ایم اے راجا

محفلین
اب غزل کی شکل کچھ یوں بنتی ہے،

اس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا

جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا


موت کا انتظار کرتا ہے/ اسکو یوں کہیں تو؟ آج کیوں منتظر ہے مرنے کا
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا

میں نے ماضی نچوڑا تو جانا
آبِ غم سے یہ کتنا گیلا تھا

آنکھ سیراب کرنے کو خرم
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا


ُ
 

محمد وارث

لائبریرین
راجا صاحب، قافیہ 'گیلا' باقی قافیوں کے ساتھ نہیں آ سکتا، تا وقتیکہ اس 'گے لا' پڑھا جائے جو کہ غلط ہے۔ باقی قافیوں میں یائے مجہول ہے (یعنی ان کی ی کھینچ کر نہیں پڑی جا رہی) جب کہ 'گیلا' میں یائے معروف ہے یعنی کھینچ کر پڑی جا رہی ہے اور تلفظ بدل جاتا ہے، سو قافیہ نہیں ہو سکتا۔

یہ وہی فرق ہے جو شیر (جانور) اور شیر (دودھ) میں ہے۔ شیر (جانور) کا قافیہ دیر، سویر، اندھیر وغیرہ ہوگا جب کہ شیر (دودھ) کا قافیہ میر، کشمیر، پیر وغیرہ ہوگا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ وارث بھائی، میرے علم میں بہت اضافہ ہوا ہے، یہ شعر تو اسکی جگہ ٹھیک ہے یا نہیں
مینے ماضی بھی چھان کر دیکھا
ہر طرف بس غموں کا میلا تھا



اس طرف روشنی کا میلا تھا
اِس طرف دل بہت اکیلا تھا

جس کی آنکھوں میں آج پانی ہے
اس نے صحرا کا کرب جھیلا تھا


آج کیوں منتظر ہے مرنے کا
کل تلک موت سے جو کھیلا تھا

مینے ماضی بھی چھان کر دیکھا
ہر طرف بس غموں کا میلا تھا

آنکھ سیراب کرنے کو خرم
اس کی یادوں کا ایک ریلا تھا


جواب کا منتظر رہوں گا۔
میرا مقصد اصلاح کلام نہیں بس اپنے ناقص علم میں اضافہ کرنا ہے۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معذرت خواہ ہوں راجا صاحب کہ اصلاح کا اہل نہیں ہوں، یہ کام اعجاز صاحب اور نوید صاحب کے ذمے ہے :)

ہاں جہاں عروض کی یا کوئی 'ٹیکنیکل' غلطی ہوگی تو وہ میں ضرور 'پوائنٹ آؤٹ' کرونگا تا کہ اس غلطی سے آئندہ بچا جائے کہ یہ 'کروشل' غلطیاں ہوتی ہیں اور احتیاط کی متقضی ہوتی ہیں!

 

ایم اے راجا

محفلین
معذرت خواہ ہوں راجا صاحب کہ اصلاح کا اہل نہیں ہوں، یہ کام اعجاز صاحب اور نوید صاحب کے ذمے ہے :)

ہاں جہاں عروض کی یا کوئی 'ٹیکنیکل' غلطی ہوگی تو وہ میں ضرور 'پوائنٹ آؤٹ' کرونگا تا کہ اس غلطی سے آئندہ بچا جائے کہ یہ 'کروشل' غلطیاں ہوتی ہیں اور احتیاط کی متقضی ہوتی ہیں!


