا کہ ہم ہیں آسمان میں
نہیں بھری گئی مگر اڑان تک

ہوا کا شہنواز کوئی ڈر نہیں
نہیں ہے کشتیوں میں بادبان تک
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 
نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک​
وہ آگ تھی زمیں سے آسمان تک​

کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا​
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک​

مصرعہ اولٰی کو دیکھ لیجئے @ شاہد شاہنواز صاحب۔
ن ہی گ یا تھ جس ک سم ت دھا ن تک ۔۔۔ مسئلہ ارکان کا نہیں صوتی ملائمت کا ہے۔ ت ساکن کے فوراً بعد دھ متحرک!!۔
یہاں ’’اور‘‘ (بمعنی سمت) کیسا لگے گا؟ الف عین کیا فرماتے ہیں؟
 
قافیہ مناسب ہے، کھلا قافیہ ہے اور ردیف کو نباہنے میں معاون ہے۔
ردیف بھی عمدہ ہے۔
یہ بحر ’’مفاعلن مفاعلن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔‘‘ بحرِ نغمہ مجھے ذاتی طور پر اچھی لگتی ہے۔
 
نہیں گیا تھا جس کی سمت دھیان تک​
وہ آگ تھی زمیں سے آسمان تک​
اس پر کچھ بات ہو چکی۔ مجھے یہ مضمون تشنہ لگ رہا ہے۔ اس ’’آگ‘‘ میں کوئی بات ایسی تھی، جو یہاں مذکور نہیں ہے۔ قاری کا دھیان تو یہاں کئی سمتوں میں جائے گا، مگر تشفی شاید نہ ہو سکے کہ وہ آگ جو زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی طرف دھیان تک نہیں گیا، تو ایک وجہ دھیان کے نہ جانے کی بھی ہونی چاہئے!!


جناب شاہد شاہنواز، جناب الف عین۔
 
ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے​
نہ ہوسکا مگر وہی بیان تک​
[/QUOTE]

یہاں بھی وہی مسئلہ ہے، تاہم بات قاری تک پہنچ رہی ہے، الفاظ البتہ ساتھ نہیں دے رہے۔
اس کو غالباً ’’عجزِ بیان‘‘ کہا جاتا ہے؟ الف عین صاحب!۔
 
وہ کوہسار کیا جو بس جما رہے​
ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک​

[/QUOTE]

یہاں مجھے کچھ ابہام ہو رہا ہے۔ کوہسار کی تو فطرت ہے جمے رہنا، سو اُس کو عام حالات میں تو جمے رہنا چاہئے۔ ہاں اس کو ہلانا ہے تو کوئی مضبوط سبب لے کے آئیے۔ چٹان کو ہلانا بھی پہاڑ کا منصب نہیں، یہ تو کسی زلزلے کا منصب ہے۔ مجھے یہاں پہاڑ کی نفی کا جواز نہیں مل رہا۔

معذرت خواہ ہوں۔
 
عدو کا تیر دل کے آر پار تھا​
گئے تھے ہاتھ بس مرے کمان تک​

پتہ نہیں کیوں، مگر یہ شعر کھینچ نہیں رہا۔ دوسرے مصرعے میں ’’تعقیدِ لفظی‘‘ اس کی وجہ ہے؟ یا پہلے مصرعے کی ’’بندش‘‘؟۔

جناب الف عین بہتر بتا سکتے ہیں۔
۔
 
کہا گیا کہ ہم ہیں آسمان میں​
نہیں بھری گئی مگر اڑان تک​

ہمیں آسمان تک جانا ہے! یا جانا تھا! یہ ہوتا تو دوسرے مصرعے کا حسنِ بیان قابلِ دید و داد ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔

جناب شاہد شاہنواز صاحب۔
یہ جو میں ایسی کڑوی کسیلی باتیں کر رہا ہوں اس کا مقصد ’’حوصلہ شکنی‘‘ یا ’’ایویں کی نفی‘‘ نہ سمجھئے گا۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے کہ آپ ان مضامین کو کہیں بہتر انداز میں نظم کر سکتے ہیں۔ شاید آپ نے یہ غزل یہاں پوسٹ کرنے میں جلدی کی؟ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک غزل کہی، کچھ وقت اس کے ساتھ گزارئیے، اور ’’خود تنقیدی‘‘ کے عمل سے گزرئیے۔
پھر جناب ’’ست بسم اللہ!‘‘۔


