پاکستان میں صحافت اور اخبارات

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کہتے ہیں صحافت کسی ریاست کا ایک اہم ستون ہوتا ہے اور اسی ستون سے وابسطہ کافی صحافی دوست یہاں اردو محفل پر تشریف لاتے ہیں اور کئی دوستوں نے تو صحافت پر بڑی اچھی اچھی تحریر بھی لکھی ہیں۔
میں پاکستانی صحافت کے بارے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ مجھے پاکستان کی موجودہ صحافت کے بارے میں بالکل تھوڑا پتہ ہے، اگر کچھ اندازہ ہے تو وہ لوکل صحافت کے بارے میں لیکن میں اپنے باقی صحافی دوستوں کی رائے بھی جاننا چاہتا ہوں تو یہ دھاگہ شروع کر رہا ہوں، برائے مہربانی موضوع پر رہ کر بات کی جائے۔
• عام طور پر پاکستان میں ایک صحافی روزگار کیسے چلاتا ہے یعنی اپنے اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ کیا وہ جس اخبار سے وابسطہ ہوتا ہے وہ اخبار اسے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے؟ یا وہ کسی اور ذرائع سے کمائی کرتا ہے؟
• مشہور کالم نگاروں کو چھوڑ کر ایک عام کالم نگار کو کیا اخبار کوئی تنخواہ یا وظیفہ دیتا ہے؟
• اگر کوئی صحافی کسی اخبار سے وابسطہ ہونا چاہے توکن شرائط پر وہ کسی اخبار سے وابسطہ ہو سکتا ہے اور عام طور پر ایک نامہ نگار یا اس جیسے باقیوں کی کیا تنخواہ ہوتی ہے؟ یہاں یاد رہے کہ مثال کے طور پر کسی شہر میں نامہ نگار کی سیٹ خالی ہے اور کوئی بندہ اس سیٹ کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟
• عام طور پر اخبارات چلانے کے اخراجات صرف اشتہارات سے پورے ہوتے ہیں یا اس کے لئے کوئی اور بھی ذرائع ہیں؟
• یہ چند بنیادی باتیں تھیں جن کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی دوست آج کل پاکستان میں چلنے والی صحافت اور اخبارات پر مزید تھوڑی بہت روشنی ڈال دے تو یہ سونے پر سوہاگہ ہو گا۔

امید ہے کافی دوست اس معاملے میں آواز بلند کریں گے اور ہمیں پاکستان کی موجودہ صحافت کے بارے میں کافی معلومات ملے گی۔
 

بلال

محفلین
لگتا ہے یہ دھاگہ کافی نیچے چلا گیا ہے اور کسی صحافی دوست یا کسی ایسے بندے کی نظر نہیں پڑی جو میری معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ پوسٹ صرف دھاگے کو اوپر لانے کے لئے کر رہا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ دوست احباب تھوڑی بہت روشنی ضرور ڈالیں گے۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخبارات میں لکھنے اور چھپنے والے اراکین کو چاہیے کہ وہ پوچھی گئی باتیں بتائیں۔
 

بلال

محفلین
زین،شمشاد اور خرم شہزاد خرم بھائی آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے اس دھاگہ کی طرف توجہ دی۔ زین بھائی میں انتظار کر رہا ہوں۔
جب یہاں اردو محفل پر کوئی خبر پوسٹ ہوتی ہے تو سب حوالہ مانگتے ہیں۔ بس ایک دن اچانک خیال آیا کہ جس صحافت اور اخبارات کے حوالے مانگے جاتے ہیں ذرا ہم ان کے معیار، کام کے طریقہ کار کو بھی جانیں کہ آخر اتنی شدت سے حوالہ مانگا جاتا ہے اور پھر اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کیا جاتا ہے۔ بس اسی لئے چند باتیں پوچھی ہیں باقی صحافی دوستوں کی مرضی کہ وہ ہمیں کچھ بتاتے بھی ہیں یا نہیں۔۔۔
 

