غزل: کِس کِس بِنا پہ فیصلے ٹالے نہیں گئے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے . آپ سب کوماہ رمضان کی مبارکباد ! محترم ظہیراحمدظہیر بھائی کے حکم کی تعمیل میں ایک غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

غزل
کِس کِس بِنا پہ فیصلے ٹالے نہیں گئے
زنداں سے بےگناہ نکالے نہیں گئے

رکّھا تھا راہِ حق میں کبھی ہم نے اک قدم
مدّت ہوئی ہے، پاؤں کے چھالے نہیں گئے

ہَم کو نہیں اذیتِ دوراں کا ڈر کوئی
ہَم عیش کی فضاؤں میں پالے نہیں گئے

ٹکسال ایک بھی نہ ملیگی جہان میں
سکّے جہاں پہ خون سے ڈھالے نہیں گئے

دنیا میں بھوک سے بھی تو مارے گئے ہیں لوگ
نیزوں پہ سر اگرچہ اچھالے نہیں گئے

شاید ہوں اب بھی مسجد و بتخانہ منتظر
ہرچند خود کو پوجنے والے نہیں گئے

آئی ہیں اس کے بعد بھی صبحیں کئی مگر
پلکوں سے اک سحر كے اجالے نہیں گئے

ہَم کیا کسی کی آنکھ کو دینگے حَسِین خواب
ہَم سے تو اپنے خواب سنبھالے نہیں گئے

نکلے تھے بےبسی میں وسیلے جو ہاتھ سے
عابدؔ کبھی وہ دِل سے نکالے نہیں گئے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کِس کِس بِنا پہ فیصلے ٹالے نہیں گئے
زنداں سے بےگناہ نکالے نہیں گئے

رکّھا تھا راہِ حق میں کبھی ہم نے اک قدم
مدّت ہوئی ہے، پاؤں کے چھالے نہیں گئے

ہَم کو نہیں اذیتِ دوراں کا ڈر کوئی
ہَم عیش کی فضاؤں میں پالے نہیں گئے

ٹکسال ایک بھی نہ ملیگی جہان میں
سکّے جہاں پہ خون سے ڈھالے نہیں گئے

دنیا میں بھوک سے بھی تو مارے گئے ہیں لوگ
نیزوں پہ سر اگرچہ اچھالے نہیں گئے

شاید ہوں اب بھی مسجد و بتخانہ منتظر
ہرچند خود کو پوجنے والے نہیں گئے

آئی ہیں اس کے بعد بھی صبحیں کئی مگر
پلکوں سے اک سحر كے اجالے نہیں گئے

ہَم کیا کسی کی آنکھ کو دینگے حَسِین خواب
ہَم سے تو اپنے خواب سنبھالے نہیں گئے

نکلے تھے بےبسی میں وسیلے جو ہاتھ سے
عابدؔ کبھی وہ دِل سے نکالے نہیں گئے
بہت خوب عرفان علوی بھائی۔
لاجواب۔ عمدہ غزل ہے۔
اللہ سلامت رکھے آپ کو۔ آمین۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
خوبصورت غزل۔ داد قبول کیجیے۔

دنیا میں بھوک سے بھی تو مارے گئے ہیں لوگ
نیزوں پہ سر اگرچہ اچھالے نہیں گئے
واہ، بہت خوب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے . آپ سب کوماہ رمضان کی مبارکباد ! محترم ظہیراحمدظہیر بھائی کے حکم کی تعمیل میں ایک غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

غزل
کِس کِس بِنا پہ فیصلے ٹالے نہیں گئے
زنداں سے بےگناہ نکالے نہیں گئے

رکّھا تھا راہِ حق میں کبھی ہم نے اک قدم
مدّت ہوئی ہے، پاؤں کے چھالے نہیں گئے

ہَم کو نہیں اذیتِ دوراں کا ڈر کوئی
ہَم عیش کی فضاؤں میں پالے نہیں گئے

ٹکسال ایک بھی نہ ملیگی جہان میں
سکّے جہاں پہ خون سے ڈھالے نہیں گئے

دنیا میں بھوک سے بھی تو مارے گئے ہیں لوگ
نیزوں پہ سر اگرچہ اچھالے نہیں گئے

شاید ہوں اب بھی مسجد و بتخانہ منتظر
ہرچند خود کو پوجنے والے نہیں گئے

آئی ہیں اس کے بعد بھی صبحیں کئی مگر
پلکوں سے اک سحر كے اجالے نہیں گئے

ہَم کیا کسی کی آنکھ کو دینگے حَسِین خواب
ہَم سے تو اپنے خواب سنبھالے نہیں گئے

نکلے تھے بےبسی میں وسیلے جو ہاتھ سے
عابدؔ کبھی وہ دِل سے نکالے نہیں گئے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، عرفان بھائی ۔ داد قبول فرمائیے!
 
Top