حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
اپ نے درست فرمایا ۔۔۔۔ صرف تکفیر ہی نہیں بلکہ "کی" بھی قرآن میں نہیں استعمال ہوا۔۔ ابھی بتایا کہ یہ ترکیب اردو زبان میں بات سمجھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے اور اس کے مثال بھی دے دی ۔۔

آُپ کی باتوں سے غیر ذمہ داری اور چونچال پن کا اظہار ہو رہا ہے۔ میں بھی غیر سنجیدہ ہوجاتا ہوں اور "اہم" معاملات پہلے طے کرتا ہوں ۔ "ام نور العین" کی ترکیب بھی قرآن مٰں استعمال نہیں ہوئی۔ کیا وجہ ہے کہ قرآں جن کا سٹینڈرڈ ہے ، وہ ایسی غیر قرآنی ترکیب استعمال کریں؟


اگر آپ کو دلچسپی ہے تو سنجیدہ بات کرتے ہیں ۔۔۔ ورنہ "الف" کے معانی دریافت کرتے ہیں :)

اور اگر اجازت ہو تو ان آیات کی طرف آجاتے ہیں جو آپ نے پیش کیں۔۔۔

والسلام
 
قرآں حکیم اللہ تعالی کی آیات کا مجموعہ ہے، ان آیات کو جھٹلانا ، قرآن حکیم کو جھٹلانا ہے۔ جو لوگ قران کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان لوگوں نے کفر کیا۔ اللہ تعالی کی آیات کی تکذیب کو ، میں نے اردو میں لکھا ----- قرآں کی تکفیر ----
اس نکتہ پر آیات پیش کرچکا ہوں۔۔۔ "تکفیر" کی ترکیب پر یہ لنک دیکھ لیجئے :)
آپ نے شائید "چینی" زبان میں سمجھنے کی کوشش کی۔ اردو زبان میں ایسی ترکیب عام استعمال ہوتی ہے ۔ کوشش کیجئے کہ اس موضوع پر رہئیے ۔ etymology یا تصریف پھر سمجھ لیجئے گا۔ اس طرف میں آنے والا ہوں تھوڑی دیر بعد۔
اور اگر ایسا ہی غیر سنجیدہ کھیل کھیلنا ہے تو خواہر محترم میں بھی غیر سنجیدگی اختیار کرلیتا ہوں ۔۔۔
والسلام

جناب ربط كام نہيں كر رہا
etymology یا تصریف پھر سمجھ لیجئے گا۔
يعنى كہ eytomology not found!
آپ نے شائید "چینی" زبان میں سمجھنے کی کوشش کی۔ اردو زبان میں ایسی ترکیب عام استعمال ہوتی ہے ۔
اور اگر ایسا ہی غیر سنجیدہ کھیل کھیلنا ہے تو خواہر محترم میں بھی غیر سنجیدگی اختیار کرلیتا ہوں ۔۔۔
جناب اس عام استعمال شدہ تركيب كے استعمال کنندگان ، تاريخ ، شواہد ہی كا سوال ہے۔ كيا عنايت ہو سکتے ہیں؟ گستاخى معاف ۔ :)
ميرے انتہائى سنجيدہ سوالات كا جواب ابھی باقى ہے۔ بس اس آخرى سنجيدہ سوال پر ہنسی چھوٹ گئی ۔ اور اب وضاحت ديكھ كر تو مزيد لطف آيا ۔ :)
 
خانہ ساز قران حکیم؟
قرآن حکیم کے تمام ریفرنس میں ، قرآن حکیم ، اس کے معانی اور اس تصریف کے ساتھ پیش کروں گا۔ آپ کو کوئی فرق ملے تو ضرور مطلع فرمائیے۔

لنک یہ ہے http://openburhan.net/

الحمد للہ ، اللہ تعالی کے شکر کے ساتھ، یہ اسی معمولی طالب علم قرآن کی عاجزانہ کاوش ہے۔

والسلام
والسلام
 
مجھے اندازہ ہے کہ مناسب مخالفت، بذلہ سنجی اور لفاظی میں کھو جاتی ہے :) آپ لطف اٹھائیے اور اس مسخرے پن سے لطف اٹھانے کا دوسروں کو موقع دیجئے :)

میں اس دوران نکات پر زور دیتا ہوں :)
 
اصل پیغام ارسال کردہ از: ام نور العين
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّ۔هِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّ۔هُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ۔ سورة النساء : آيات 155 تا 159
ترجمہ : (یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں (١٥٥) اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث (١٥٦) اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا (١٥٧) بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے (١٥٨) اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے (١٥٩)

ان آيات كريمہ ميں یہود كو سزا ملنے كے جو اسباب بتائے گئے ہیں ان ميں سے ايك جرم يہ بھی ہے کہ وہ دعوى كرتے تھے كہ انہوں نے حضرت عيسى عليہ السلام كو قتل كر ديا تھا جب كہ قرآن كريم وضاحت سے بيان كرتا ہے کہ اللہ تعالى نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ آخرى آيت ميں دليل ہے کہ قيامت سے پہلے وہ دنيا ميں تشريف لائیں گے اور تمام اہل كتاب ان پر ان كى موت سے قبل ايمان لائيں گے۔ مستقبل كا صيغہ واضح دلالت كرتا ہے کہ ايسا نزول قرآن كريم كے بعد ہوگا۔ يعنى ابھی حضرت عيسى عليہ السلام حيات ہیں اور زندہ شخص كا مقبرہ دريافت كرنا كوئى معنى نہیں رکھتا۔

4:155 فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بَآيَاتِ اللّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً
پس (انہیں جو سزائیں ملیں وہ) ان کی اپنی عہد شکنی پر اور آیاتِ الٰہی سے انکار (کے سبب) اور انبیاء کو ان کے ناحق قتل کر ڈالنے (کے باعث)، نیز ان کی اس بات (کے سبب) سے کہ ہمارے دلوں پر غلاف (چڑھے ہوئے) ہیں، (حقیقت میں ایسا نہ تھا) بلکہ اﷲ نے ان کے کفر کے باعث ان کے دلوں پر مُہر لگا دی ہے، سو وہ چند ایک کے سوا ایمان نہیں لائیں گے

