سنگدل دونوں ہیں برابر کے۔۔۔ برائے تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ غزل تنقید اور وزن کے اعتبار سے یا معانی میں کوئی کمی بیشی ہو تو نشاندہی کے لیے پیش ہے۔۔۔

سنگ دل دونوں ہیں برابر کے
تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے
’’دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘
دام کچھ اور بڑھ گئے سر کے
اشک میرا ہے، اُن کی آنکھیں ہیں
بوند بدلے میں ہے سمندر کے
دیکھنے سے نشہ سا ہوتا ہے
لائے ہو کیا نگاہ میں بھر کے
مے ہوا ہے لہو غریبوں کا
لوگ پیتے ہیں جام بھر بھر کے
سر جھکا کر بھی وہ اکڑتا ہے
ناز کیا کیا نہیں ستمگر کے
ہاتھ پھیلے ہوئے تو ہیں لیکن
ہم سوالی نہیں ہیں در در کے
یہ نہ سمجھو یہ ایک میت ہے
آج ہم زندہ ہو گئے مر کے
کوہساروں سے حوصلے والے
زندہ رہتے نہیں ہیں ڈر ڈر کے
۔۔ اس میں دل ہوا ہے چراغ مفلس کا، یا تو جوں کا توں کسی اور کا ہے یا پھر اس سے ملتا جلتا کوئی اور مصرع پڑھ چکا ہوں، کس کا ہے، یہ یاد نہیں، اس لیے اس کو واوین میں لکھا ہے۔۔۔ شاہد شاہنواز ۔۔۔

الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اسد قریشی صاحب
مزمل شیخ بسمل بھائی
طارق شاہ بھائی
محمد اظہر نذیر بھائی
محمد بلال اعظم بھائی
 
آداب جناب @
شاہد شاہنواز صاحب۔​

یہ مصرع غالباً میر کا ہے:​
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے​
دل ہُوا ہے چراغ مفلس کا​

گرہ لگانے میں جیس لاعلمی کا اظہار آپ نے کیا، اُس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ آپ اس مصرعے یا شعر کے شاعر کے ’’اثر‘‘ میں نہیں آتے۔ اور معنوی سطح اس کی رعایت سے اپنا مضمون لے آتے ہیں۔ جانتے بوجھتے شاید یہ ’’آزادی‘‘ مشکل ہو۔​

سنگ دل دونوں ہیں برابر کے​
تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے​

مطلع کے حوالے سے: لفظ ’’دونوں‘‘ کی واو کو گرا دینا مستعمل بھی ہے اور اس کی اجازت بھی ہے۔ تاہم یہاں یہ ملائمت کو مجروح کر رہا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ آپ کی یہ پوری غزل ملائمت کی فضا لئے ہوئے ہے اور اس پیش منظر میں یہ لفظ کچھ کھردرا محسوس ہو رہا ہے۔ جیسے صاف ستھرے ماحول میں پڑا ایک تنکا بھی فوراً نگاہ میں آ جاتا ہے۔

’’دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘​
دام کچھ اور بڑھ گئے سر کے​

اس پر افتتاحیہ گزارش آپ دیکھ چکے۔ دل اور سر کا تقابل ہماری شاعری کی بہت پختہ روایت ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تقابل نے اظہار کے نئے پیرائے اپنائے ہیں۔

اشک میرا ہے، اُن کی آنکھیں ہیں​
بوند بدلے میں ہے سمندر کے​
میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ اگر اشک جمع میں ہو، تو مضمون میں کیا بدلتا ہے۔ شعر بہر حال عمدہ ہے۔


دیکھنے سے نشہ سا ہوتا ہے​
لائے ہو کیا نگاہ میں بھر کے​

ایسے اشعار کو میں ’’چھیڑ دینے والے شعر‘‘ کہا کرتا ہوں۔ پروفیسر انور مسعود کا یہ بیان پہلے بھی کئی مواقع پر دہرا چکا ہوں: ’’شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے، اور ذہن اس کے پیچھے یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔‘‘

