امیر مینائی خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں ۔ امیر مینائی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں
یہ بادل جب برستے ہیں لبِ کوثر برستے ہیں

خدا کے ہاتھ ہم چشموں میں ہے اب آبرو اپنی
بھرے بیٹھے ہیں دیکھیں آج وہ کس پر برستے ہیں

ڈبو دیں گی یہ آنکھیں بادلوں کو ایک چھینٹے میں
بھلا برسیں تو میرے سامنے کیونکر برستے ہیں

جہاں ان ابروؤں پر میل آیا کٹ گئے لاکھوں
یہ وہ تیغیں ہیں جن کے ابر سے خنجر برستے ہیں

چھکے رہتے ہیں‌ مے سے جوش پر ہے رحمتِ ساقی
ہمارے میکدے میں غیب سے ساغر برستے ہیں

جو ہم برگشتۂ قسمت آرزو کرتے ہیں پانی کی
زہے بارانِ رحمت چرخ سے پتھر برستے ہیں

غضب کا ابرِ خوں افشاں ہے ابرِ تیغِ قاتل بھی
رواں ہے خون کا سیلاب لاکھوں سر برستے ہیں

سمائے ابرِ نیساں خاک مجھ گریاں کی آنکھوں میں
کہ پلکوں سے یہاں بھی متصل گوہر برستے ہیں

وہاں ہیں سخت باتیں، یاں امیر آنسو پر آنسو ہیں
تماشا ہے اِدھر، موتی اُدھر پتھر برستے ہیں

(امیر مینائی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
"چھکے رہتے ہیں"

یہ "چھکے" کا کیا مطلب ؟

چھکے رہتے ہیں یعنی غافل رہتے ہیں۔
چھَکا دینا ۔ سیر کر دینا، غنی اور بے پرواہ کر دینا۔
ساقی تری نگاہ نے ایسا چھکا دیا
غم دو جہاں کا بس ترے یک جام سے گیا
(منتظر)

چھکاؤں میں تجھے رندوں کو تُو چھکائے جا
یہی ہے جام سے ہر دم کلام شیشے کا
(ناسخ)

 

فاتح

لائبریرین
امیر مینائی کے چھکے؟؟؟ گویا میرؔ کے بعد اب امیرؔ پر بھی تحقیق کا دفتر کھولنا پڑے گا:rolleyes:
 
Top