غزل ۔ چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے
اک دریچہ دُروں میں کُھلا چاہیے

سر میں سودا بھی ہے، دل میں وحشت بھی ہے
رختِ صحرا نوردی کو کیا چاہیے

ہم ہی دیکھیں کہاں تک تجھے آئینے
اب تجھے بھی ہمیں دیکھنا چاہیے

اُس کو تیری طلب ہے تو حیراں نہ ہو
بادِ چنچل کو جلتا دیا چاہیے

عیب کیوں ہو گئے میرے سارے ہُنر
اُن کو ساتھی نہیں ، ہمنوا چاہیے

منتظر ریت بھی، بادِ صر صر بھی ہے
بس تماشے کو اک نقشِ پا چاہیے

خامشی ایک دن مجھ سے کہنے لگی
"کم سخن ہو بہت، بولنا چاہیے"

میں نے سوچا ہے میں ہی وفا کیوں کروں
کیا مجھے اس طرح سوچنا چاہیے؟

محمد احمدؔ
 

مغزل

محفلین
غزل
اُس کو تیری طلب ہے تو حیراں نہ ہو
بادِ چنچل کو جلتا دیا چاہیے
محمد احمدؔ

احمد بھیا رسید حاضر ہے ، کلام پر تفصیلی بات بعد میں ہوگی انشا اللہ فی الوقت یہ کہ ’’ بادِ چنچل ‘‘ کی ترکیب جائز نہیں ، چنچل سنسکرت زبان سے اردو میں اصل معنی اور اصل حالت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور صفت مستعمل ہے۔ 1564ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔ ، امید ہے آپ اس کا کچھ حل نکال لیں گے ۔ والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب۔ میری طرف سے برستے ہوئے داد و تحسین کے ڈونگرے قبول کیجیے۔ ویسے مجھے بادِ چنچل میں کوئی قباحت نظر نہیں‌ آئی بلکہ ایک خوبصورت ترکیب بن گئی ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، لاجواب۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، بہت پسند آئی یہ غزل!

اساتذہ دراصل پابندی لگا گئے ہیں، عربی فارسی الفاظ کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ ملا کر ترکیب بنانے کی، ویسے چنچل کی جگہ 'صر صر' وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے!
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل سوچنا چاہیے! کیوں نہیں سوچنا چاہیے
’میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں‘

بہت خوب غزل ہے داد قبول ہو!

عمران شناور صاحب،

آپ کی توجہ اور پزیرائی کے لئے بے حد ممنون ہوں۔ آپ کی طرف سے مثبت جواب کا آنا بھی اچھا لگا۔

خوش رہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھیا رسید حاضر ہے ، کلام پر تفصیلی بات بعد میں ہوگی انشا اللہ فی الوقت یہ کہ ’’ بادِ چنچل ‘‘ کی ترکیب جائز نہیں ، چنچل سنسکرت زبان سے اردو میں اصل معنی اور اصل حالت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور صفت مستعمل ہے۔ 1564ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔ ، امید ہے آپ اس کا کچھ حل نکال لیں گے ۔ والسلام

بھیا،

سب سے پہلے تو رسید کا بے حد شکریہ کہ جب تک آپ کی رسید نہیں ملتی ہے مجھے قرار نہیں آتا ہے ۔اور دوسرا شکریہ "بادِ چنچل" کی ترکیب کے حوالے سے آپ کی نشاندہی کے لئے قبول کیجے۔ مجھے واقعی اس بات کا دھیان نہیں رہا کہ بادِ چنچل کی ترکیب میں "چنچل" ہندی / سنسکرت کا ہے اور اس حوالے سے یہ ترکیب ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا کوئی حل نکل سکا تو ضرور نکالیں گے تب تک احباب سے درخواست ہے کہ اس شعر کو نظر انداز کردیں۔

آپ کی محبت اور توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ باقی غزل بھی آپ کی رائے کی منتظر ہے۔

اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔ (آمین)
 

