نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    فیض کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے ۔ فیض احمد فیض

    کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے وہ آزمائش دل و نظر کی، وہ قُربتیں سی، وہ فاصلے سے کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں، آ کے رُکتے ہیں قافلے سے وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی، وہ سارے عُنواں وصال کے سے نگاہ و دل کو قرار کیسا، نشاط و غم میں کمی کہاں کی وہ جب ملے ہیں...
  2. فرخ منظور

    مجید امجد ریلوے اسٹیشن پر ۔ مجید امجد

    ریلوے اسٹیشن پر (نظم) آہنی ، سبز رنگ ، جنگلے کے پاس باتوں باتوں میں ایک برگِ عقیق تو نے جب توڑ کر مسل ڈالا مجھے احساس بھی نہ تھا کہ یہی جاوداں لمحہ ، شاخِ دوراں سے جھڑ کے ، اک عمر ، میری دنیا پر اپنی کملاہٹیں بکھیرے گا اسی برگِ دریدہ جاں کی طرح آج بھی اس دہکتی پٹڑی پر گھومتے گھنگھناتے پہیوں کو...
  3. فرخ منظور

    میر دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا ۔ میر تقی میر

    دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا گردن کشی سے اپنی مارے گئے ہم آخر عاشق اگر ہوئے تھے ناز و غرور کیا تھا غم قرب و بعد کا تھا جب تک نہ ہم نے جانا اب مرتبہ جو سمجھے وہ اتنا دور کیا تھا اے وائے یہ نہ سمجھے مارے پڑیں گے اس میں اظہارِ عشق کرنا ہم کو...
  4. فرخ منظور

    داغ ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں ۔ داغ دہلوی

    ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے وہ وقتِ نزع...
  5. فرخ منظور

    سودا جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے ۔ مرزا رفیع سودا

    جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے تارِ نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی گو...
  6. فرخ منظور

    سودا بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے ۔ مرزا رفیع سودا

    بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے شراب، حلق سے ہوتی نہیں فرو تجھ بِن گلوئے خشک سے تیغ آبدار گزرے ہے گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو مِرے خیال میں تُو لاکھ بار گزرے ہے سمجھ کے قطع کر اب پیرہن مِرا خیّاط نظر سے چاک کے یاں تار تار گزرے ہے ہزار حرف شکایت کا،...
  7. فرخ منظور

    اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا ۔ جرأتؔ

    اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابندِ نشست رہ گزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا غم زدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ! زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آبِ رواں یاں ٹھہرنا نظر آتا نہیں...
  8. فرخ منظور

    ساحر مفاہمت ۔ ساحر لدھیانوی

    مفاہمت نشیبِ ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر بلندیوں پہ سفید و سیاہ مل ہی گئے جو یادگار تھے باہم ستیزہ کاری کی بہ فیضِ وقت وہ دامن کے چاک سل ہی گئے جہاد ختم ہوا دورِ آشتی آیا سنبھل کے بیٹھ گئے محملوں میں دیوانے ہجومِ تشنہ‌ لباں کی نگاہ سے اوجھل چھلک رہے ہیں شرابِ ہوس کے پیمانے یہ جشن،...
  9. فرخ منظور

    کفِ خاکسترِ دل ۔ اسلم انصاری

    کفِ خاکسترِ دل نہ کسی لفظ میں حدّت نہ کسی رنگ میں خوں کوئی آواز، نہ آواز کی پرواز، نہ ساز شاخِ محراب کہیں اور نہ کہیں سروِ ستوں ایک یخ بستہ خموشی ہے ہر اک شے پہ محیط کاوشِ دل ہے زبوں دل، ۔۔۔ کہ مدّت سے ہے اک برف کی سِل (ایسا ہونے پہ بہر طور خجل!) کس کی آتش نفسی شعلۂ جاں سوز بنے کون لائے شررِ...
  10. فرخ منظور

    جب ہمیں اذنِ تماشا ہوگا ۔ اسلم انصاری

    جب ہمیں اذنِ تماشا ہوگا تو کہاں انجمن آرا ہوگا ہم نہ پہنچے سرِ منزل تو کیا ہم سفر کوئی تو پہنچا ہوگا اڑتی ہوگی کہیں خوشبوئے خیال گُلِ معنی کہیں کھلتا ہوگا وادیِ رنگ میں ہر نقشِ بہار شاخ در شاخ لرزتا ہو گا ساغرِ دل میں ترا عکسِ جمال محوِ ایجادِ تمنّا ہو گا ہر گُل و برگ ہے اک نقشِ قدم...
  11. فرخ منظور

