عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
لاجواب بھیا۔۔۔ ۔۔۔
جیسا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ واقعی محفل میں ایک شاعر کا اضافہ ہوا چاہتا ہے۔۔۔ ۔۔
بہت شکریہ جناب اس ہمت افزائی کے لیئے
اللہ سبحان و تعالی آپ پر اپنی رحمتوں کے سائے ہمیشہ قائم رکھے
آمین
 

عظیم

محفلین
محترمی سید عاطف علی اور جناب الف عین کے ارشادات کے بعد کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں۔

بہ این ہمہ عمدہ غزل ہے
جناب عظیم شہزاد
ہمت افزائی کے لیئے شکر گزار ہوں جناب یعقوب آسی صاحب
اللہ سبحان و تعالی آپ پر اپنی رحمتوں کے سائے ہمیشہ قائم رکھے
آمین
 

عظیم

محفلین
غزل اچھی ہے، اگر ربط اور فصاحت کو مد نظر رکھ کر دیکھیں گے تو گنجائش تصحیح یا بیان کو واضح کرنے کو بہت کچھ نظر آتا ہے
لیکن عمر اور نو آموزی کو دیکھیں تو یہ لکھا بھی بہت خوب ہے ۔
(ہماری عمر اور صاحب تخلیق کی عمر، اور مطالعہ کو ہمیں مد نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ عبید صاحب عموماََ کرتے ہیں )

ہاں میں اگر لکھتا (ٹیگ ہونے پر اپنا خیال لکھ رہا ہوں :)) تو ربط اور بیان کو ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ یوں لکھتا :

جنوں میں فکر کیا، اطوار کیسے
خرد ہے کیا بلا، افکار کیسے

دِکھائیں کیسے اُس کو زخمِ دل ہم
بتائیں درد کی یلغار کیسے

بنے اپنے بھی سارے اجنبی جب!
شناسا ہم کریں اغیار کیسے

محبّت کا ہے تُو خوش کن مجسمہ
کریں دل سے تجھے مسمار کیسے

مسیحا خود ہوئے صاحب فراش اب
شفا پائیں گے ہم بیمار کیسے

ہمیشہ کے لئے ہی سو گیا جو !
نصیب اپنا ہو وہ بیدار کیسے

غزلِ متوازی کی صورت اختیارت کر گئی ہے تحریر ، سارا کریڈٹ عظیم شہزاد کے سر کہ موجد اور منبہ وہی ہیں

عظیم شہزاد صاحب
قطع نظر ان سب باتوں کے ، آپ بہت اچھا لکھ رہے ہیں اور انشاللہ وقت کی ساتھ ساتھ اور بھی مربوط لکھیں گے اور بیان پر دسترس اور نکھار آئے گا

لکھتے اور پڑھتے رہیے

تشکّر خلیل الرحمن صاحب ٹیگ کرنےپر


محترم طارق شاہ صاحب میں آپ کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اس کاوش پر بھی اپنی قیمتی رائے کا اظہار کیا ۔ مجھے بات کرنے کا سلیقہ نہیں اور نہ ہی علم و ادب سے اتنی واقفیت ہے کہیں کوئی بھول ہو جائے تو اسے میری کم علمی کا نتیجہ سمجھ کر در گزر کر دیجیئے گا ۔۔
اور آپ کی ذرہ نوازی ہے ورنہ مجھ نا چیز سے تو املہ تک میں غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔۔
ہمت افزائی کے لیئے تہِ دل سے شکر گزار ہوں
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 

عظیم

محفلین
غزل نُما ہیں خیال سارے
تبھی تولفظوںمیں ہیں اُتارے
خوشی سے نظریں چُرا کے بھاگے
غموں کی بازی میں جان ہارے
کوئی سنوارے مقدروں کو
یا تیری زلفوں کے خم سنوارے
میں جاوں مسجد تو گھر دکھے ہے
جو گھر کو جاوں تو تُو پکارے
دُعا میں مانگا تھا چین دل کا
بھرے ہیں جھولی میں کیوں شرارے
مجھے بھی اُن میں شمار کرنا
جو کچھ سہاروں میں بے سہارے
ازل سے بچھڑا ہوں ساحلوں سے
کہ پھر نہ دیکھےکبھی کنارے
مرے تخیل کو پا سکے جو
وہ میرے لہجے کا رنگ نکھارے
عظیم راہِ کیا راست لائیں
یہ تجھ کو بھٹکے ہوئے ستارے
 