بلال

محفلین
بہت بہت شکریہ زین بھائی۔ باقی میں بھی جلد ہی اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا لیکن پہلے ہمارے صحافی بھائی خود اپنی زبانی کچھ کہہ لیں۔۔۔
 

خرم

محفلین
زبیر احمد ظہیر بھیا "امکانات" کے نام سے محفل کو رونق بخشتے ہیں، اسی طرح اپنی محمود بھیا ہیں م م مغل کے نام سے ان دونوں کو ذاتی پیغام کرکے اس دھاگہ کا بتائیں تو انشاء اللہ کافی معلومات حاصل ہوں گی۔
 

بلال

محفلین
زبیر احمد ظہیر بھیا "امکانات" کے نام سے محفل کو رونق بخشتے ہیں، اسی طرح اپنی محمود بھیا ہیں م م مغل کے نام سے ان دونوں کو ذاتی پیغام کرکے اس دھاگہ کا بتائیں تو انشاء اللہ کافی معلومات حاصل ہوں گی۔

زبیر احمد ظہیر بھائی کو ذاتی پیغام کرتا ہوں باقی م م مغل بھائی اسی دھاگے کے پیغام نمبر 7 کے مطابق ہماری طرح انتظار کرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
میں کیا عرض کروں‌گا صاحب، خیر دیکھیے طبیعت آماد ہوتی ہے تو میں کچھ عرض کرتا ہوں
 

امکانات

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔
• عام طور پر پاکستان میں ایک صحافی روزگار کیسے چلاتا ہے یعنی اپنے اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ کیا وہ جس اخبار سے وابسطہ ہوتا ہے وہ اخبار اسے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے؟ یا وہ کسی اور ذرائع سے کمائی کرتا ہے؟

جو ں جوں‌ مجھے وقت ملے گا میں اآپ کے سوالوں کے جواب دیتا رہوں‌گا کل بھی میں نے پورا جواب تفصیلی لکھ لیا تھا مگر جب پوسٹ کرنے لگا تو سائن نہیں ہوپایا خرم بھائی کا شکریہ جنہوں نے آپ کی توجہ میری جانب دلائی فورموں پر صحافی کم آتے ہیں‌ زین کوئٹہ کے ایک اخبار میں رپورٹر ہیں ان کے علاوہ مجھے بھی کوئی صحافی یہاں فورموں پر نہیں ملا
میڈیا کا خواہ وہ اخبار ہو یا چینل سب سے بڑا ذریعہ آمدن اشتہار ہوتے ہیں یہ سرکاری اور پرائیوٹ دونوں‌ہوتے ہیں کوئی اخبار فروخت ہو کر اخراجات پورے نہیں‌کرسکتا ایک معیاری اخبار چلانے کے لیے سمندر جیسے دل اور سمندر جیسی بڑی رقم درکار ہوتی ہے اخبار فروخت سے ملنے والی رقم پر نہیں چل سکتا اس وقت جنگ پاکستان کا بڑا اخبار ہے اس کی فروخت کی ماہانہ رقم اسکے روزانہ کے اخراجات کے برابر نہیں دوسرے نمبر پر ایکسپریس ہے اس کا بھی یہ ہی حال ہے اخبارات کے زیادہ تر اخراجات مسابقت سے بھی پیداہوتے ہیں مثلا جنگ کو پاکستان میں ٹاُپ رہنے کا تو اس شوق کی اسے بھاری قیمت بھی ادا کرنے پڑتی ہے پاکستان کا ہر قابل ذکر صحافی کو یہ اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتاہے مسابقت میں جنگ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ایکیپرین نے مقابلہ کرنی کی کوشش کی مگر اس کی بھی زیادہ نہ چل سکی صرف پیسہ ہی اخبار کی کامیابی کے لیے کافی نہیں‌ آج کل نے پیسے اور روشن خیالی کو بنیاد بنا کر اخبار کامیاب کرنے کی کوشش کی پیجاب میں گورنری بھی کام نہ آئی آج یہ اخبار ہچکیاں لےرہا ہے اور اس نے پورے ملکی میں چھانٹٰی شروع کردی ہے
 