محمد وارث

لائبریرین
بعض دفع تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک 'غیر ضروری' پابندی ہے جو اساتذہ لگا گئے، اب 'بادِ چنچل' ترکیب بلکہ بھی بری نہیں لگ رہی، لیکن جب اسکی اجازت کے بعد ممکنات کی طرف دھیان جاتا ہے تو یہ پابندی کسی حد تک ٹھیک ہی لگتی ہے کہ ایک ایسا 'فلڈ گیٹ' کھل جائے گا کہ ہر طرف 'صدائے ہارن' ہوگی یا 'نوائے ٹائم' :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بعض دفع تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک 'غیر ضروری' پابندی ہے جو اساتذہ لگا گئے، اب 'بادِ چنچل' ترکیب بلکہ بھی بری نہیں لگ رہی، لیکن جب اسکی اجازت کے بعد ممکنات کی طرف دھیان جاتا ہے تو یہ پابندی کسی حد تک ٹھیک ہی لگتی ہے کہ ایک ایسا 'فلڈ گیٹ' کھل جائے گا کہ ہر طرف 'صدائے ہارن' ہوگی یا 'نوائے ٹائم' :)

حضور کیا اردو میں سنسکرت کے الفاظ شامل نہیں؟ اور کیا یہ الفاظ اردو لغت میں موجود نہیں؟ مجھے یہ بات عجیب لگی ہے کہ فارسی کے ساتھ عربی یا عربی کے ساتھ فارسی ترکیبات تو بنائی جا سکتی ہیں لیکن سنسکرت یا ہندی کے الفاظ ملا کر نہیں۔ میں اساتذہ کی اس پابندی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں۔ اور لگتا ہے مجھے کچھ حوالہ جات بھی لانے پڑیں گے ۔ خیال ہے اس میں کامیاب ہوں گا۔
:)
 

محمد وارث

لائبریرین
حضور کیا اردو میں سنسکرت کے الفاظ شامل نہیں؟ اور کیا یہ الفاظ اردو لغت میں موجود نہیں؟ مجھے یہ بات عجیب لگی ہے کہ فارسی کے ساتھ عربی یا عربی کے ساتھ فارسی ترکیبات تو بنائی جا سکتی ہیں لیکن سنسکرت یا ہندی کے الفاظ ملا کر نہیں۔ میں اساتذہ کی اس پابندی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں۔ اور لگتا ہے مجھے کچھ حوالہ جات بھی لانے پڑیں گے ۔ خیال ہے اس میں کامیاب ہوں گا۔
:)

ہاں سبھی کو عجیب لگتی ہے مگر کچھ سخت قوانین و اصول و ضوابط پر عمل کرنا ہی مستحسن ہوتا ہے اور ناگزیر بھی!

حوالہ جات ضرور ڈھونڈیں لیکن کلاسیکی شاعری اور اساتذہ کے ہاں ڈھونڈنا میرے خیال میں عبث ہوگا شاید، جدید شاعری و جدید شعراء میں شاید مل جائے لیکن وہ ایک تجربہ ہوگا سند نہیں، دوسرے لفظوں میں 'تھیوری' ہوگی 'لا' نہیں!

منطق اس قانون کی تو نہ جانے کیا ہوگی لیکن مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اردو کیلیے فارسی بمنزلہ ماں کے ہے اور عربی بمنزلہ نانی کے جب کہ دیگر زبانیں دور دراز کے رشتے داروں کی طرح۔ دراصل عربی اور فارسی الفاظ اسطرح ایک دوسرے میں رچے بسے ہیں کہ ان کی تراکیب میں ایک حسن سا ہے جو صدیوں سے ہمارے ارد گرد ہے!

اب یہاں سے ایک انتہائی موضوعی اور نا ختم ہونے والی بحث شروع ہو سکتی ہے کہ اگر 'بادِ چنچل' سی تراکیب جو واقعی ذوقِ لطیف پر گراں نہیں گزرتیں تو کیا شاعر اور قاری کو اجازت نہیں دے دینی چاہیئے کہ جو ترکیب گراں نہ گزرے اس کو اپنا لے اور جو بری لگے اس کو چھوڑ دے، اس سے تو ہنگامے اٹھ کھڑے ہونگے کہ ہر انسان کی فطرت علیحدہ ہے اور پسند و ناپسند بھی! یعنی قطعی فیصلے کیلیے کوئی حدِ فاصِل ضروری ہے، کوئی قانون ضروری ہے چاہے وہ سخت گیر ہی لگتا ہو!

مثلاً اگر اجازت ہو تو کیا آپ اس طرح کی اور اسی طرح کی لامتناہی تراکیب غزل یا شاعری یا نثر میں پڑھنا پسند کریں گے:

- غزالِ بن
- صریرِ پنسل
- سخنوارانِ بیٹھک
- آوازِ سجَن
- پترِ ارجمند
-گلاسِ مے

وغیرہ وغیرہ

حالانکہ مخلتف زبانوں کے یہ سارے الفاظ، الگ الگ بلا تکلف ہر طرح کی اردو تخلیق میں استعمال ہوتے ہیں اور لغات میں بھی موجود ہیں لیکن تراکیب میں آ کر عجب متنجن سا بن گیا ہے!