جناب الف عین کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں، اس لئے بھی کہ یہ اوپر والا میرا پیراگراف مناسب بھی ہے کہ نہیں؟
 
ہوا کا شہنواز کوئی ڈر نہیں​
نہیں ہے کشتیوں میں بادبان تک​

یہاں بھی ایک چیز رہ گئی۔ جس طور کا مضمون ہے اس طور کی قوت الفاظ میں نہیں ہے۔ دوسرے مصرعے میں ایک لسانی مسئلہ بھی ہے۔ ’’نہیں ہے‘‘ ’’کشتیوں میں‘‘ ۔۔۔ یہاں ’’نہیں ہیں‘‘ کا تقاضا ہے۔ اور ’’نہیں ہے‘‘ ’’نہیں ہیں‘‘ دونوں صورتوں میں وزن برابر رہتا ہے۔ دیکھ لیجئے گا، جو اچھا لگے اپنا لیجئے۔

بہت آداب، خاص طور پر آپ دونوں احباب کی خدمت میں: جناب شاہد شاہنواز اور جناب الف عین۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
قافیہ مناسب ہے، کھلا قافیہ ہے اور ردیف کو نباہنے میں معاون ہے۔
ردیف بھی عمدہ ہے۔
یہ بحر ’’مفاعلن مفاعلن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ‘‘ بحرِ نغمہ مجھے ذاتی طور پر اچھی لگتی ہے۔

(اس معاملے میں مجھے اسپشلسٹ سمجھ لیجئے ، بہت کم ایسی ردیف اور قافیہ چنتا دکھائی دوں گا جو اچھا نہ ہو)
اس پر کچھ بات ہو چکی۔ مجھے یہ مضمون تشنہ لگ رہا ہے۔ اس ’’آگ‘‘ میں کوئی بات ایسی تھی، جو یہاں مذکور نہیں ہے۔ قاری کا دھیان تو یہاں کئی سمتوں میں جائے گا، مگر تشفی شاید نہ ہو سکے کہ وہ آگ جو زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی طرف دھیان تک نہیں گیا، تو ایک وجہ دھیان کے نہ جانے کی بھی ہونی چاہئے!!
(مطلع میرے لیے آجکل ٹیڑھی کھیر بناہوا ہے، اس کے تین مطلعے لکھے تھے، کوئی پسند نہیں آیا ، سو جلدی میں یہ احمقانہ مطلع لکھ دیا۔۔۔۔ باقی پر بھی نظر ڈال لیجئے کہ وہ کیا تھے:
1) یقین ہے تجھے نہیں گمان تک ۔۔۔ کہ عشق ہے زمیں سے آسمان تک
2) ملی جگہ زمیں سے آسمان تک ۔۔۔ مگر نہیں ملا کوئی مکان تک
3) وہ جذبہ جس نے دی ہمیں زبان تک ۔۔۔ کبھی نہ ہو سکا وہی بیان تک ۔۔۔
۔۔۔۔ اب جو مطلع یہاں لکھا گیا تھا، اسے یوں تبدیل کیا ہے:
نہیں گیا تھا جس کی اور دھیان تک ۔۔۔۔ وہ عشق تھا زمیں سے آسمان تک ۔۔۔ لیکن اس میں دھیان نہ جانے کا سبب نہیں ہے۔
خود عشق میں نہیں رہا یہ دھیان تک ۔۔۔ کہ عشق ہے زمیں سے آسمان تک ۔۔۔۔
یہاں سوال ہے کہ مطلع اگر درج بالا میں سے کوئی درست یا مناسب ہے تو کون سا؟ یہ فیصلہ میرے لیے انتہائی مشکل ہے ۔۔۔ اگر کوئی نہیں تو مزید لکھنے میں کوئی قباحت نہیں ۔۔۔
کسی کی چشم ترمیں ایسے کھو گیا​
ملا نہیں مرا کوئی نشان تک​
اچھا شعر ہے۔ اگرچہ مضمون پرانا ہے۔ ایک شعر دیکھئے:
کوئی ابر تھا کہ وہ جھیل تھی کہ سراب تھا​
سو بتائیے کہیں پائیے جو سراغِ دل​
(آپ کا شعر اچھا ہے، میرا قدرے فرسودہ لگتا ہے۔۔۔)
ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے​
نہ ہوسکا مگر وہی بیان تک​
[/QUOTE]
یہاں بھی وہی مسئلہ ہے، تاہم بات قاری تک پہنچ رہی ہے، الفاظ البتہ ساتھ نہیں دے رہے۔
اس کو غالباً ’’عجزِ بیان‘‘ کہا جاتا ہے؟ الف عین صاحب!۔
(عجز بیان کو دور کرنے کی ترکیب کیا ہے؟ کیونکہ ہر غزل میں یہی سامنے آرہا ہے۔۔۔
ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے ۔۔۔ یہ مصرع مجھے کمزور نہیں لگتا، دوسرا کمزور ہے ۔۔۔ شاید ۔۔۔ دیکھئے اس کو بدلنے سے شاید کوئی بات بنے:
ہمیں زبان دی کسی کے پیار نے ۔۔۔ زبان سے نہیں ہوا بیان تک۔۔۔ )
یہاں مجھے کچھ ابہام ہو رہا ہے۔ کوہسار کی تو فطرت ہے جمے رہنا، سو اُس کو عام حالات میں تو جمے رہنا چاہئے۔ ہاں اس کو ہلانا ہے تو کوئی مضبوط سبب لے کے آئیے۔ چٹان کو ہلانا بھی پہاڑ کا منصب نہیں، یہ تو کسی زلزلے کا منصب ہے۔ مجھے یہاں پہاڑ کی نفی کا جواز نہیں مل رہا۔
معذرت خواہ ہوں۔
(غلطی ہم کرتے ہیں اور معذرت خواہ آپ ہوتے ہیں، اس کا مضبوط سبب آپ کو لانا پڑے گا۔۔۔
ہمیں تھے کوہسار، بس جمے رہے ۔۔۔ ہلا سکے مگر نہ اک چٹان تک ۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟؟
)