امکانات

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔
• عام طور پر پاکستان میں ایک صحافی روزگار کیسے چلاتا ہے یعنی اپنے اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ کیا وہ جس اخبار سے وابسطہ ہوتا ہے وہ اخبار اسے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے؟ یا وہ کسی اور ذرائع سے کمائی کرتا ہے؟
ملک بھر کے پریس کلب اور صافیوں کی ایسوسی ایشن کے تجت رجسٹرڈ صافیوں کی تعداد بمشکل 30ہزار ہوگی ہر قابل ذکر شہر میں پریس کلب ہوتا ہے جس سے صحافی واستہ ہوتے ہیں بڑے پریس کلب کراچی لاہور اسلام اآباد اور راولپنیڈی ہیں‌ صحافیوں کی دو تنظیمیں ہیں
اخبارات اور چینل میں بہت سارے شعبے ہوتے ہیں جن میں بنیادی رپورٹر اور سب ایڈیٹر کو صحافی سمجھا جاتاہے اور عام طور پر لوگ رپورٹر ہی کو جانتے ہیں سب ایڈیٹر اخبار کے دفتر میں کام کرتے ہیں‌ رپورٹر اور سب ایڈیٹر کو معاوضہ ملتا ہے اس وقت ایک رپورٹر کی تنخواہ چھ ہراز سے لیکر 40 50ہزار تک ہے بڑے اخبارات میں ایک رپورٹر کی کم از کم تنخواہ 15ہزار ہوتی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہوتی تجربہ مہارت پر تنخواہ کا انحصار ہوتاہے اور ٹی وی چیننل میں 15ہزار سے 40 50تک ہوتی ہے تنخواہیں اخبارات ہیڈ افس یا سب اآفس یا بیورو آفس کے عملے کو دیتے ہیں اور بڑے شہروں کے رپورٹروں کو بالعموم تنخواہ دی جاتی ہے
نامہ نگار جیسے اندروں سندہ یا اندروں پنجاب یا اخبار کے ہیڈ افس سے دور مقامات جہاں خبر زیادہ نہ ہو اسے شہروں اور دیہاتوں کے نامہ نگاروں کو معاوضہ نہیں ملتا پاکستان کا سب بڑا خبر ساز شہر اسلام اآباد ہے اخبارات اور ٹی وی چینل کی بڑی خبریں زیادہ تر اسے شہر میں پیداہوتی ہین‌دوسرے نمبر پر کراچی پھر لاہور پھر کوئٹہ اور دیگر شہر ہونگے اور اس طرح مظفراباد ائے گا
 