اس آیت 4:155 میں ہم کو کہیں بھی یہ معلومات نہیں ملتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان میں چلے گئے اور آسمانوں میں زندہ ہیں۔


4:156 وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا
اور (مزید یہ کہ) ان کے (اس) کفر اور قول کے باعث جو انہوں نے مریم (علیہا السلام) پر زبردست بہتان لگایا

یہ آیت مریم علیھا السلام پر لگائے گئے بہتان کے بارے میں ہے ، اس آیت میں بھی کہیں یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ عیسی ابن مریم زندہ ہیں اور آسمانوں میں ہیں۔

4:157 وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَ۔كِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لیے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میںَ اور نہیں ہے انہیں اس واقع کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا!۔

یہاں ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے دعوے کرتے ہیں وہ نا تو ان کو سولی پر چڑھا سکے اور نا ہی ان کو قتل کرسکے ۔۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کا قتل ہی نہیں ہوا نا کہ سولی پر چڑھا سکیں۔ کچھ لوگوں نے ان کے قتل یا سولی پر چڑھائے جانے کے بارے میں جو بھی سمجھا اپنے گمان کی پیروی کی ۔۔۔۔ مسیح یقیناً قتل نہیں ہوئے۔

اب تک کوئی اختلاف نہیں ہے میرا یا کسی دوسرے کا۔

پچھلی آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مسیح نا تو قتل کئے گئے اور نا ہی مصلوب ہوئے یعنی ان کی بے عزتی نہیں ہوئی۔ "بلکہ" ان کو عزت سے اللہ تعالی نے اپنی طرف اٹھا لیا۔

4:158 بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اﷲ غالب حکمت والا ہے

اس آیت میں بھی اللہ تعالی زندہ اٹھانے یا موت کے بعد اٹھانے کی بات نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ بتارہے ہیں کہ وہ زمیں سے اٹھائے جاچکے ہیں ۔۔۔ زندہ یا موت کے بعد؟ اس سوال کو واضح جواب اس آیت میں موجود نہیں ہے۔

اب آتے ہیں 4:159 پر ۔۔۔ آیت درج کررہا ہوں۔۔ 4:158 تک ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف کس طور اٹھائے گئے۔ یہاں تک اثبات ظاہر کیجئے تو آگے بڑھتے ہیں اور 4:159 کو دیکھتے ہیں۔ کہ اس کے معانی کیا ہیں۔

4:159 وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
شبیر احمد: اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔
 
اب آتے ہیں 4:159 پر ۔۔۔ آیت درج کررہا ہوں۔۔ 4:158 تک ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف کس طور اٹھائے گئے۔ یہاں تک اثبات ظاہر کیجئے تو آگے بڑھتے ہیں اور 4:159 کو دیکھتے ہیں۔ کہ اس کے معانی کیا ہیں۔

4:159 وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
شبیر احمد: اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

ميرا سوال نمبر 1 اسی آخرى حصے کے متعلق تھا جس كى كوئى توضيح جناب نے ذكر نہيں فرمائى ۔

جناب خان صاحب برائے مہربانى ان آيات كريمہ كا مطلب سمجھا ديجیے۔
1-قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟

2-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
3-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟

اميد ہے ايك طالبہ علم كو قرآن فہمى ميں مدد دينے ميں بخل نہ كريں گے۔
والسلام
 
خواہر محترم السلام علیکم۔

آُپ کے سوال کا شکریہ ۔ ہم اب 4:159 پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور باقاعدہ تصریف کرکے درست معانی لکھتے ہیں۔ فی الحال ہمارا مقصد صرف اور صرف درست معانی اخذ کرنا ہے۔ آُپ کے تینوں سوالات کے جوابات ہمارا اتفاق ہوجانے کے بعد۔ آُپ اس تصریف کو دوسرے اساتذہ کی مدد سے تصدیق بھی کرلیجئے۔ ذہن میں رکھئے کہ سوالات کے جوابات ہمارا ترجمے پر اتفاق ہوجانے کے بعد۔


عربی نا میری پہلی زبان ہے اور نا ہی مادری زبان بلکہ میری عربی بہت کمزور ہے، جیسا کہ آُپ نے فرمایا کہ "عربی زبان کے اسالیب سے ناواقف ہوں"۔ میرا اس سے کامل اتفاق ہے ۔۔۔ اس آیت کا حرف بہ حرف تجزیہ اپنی کم علمی کے ساتھ کررہا ہوں۔ اگر کسی احباب یا اصحاب کو کوئی غلطی نظر آئے تو درستگی فرمادیں۔

اس تجزیہ میں ہر لفظ کی عربی grammer اور انگریزی گرامر morphology ، ہر لفظ کے اردو اور انگریزی معانی اور آخر میں اس آٰیت کے انگریزی اور اردو معانی دئے گئے ہیں۔

4:159 وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

وَإِن --- الواو عاطفہ و حرف - اور نہیں کوئی And (there is) not
prefixed conjunction wa (and) PART – particle

مِّنْ --- حرف جر --- میں -- سے from
preposition

أَهْلِ --- اسم مجرور --- لوگوں the People
genitive masculine noun

الْكِتَابِ --- اسم مجرور -- کتاب والے of the book
genitive masculine noun

إِلاَّ --- حرف -- لیکن - ماسوائے - مگر but
particle

لَيُؤْمِنَنَّ -- اللام لام التوكيد ، فعل مضارع -- یقیناً وہ ایمان رکھتا ہے surely he believes
prefixed emphatic particle lām and – 3rd person masculine singular - imperfect verb

بِهِ -- جار ومجرور -- اس (شخص ) میں In him
prefixed preposition bi and – 3rd person masculine singular personal pronoun

قَبْلَ --- ظرف زمان منصوب --- قبل یا اس سے پہلے before
accusative time adverb

مَوْتِهِ --- اسم مجرور والھاء ضمير متصل في محل جر بالاضافہ --- اس (شخص) کی موت His Death
genitive masculine noun --- 3rd person masculine singular possessive pronoun

وَيَوْمَ --- الواو عاطفۃ -- اسم منصوب --- اور اُس دن and (on) the day
prefixed conjunction wa (and) – accusative masculine noun