مے ہوا ہے لہو غریبوں کا​
لوگ پیتے ہیں جام بھر بھر کے​

یہ بھی آج کا موضوع ہے، آپ نے اچھا باندھا ہے۔ مسرت ہوئی۔

سر جھکا کر بھی وہ اکڑتا ہے​
ناز کیا کیا نہیں ستمگر کے​

وہی بات پھر آ گئی ملائمت والی۔ ’’اکڑتا ہے‘‘ شعر کے تاثر کو مجروح کر رہا ہے۔ کوئی موزوں تر لفظ لائیے۔ دوسرا مصرع بلا کا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ پہلا مصرع بھی اُس کا بھرپور ساتھ دے۔

ہاتھ پھیلے ہوئے تو ہیں لیکن​
ہم سوالی نہیں ہیں در در کے​

اچھا ہے، تاہم اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہمارے ہاتھ صرف ایک در پر پھیلتے ہیں ۔۔۔ وغیرہ‘‘۔ میرا خیال ہے اس سے شعر کا لطف بھی بڑھے گا اور معنوی وسعت بھی آئے گی۔

یہ نہ سمجھو یہ ایک میت ہے​
آج ہم زندہ ہو گئے مر کے​

یہاں دو باتیں ہیں، کسی قدر باریک۔ ایک تو ’’یہ‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی رعایت وہی تنکے والی بات۔ دوسرے یہ کہ اگر ’’زندہ ہو جانا‘‘ کی جگہ یہاں ’’جی اُٹھنا‘‘ آ سکے تو! ۔۔۔


کوہساروں سے حوصلے والے​
زندہ رہتے نہیں ہیں ڈر ڈر کے​
یہ شعر اس غزل میں نہیں لانے کا۔ شعر برا نہیں ہے، بات اس غزل کے پورے پیش منظر کی ہے۔ اس شعر کو کسی اور غزل کے لئے رکھ لیں۔​

مجموعی طور پر ۔۔۔۔ آپ کی یہ غزل فی الواقع ایک عمدہ غزل ہے اور اس کی آسان لفظیات، سادہ سی اور بہت مانوس بحر اور کھلا قافیہ اس کے حسن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آپ فنیات میں پڑ جاتے تو شاید اتنے چست شعر یک جا نہ ہو پاتے۔ مجھے اچھی لگی!​

دیگر احباب کی رائے کا مجھے بھی انتظار رہے گا۔​

 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سنگ دل دونوں ہیں برابر کے​
تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے​
÷÷ اس سے پہلے لکھا تھا۔۔ دونوں سنگدل ہیں ہم برابر کے ۔۔۔ لیکن اس میں ہیں اور ہم ٹکرا رہے تھے۔۔۔
تیسری صورت میں دونوں غائب ہورہا ہے۔۔۔ سنگدل ہو گئے برابر کے ۔۔۔۔ تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے ۔۔۔
چوتھی صورت ہے۔۔۔ دونوں سنگدل ہوئے برابر کے ۔۔۔ اب ظالم لکھنے کا سبب یہ ہے کہ سنگدل شاید وزن میں نہ آئے۔
ان میں سے کوئی بھی صورت آپ قابل قبول قرار دے دیجئے۔۔
’’دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘​
دام کچھ اور بڑھ گئے سر کے​

اشک میرے ہیں ان کی آنکھیں ہیں​
بوند بدلے میں ہے سمندر کے​
جمع کرنے میں مجھے عار نہیں۔۔۔