وطن میں آگیا تو گھر نہیں ملا​
بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک​
پہلا مصرع کمزور ہے۔ اس کو بارِ دِگر دیکھئے گا۔
وطن تو مل گیا اسے نصیب سے ۔۔ بنا سکا نہ مفلس اک مکان تک ۔۔۔ یہ تبدیلی کیسی ہے؟
عدو کا تیر دل کے آر پار تھا​
گئے تھے ہاتھ بس مرے کمان تک​
پتہ نہیں کیوں، مگر یہ شعر کھینچ نہیں رہا۔ دوسرے مصرعے میں ’’تعقیدِ لفظی‘‘ اس کی وجہ ہے؟ یا پہلے مصرعے کی ’’بندش‘‘؟۔
(احمقانہ اور فرسودہ شعر ہے ، یہ قافیہ بھی کیوں بچا ہےِ؟ یہ سوچتے ہوئے لکھ دیا تھا)

ہلائی جب نہیں گئی زبان تک​
بات مجھ پر نہیں کھلی صاحب۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
(ضروری شعر نہیں ہے)

نہیں بھری گئی مگر اڑان تک​
ہمیں آسمان تک جانا ہے! یا جانا تھا! یہ ہوتا تو دوسرے مصرعے کا حسنِ بیان قابلِ دید و داد ہوتا۔ توجہ فرمائیے گا۔
ہمیں ہے جانا آج آسمان تک ۔۔۔ نہیں بھری گئی مگر اڑان تک ۔۔۔ اگر یہ درست ہے تو مطلعے کا مسئلہ پہلے لاینحل بھی رہا ہو تو اب حل ہوسکتا ہے۔۔۔
جناب شاہد شاہنواز صاحب۔
یہ جو میں ایسی کڑوی کسیلی باتیں کر رہا ہوں اس کا مقصد ’’حوصلہ شکنی‘‘ یا ’’ایویں کی نفی‘‘ نہ سمجھئے گا۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے کہ آپ ان مضامین کو کہیں بہتر انداز میں نظم کر سکتے ہیں۔ شاید آپ نے یہ غزل یہاں پوسٹ کرنے میں جلدی کی؟ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ نے ایک غزل کہی، کچھ وقت اس کے ساتھ گزارئیے، اور ’’خود تنقیدی‘‘ کے عمل سے گزرئیے۔
پھر جناب ’’ست بسم اللہ!‘‘۔
جناب الف عین کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں، اس لئے بھی کہ یہ اوپر والا میرا پیراگراف مناسب بھی ہے کہ نہیں؟
(میں جو مضامین لکھتا ہوں، وہ میری ہی سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں، میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ لکھنا ہی نہیں چاہئے، لیکن نہ لکھنا فی الحال بساط سے باہر ہے۔۔۔ آجکل یہ شعر توجہ کا مرکز بنا ہے، کیا اس پر غزل کہنا درست ہوگا؟