الْقِيَامَةِ -- اسم مجرور --- اٹھائے جانے کے / قائم ہونے کے / قیامت (کے دن) of the Resurrection
genitive feminine plural noun

يَكُونُ --- فعل مضارع --- وہ ہوگا He will be
3rd person masculine singular imperfect verb

عَلَيْهِمْ --- جار ومجرور --- ان کے لئے یا ان کے سامنے - Against them
preposition – 3rd person masculine plural object pronoun

شَهِيدًا --- اسم منصوب --- گواہ a witness
accusative masculine singular indefinite noun


اس آیت کے ممکنہ اردو تراجم میری محدو د عربی زبان کی معلومات کے مطابق:
اور نہیں کوئی کتاب والے لوگوں میں سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اِس (عیسی علیہ السلام کے بارے)‌ میں اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اِس کا گواہ۔
اور نہیں کوئی اہل کتاب میں‌سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اُس (عیسی علیہ السلام)‌ پر اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اُن کے گواہ۔

And there is not from the people of book but surely he believes in him before his death and on the day of the resurrection, he will be a witness for them.

اس آیت میں یہ کہیں‌نہیں‌ملتا کہ عیسی علیہ السلام مستقبل میں زندہ آئیں گے بلکہ پچھلی دو آیات کے واقعات کی تصدیق میں‌یہ بتایا جارہا ہے کہ جو اہل کتاب ان کے ساتھ تھے وہ ان کی موت سے قبل اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نہ وہ مصلوب کئے گئے اور نہ ہی ان کا قتل ہوا -- یہ ایمان ان کا حضرت عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے تھا۔ اسی لئے یہ اہل کتاب مومن کہلائے۔ خود ان اہل کتاب لوگوں پر حضرت عیسی علیہ السلام گواہ ہونگے۔

تو کیا کہ ان کو وفات دے کر اللہ تعالی نے اوپر اٹھا لیا ۔ یا زندہ اوپر اٹھا لیا ۔۔ اس کا کوئی تذکرہ اس آیت میں‌ہے نہیں۔

لیکن یہ واضح ہے کہ ان کی موت واقع ہوئی ۔ اہل کتاب میں سے ایسا کوئی نہیں ہوا جس کا ان کی موت سے پہلے اس بات پر (کہ نا تو ان کو مصلوب کیا گیا اور نا ہی وہ قتل ہوئے) ایمان نہیں ہوا۔ اسی لئے وہ مومن اہل کتاب کہلائے۔

جیسا کہ میں نے عرض‌کیا کہ میں طالب علم قرآن ہوں ، عربی میری پہلی یا مادری زبان نہیں ہے اس لئے قواعد و گرامر میں کمزور ہوں۔ جو حضرات بہتر عربی جانتے ہیں اس آیت کے تجزیہ میں اگر کوئی خامی پاتے ہیں‌ تو ہم سب کے علم میں اضافہ فرمائیں۔

والسلام
 
میں یہ سمجھ رہا ہوں‌کہ یہاں‌ کسی کے پاس قرآن حکیم سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ اوپر اٹھائے گئے اور زندہ واپس آئیں‌گے۔ ان آیات کی کھوج و استدعا بارہا کرچکا ہوں جو اس طرح کا فرمان الہی رکھتی ہوں۔ لیکن ہر بار اصحاب و احباب تاویلات سے کچھ روایات سے ان مصدقہ آیات کی نفی کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

آپ کی آسانی کے لئے موت والی آیات ایک بار پھر:
وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اہلِ کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں جو یقیناً ایمان نہ لایا ہواس (مصلوب نہ ہونے اور قتل نہ ہونے )‌ پر اس (مسیح) کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا (مسیح) ان پر گواہ۔

اس آیت میں بھی نہ زندہ اٹھانے اور نہ ہی زندہ واپس آنے کا کوئی تذکرہ ہے۔

بنیادی طور پر اس آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ

قیامت کے دن ، عیسی علیہ السلام ان اہل کتاب لوگوں پر گواہ ہوں گے جو عیسی علیہ السلام کی (طبعی)‌ موت سے پہلے عیسی علیہ السلام پر اور اس بات پر ایمان لائے جو اس سے پہلے کی آیات میں بیان کی گئی ہے ‌( کہ نہ ان کا قتل ہوا اور نہ ان کو مصلوب کیا گیا)۔

جب کہ روایات پر یقین رکھنے والے فرقہ اس آیت کو مستقبل میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زندہ آمد کے بعد ہونے والی موت سے مراد لیتے ہیں۔ اس آیت میں‌کہیں بھی یہ نہیں‌کہا گیا کہ وہ زندہ آئیں گے بھی۔

یہ کہنا کہ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں‌ہوگا جو عیسی کی موت سے پہلے ان پر اور اس حقیت پر ایمان نہ لے آیا ہو کہ ان کو نہ قتل کیا گیا اور نہ ان کو مصلوب کیا گیا -------- ہم کو یہ بتاتا ہے کہ کہا جارہا ہے کہ اہل کتاب کو ایسا یقین ان کی موت سے پہلے ہوا، یہ نہیں‌کہا جا رہا کہ ان کی موت ان کے زندہ نازل ہونے کے بعد ہوگی۔

صاف بات ہے کہ جو اہل کتاب مومنین اس وقت زندہ تھے، اس بات کو جانتے تھے کہ نہ عیسی علیہ السلام قتل ہوئے اور نہ ہی مصلوب ، اس لئے کے یہ اہل کتاب عیسی علیہ السلام کے ساتھ اس واقعے کے بعد بھی تھے ۔ لہذا عیسی علیہ السلام کی طبعی موت سے پہلے ان پر ایمان لائے اوران امور (نہ قتل ہونے اور نہ مصلوب ہونے ) کے گواہ رہے۔