طارق شاہ

محفلین
شہزاد عظیم صاحب!
پھر تو آپ میں اور مجھ میں مماثلت ہوئی کے املہ کی غلطی مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے:)
صفائی کے نمبر سے ہمیشہ ہی محروم رہا ۔

جواب کے لئےممنون ہوں!
استادوں کا کہا ہے، کہ جب لکھ چکو تو چند دن کے وقفہ سے، کم از کم دو بار دیکھ لینے سے خود اپنی نظر، نظرِ ثانی کا کام کرتی ہے
اور تخلیق نکھر جاتی ہے، کبھی کبھی زود گوئی بھی معیار متاثر کرتی ہے۔ یہ سب لکھنا یوں ضروری جانا کہ آپ میں ندرت خیال ماشااللہ ہے
باقی باتیں طریقہ یا عادت اپنانے سے بہتر سے بہترین ہوجائیں گی، سو لکھتے رہیں، نیک خواہشات آپ کے لئے
تشکّر ایک بار پھر سے
بہت خوش رہیں :)
 

عظیم

محفلین
بہت خوب عظیم شہزاد۔ بہتری کی گنجائش ضرور ہے، ایک آدھ تو فاش غلطی ہے، ‘رنگ نکھارے‘ میں گاف کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔

بے حد شکریہ کہ آپ نے میری اس کاوش کو اپنا قیمتی وقت بخشا ۔۔۔​
بجا فرمائےآپ نے بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔۔۔ اور رنگ نکھارے کی جگاہ کوئی دوسری ترکیب سوچتا ہوں
دعائیں
 

عظیم

محفلین
ہے کس قدر اُداسی تیرے تو اس جہاں میں
خود لا مکاں میں بیٹھا پھینکا ہمیں مکاں میں
غیروں کے نام شہرت رسوائی سر ہمارے
مسلم کا خاک بستر کافر ہے کہکشاں میں
حمد و ثناء کو تیری قابل نہ لفظ ٹھہرے
تیرا ہی ذکر ہوگا قدرت جو دے زباں میں
فکرِ معاش میں ہی عمرِ رواں گنوا دی
کرنے کو تُو بتا دے رکھا تھا کیا زماں میں
تنہا بھی پار کر کے آئے ہیں دشت و صحرا
ایسے بھی لوگ دیکھے بھٹکے جو کارواں میں
سلجھے ہووں کو کتنا الجھن میں ڈال رکھا
الجھے ہووں کو کتنی سلجھن دکھے بیاں میں
تجھ سے عظیم ہم کو اتنا ہی بس گلہ ہے
اپنا نہ ذکر لائے اپنی ہی داستاں میں
 
واہ بھئی۔ بہت سی داد اس مناسب غزل کے لیے۔ خیالات ہمیشہ کی طرح لاجواب۔ اس پر بحث نہیں۔
ہاں پوری غزل میں سہلِ ممتنع اتنا زیادہ ہے کہ مجھے تو تعقیدِ شعری معلوم ہوتی ہے۔ پھر پہلا مصرع تو واقعی اسکا پہلا شکار ہے۔ "تیرے" کے بعد "تو" محض بھرتی کا لگ رہا ہے۔ غزل میں اور بھی سقم ہیں۔ اساتذہ دیکھو کیا کہتے ہیں۔
در ہر صورت ندرتِ خیال کی تو بات ہی اور ہے میاں تمہارے۔
 