دیکھنے سے نشہ سا ہوتا ہے​
لائے ہو کیا نگاہ میں بھر کے​

مے ہوا ہے لہو غریبوں کا​
لوگ پیتے ہیں جام بھر بھر کے​

سر جھکا کر بھی وہ اکڑتا ہے​
ناز کیا کیا نہیں ستمگر کے​
وہی بات پھر آ گئی ملائمت والی۔ ’’اکڑتا ہے‘‘ شعر کے تاثر کو مجروح کر رہا ہے۔ کوئی موزوں تر لفظ لائیے۔ دوسرا مصرع بلا کا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ پہلا مصرع بھی اُس کا بھرپور ساتھ دے۔
۔۔کہا جائے کہ ’’سر جھکانے میں بھی تکبر ہے‘‘ ، لیکن تکبر بھی شاید اچھا نہ لگے۔۔
کیا غرور لانے سے بات بنے گی؟
سرجھکاکر بھی کچھ غرور سا ہے
ہاتھ پھیلے ہوئے تو ہیں لیکن​
ہم سوالی نہیں ہیں در در کے​

اچھا ہے، تاہم اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہمارے ہاتھ صرف ایک در پر پھیلتے ہیں ۔۔۔ وغیرہ‘‘۔ میرا خیال ہے اس سے شعر کا لطف بھی بڑھے گا اور معنوی وسعت بھی آئے گی۔
۔۔۔ فی الحال تو ذہن میں نہیں ہے اور جو دوسری صورت ہے، اس میں لیکن غائب ہوجاتا ہے۔۔۔ ایک ہی در پہ ہاتھ پھیلے ہیں۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟
یہ نہ سمجھو یہ ایک میت ہے​
آج ہم زندہ ہو گئے مر کے​

یہاں دو باتیں ہیں، کسی قدر باریک۔ ایک تو ’’یہ‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی رعایت وہی تنکے والی بات۔ دوسرے یہ کہ اگر ’’زندہ ہو جانا‘‘ کی جگہ یہاں ’’جی اُٹھنا‘‘ آ سکے تو! ۔۔۔
یہ نہ سمجھو کہ ایک میت ہے ۔۔۔ آج ہم جی اٹھے ہیں مرمر کے۔۔۔ لیکن یہ فانی بدایونی کی نقل لگے گی ۔۔ ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی۔۔ زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا ۔۔۔اس سے پہلے لکھا تھا۔۔ آج زندہ ہوئے ہیں ہم مر کے ۔۔۔ اس میں ہیں اور ہم کا ٹکراؤ

کوہساروں سے حوصلے والے​
زندہ رہتے نہیں ہیں ڈر ڈر کے​
یہ شعر اس غزل میں نہیں لانے کا۔ شعر برا نہیں ہے، بات اس غزل کے پورے پیش منظر کی ہے۔ اس شعر کو کسی اور غزل کے لئے رکھ لیں۔​
شعر کہنا کمال ہو جیسے
فخر کرتے ہیں شاعری کرکے
یہ شعر الٹا کرکے لکھا ہے۔ اس سے پہلے یہ اکیلا تھا۔ ۔۔۔لیکن الٹا کرنے سے مجھے لگتا ہے اس کے حسن کا حلیہ بگڑ چکا ہے، اس لیے مزید شعر نہ ہی کہا جائے تو اچھا ہے۔۔


مجموعی طور پر ۔۔۔ ۔ آپ کی یہ غزل فی الواقع ایک عمدہ غزل ہے اور اس کی آسان لفظیات، سادہ سی اور بہت مانوس بحر اور کھلا قافیہ اس کے حسن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آپ فنیات میں پڑ جاتے تو شاید اتنے چست شعر یک جا نہ ہو پاتے۔ مجھے اچھی لگی!​