1۔ ایسا کہنا کہ اس آیت میں درج ہے کہ عیسی علیہ السلام دوبارا زندہ آسمان سے نازل ہونگے ، اس آئت میں کہیں‌ نہیں‌ لکھا۔
2۔ ایسا کہنا کہ "اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا"، جو عیسی علیہ السلام کی مستقبل میں‌ہونے والی موت پر ایمان نہ لے آئے ، بھی درست نہیں
اس لئے کہ بہت سے اہل کتاب (مومن نہیں) آج بھی عیسی علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اسی حالت میں‌مر جاتے ہیں۔ ان کا شمار کس طرف ہوگا؟

لہذا اس بات کو تسلیم کر لینے میں کوئی برائی نہیں کہ عیسی علیہ السلام کی وفات یعنی موت واقع ہوئی اور اس کی وجہ نہ قتل تھی اور نہ ہی مصلوب ہونا۔

ان کی وفات کی تفصیل ان دو آیات (المائیدہ 115 اور 116 ) میں مزید دی گئی ہے جہاں‌ ان کی وفات کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ پہلے فراہم کی جاچکی ہیں۔۔ اس آیت (النساء 159) بھی لفظ "موتہ" سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مسیح کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور قیامت کے دن مسیح ان لوگوں‌ پر گواہ ہونگے جو ان پر اور ان سے متعلق اس بات کو جانتے اور ایمان رکھتے تھے کہ ان کی موت نہ قتل سے ہوئی اور نہ مصلوب ہونے سے ۔

آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات ، انشاء اللہ تعالی آیندہ مراسلے میں ۔۔۔
والسلام
 
-قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟


اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کہ -- عیسی علیہ السلام آئیں گے اور کوئی بھی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ان پر ایمان نا لایا ہو ---اس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ پہلی قباحت یہ ہے کہ حضرت عیسی کی موت پر یقین رکھنے والے اہل کتاب موجود ہیں، دوسری قباحت یہ کہ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے آسمان میں جانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو خدا کا بیٹا بھی مانتے ہیں اور ایسی ہی حالت میں مر بھی جاتے ہیں۔ ان کو ہم کس گنتی میں ڈالیں؟ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی اور ان کی والدہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ایسے اہل کتاب مر بھی گئے ہیں۔ تو " کوئی بھی ایسا اہل کتاب نہیں ہوگا" اس تناظر میں درست نہیں رہتا۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے اہل کتاب مردہ ہو چکے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔


2-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
نا ان کو قتل کیا گیا اور نا ہی ان کو مصلوب کیا گیا۔ قرآں حکیم گواہی دیتا ہے کہ جناب بوڑھی عمر میں بھی دعوت دیں گے۔۔۔ لہذا جناب کی وفات اس عمر کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرنے والی آیات بعد میں۔

3-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وقت کے فاصلے کے سنگ میل "واقعات" کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہ "ایونٹس" یا واقعات وقت کے فاصلے کا تعین کرتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو قیامت کی نشانی ڈیکلئر کرتے ہیں۔ یہ نشانی آچکی ہے ۔۔۔
قرآن حکیم کے بیانات اور نشانیوں کے بعد قیامت کی کسی مزید نشانی کا کسی انسان کو پتہ ہے؟؟؟۔ اس بارے میں قرآن کی آیات کے حوالے بعد میں ۔ کہ قیامت کی آنے والی نشانیوں کے بارے میں قرآن حکیم کیا تعین کرتا ہے ۔؟؟؟ اس سے موضوع تبدیل ہوجائے گا۔ لہذا کوئی ریفرنس فراہم کرنے سے احتراز کررہا ہوں۔

والسلام
 
ميرے سوالات كے جوابات مرحمت فرمانے كا شكريہ ، ناگوار خاطر نہ ہو تو ذرا مزيد زحمت فرمائيے :
1-"تكفير" كے متعلق جو ربط عنايت فرمايا تھا اس پر كلك كرنے سے نتيجہ آتا ہے
برائے مہربانى متبادل ربط فراہم كر ديجیے۔
2- تازہ مراسلے میں جناب نے آيت قرآنى کا جو ترجمہ بزبان اردو و انگريزى درج فرمايا ہے وہ كس مترجم كا ہے؟ جيسا كہ اس سے قبل ايك مراسلے میں اسى آيت كريمہ كا ترجمہ "شبير احمد آف فلوريڈا " كا درج فرمايا تھا؟
3- جناب كے نزديك Eytomology تصريف ہے تو morphologyكيا ہے ؟

اس آیت کے ممکنہ اردو تراجم میری محدو د عربی زبان کی معلومات کے مطابق:
اور نہیں کوئی کتاب والے لوگوں میں سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اِس (عیسی علیہ السلام کے بارے)‌ میں اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اِس کا گواہ۔
اور نہیں کوئی اہل کتاب میں‌سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اُس (عیسی علیہ السلام)‌ پر اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اُن کے گواہ۔

And there is not from the people of book but surely he believes in him before his death and on the day of the resurrection, he will be a witness for them.
اس آیت میں یہ کہیں‌نہیں‌ملتا کہ عیسی علیہ السلام مستقبل میں زندہ آئیں گے بلکہ پچھلی دو آیات کے واقعات کی تصدیق میں‌یہ بتایا جارہا ہے کہ جو اہل کتاب ان کے ساتھ تھے وہ ان کی موت سے قبل اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نہ وہ مصلوب کئے گئے اور نہ ہی ان کا قتل ہوا -- یہ ایمان ان کا حضرت عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے تھا۔ اسی لئے یہ اہل کتاب مومن کہلائے۔ خود ان اہل کتاب لوگوں پر حضرت عیسی علیہ السلام گواہ ہونگے۔
اب آتے ہیں 4:159 پر ۔۔۔ آیت درج کررہا ہوں۔۔ 4:158 تک ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف کس طور اٹھائے گئے۔ یہاں تک اثبات ظاہر کیجئے تو آگے بڑھتے ہیں اور 4:159 کو دیکھتے ہیں۔ کہ اس کے معانی کیا ہیں۔
4:159 وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
شبیر احمد: اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

باذن اللہ مزید گفتگو ان نكات كى توضيح كے بعد .
 
جيسا كہ اس سے قبل ايك مراسلے میں اسى آيت كريمہ كا ترجمہ "شبير احمد آف فلوريڈا " كا درج فرمايا تھا؟
جواب
یہ ترجمہ قرآن آسان تحریک کے مولانا شبیر احمد کا تھا۔ ڈاکٹر شبیر احمد فلوریڈا کا نہیں.