ہمیں ہے شوق فقط امتحان دینے کا ۔۔۔ کتابِ زیست مگر ہم نہیں پڑھا کرتے؟ ۔۔ اس کا مطلع بھی سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ اگر یہ اچھا ہے تو میری نظر میں بے انتہا اچھا ہے اور برا ہے تو غضب کا ہے۔۔ یہی رائے امتحان والے شعر پر بھی ہے۔۔
ہمارے جی میں جو آتا وہ کہہ دیا کرتے، وہ ہم کو چھوڑ نہ جاتے تو اور کیا کرتے؟
۔۔۔آپ غور فرمائیں گے تو محسوس ہوگا کہ مضامین جو ذہن میں آتے ہیں وہ ایک دوسرے سے بالکل الگ نوعیت کے ہیں، ان پر تنقید میرے بس سے تو باہر ہے۔۔۔ خود تنقیدی کے لیے شاید کچھ کتابیں حفظ کرنا بھی کافی نہ ہو)
ہوا کا شہنواز کوئی ڈر نہیں​
نہیں ہے کشتیوں میں بادبان تک​
یہاں بھی ایک چیز رہ گئی۔ جس طور کا مضمون ہے اس طور کی قوت الفاظ میں نہیں ہے۔ دوسرے مصرعے میں ایک لسانی مسئلہ بھی ہے۔ ’’نہیں ہے‘‘ ’’کشتیوں میں‘‘ ۔۔۔ یہاں ’’نہیں ہیں‘‘ کا تقاضا ہے۔ اور ’’نہیں ہے‘‘ ’’نہیں ہیں‘‘ دونوں صورتوں میں وزن برابر رہتا ہے۔ دیکھ لیجئے گا، جو اچھا لگے اپنا لیجئے۔
بہت آداب، خاص طور پر آپ دونوں احباب کی خدمت میں: جناب شاہد شاہنواز اور جناب الف عین۔
(ہے کی جگہ ہیں درست ہے ۔۔۔ لیکن جو کمی ہے وہ کیسے دور کی جائے گی؟ اگر کوئی حکم ہو تو ضرور دیجئے ، نہیں تو اس کو یونہی چھوڑ دیں گے۔۔۔)
کیا جانے آپ کہہ دیں کہ جی ’’ہتھ ہولا رکھو‘ ذرا‘‘۔ (جملہء معترضہ)۔

(میرا خیال ہے ایسا نہیں کہاجائے گا۔۔۔ بے حد شکریہ میری ٹوٹی ہوئی غزل کو پھوٹ پھوٹ کر رونے سے بچانے کا )

 
مطلع میرے لیے آجکل ٹیڑھی کھیر بناہوا ہے، اس کے تین مطلعے لکھے تھے، کوئی پسند نہیں آیا ، سو جلدی میں یہ احمقانہ مطلع لکھ دیا۔۔۔
۔۔۔ ۔ اب جو مطلع یہاں لکھا گیا تھا، اسے یوں تبدیل کیا ہے:
نہیں گیا تھا جس کی اور دھیان تک ۔۔۔ ۔ وہ عشق تھا زمیں سے آسمان تک ۔۔۔ لیکن اس میں دھیان نہ جانے کا سبب نہیں ہے۔
خود تنقیدی کے لیے شاید کچھ کتابیں حفظ کرنا بھی کافی نہ ہو