امکانات

محفلین
اخبار کے مرکزی دفاتر یا بیورو آفس کے عملے کو باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا ہے اخبار کے اندر کام کرنے والے صحافی عملے میں نیوز ایڈیٹر سب سے اہم ہوتا ہے ایک نیوز ایڈیڑ کی تنخواہ 20ہراز سے لیکر 40ہزار تک ہوسکتی ہے دوسرے نمبر پر اسٹنٹ نیوز ایڈیڑ ہوتا ہے اس عہدے کی کم ازکم تبنخواہ 18ہزار سے لیکر 30ہزار تک ہوسکتی ہے اس کے بعد سب ایڈیڑ کاعہدہ آتا ہے سب ایڈیڑ کی تنخواہ 10ہزار سے لیکر 20تک ہو تی اچھی تنخواہوں کاتعلق بڑے اخبار سے ہوتا ہے بڑے اخبا ر کی کوشش ہوتی ہے کہ اسکا عملہ اس کی ساکھ سے نہ کھیلے اس کے لیے وہ مناسب معاوضہ دیتا ہے یہ سارے معاوضے ویج ایوارڈ کے حساب سے نہ ہونے کے برابر ہیں جتنے اخبارات ان عامل صحافیوں کے کام سے بناتے ہیں یہ تنخواہیں ان کے لیے ایسے ہی جیسے ایک لاکھ مین سے سو روپیہ چونکہ اخبارات کے مختلف شعبے ہوتے ہیں اشتہارات کا عملہ بروف ریڈر میگزین ٰادارتی عملہ پرنٹنگ سرکولیشن اسٹاف پیسٹنگ کمپہوٹر ڈیزائنر خطاط رپورٹر دوسرے شہروں‌کے رپورٹر کالم نگار جنکا معاوضہ ماہانہ لاکھون‌میں ہوتا ہے ایڈمنسڑیشن وغیرہ
یوں اخبارات کے اخراجات کافی ہوتے ہیں برسوں سے یہ اختلاف چلا آرہا اخباری مالکوں کا کہنا ہوتا ہے ہمارے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اسلیے ہم زیادہ معاوضہ نہین دے سکتے اور کارکنوں کا کہنا ہوتا ہے کہ کارکنوں کے کام کا سارا ملکان ہڑپ کر جاتے ہیں اس معاملے پر ایک عرصے سے سپریم کورٹ میں اخباری کارکنوں‌ اور مالکان کا کیس چل رہا ہے اخباری مالکان سب مل کر حکومت پر دباو ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے فیصلہ ان کے حق میں ہوجاتا ہے یا اس فیصلے سے اخباری کارکنوں کو فائدہ نہین‌ دیاجاتا کئی حکومتی اثر ورسوخ رکھنے والے وزرا نے عامل صحافیوں‌کے مطالبات پر حامی بھر ی مگر وہ کچھ نہ کر سکے عامل صحافیوں‌ مین بھی مالکان کے لوگ شامل ہوتے ہیں‌ہیں‌جس کی وجہ سے ہر منصوبہ ناکا م ہوجاتا ہے یہ ایک لمبی بحث ہے
 

بلال

محفلین
امکانات بھائی بہت شکریہ۔۔۔ آپ نے کافی معلومات دی جس سے کم از کم مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔۔۔

میں کیا عرض کروں‌گا صاحب، خیر دیکھیے طبیعت آماد ہوتی ہے تو میں کچھ عرض کرتا ہوں

م م مغل بھائی ہم آپ کی طبیعت آمادہ ہونے کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔
 

dxbgraphics

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کہتے ہیں صحافت کسی ریاست کا ایک اہم ستون ہوتا ہے اور اسی ستون سے وابسطہ کافی صحافی دوست یہاں اردو محفل پر تشریف لاتے ہیں اور کئی دوستوں نے تو صحافت پر بڑی اچھی اچھی تحریر بھی لکھی ہیں۔
میں پاکستانی صحافت کے بارے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ مجھے پاکستان کی موجودہ صحافت کے بارے میں بالکل تھوڑا پتہ ہے، اگر کچھ اندازہ ہے تو وہ لوکل صحافت کے بارے میں لیکن میں اپنے باقی صحافی دوستوں کی رائے بھی جاننا چاہتا ہوں تو یہ دھاگہ شروع کر رہا ہوں، برائے مہربانی موضوع پر رہ کر بات کی جائے۔
• عام طور پر پاکستان میں ایک صحافی روزگار کیسے چلاتا ہے یعنی اپنے اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ کیا وہ جس اخبار سے وابسطہ ہوتا ہے وہ اخبار اسے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے؟ یا وہ کسی اور ذرائع سے کمائی کرتا ہے؟
• مشہور کالم نگاروں کو چھوڑ کر ایک عام کالم نگار کو کیا اخبار کوئی تنخواہ یا وظیفہ دیتا ہے؟
• اگر کوئی صحافی کسی اخبار سے وابسطہ ہونا چاہے توکن شرائط پر وہ کسی اخبار سے وابسطہ ہو سکتا ہے اور عام طور پر ایک نامہ نگار یا اس جیسے باقیوں کی کیا تنخواہ ہوتی ہے؟ یہاں یاد رہے کہ مثال کے طور پر کسی شہر میں نامہ نگار کی سیٹ خالی ہے اور کوئی بندہ اس سیٹ کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟
• عام طور پر اخبارات چلانے کے اخراجات صرف اشتہارات سے پورے ہوتے ہیں یا اس کے لئے کوئی اور بھی ذرائع ہیں؟
• یہ چند بنیادی باتیں تھیں جن کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی دوست آج کل پاکستان میں چلنے والی صحافت اور اخبارات پر مزید تھوڑی بہت روشنی ڈال دے تو یہ سونے پر سوہاگہ ہو گا۔