دیگر احباب کی رائے کا مجھے بھی انتظار رہے گا۔​
÷÷÷بہت شکریہ یعقوب آسی صاحب۔۔۔آپ کی مزید رائے کا انتظار رہے گا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی کے اتنی تفصیل سے مشورے کے بعد میں کیا لکھوں؟
مطلع میں مجھے یہ سورت بہتر لگی
سنگدل ہو گئے برابر کے
اس کے علاوہ
سر جھکا کر بھی وہ اکڑتا ہے
ناز کیا کیا نہیں ستمگر کے
کا دوسرا مصرع ہی اگر ‘نہیں‘ کی جگہ ’سہیں‘ کر دیں تو؟
ویسے پہلے مصرع میں تبدیلی کے باوجود بات بنتی نہیں۔ ’سر جھکا کر‘ کے ساتھ کچھ یوں ہو تو
سر جھکا کر بھی سرو قامت ہے
لیکن پھر دوسرے مصرع میں تطابق؟ بہر ھال غور کرو تم بھی مزید۔
 
جناب الف عین، آپ کا ’’ص‘‘ میرے لئے مسرت کا باعث ہے۔
صاحبِ غزل کے ریمارکس کا جواب کل سے ملتوی ہو رہا ہے، کچھ عرض کرتا ہوں۔
کوئی فروگزاشت ہو جائے تو ضرور بتائیے گا۔
 
جناب شاہد شاہنواز۔
سب سے پہلے تو مجھے اپنی گزارشات کی قبولیت پر آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔

آپ نے لکھا ہے
سنگ دل دونوں ہیں برابر کے
تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے
÷÷ اس سے پہلے لکھا تھا۔۔ دونوں سنگدل ہیں ہم برابر کے ۔۔۔ لیکن اس میں ہیں اور ہم ٹکرا رہے تھے۔۔۔
تیسری صورت میں دونوں غائب ہورہا ہے۔۔۔ سنگدل ہو گئے برابر کے ۔۔۔ ۔ تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے ۔۔۔
چوتھی صورت ہے۔۔۔ دونوں سنگدل ہوئے برابر کے ۔۔۔ اب ظالم لکھنے کا سبب یہ ہے کہ سنگدل شاید وزن میں نہ آئے۔
اس کو بھی دیکھ لیجئے گا ’’ہم ہوئے سنگ دل برابر کے‘‘ ۔۔ میں ’’سنگ (پتھر)‘‘ کے نون کو غنہ کرنے کے حق میں نہیں۔
انسانی کلام میں بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہا کرتی ہے۔

ہاتھ پھیلے ہوئے تو ہیں لیکن
ہم سوالی نہیں ہیں در در کے

اچھا ہے، تاہم اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہمارے ہاتھ صرف ایک در پر پھیلتے ہیں ۔۔۔ وغیرہ‘‘۔ میرا خیال ہے اس سے شعر کا لطف بھی بڑھے گا اور معنوی وسعت بھی آئے گی۔
۔۔۔ فی الحال تو ذہن میں نہیں ہے اور جو دوسری صورت ہے، اس میں لیکن غائب ہوجاتا ہے۔۔۔ ایک ہی در پہ ہاتھ پھیلے ہیں۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟
اس کو حمد میں لے جائیے۔ ’’ایک ہی در پہ ہاتھ پھیلے ہیں‘‘ بھی درست لگتا ہے، اور ’’ایک اُس دَر پہ ہاتھ پھیلتے ہیں‘‘ یا ایسا کچھ؟ دیکھ لیجئے، اگر اچھا لگے۔