:):):)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب۔ میری طرف سے برستے ہوئے داد و تحسین کے ڈونگرے قبول کیجیے۔ ویسے مجھے بادِ چنچل میں کوئی قباحت نظر نہیں‌ آئی بلکہ ایک خوبصورت ترکیب بن گئی ہے۔ :)

فرخ بھائی

غزل آپ کو پسند آئی یہ آپ کا حُسنِ ذوق ہے، داد و تحسین کی سوغات کے لئے بے حد شکریہ!

"بادِ چنچل" کی ترکیب واقعی بُری نہیں لگ رہی لیکن جیسا کہ وارث بھائی نے وضاحت سے بتایا تو مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ اساتذہ کے وضع کردہ اصول ہی ہمارے لئے بہتر ہیں۔

ایک بار پھر شکریہ!
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، لاجواب۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، بہت پسند آئی یہ غزل!

اساتذہ دراصل پابندی لگا گئے ہیں، عربی فارسی الفاظ کے ساتھ دوسری زبانوں کے الفاظ ملا کر ترکیب بنانے کی، ویسے چنچل کی جگہ 'صر صر' وغیرہ کے بارے میں کیا خیال ہے!

وارث بھائی،

آپ کی طرف سے ملنے والی داد اور حوصلہ افزائی میرے لئے بے حد اہم ہے اور اس سے مجھے بے حد تقویت ملتی ہے۔ یہ میری بلکہ ہم سب کی خوش بختی ہے کہ آپ کے اور اعجاز عبید صاحب جیسے اساتذہ ہمیں میسسر ہیں جن کا ہاتھ پکڑ کر ہم فنِ شعرو سخن کی دُشوار گزار گھاٹیوں سے با آسانی نکل آتے ہیں۔

آپ کی توجہ، محبت اور رہنمائی کے لئے بے حد ممنون و متشکر ہوں۔

طالبِ دعا

محمد احمد
 

ش زاد

محفلین
ہاں سبھی کو عجیب لگتی ہے مگر کچھ سخت قوانین و اصول و ضوابط پر عمل کرنا ہی مستحسن ہوتا ہے اور ناگزیر بھی!

حوالہ جات ضرور ڈھونڈیں لیکن کلاسیکی شاعری اور اساتذہ کے ہاں ڈھونڈنا میرے خیال میں عبث ہوگا شاید، جدید شاعری و جدید شعراء میں شاید مل جائے لیکن وہ ایک تجربہ ہوگا سند نہیں، دوسرے لفظوں میں 'تھیوری' ہوگی 'لا' نہیں!

منطق اس قانون کی تو نہ جانے کیا ہوگی لیکن مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اردو کیلیے فارسی بمنزلہ ماں کے ہے اور عربی بمنزلہ نانی کے جب کہ دیگر زبانیں دور دراز کے رشتے داروں کی طرح۔ دراصل عربی اور فارسی الفاظ اسطرح ایک دوسرے میں رچے بسے ہیں کہ ان کی تراکیب میں ایک حسن سا ہے جو صدیوں سے ہمارے ارد گرد ہے!

اب یہاں سے ایک انتہائی موضوعی اور نا ختم ہونے والی بحث شروع ہو سکتی ہے کہ اگر 'بادِ چنچل' سی تراکیب جو واقعی ذوقِ لطیف پر گراں نہیں گزرتیں تو کیا شاعر اور قاری کو اجازت نہیں دے دینی چاہیئے کہ جو ترکیب گراں نہ گزرے اس کو اپنا لے اور جو بری لگے اس کو چھوڑ دے، اس سے تو ہنگامے اٹھ کھڑے ہونگے کہ ہر انسان کی فطرت علیحدہ ہے اور پسند و ناپسند بھی! یعنی قطعی فیصلے کیلیے کوئی حدِ فاصِل ضروری ہے، کوئی قانون ضروری ہے چاہے وہ سخت گیر ہی لگتا ہو!

مثلاً اگر اجازت ہو تو کیا آپ اس طرح کی اور اسی طرح کی لامتناہی تراکیب غزل یا شاعری یا نثر میں پڑھنا پسند کریں گے:

- غزالِ بن
- صریرِ پنسل
- سخنوارانِ بیٹھک
- آوازِ سجَن
- پترِ ارجمند
-گلاسِ مے

وغیرہ وغیرہ

حالانکہ مخلتف زبانوں کے یہ سارے الفاظ، الگ الگ بلا تکلف ہر طرح کی اردو تخلیق میں استعمال ہوتے ہیں اور لغات میں بھی موجود ہیں لیکن تراکیب میں آ کر عجب متنجن سا بن گیا ہے!

