ناصر کاظمی طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

زرقا مفتی

محفلین


آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

یہ کیا کہ روز ایک سا غم، ایک سی امید
اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو حسن شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوار سا بھی ہو

ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہء سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

پھرتے ہیں کیسے کیسے خیالات ذہن میں
لکھوں‌اگر زبان قلم آشنا بھی ہو

بزمِ سخن بھی ہو، سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

(ناصر کاظمی)
 

مون

محفلین
یہ کیا کہ روز ایک سا غم، ایک سی امید
اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو



بہت خوب، بہت عمدہ انتخاب ہے۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین


آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو


یہ کیا کہ روز ایک سا غم، ایک سی امید
اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو


یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو حسن شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوار سا بھی ہو


ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہء سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو


پھرتے ہیں کیسے کیسے خیالات ذہن میں
لکھوں‌اگر زبان قلم آشنا بھی ہو

بزمِ سخن بھی ہو، سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

(ناصر کاظمی)

واہ ۔۔۔۔ بپت خوب۔۔۔ شیئر کرنے کا بہت شکریہ زرقا جی :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ بہت ہی خوبصورت غزل ہے ناصر کاظمی کی اور میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک - بہت شکریہ زرقا صاحبہ!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب بہت اچھی غزل ہے بہت شکریہ اچھا اس غزل میں‌ایک لفظ آیا ہے درودیوار یہ دیکھ کر مجھے یاد آیا میں نے اس لفظ کو دیوار و در بھی کہی پڑھا لکھا ہے ان دونوں‌میں‌کیا فرق ہے کیا یہ دونوں ایک ہی ہیں‌یا ان کے مطلب الگ الگ ہیں شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب بہت اچھی غزل ہے بہت شکریہ اچھا اس غزل میں‌ایک لفظ آیا ہے درودیوار یہ دیکھ کر مجھے یاد آیا میں نے اس لفظ کو دیوار و در بھی کہی پڑھا لکھا ہے ان دونوں‌میں‌کیا فرق ہے کیا یہ دونوں ایک ہی ہیں‌یا ان کے مطلب الگ الگ ہیں شکریہ

خرم یہ دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے لیکن کوئی بڑا شاعر اسکا بعض اوقات استعمال ایسے کرتا ہے کہ اسکا مطلب بدل جاتا ہے - جیسے غالب نے کیا ہے اس شعر میں - میں‌ غالب کی یہ پوری غزل پوسٹ بھی کر رہا ہوں -
[POEM]وفورِ عشق نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار[/POEM]
 
Top