امید ہے کافی دوست اس معاملے میں آواز بلند کریں گے اور ہمیں پاکستان کی موجودہ صحافت کے بارے میں کافی معلومات ملے گی۔

بھائی آپ کے سوالوں کو سیدھا سادھا جواب دینا پسند کروں گا کہ ایک پاکستانی صحافی عام طور پر اگر وہ ایک چھے اخبار سے تعلق رکھتا ہے تو اس کو ملنے والی تنخواہ سے بھی اس کا گذارہ نہیں ہوتا ۔ پھر وہ اگر علاقے میں چند ایسوسی ایشنز یا یونین ز وغیرہ ہوتی ہیں ساتھ ساتھ بطور پی آر او ان کی خبروں کو تمام اخبارات میں شائع کروانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے عوض اس کو مناسب رقم مل جاتی ہے۔ اور اگر وہ کسی بیورو آفس میں کام کر رہا ہے تواکثر بیورو آفس میں تنخواہ بھی نہیں دی جاتی ۔ اس صورت میں صحافی کو اشتہارات اور اپنا خرچہ خود نکالنا پڑتا ہے۔
اور اگر صحافی سمارٹ ہو تو وہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں سورس بنا کر زیادہ سے زیادہ اشتہارات لیکر اس میں اپنی پرسنٹیج اچھی لے سکتا ہے۔(ویسے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ صحافت کے لئے ایک ایسی زنجیر ہے جس میں اشتہار کے ذریعے مرضی کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ اور وہ بھی فرسٹ اور سیکنڈ کیٹگری کے اخبارات کو ۔ تھرڈ کیٹگری کے اخبارات کو تو انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ گھاس بھی نہیں ڈالتا۔
اور ہاں صحافت میں بھی ایسے عناصر گھسے ہوئے ہیں جنہوں نے زرد صحافت کے فروغ میں کردار ادا کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی۔ جس کی زندہ مثال کہ مجھے گریجویشن کے باوجود پریس کلب کی ممبر شپ نہیں ملی جبکہ میٹرک یافتہ حضرت پریس کلب کے عہدیدار تھے۔
زیادہ تر اچھے اخبارات کے صحافیوں کو ایجنسیوں سے بھی شاید معقول رقم ملتی ہے
رہا نامہ نگار کی تنخواہ تو بھائی نامہ نگار کو سیٹ ملے یا نہ ملے لیکن نیوز ایجنٹ وہ طبقہ ہے جنہوں نے ہر دور میں اخبارات کو بلیک میل کیا۔ کیوں کہ اخبار کی ترسیل انہیں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے یہی ایک علاقے کے سیاہ سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ اگر ایک عام آدمی بطور نامہ نگار یا بیوروچیف کے طور پر کام کرنا چاہے تو آج کل اخباری مالکان کو پتہ نہیں کیا سوجھ گیاہے کہ الٹا دینے کے بیورو چیف سے سیکیورٹی ڈیپازٹ جو کہ کم از کم 30 ہزار ہوتا ہے رکھا جارہا ہے۔
اور عام طور پر اخبارات اپنے اخراجات جیسا کہ اوپر مذکور کر چکا ہوں کہ پی آئی ڈی اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ دونوں محکموں کے اشتہارات پر زیادہ تر اخبارات دارو مدار کرتے ہیں عید کے موقعوں پر یا کسی دوسرے تہواروں پر خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں جن میں علاقے کے با اثر افراد سے اشتہارات لئے جاتے ہیں