- تازہ مراسلے میں جناب نے آيت قرآنى کا جو ترجمہ بزبان اردو و انگريزى درج فرمايا ہے وہ كس مترجم كا ہے؟
جواب
یہ ترجمہ عربی زبان کی گرامر کے لحاظ سے میں نے خود کیا ہے، اس ترجمے میں کیا خامی ہے اس پر روشنی ڈالئے۔

ميرے سوالات كے جوابات مرحمت فرمانے كا شكريہ ، ناگوار خاطر نہ ہو تو ذرا مزيد زحمت فرمائيے :
1-"تكفير" كے متعلق جو ربط عنايت فرمايا تھا اس پر كلك كرنے سے نتيجہ آتا ہے

جواب
اللہ تعالی کے فرمان قرآن کی آٰیات کی تکذیب کو اللہ تعالی کفر قرآر دیتے ہیں۔ اس پر کیا اعتراض ہے؟

إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ
جواب :

آپ بتائیے کہ آیت کے اس حصے میں --- إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ --- میں مستقبل کا صیغہ ہے یا حال کا صیغہ ہے؟ اگر حال کا صیغہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا ترجمہ مستقبل میں کیا جائے؟

مستقبل کے صیغے کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسئلے کو بھی واضح کیا ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو مصلوب ہونے اور قتل پر ایمان رکھتے رہے ۔ ان کو کس گنتی میں شمار کیا جائے گا؟

والسلام
 
اب تک قرآن حکیم سے کوئی حوالہ ایسا نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر صاف صاف یہ کہا جاسکے کہ حضت عیسی کو زندہ آسمان میں اٹھا لیا گیا ہے۔۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمانوں کا یہ ایمان ہے جو کہ سنی سنائی بات پر ہے۔ میں خود بھی اسی کہانی پر ایمان رکھتا تھا۔ کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں اور قیامت سے پہلے نازل ہوں گے۔ جب تک کہ میں نے خود قرآن حکیم نہیں پڑھا۔
اوپن برہان مرتب کرنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ قرآن حکیم سمجھنے میں آسانی ہو۔ سب سے پہلے ہم نے تمام مترجمیں کے تراجم جمع کئے۔ پھر قرآن کے روٹ الفاظ کا انڈیکس بنایا۔ اور پھر قرآن کے ہر لفظ کی گرامر لکھی۔ یہ کام طویل اور صبر آزما تھا لیکن اس کام کے نتیجے میں ایک بات تو یہ سامنے آئی کہ میری محدود معلومات اور محدود علم کے مطابق، قرآن حکیم میں ایک بھی ڈیفیکٹ نہیں ملا کوئی آیات ایک دوسرے کی تردید نہیں کرتی۔ کوئی جھول اتنے بڑے متن میں نہیں ملتا۔۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ 28 تراجم کو باریک بینی سے پروف ریڈ کیا ۔۔۔ کچھ برادران اس کے گواہ ہیں۔ آج کل جناب مودودی صاحب کا ترجمہ شامل کرنے پر کام کررہا ہوں۔ تراجم میں سقم موجود ہے۔ لیکن قرآں کے متن میں نہیں۔

دوسری بات یہ سامنے آئی کہ قرآن کچھ نظریات کی توثیق نہیں کرتا۔ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ اللہ تعالی کی طرف جانے کی یا زندہ واپس آنے کی۔ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات بہت ہی واضح طریقے سے بیان ہوئی ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے عقائید مسلمان ہونے کے بعد بھی جاری رکھے اور یہ قرآن کے بعد کی کتب میں مسلمانوں میں رائج ہوگئے۔


والسلام
 

عثمان

محفلین
لگتا یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے عقائید مسلمان ہونے کے بعد بھی جاری رکھے اور یہ قرآن کے بعد کی کتب میں مسلمانوں میں رائج ہوگئے۔والسلام

خوب جڑ پکڑی ہے صاحب ! :)
نزول مسیح اور دجال کہانی تو قرآن کریم کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ عیسائیت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کہانیوں کا کُھرا کہاں واقع ہے۔
 
جواب
یہ ترجمہ عربی زبان کی گرامر کے لحاظ سے میں نے خود کیا ہے، اس ترجمے میں کیا خامی ہے اس پر روشنی ڈالئے۔
بے حد شكريہ ، مجھے یہی جاننا تھا كہ يہ ترجمہ كس كا ہے۔ كيا آپ كا مكمل ترجمہ قرآن موجود ہے ؟ اگر ہاں تو مجھے اس كا مطالعہ كر كے خوشى ہوگی ۔ ازراہ كرم ايك نسخہ عنايت فرمائيے۔

اب سوال نمبر ايك كے متعلق ذيلى تساؤلات :
يہ فرما ديجئے کہ لفظ " ليؤمنن " كے معانى آپ کے نزديك حال كے ہيں مستقبل کے نہیں۔۔۔
A-قواعد زبان وادب كى رو سے وہ كيا اسباب ہيں کہ جناب اس لفظ كو علمى لحاظ سے صرف حال پر محمول كرنا درست سمجھتے ہیں مستقبل پر نہیں؟
B-اور جن مترجمين نے اس كو مستقبل پر محمول كيا ہے ان كا ترجمہ زبان وادب كے كن قواعد كى بنا پر غلط ہے؟؟؟؟

جواب
اللہ تعالی کے فرمان قرآن کی آٰیات کی تکذیب کو اللہ تعالی کفر قرآر دیتے ہیں۔ اس پر کیا اعتراض ہے؟
جناب آپ سے متبادل ربط كا سوال كيا تھا جس پر بقول آپ کے "قرآن كى تكفير" :) سے متعلق مواد تھا۔
جواب :
آپ بتائیے کہ آیت کے اس حصے میں --- إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ --- میں مستقبل کا صیغہ ہے یا حال کا صیغہ ہے؟ اگر حال کا صیغہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا ترجمہ مستقبل میں کیا جائے؟
مستقبل کے صیغے کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسئلے کو بھی واضح کیا ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو مصلوب ہونے اور قتل پر ایمان رکھتے رہے ۔ ان کو کس گنتی میں شمار کیا جائے گا؟