یہ نہ سمجھو یہ ایک میت ہے
آج ہم زندہ ہو گئے مر کے

یہاں دو باتیں ہیں، کسی قدر باریک۔ ایک تو ’’یہ‘‘ اور ’’ہم‘‘ کی رعایت وہی تنکے والی بات۔ دوسرے یہ کہ اگر ’’زندہ ہو جانا‘‘ کی جگہ یہاں ’’جی اُٹھنا‘‘ آ سکے تو! ۔۔۔
یہ نہ سمجھو کہ ایک میت ہے ۔۔۔ آج ہم جی اٹھے ہیں مرمر کے۔۔۔ لیکن یہ فانی بدایونی کی نقل لگے گی ۔۔ ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی۔۔ زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا ۔۔۔ اس سے پہلے لکھا تھا۔۔ آج زندہ ہوئے ہیں ہم مر کے ۔۔۔ اس میں ہیں اور ہم کا ٹکراؤ
اب تک کی اردو شاعری میں ایک ایک مضمون شاید ہزاروں انداز میں باندھا جا چکا ہے، اور حضرتِ فانی تو ایک مضمون کو ایک غزل میں دَس دَس روپ دے گئے۔ آپ جانتے ہیں حضرت کی غزل اوسطاً پچیس شعروں کی ہوتی ہے۔ اِدھر ہم پانچ شعر ایک زمین میں کہہ لیں تو ’’بہت ہیں جناب! ’کم از کم‘ کی شرط پوری ہو گئی، گویا فرض ادا ہو گئے نوافل کو جانے دیجئے‘‘۔ آپ نے تو پھر اِتنے سارے شعر نکال لئے! پہلے مصرع میں کچھ قطع و برید کیجئے، نیا اور عمدہ مضمون نکلے گا۔


شعر کہنا کمال ہو جیسے
فخر کرتے ہیں شاعری کرکے
یہ شعر الٹا کرکے لکھا ہے۔ اس سے پہلے یہ اکیلا تھا۔ ۔۔۔ لیکن الٹا کرنے سے مجھے لگتا ہے اس کے حسن کا حلیہ بگڑ چکا ہے، اس لیے مزید شعر نہ ہی کہا جائے تو اچھا ہے۔۔
یہ آپ نے بعد میں شامل کیا؟ یا پہلے تھا اور آپ اسے قلم زد کر چکے تھے؟۔ اس کی زبان زیرَ نظر غزل سے لگا نہیں کھا رہی، چاہیں تو الگ رکھ لیں۔ بسا اوقات فردیات سے غزلیں نکلا کرتی ہیں۔


کوئی بات اچھی لگے تب بھی اور ناگوار گزرے تب بھی، اس فقیر کو دعائیں دیجئے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہئے۔۔۔ غزل کو غزل بنانے میں میری بغیر کسی حیل و حجت کے مدد کی جارہی ہے۔۔۔ناگواری کا سوال ہی نہیں۔ میری دعائیں جناب آسی صاحب آپ کے ساتھ ہمیشہ رہیں گی ان شاء اللہ۔۔۔ اب تک


مطلع تو ہوا
1) سنگدل ہو گئے برابر کے
تم بھی پتھر کے، ہم بھی پتھر کے
باقی کے اشعار۔۔۔۔
2) ’’دل ہوا ہے چراغ مفلس کا‘‘
دام کچھ اور بڑھ گئے سر کے
3) اشک میرے ہیں ان کی آنکھیں ہیں
بوند بدلے میں ہے سمندر کے
4) مے ہوا ہے لہو غریبوں کا
لوگ پیتے ہیں جام بھر بھر کے
5) ایک ہی در پہ ہاتھ پھیلے ہیں
ہم سوالی نہیں ہیں در در کے
6) سرجھکاکر بھی کچھ غرور سا ہے
ناز کیا کیا نہیں ستمگر کے
7) دیکھنے سے نشہ سا ہوتا ہے
لائے ہو کیا نگاہ میں بھر کے
اس میں چھٹا شعر ہنوز غور طلب ہے۔۔۔اگر یہ جوں کا توں قابل قبول ہے تو بات یہیں ختم لیکن اگر بدلنا ہے اور بقول استاد محترم، نہیں کو سہیں کرکے بھی دیکھیں تو پہلا مصرع نیا لکھنا ہوگا۔۔۔ اور اگر سر جھکا کر بھی سروقامت ہے ۔۔ کو رکھا جائے تو پھر دوسرا مصرع نیا لکھنا ہوگا۔۔۔
 
Top