میرا ایک خدشہ تو درست ثابت ہوا، (جلدی والا)، جلدی نہ کِیا کیجئے۔ وہی بات دوبارہ آ گئی کہ آپ نے ایک غزل کہی، دو کہیں، دس کہیں؛ ان کو دیکھتے رہئے پہلے پانچ سات دن۔ خود آپ کو بہت کچھ سوجھے گا، ایک تو اس عمل میں مزید لکھنے کی تحریک ملتی ہے دوسرے اپنے لکھے پر آپ کا اپنا پیمانہ۔ میں نے اپنے سینئرز سے یہی سنا ہے۔ ’’اپنی غزل کے ساتھ کچھ دن گزارئیے‘‘ یہ الفاظ سید علی مطہر اشعر کے ہیں اور یہ بہت مفید مشورہ ہے۔


خود تنقیدی اور کتابوں کی آپ نے خوب کہی۔ صاحب! یہ شاید بہت مختلف عمل ہے۔ میں ایک شعر کہتا ہوں، وہ کچی حالت میں جیسا بھی ہے میں نے کہہ دیا۔ میرے اندر کا شاعر اس سے کس حد تک مطمئن ہے، یہ ہے خود تنقیدی!۔ اس خود تنقیدی میں آپ کو اپنے شعر پر جملہ علوم کا اطلاق نہیں کرنا۔ آپ کا احساس آپ کے قاری تک پہنچ رہا ہے یا نہیں، ایک شعر جو میں نے کہا ہے اگر میرا نہیں کسی اور کا ہوتا تو مجھے کیسا لگتا؟ اور اس سے ملتی جلتی باتیں ہیں جو ہم آپ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں۔ کتابیں کوئی نہیں حفظ ہوا کرتیں!۔



دیکھئے، جیسا آپ نے یہ کہا:
ہمیں ہے شوق فقط امتحان دینے کا ۔۔۔ کتابِ زیست مگر ہم نہیں پڑھا کرتے؟ ۔۔ اس کا مطلع بھی سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ اگر یہ اچھا ہے تو میری نظر میں بے انتہا اچھا ہے اور برا ہے تو غضب کا ہے
یہی تو خود تنقیدی ہے! اور یہ بہت قیمتی چیز ہے اس کو زندہ رکھئے گا۔
 
جناب الف عین صاحب۔
’’عجزِ بیان‘‘ کیا ہے اور یہ ’’ابہام‘‘ سے کس حد تک مختلف ہے۔ اپنا خیال بیان کئے دیتا ہوں، تصحیح کر دیجئے گا۔

ابہام یہ ہے کہ شاعر کی بات قاری تک پہنچ نہیں پائی، اس عدم ترسیل کی ایک سو ایک وجوہات ہو سکتی ہیں یا ان میں سے کوئی ایک، دو، تین۔ نکتہ یہ ہے کہ ’’بات قاری تک پہنچ نہیں پائی‘‘۔ جہاں بات پہنچتی تو ہے مگر اس میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے، خیال، احساس، جذبہ، پیغام بہت واضح ہے مگر اس کے بیان میں کوئی کچا پن ہے یا لفظیات اس کا حق ادا نہیں کر پا رہی؛ میرا خیال ہے کہ اس کو ہم عجزِ بیان کہتے ہیں۔
 
کتابِ زیست والے شعر پر آپ کی اپنی رائے دو انتہاؤں پر ہے (اگر یہ اچھا ہے تو بھی بلا کا ہے اور اگر برا ہے تو بھی بلا کا ہے)۔

اسی بات کو پرکھئے۔
اس شعر میں وہ کیا چیز ہے جو اسے ’’بلا کا اچھا‘‘ بنا رہی ہے؟ اس کو مارک کر لیجئے اور اسے اپنے دوسرے اشعار میں بھی جہاں ہو سکے کام میں لائیے۔ دوسری طرف وہ کیا چیز ہے جو اس شعر کو ’’برا‘‘ بنا رہی ہے؟ اس کو مارک کیجئے اور اسے دور کرنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کا شعر خوبصورت ہو جائے گا۔ چلئے صاحب، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ زمین (بحر، قافیہ، ردیف) آپ کے ترمیم شدہ شعر میں بدل جاتی ہے۔ تو بھی اس شعر کو ضائع مت کیجئے بلکہ رکھ لیجئے، کسی دوسری غزل میں محرک ہو گا۔
 
Top