    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ لالہ مادھو رام جوہر

    رات دن چین ہم اے رشکِ قمر رکھتے ہیں شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ڈھونڈھ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے کیا کہوں آپ دلِ غیر میں گھر رکھتے ہیں اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں کر دشمنی مجھ سے مرے دیدۂ تر...
  12. فرخ منظور

    حسرت موہانی دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا ۔ حسرت موہانی

    دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا اک نظر بھی تری کافی تھی پئے راحتِ جاں کچھ بھی دشوار نہ تھا مجھ کو شکیبا کرنا ان کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے ابرِ بہار جس قدر چاہنا پھر بعد میں برسا کرنا شام ہو یا کہ سحر یاد انہیں کی رکھنی دن ہو یا رات ہمیں ذکر انہیں...
  13. فرخ منظور

    شاید میں زندگی کی سحر لے کے آ گیا ۔ سدرشن فاکر

    شاید میں زندگی کی سحر لے کے آ گیا قاتل کو آج اپنے ہی گھر لے کے آ گیا تا عمر ڈھونڈھتا رہا منزل میں عشق کی انجام یہ کہ گردِ سفر لے کے آ گیا نشتر ہے میرے ہاتھ میں کاندھوں پہ مے کدہ لو میں علاج دردِ جگر لے کے آ گیا فاکرؔ صنم کدے میں نہ آتا میں لوٹ کر اک زخم بھر گیا تھا ادھر لے کے آ گیا...
  14. فرخ منظور

    مکمل داغؔ کے کلام میں حمد و نعت ۔ ڈاکٹر داؤد رہبر

    داغؔ کے کلام میں حمد و نعت از: ڈاکٹر داؤد رہبر بوسٹن یونیورسٹی میں میری کلاسوں میں بیسیوں ایرانی شامل رہے۔ ان سے مجھے معلوم ہواکہ ایران میں تازہ انقلاب ہواتو آیت اللہ امام خمینی کی رہنمائی سے قوم کے بیشتر لوگوں نے شیخ سعدی کوتو بخش دیا، لیکن خواجہ حافظؔ کے مردود ہونے کی منادی ہوئی۔ مجتہدوں کی...
  15. فرخ منظور

    جگر درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے ۔ جگر مراد آبادی

    درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے پھر کوئی مہرباں نہ ہو جائے سعیِ غم رائیگاں نہ ہو جائے دور ہے عرصۂ عدم آباد کم کوئی ناتواں نہ ہو جائے دل کو لے لیجئے ، جو لینا ہے پھر یہ سودا ،گراں نہ ہو جائے آسماں کو نہ دیکھیے تن کر پھر یہ بوڑھا جواں نہ ہو جائے ڈر ہے مجھ کو کہ میری عرضِ...
  16. فرخ منظور

    شاذ تمکنت قیدِ حیات و بندِ غم (نظم) ۔ شاذ تمکنت

    قیدِ حیات و بندِ غم (نظم) آخرِ شب کی اداسی نم فضاؤں کا سکوت زخم سے مہتاب کے رستا ہے کرنوں کا لہو دل کی وادی پر ہے بے موسم گھٹاؤں کا سکوت کاش کوئی غم گسار آئے مداراتیں کرے موم بتی کی پگھلتی روشنی کے کرب میں دکھ بھرے نغمے سنائے دکھ بھری باتیں کرے کوئی افسانہ کسی ٹوٹی ہوئی مضراب کا فصلِ گل...
  17. فرخ منظور

    میر جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا ۔ میر تقی میر

    غزل جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا کاو کاوِ مژۂ یار و دلِ زار و نزار گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا گرم رو راہِ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بزدل ۔ مصطفیٰ زیدی

    بزدل آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لیے اپنے ایمان کی کتاب لیے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل تھا کہ شرافت کے زعم کے با وصف میں بھی ان افسروں...
  19. فرخ منظور

    میر لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں ۔ میر تقی میرؔ

    غزل لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف نقاب وے رخسار کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں تن کے معمورے میں یہی دل و چشم گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے جگر و دل کباب ہیں دونوں سو جگہ اس کی آنکھیں...
Top