سرکولیشن کے لحاظ سے جنگ گروپ اس وقت ٹاپ ہے جبکہ چونکہ میں پشاور سے تھا تو میری اطلاع کے مطابق روزنامہ مشرق کی سرکولیشن پاکستان میں چالیس ہزار یا اس سے زیادہ ہے جبکہ پشاور کی ٹاپ سرکولیشن اخبار روزنامہ آج جس کی پشاور میں 22 ہزار یا اس سے زیادہ سرکولیش ہے۔ یہ اندازہ 2006 کا ہے۔
 

مغزل

محفلین
م م مغل بھائی ہم آپ کی طبیعت آمادہ ہونے کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔

معافی چاہتا ہوں دوست ، درمیان میں عجیب معاملات سے گزرنا پڑا پھر صحافت کے نام نہاد دعوے داروں سے ایک معاملہ رہا ، اب کچھ لکھنا ممکن ہیں کہ طبیعت اکتا گئی ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :mad:
 

ابوشامل

محفلین
سب سے پہلے تو معذرت کہ کیونکہ میں عرصہ دراز کے بعد یہاں آیا ہوں، اس لیے آج ہی اس پیغام پر نظر پڑی۔ آپ کے سوالات کے چند جوابات دیے دیتا ہوں، اپنی ناقص معلومات کے مطابق