فى الوقت تو مجھے جناب كا موقف سمجھنے کے ليے اپنے طالب علمانہ سوالات کے جوابات كا انتظار ہے۔ (جن ميں سے ايك یہ تھا :
3- جناب كے نزديك Eytomology تصريف ہے تو morphologyكيا ہے ؟ :) )

آپ کے سوالات كے جوابات باذن اللہ تعالى بحث سميٹتے ہوئے دے دیے جائيں گے۔
 
خوب جڑ پکڑی ہے صاحب ! :)
نزول مسیح اور دجال کہانی تو قرآن کریم کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ عیسائیت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کہانیوں کا کُھرا کہاں واقع ہے۔

سادہ سا اصول ہے کہ عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں ہوتا۔ اگر قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کی خبر نہیں بھی دی، تو کیا اس خبر کا ہی انکار کر دیا جائے؟ ایسی ہی بات ہے تو قرآن تو جنازہ کے ذکر سے بھی خاموش ہے۔ وصیت کر جائیے گا کہ بغیر جنازہ ہی تدفین ہو تاکہ قرآنی حکم پر پورا پورا عمل ہو جائے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کے ثبوت پر صرف قرآن کی روشنی میں بات کرنے پر زور دینے والوں سے اگر کوئی پلٹ کر یہ سوال کر لے کہ جنازہ کا ثبوت بھی قرآن کی روشنی میں طے کر لیں۔ اگر واضح ثبوت مل جائے تو جنازہ نہ ماننے والے کافر، اور اگر جنازہ کا ثبوت نہ ملے تو جنازہ پڑھنے پڑھانے والے کافر، تو معلوم نہیں ان کا کیا جواب ہوگا؟

شاكر صاحب كے اس كمنٹ میں شافى جواب موجود ہے۔ مرضِ انكار حديث میں مبتلا افراد كو قرآن كريم سے نماز پنجگانہ كا ذكر بھی نہیں مل سكا تھا اس ليے بے چاروں نے كافى مشقت اٹھائى ۔ :) اس كا ذكر كبھی فرصت سے علمى لطائف ميں.
 

عثمان

محفلین
سنت اور حدیث ، بلکہ سنت جاریہ اور خبر واحدہ میں فرق سے قاصر افراد کے پلے لطائف ہی ہوسکتے ہیں ، علم اور دلائل کہاں۔ ;) ۔ نماز پنجگانہ کتب حدیث کے مصنفین کی پیدائش سے پہلے سے جاری ہے۔ اس معروف موضوع پر کیا بحث کرنی۔ بھینس کے آگے بین بجانے کا شوق نہیں۔
آپ کی موضوع سے ادھر ادھر بھاگنے کی لت سے میں خوب واقف ہوں۔ مجھے چھوڑیے ، خان صاحب کی طرف توجہ کیجئے جو ابھی تک موضوع پر آپ کے "دلائل" کے منتظر ہیں۔
 
اس آیت کے ممکنہ اردو تراجم میری محدو د عربی زبان کی معلومات کے مطابق:
اور نہیں کوئی کتاب والے لوگوں میں سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اِس (عیسی علیہ السلام کے بارے)‌ میں اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اِس کا گواہ۔
اور نہیں کوئی اہل کتاب میں‌سے مگر یقینا وہ ایمان رکھتا ہو اُس (عیسی علیہ السلام)‌ پر اُس ( عیسی علیہ السلام)‌ کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسی علیہ السلام)‌ ہونگے اُن کے گواہ۔

And there is not from the people of book but surely he believes in him before his death and on the day of the resurrection, he will be a witness for them.

والسلام

معزرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ آپکا کیا ہوا ترجمہ بالکل غیرفطری ہے۔۔۔بار بار پڑھنے کے باوجود کچھ پلے نہیں پڑتا کہ کیا کہا جارہا ہے۔ براہ کرم اس ترجمے کو بامحاورہ کردیجئے تاکہ مفہوم واضح ہوسکے۔
کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ “ اھل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ان پر انکی موت سے پہلے ایمان نہ رکھتا ہو اور وہ(حضرت عیسی علیہ السلام) قیامت کے دن انکے اس ایمان کی گواہی دیں گے“۔۔۔؟؟؟
اگر یہی بات ہے تو یہ ترجمہ کہیں زیادہ منطقی اور تاریخی اعتراضات کا محل ہے۔۔۔۔اہل کتاب میں یہودی اور عیسائی دونوں شامل ہیں یعنی توریت والے اور انجیل والے۔۔۔بتائے اگر آپکے دعوے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں تو یقینا یہودی ان پر ایمان لاچکے ہونگے۔۔۔لیکن مجھے تو ایسا کوئی یہودی نظر نہیں آیا ابھی تک۔
اصل بات یہی ہے کہ اس آیت کا وہ ترجمہ ہی درست ہے جو تمام مفسرین اور علمائے کرام نے ہر دور میں کیا ہے یعنی مستقبل کے حوالے سے۔۔اور یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے اختراع نہیں کی بلکہ عربی زبان کے قواعد اسکے گواہ ہیں، آیت کا قرینہ اسکا گواہ ہے کیونکہ مستقبل کے معنی کرنے سے ہی آیت کی سینس بنتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس ترجمے کی صحت پر سینکڑوں احادیث رفع و نزولٰ مسیح کی گواہ ہیں۔۔۔اگر بفرضٰ محال یہ احادیث نہ ہوتیں تو پھر آپکی بات پر غور کرنے کیلئے کچھ وقت نکالا جاسکتا تھا لیکن آپکے ترجمے کی تائید نہ کسی تفسیر و ترجمہ میں ہے، نہ کسی حدیث میں ہے، نہ منطق اور تاریخ سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی آپکی اپنی ویب سائیٹ پر ایسا ترجمہ ہے۔۔۔
 