بہت شکریہ وارث بھائی، اہل تو میں بھی نہیں ہوں بلکہ بالکل بھی نہیں ہوں اور ہوسکتا ہے اساتذہ کرام کو میری یہ جرائت ناگوار بھی گذرے سو معذرت خواہ ہوں ٹانگ اڑانے پر۔
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر کا خرم تم بھی کچھ سوچو، میں بھی خیال رکھوں گا۔ ویسے ’ میں نے ماضی نچوڑ کر دیکھا‘ اتنا بے پناہ مصرع بھی نہیں ہے کہ جس پر گرہ لگانی ضروری ہی ہو!! چھوڑو اس کو، مزید دو چار اشعار کہہ دالو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت دن گذرے کوئی آمد نہ ہوئی اور کچھ کہا نہ گیا، کچھ دن قبل اپنے چھوٹے سے بیٹے کو بیٹھا نصیحت کر رہا تھا ( جو کہ شاید ابھی ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں سکتا) کہ مندرجہ ذیل غزل کی آمد ہو گئی، اسکا قافیہ اور ردیف پہلے سے ایک غزل پڑھ کر ذہن میں تھا، جو نصیحت کر رہا تھا وہ لفظ ہو بہو اشعار میں آگئے، کچھ اشعار بعد میں آمد ہوئے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، ملاحظہ ہو،

(غزل)

بات میری یہ دھیان میں رکھنا
سوچ کو آسمان میں رکھنا

سب کی آنکھوں کا ہو ستارہ تو
وہ بلندی اڑان میں رکھنا

لفظ تصویر بنکے ابھریں سب
وہ اثر داستان میں رکھنا

رخ عدو کی صفوں کا جو الٹے
تیر ایسا کمان میں رکھنا

بے وفاہو تے ہیں اجالے سو
تیرگی بھی مکان میں رکھنا

قافلے منزلوں پہ لٹتے ہیں
بات یہ بھی گمان میں رکھنا

نام پر جو وفا کے مرتے ہوں
لوگ وہ کاروان میں رکھنا

ہر نظر میں نئی امنگیں ہیں
ہر نظر کو توُدھیان میں رکھنا

میں ہو ں بےگھرمجھےذرا کوتم
اپنے دل کے مکان میں رکھنا

اسکی مرضی ہے رات دن مجھکو
اک کڑے امتحان میں رکھنا

ہیں بہت کانٹے راہ میں میری
اے الٰہی امان میں رکھنا

خواب تو خواب ہوتے ہیں راجا
ان کو دل میں نہ جان میں رکھنا
 

نوید صادق

محفلین
بات میری دھیان میں رکھنا


[/size][/color][/center]

"دھیان " بروزن "اُڑان" درست نہیں۔
"دھیان" بروزن "دان" یا "نان" ہوتا ہے۔ ویسے آجکل نان ہی دھیان میں رہتا ہے۔
سودا نے ایک جگہ دھیان بروزن اڑان باندھا ہے۔ لیکن اسی دور میں خواجہ درد نے بروزن نان رکھا۔ بعدازاں یہی وزن رائج ہو گیا۔ مجھے یاد پّڑتا ہے کہ دونوں کی غزل کی زمین بھی ایک ہی تھی۔
ویسے دھیان سے پہلے یہ لگا دیں۔

غزل کی بحر ہے

فاعلاتن - مفاعلن - فعلن
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ نوید بھائی، اور وارث بھائی آپکے شکریہ کا مطلب ہے تائید، ایک غزل پڑھی تھی پتہ نہیں کس کی ہے یا شاید فراز کی،
اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا


مجھے اسکی بحر کا علم نہیں تھا خرم شہزاد خرم کا شکریہ کہ انہوں نے بتائی، سو شاید اس میں بھی دھیان بر وزن دیان باندھا گیا ہے، یہ ذہن میں تھا، اب آپ نے علم میں اضافہ کیا کہ اسے دان ( یعنی ی گرا کر) باندھا جائے، معلومات اور رہنمائی کے لیئے شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا، جو شعر تم نے لکھا ہے اُس میں بھی ’دھیان‘ کو ’دان‘ ہی باندھا گیا ہے۔ محض فعلن فعلن کر کے تقطیع کرو۔ یہ چھہ رکنی ہے یعنی چھہ بار فعلن۔ ویسے مطلع میں تو نوید کا مشورہ مان ہی لیا ہے تم نے۔ باقی غزل کر ایک کوئیک نظر؛۔۔۔
قافلے منزلوں پہ ہی لٹتے ہیں
بات یہ بھی گمان میں رکھنا