:):):)

اُس وقت اردو زبان میں ہندی یا سنسکرت کے الفاظ یا ان سے بننے والی تراکیب کے استعمال سے اس لئے بھی گریز برتا گیا کہ کہیں اس زبان کو کم سنی میں ہی سنسکرت جیسی قدیم زنان نا کھا جائے کِسی بھی خطے یا ملک میں بہت سی زبانیں تو بولی جا سکتی ہیں مگر وہاں کی بنیادی اور قومی زبان ایک ھی ہوتی ہے جب کہ ہند میں ہندی / سنسکرت کو وہاں بنیادی اور قومی حیثیت حاصل تھی ایسی صورت میں کسی بھی دوسری زبان کا پنپنا پھلنا پھولنا اور بنیادی اور قومی حیثیت حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا
جب کہ اردو برِصغیر کے مسلمانوں کی قومی زبان کے طور پر ابھر رہی تھی اس لیے عربی اور فارسی کے لفظوں کو رواج دینا اور سنسکرت سے گریز کرنا ہی اس وقت کی اہم ضرورت تھا اگر اردو کی پیدائش اور پرورش عرب میں ھوتی تو عربی کے لئے بھی وہی قانون لاگوو ہوتا جو سنسکرت / ہندی کے لیے تھا یا ایران اس کی جائے پیدائش ہوتا تو فارسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ۔

اب جب کہ برصغیر تقسیم ہو چکا ہے اور اردو کو پاکستان کی بُنیادی اور قومی زبان تسلیم کیا جا چکا ہے ایسے میں اس قانون کو لاگوو رکھنا اردو کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے

اس سے پہلے کہ انگریزی زبان اردو کو نگل لے ہمیں اردو کے دروازے تمام علاقائی زبانوں اور خاص کر ہندی/سنسکرت کے لیے کھولنے ہوں گے

کِسی نے تو پہل کرنی ہی ہے تو ہم ہی کیوں نہیں

آئیں اردو کو مرنے سے بچھائیں



ّّّ
 

محمد وارث

لائبریرین
اُس وقت اردو زبان میں ہندی یا سنسکرت کے الفاظ یا ان سے بننے والی تراکیب کے استعمال سے اس لئے بھی گریز برتا گیا کہ کہیں اس زبان کو کم سنی میں ہی سنسکرت جیسی قدیم زنان نا کھا جائے کِسی بھی خطے یا ملک میں بہت سی زبانیں تو بولی جا سکتی ہیں مگر وہاں کی بنیادی اور قومی زبان ایک ھی ہوتی ہے جب کہ ہند میں ہندی / سنسکرت کو وہاں بنیادی اور قومی حیثیت حاصل تھی ایسی صورت میں کسی بھی دوسری زبان کا پنپنا پھلنا پھولنا اور بنیادی اور قومی حیثیت حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا
جب کہ اردو برِصغیر کے مسلمانوں کی قومی زبان کے طور پر ابھر رہی تھی اس لیے عربی اور فارسی کے لفظوں کو رواج دینا اور سنسکرت سے گریز کرنا ہی اس وقت کی اہم ضرورت تھا اگر اردو کی پیدائش اور پرورش عرب میں ھوتی تو عربی کے لئے بھی وہی قانون لاگوو ہوتا جو سنسکرت / ہندی کے لیے تھا یا ایران اس کی جائے پیدائش ہوتا تو فارسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ۔

اب جب کہ برصغیر تقسیم ہو چکا ہے اور اردو کو پاکستان کی بُنیادی اور قومی زبان تسلیم کیا جا چکا ہے ایسے میں اس قانون کو لاگوو رکھنا اردو کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے

اس سے پہلے کہ انگریزی زبان اردو کو نگل لے ہمیں اردو کے دروازے تمام علاقائی زبانوں اور خاص کر ہندی/سنسکرت کے لیے کھولنے ہوں گے

کِسی نے تو پہل کرنی ہی ہے تو ہم ہی کیوں نہیں

آئیں اردو کو مرنے سے بچھائیں



ّّّ

یہاں پر آپ شاید دو مختلف معاملات کو یکجا کر گئے!

علاقائی زبانوں کا استعمال اور چیز ہے اور تراکیب سازی کا عمل چیزے دیگری!