اس پوسٹ میں میری شرکت بنیادی طور پر اس وجہ سے ہوئی تھی کہ ایک قادیانی صاحب حضرت عیسیٰ کے حوالے سے یہ دعوہ کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہو چکی ہے اور پھر یہی خدشہ تھا کہ وہ اگلے مرحلے پر مرزا کو حضرت عیسیٰ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔اس بات کا سد باب میری اولین خواہش تھی حالانکہ اب میرے پاس اتنا وقت ہے ہی نہیں کہ میں آن لائن کسی لمبی چوڑی بحث میں حصہ لے سکوں ۔
جناب فاروق سرور خاں صاحب نے جو، اب یہ موضؤع دوبارہ چھیڑا تو اس میں کوئی ایسی انوکھی بات نہیں وہ انٹرنیٹ کی دنیا کے غلام احمد پرویز ہیں نیٹ پر مختلف فورمز پر ان کی شناخت سے سب واقف ہیں انکار حدیث کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا تو اور کیا نکلے گا؟
بہر حال ان سے کوئی نیا مباحہ چھیڑنا مقصد نہیں بلکہ میں تو شاید یہ پوسٹ بھی نہ کرتا اگر ایک چیز یاد نہ آ جاتی۔

جون 2008 میں راہب صاحب نے اسی فورم پر ایک تھریڈ شروع کیا تھا عنوان تھا حضرت مہدی کون؟ اس پوسٹ میں ایک بڑی بحث محترم فاروق
سرور خان صاحب اور محترمہ مہوش علی صاحبہ کے درمیان ہوئی تھی اور حضرت مہدی کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ کے نزول کا مسئلہ بھی ابھر کر سامنے آیا تھا اس وقت مہوش کا موقف یہ تھا کہ اگر حضرت مہدی کا ذکر قرآن میں نہیں آیا تو حضرت عیسیٰ کے دوبارہ نزول کا ذکر بھی تو قرآن میں کھل کر بیان نہیں ہوا ہے، اس کے بر عکس جو موقف جناب خان صاحب نے اپنایا وہ آپ اس تھریڈ پر جا کر دیکھ سکتے ہین

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?12815-حضرت-مہدی-کون؟/page8
پوسٹ نمبر 74 سے اس بحث کا آغاز ہوتا ہے اس کا پہلا جواب میں یہاں نقل کر دوں

مہوش صاحبہ ، آپ نے درست دیکھا کہ میں نے قسیم حیدر صاحب کا شکریہ ادا کیا تھا ان کا مضمون حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی کے بارے میں ہے اور تفصیل وہاں موجود ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی سے یہ فرض کرلینا کہ اس کے ساتھ ساتھ جناب مہدی (‌اس نام سے یا اس خاصیت ) سے کوئی صاحب آئیں گے کسی طور ثابت نہیں ہوتا۔ نبوت کا سلسلہ رسول اکرم پر ختم ہوچکا ہے یہ مسلمانون کا عقیدہ ہے۔ اب کوئی مہدی (ہدیات دینے والا ، گائیڈ کرنے والا، یعنی لیڈر ) تو ہر وقت ہی موجود ہوتا ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی پر یقین رکھنا اور مہدی علیہ السلام کا نزول ہونا دو الگ الگ باتیں‌ہیں۔ عام ور پر یہ ماننا مشکل ہے کہ ہماری کتب روایات میں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ لیکن جب انہی کتب میں ایک طرف عبادات اور دوسری طرف غیر اسلامی نظریات۔ جیسے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، غلاموں اور باندیوں کی تجارت، کم عمر لڑکیوں سے شادی کا معاہدہ، فرد واحد کی حکومت اور ملائیت کا قوم کے مال اور حکومت پر قبضہ کی روایات کا پایا جانا واضح طور پر ان روایات کو ضوء القران میں دیکھنے کی ضرورت کو اہم بناتا ہے۔

اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا عیسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں؟ اس سلسلے میں زیادہ تر مسلمانوں کا نظریہ ہے کہ وہ واپس آئیں گے جبکہ ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ان کے واپس نہ آنے کو قرآن سے ثابت کرتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی بھی آیت سے کسی بھی دوسرے شخص یعنی جناب مہدی کا وجود سامنے نہیں آتا۔ (میں اپنے نطریات کا اظہار قسیم حیدر کے آرٹیکل میں شکریہ کی صورت میں کرچکا ہوں)
(قسیم صاحب کی پوسٹ کا لنک یہ ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?9417-مسیح-موعود-کون؟ اور اس پوسٹ پر جو کہ حضرت عیسیٰ کی واپسی کے دلائل سے پر ہے کے آخر میں آپ جناب فاروق سرور صاحب کا شکریہ دیکھ سکتے ہیں۔ ابن حسن)
جو لوگ حضرت عیسی کے واپس آنے کو ثابت کرتے ہیں وہ یہ آیات پیش کرتے ہیں :
سورۃ النسآء:4 , آیت:157 اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لیے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میںَ اور نہیں ہے انہیں اس واقع کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا!

سورۃ النسآء:4 , آیت:158 بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔ اور ہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا، بڑی حکمت والا۔
اس آیت میں 4:58 میں عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لئے لفظ - رفعہ - یعنی اس کو اوپر بلند کرنا ہے۔ اس آیت سے عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت نہیں ہوتی

اب اس سے اگلی آیت کو دیکھئے ، جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے

سورۃ النسآء:4 , آیت:159 اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

یعنی من حیث القوم تمام اہل کتاب حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ کیونکر ممکن ہوگا، زیادہ تر ان آیات سے حضرت عیسی کی واپسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ کہ وہ آکر وفات پائیں گے۔

اس کے برعکس قادیانیوں کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں تاکہ مرزا احمد کو مسیح موعود، نبی اور مہدی ثابت کیا جائے۔
اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے قادیانی کہتے ہیں کہ لفظ رفعہ سے مراد روح کا اللہ تعالی کی طرف بلند ہونا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی الفاظ بہت ہی احتیاط سے استعمال فرماتے ہیں، وفات کے لیے موت کے لفظ کا استعمال قرآن میں بہت عام ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان روایات کو تقویت ملتی ہے جو حضرت عیسی کے دوبارہ نزول کے بارے میں ہیں، جیسا کہ قسیم حیدر نے لکھا کہ اللہ تعالی، وفات یا بناء وفات، دوبارہ اتھانے پر قادر ہے۔ اور اسکا حوالہ بھی فراہم کیا ہے۔