میں پیارے بھیا مہدی نقوی صاحب سے متفق ہوں ۔ اشعار میں الفاظ کی بے ترتیبی ، ابہام اور زبردستی کی قافیہ پیمائی موجود ہے۔ لفظ " پھینکا" قطعاً مناسب نہیں، یہاں "بھیجا " استعمال کیا جا سکتا تھا۔ خیراس بحث سے ہٹ کر میری التجا صرف اتنی سی ہے کہ اللہ سوہنے سے شکوہ کرنے سے پہلے اس کی بارگاہ عالی میں شکوہ لکھنے کے آداب بحرصورت یاد رہیں۔سر علامہ اقبال کے شکوہ کا ایک ہی مصرع " شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو" سمجھنے والوں کیلئے کافی ہے۔ حمد نعت یا شکوہ لکھتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں ازحد احتیاط بیحد لازم ہے ۔ یہ تو دو دھاری تلوار پر چلنے سا نازک سخن ہے۔ اللہ پاک ہم سب کےسخن میں برکت عطا فرمائے۔ یہ کھری تنقید آپکے سخن کی بہتری کیلئے ہے۔ عیوب دیکھ کر بھی صرف واہ واہ کرنے کو میں شاعر سے دشمنی کے مترادف سمجھتی ہوں۔ اگر آپکو میری یہ تنقید اورگزارشات بری لگی ہوں تو میں معافی کی خواستگار ہوں۔
 

عظیم

محفلین
آ کر مرے مزار پہ اک بار دیکھنا​
مر کر بھی جی اُٹھینگے یہ مردار دیکھنا​

ہائے نصیب اُن کے کہ جن کو ہوا نصیب​
قبل از دمِ اخیر وہ دلدار دیکھنا​

شاید رقم عبارتِ قسمت میں تھا یہی​
تیرے نگر کے کوچہ و بازار دیکھنا​

گر میں نہیں رہوں بھی فسانے میں بُود کے​
آئیں گے مجھ سے اور بھی کردار دیکھنا​

دکھ درد کی حدوں سے گزر کر تو ایک دن​
اپنی دوا کریں گے یہ بیمار دیکھنا​

کہہ دو عظیم اُن سے بہت سُن لیا جنہیں​
اب تم ہماری شوخیِ گفتار دیکھنا​
 
آ کر مرے مزار پہ اک بار دیکھنا​
مر کر بھی جی اُٹھینگے یہ مردار دیکھنا​

ہائے نصیب اُن کے کہ جن کو ہوا نصیب​
قبل از دمِ اخیر وہ دلدار دیکھنا​

شاید رقم عبارتِ قسمت میں تھا یہی​
تیرے نگر کے کوچہ و بازار دیکھنا​

گر میں نہیں رہوں بھی فسانے میں بُود کے​
آئیں گے مجھ سے اور بھی کردار دیکھنا​

دکھ درد کی حدوں سے گزر کر تو ایک دن​
اپنی دوا کریں گے یہ بیمار دیکھنا​

کہہ دو عظیم اُن سے بہت سُن لیا جنہیں​
اب تم ہماری شوخیِ گفتار دیکھنا​

واہ بہت خوب کلام ہے، بہت سی داد!:)
 

عظیم

محفلین
مسکرائے جو کبھی آنکھ میں آئے آنسو​
رنج کیا ہم نے تو راحت میں بہائے آنسو​

بس یہی ہم سے غریبوں کی متاعِ جاں ہے​
عمرِ رفتہ سے فقط ہم نے کمائے آنسو​

جب بھی مطلوب ہُوا درد چھپانا ہم کو​
اپنے چہرے پہ تبسم سے سجائے آنسو​

اِن کو دیکھیں گے تری آنکھ میں کیسے ہمدم​
ہم سے دیکھے نہ گئے جب کہ پرائے آنسو​

کیا کریں اب تو یہ لفظوں میں عیاں ہوتے ہیں​
ایک مدت سے جو ہم نے تھے چھپائے آنسو​

کچھ عظیم اپنی جوانی میں بہا ڈالے ہیں​
کچھ ہیں پیری میں بہانے کو بچائے آنسو​
 
Top