کسی علاقائی زبان کے دروازے اردو پر نہ کبھی بند تھے، نہ ہیں اور نہ ہونگے اور نہ کبھی کسی نے کیے بلکہ ایسی بات سمجھنا تو اردو کے وجود سے انکار کرنے کے مترادف ہے کہ اردو کا تو خمیر ہی مختلف زبانوں کے یک جا ہونے سے اٹھا ہے، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، ہندی، پنجابی، انگریزی، پرتگالی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ اردو میں بلا تکلف استعمال ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں!

تراکیب وضع کرنے کے اصول متعین ہیں، اور ان پر عمل کرنے سے ظاہر ہے اردو کی "موت" نہیں ہوگی، اردو زبان کے وسیع تناظر میں یہ ایک انتہائی چھوٹا سا معاملہ ہے، شاعری اور شاعروں کیلیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ شاعری کے علاوہ بھی اردو میں بہت کچھ ہے اور شاعری کسی بھی زبان کا ایک، فقط ایک، جزو ہوتی ہے، اور پھر 'تراکیب سازی'، شاعری کی بے شمار جزئیات میں سے ایک جز، لہذا اس سے اردو زبان کے مرنے اور نہ مرنے کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا!

اور یہ کہ اگر دیگر علاقائی زبانوں کی تراکیب کی اجازت ہو تو پھر بیچاری انگریزی کا کیا قصور ہے؟ (انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے ہم انگریزی سے نفرت نہیں کر سکتے) پھر انگریزی کے ساتھ بھی فارسی عربی الفاظ لگا کر تراکیبب بننی چاہیئں جیسے"'ٹائمِ مرگ" اور "لائفِ جاودانی"۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میری ناقص رائے میں بات صرف یہ ہے کہ عربی اور فارسی لہجے اور ساخت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اسی لئے عربی اور فارسی الفاظ کا آپس میں میل باآسانی ہوجاتا ہے اور بُرا بھی نہیں‌لگتا، اس کے برعکس ہندی یا سنسکرت کا لہجہ کہیں کہیں بہت "اکھڑ" ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عربی یا فارسی کے آہنگ میں گندھے الفاظ کا ہندی یا سنسکرت کے الفاظ سے میل کچھ اچھا نہیں لگتا۔ شاعری کیوں کہ کھیل ہی آہنگ اور صوتی حُسن کا ہے ایسے میں اس قسم کی قدغن ہمیں بہت سی نامانوس اور صوتی حسن سے ماورا تراکیب سے بچا لیتی ہیں۔


ہاں، اتنا ضرور کہوں گا کہ اساتذہ اور زبانِ فن کے اصول اپنی جگہ لیکن اگر کہیں کوئی گنجائش نکل سکتی ہو تو ضرور نکالنا چاہیے، غیر لچکدار رویّہ بھی کسی طرح ٹھیک نہیں‌ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات بالکل بجا ہے احمد صاحب، جہاں گنجائش ہو وہاں ضرور اجازت ہونی چاہیئے، اور کئی معاملات میں میرا اصرار بھی یہی ہے!

دوسری بات بھی خوب کہی آپ نے، دراصل بلاغت کا مسئلہ ہے، عربی فارسی کے مانوس الفاظ اور انکا آہنگ صدیوں سے ہمارے ساتھ ہے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آ گیا جو مولانا شبلی نعمانی نے شعر العجم میں لکھا ہے جو انہوں نے فضاحت اور بلاغت پر بحث کرتے ہوئے درج کیا کہ قرونِ اوّل کے ملحد اور نابینا اور قادر الکلام شاعر ابوالعلا معری نے (نعوذ باللہ) قرآن کا ایک جواب لکھا تھا، لوگوں نے اس سے کہا کہ یہ فصیح تو ہے لیکن بلیغ نہیں، کہنے لگا ذرا اس کو سو دو سو سال، روزانہ پانچ وقت نمازوں میں اور رمضان میں اور تلاوت میں، منج لینے دو پھر دیکھنا کیسا بلیغ لگے گا، یہی حال عربی فارسی تراکیب کا ہے!
 

آصف شفیع

محفلین
احمد صاحب! مجھے تو آپ کی ساری غزل پسند آئی ہے۔ بہت ہی خوب گزل ہے۔ کیا روانی ہے اور کیا تغزل ہے۔ مجھے تو بادِ چنچل کی ترکیب بھی ناما نوس نہین لگی اگرچہ یہ غلط ہے۔ خوبصورت غزل پر بہت مبارکباد قبول ہو۔
 
Top