کیا آپ کو ان تمام واقعات سے جناب مہدی کا نزول قرآن سےکسی طور سامنے آتا نظر آتا ہے؟ نام سے یا کسی ممکنہ اشارے سے؟ یا کسی دوسری آیات سے؟
اس سوال کے باجود، میرا نظریہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے، خوشیوں کو حاصل کرنے اور اس دینا کو پرام اور پر انصاف بنانے کے لئے استعمال کریں - نا کہ فرقہ واریت اور تفریق اور نفرتوں کو بڑھانے کے لئے۔ مہدی آئیں گے یا نہیں ، اس کا ثبوت قرآن میں ہے یا نہیں۔ اس سے مسلمان کا قرآن پرایمان کم نہیں‌ ہوتا۔ اور اس ایمان کے لئے اس سوال کا حتمی جواب ضروری نہیں۔

اب یہ پوری تھریڈ آپ پڑھ لیجے اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں یا تو مہوش کے ساتھ خان صاحب بحث برائے بحث کرتے ہوئے وقت کا زیاں کر رہے تھے اور علمی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے تھے یا وہ یہی اپنا عقیدہ بیان کر رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی ہو گی۔یہ بات اس لیے کہ رہا ہوں کہ جناب خان صاحب کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ ایسے مقامات پر جہاں ان کی گوٹ دبتی ہو گول مول انداز اپنانے کے بھی ماہر ہیہں۔

اس پھریڈ پر اب میری طرف سے بس۔ جس کو جو دل چاہے وہ عقیدہ اپنا لے ایک عقیدہ حضرت عیسیٰ کی آمدثانی و نزول آسمانی کا ہے جو چودہ سو سال سےا مت محمدیہ کا ہے اور جس کو جناب خان صاحب بھی اکثریت کا عقیدہ قرار دے چکے ہیں اور دوسرا اس کے بر عکس جس کے سرخیل اس وقت قادیانی اور منکر احادیث ہیں۔
ایک آخری بات یہ کہ اگر کسی کے پاس ٹائم ہو تو جناب خان صاحب کی وہ پوسٹ جس میں انہوں نے پوری نماز کی تفاصیل قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ ذرا ڈھونڈ کر یہاں دیں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ خان صاحب اپنے مقاصد کے لیے قرآن کی “من مانی تشریح“ و اخذ نتائج کس طرح کرتے ہیں۔

فاعتبرو یا اولی الابصار
 
اب تك ميرى جانب سے فاروق سرور خان صاحب كى خواہش کے مطابق " صرف قرآن كريم كى رو سے نزول سيدنا عيسى (عليه ازكى السلام )" پر بات ہوئی ہے۔ كسى حديث شريف كسى صحيح يا صعيف روايت كا حوالہ ميرى جانب سے نہيں دیا گيا ، ليكن اب جناب خان صاحب يكايك خاموش ہيں ۔ كہاں تو دن بھر ميں چار چار مراسلوں ميں ايك ہی رٹ تھی كہ نزول مسيح عليہ السلام كا ذكر قرآن كريم ميں کہیں نہیں اور كہاں يہ عالم ہے كہ صرف ايك قرآنى لفظ "ليؤمنن " كے "فاروق سرور خانى ترجمے" کے متعلق دو آسان سے سوالات كا جواب اب تك ندارد:
بے حد شكريہ ، مجھے یہی جاننا تھا كہ يہ ترجمہ كس كا ہے۔ كيا آپ كا مكمل ترجمہ قرآن موجود ہے ؟ اگر ہاں تو مجھے اس كا مطالعہ كر كے خوشى ہوگی ۔ ازراہ كرم ايك نسخہ عنايت فرمائيے۔

اب سوال نمبر ايك كے متعلق ذيلى تساؤلات :
يہ فرما ديجئے کہ لفظ " ليؤمنن " كے معانى آپ کے نزديك حال كے ہيں مستقبل کے نہیں۔۔۔
A-قواعد زبان وادب كى رو سے وہ كيا اسباب ہيں کہ جناب اس لفظ كو علمى لحاظ سے صرف حال پر محمول كرنا درست سمجھتے ہیں مستقبل پر نہیں؟
B-اور جن مترجمين نے اس كو مستقبل پر محمول كيا ہے ان كا ترجمہ زبان وادب كے كن قواعد كى بنا پر غلط ہے؟؟؟؟
 

arifkarim

معطل
وفات مسیح محض قرآن ہی نہیں بلکہ غیر یہودی و عیسائی سورسز سے بھی ثابت ہے۔ جب حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دی گئی، اسوقت وہاں مقامی یہودیوں کے علاوہ رومی غیر ابراہیمی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود تھے، اور ان سے حاصل شدہ تاریخی مواد کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی وفات صلیب پر یا بعد میں صلیب سے اتارے جانے کے بعد ہوئی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Historical_Jesus#Trial_and_execution
ہو سکتا ہے حضرت مسیح علیہلسلم کے پیروکار انکے کے صلیب دئے جانے کے بعد اس صدمہ کے باعث ایک فرضی کہانی گھڑ کر بیٹھ گئے ہوں کہ حضرت عیسیٰؑ کو جسمانی موت نہیں ہوئی بلکہ خدا نے انکو آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ صلیب سے زخمی حالت میں اتار لئے گئے ہوں اور بعد میں رومیوں سے بچتے ہوئے کسی ایسے مقام کی طرف ہجرت کرگئے ہوں جہاں پر رومیوں کی حکومت نہ ہو۔ بعض عیسائی، نبی یوز آصف جنکی قبر سری نگر کشمیر میں ہے کو حضرت عیسیٰؑ کی قبر مانتے ہیں۔
http://www.tombofjesus.com/

چونکہ یہ تاریخی دھاگہ ہے اسلئے میرا کمنٹ تاریخ کے دائرہ تک محدود ہے۔ جن اسلامی افراد کو غیر مرئی عیسیٰ پر "ایمان" لانا ہو وہ اپنی یہ کہانیاں اسلامی سیکشن میں جاکر بیان کر سکتے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top