• عام طور پر پاکستان میں ایک صحافی روزگار کیسے چلاتا ہے یعنی اپنے اخراجات کیسے پورے کرتا ہے؟ کیا وہ جس اخبار سے وابسطہ ہوتا ہے وہ اخبار اسے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے؟ یا وہ کسی اور ذرائع سے کمائی کرتا ہے؟
عام طور پر تو ایک پاکستانی صحافی کو اپنا گزر بسر تنخواہ ہی سے کرنا پڑتا ہے( اگر اسے ملتی ہے تو)۔ عام طور پر تمام بڑے شہروں میں موجود صحافیوں کو تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے صرف اعزازی صحافی ہی ہوتے ہیں۔ "کسی اور ذریعے" سے کمائی کے خواہشمند ہر جگہ پائے جاتے ہیں، اسے "لفافہ صحافت"کہتے ہیں۔ کسی خاص شعبے سے وابستہ صحافی اپنی "زباں بندی" کے لیے یا تو خود متعلقہ محکمے یا شخص سے رقم لیتا ہے یا حفظ ما تقدم کے تحت اس کا منہ پہلے ہی لفافے سے بند کر دیا جاتا ہے۔ لفافہ صحافت کے اس میدان میں بڑے سے لے کر چھوٹے تک تمام اقسام کے صحافی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے چند ایک اخبارات توا یسے ہیں جن کی کمائی کا ذریعہ ہی لفافہ صحافت ہے یعنی بلیک میلنگ کے ذریعے پیسےیا اشتہارات بٹورنا۔
• مشہور کالم نگاروں کو چھوڑ کر ایک عام کالم نگار کو کیا اخبار کوئی تنخواہ یا وظیفہ دیتا ہے؟
بڑے اخبارات سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام کالم نگاروں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس کا انحصار معاہدے پر ہے، یا تو ایک مقرر تنخواہ دی جاتی ہے یا پھر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ "درمیانے درجے" کے کالم نگاروں کو کالموں کی تعداد کی بنیاد پر پیسے دیے جاتے ہیں۔ چھوٹے کالم نگار اعزازی طور پر ہی لکھتے ہیں، تاکہ بطور کالم نگا ران کی ساکھ بنے۔ چھوٹے اخبارات عام طور پر بہت کم مشاہرے پر کالم نگاروں کو حاصل کرتے ہیں۔ ان میں لکھنے والے کالم نگار بھی عام طور پر اتنے معروف نہیں ہوتے۔ ان میں سے بیشتر اعزازی طور پر لکھتے ہیں۔
• اگر کوئی صحافی کسی اخبار سے وابسطہ ہونا چاہے توکن شرائط پر وہ کسی اخبار سے وابسطہ ہو سکتا ہے اور عام طور پر ایک نامہ نگار یا اس جیسے باقیوں کی کیا تنخواہ ہوتی ہے؟ یہاں یاد رہے کہ مثال کے طور پر کسی شہر میں نامہ نگار کی سیٹ خالی ہے اور کوئی بندہ اس سیٹ کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟
ہمارے ہاں نوکری کے حصول کا سب سے عام ذریعہ کسی کے توسط سے ملازمت حاصل کرنا ہے۔ جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اخبار کے اندر کے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے اور کئی مرتبہ تو انہی کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ خالی آسامی پرکوئی شخص لے آئیں۔ نامہ نگاروں کو بھی مقامی پریس کلب کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں اخبار میں نامہ نگار کی جگہ موجود ہے۔ وہ اپنی درخواست کسی بھی ذریعے سے (بذریعہ خط، فیکس یا ای میل) بھیج سکتے ہیں۔ اُن کی تنخواہ اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنے بڑے شہر میں رہتے ہیں۔ اگر چھوٹا موٹا شہر ہے تو اس بات کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں کہ انہیں تنخواہ ملے۔ البتہ چند ادارے ہیں جو کام کی بنیاد پر کچھ وظیفہ دے دیتے ہیں لیکن یہ مقرر نہیں ہوتا۔کچھ ادارے صرف اخراجات جیسے ٹیلی فون بل، فیکس بل، کمپیوٹر، کیمرہ وغیرہ کی فراہمی وغیرہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
• عام طور پر اخبارات چلانے کے اخراجات صرف اشتہارات سے پورے ہوتے ہیں یا اس کے لئے کوئی اور بھی ذرائع ہیں؟
عام طور پر اخبارات اپنے اخراجات کے لیے اشتہارات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ دیگر ذرائع کا کچھ حوالہ میں آپ کو اوپر دے چکا ہوں لیکن یہ حرکتیں چند مخصوص اخبارات ہی کی ہیں۔ بڑے اخبارات اپنی ساکھ کو بہتر بنانے میں جتے رہتے ہیں۔ سرکاری اشتہارات اخباروں کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اس میں بھی اقربا پروری چلتی ہے۔ چند اخبارات ایسے ہیں جو اپنی پالیسی کے باعث حکومت کےعتاب کا نشانہ بنتے ہیں اور ان کے سرکاری اشتہارات بند کر دیے جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو حکومت وقت کی چمچہ گیریوں کے باعث منظور نظر ہو جاتے ہیں۔ ان پر اشتہارات کی بارش ہو جاتی ہے۔ اس طرح اخبار مالک کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں :)
• یہ چند بنیادی باتیں تھیں جن کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی دوست آج کل پاکستان میں چلنے والی صحافت اور اخبارات پر مزید تھوڑی بہت روشنی ڈال دے تو یہ سونے پر سہاگہ ہو گا۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستان میں نجی ذرائع ابلاغ کی آمد کی صورت میں جو ابلاغی انقلاب آیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آج شعبہ صحافت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اگر ماضی سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹنگ میڈیا پہلے سے کافی آگے کھڑا ہے البتہ اس کو عالمی معیار تک پہنچنے کے لیے ابھی کافی عرصہ درکار ہے۔ خصوصاً اس وقت تک معیاری ذرائع ابلاغ نہیں کہلا سکتا جب تک جامعات میں صحافت کو انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں نہیں پڑھایا جاتا۔ صورتحال یہ ہے کہ جامعہ سے ماسٹرز کی اسناد حاصل کرنے کے باوجود جو افراد پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کرتے ہیں انہیں صحافت کی الف بے بھی نہیں پتہ ہوتی۔ جب تک تعلیمی معیار بہتر نہ ہوگا، کسی بھی شعبے میں ترقی محض خام خیالی ہے۔ اس کا ہلکا سا اظہار اخبارات و ٹیلی وژن چینلوں پر ہونے والی عام غلطیوں سے ہوتا ہے۔
 
Top