پہلے مصرعے میں ’ہی‘ زائد ہے، ”قافلے منزلوں پہ لٹتے ہیں‘ ہی کافی ہے۔
میں ہو ں بے گھر مجھے ذرا کو تو
اپنے دل کے مکان میں رکھنا

پہلا مصرع بہتر اور رواں بنایا جا سکتا ہے، مجھ کو یوں بھی ’تو‘ میں واؤ کا طویل؛ کھنچنا پسند نہیں۔ کچھ سوچو تم بھی، میں بھی دیکھتا ہوں۔


خواب تو خواب ہوتے ہیں راجا
مت انھیں دل و جان میں رکھنا

یہاں دل و جان میں لگتا ہے کہ اسے تم نے دل وَ جان باندھا ہے، جب کہ اسے دلوجان باندھنا چاہئے، واوِ عطف کا یہی وزن ہوتا ہے کہ اسے محض پیش کی طرح باندھا جائے یا طویل واؤ کی طرح، فتح/ زبر کی طرح نہیں۔
ویسے خوابوں کو دل و جان میں رکھنے سے کیا مراد ہے؟ ان کو تو آنکھوں میں رکھا، سجایا جاتا ہے!! اگر دل و جان میں ہی رکھنا ہو تو یوں کر دو؛
ان کو دل میں نہ جان میں رکھنا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت شکریہ نوید بھائی، اور وارث بھائی آپکے شکریہ کا مطلب ہے تائید، ایک غزل پڑھی تھی پتہ نہیں کس کی ہے یا شاید فراز کی،
اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا


مجھے اسکی بحر کا علم نہیں تھا خرم شہزاد خرم کا شکریہ کہ انہوں نے بتائی، سو شاید اس میں بھی دھیان بر وزن دیان باندھا گیا ہے، یہ ذہن میں تھا، اب آپ نے علم میں اضافہ کیا کہ اسے دان ( یعنی ی گرا کر) باندھا جائے، معلومات اور رہنمائی کے لیئے شکریہ۔



مجھے بھی اس بحر کا علم نہیں تھا اس کے لیے نوید صادق صاحب کا شکریہ ادا کرنا پڑھے گا جنوں نے فون پرمجھے بتائی اور سمجھائی بھی اس کے باوجود میں اس بحر میں کچھ لکھ نہیں سکا :grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا بھائی میں آپ کی غزل کا ہی انتظار کر رہا تھا اب میں اپنی غزل بھی پیش کرتاہوں میں نے اور راجا بھائی نے ایک دن ہی یہ غزلیں لکھی تھی قافیے ایک ہی ہیں ردیف الگ الگ ہے

غزل


سوچ کس کی دھیان کس کا ہے
دل میں میرے مکان کس کا ہے

اپنی مستی میں اب نہیں جیتا
جان کس کی جہان کس کا ہے

اڑ رہا ہوں مگر نہیں معلوم
سر پہ یہ آسمان کس کا ہے

کون تنہا ہے آج دنیا میں
دشت میں یہ مکان کس کا ہے

وہ نہیں‌ آ رہا تو پھر خرم
ہر گھڑی یہ گمان کس کا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جاتے جاتے اس کو دیکھ ہی لیا جائے ورنہ رہ جائے گی خرم:
سوچ کس کی دھیان کس کا ہے
دل میں میرے مکان کس کا ہے
/// وہی بات یا سقم یہاں ہے دھیان والا۔ اس کو محض ’ہے‘ کا اضافہ کر دو تو مصرع یوں بھی بہتر ہو جاتا ہے۔
سوچ کس کی ہے، دھیان کس کا ہے

اپنی مستی میں اب نہیں جیتا
جان کس کی جہان کس کا ہے
//درست

اڑ رہا ہوں مگر نہیں معلوم
سر پہ یہ آسمان کس کا ہے
درست بلکہ بہت خوب، اچھا شعر ہے۔

کون تنہا ہے آج دنیا میں
دشت میں یہ مکان کس کا ہے
درست

وہ نہیں‌ آ رہا تو پھر خرم
ہر گھڑی یہ گمان کس کا ہے
پہلا مصرع کچھ رواں کیا جا سکتا ہے جیسے:
وہ تو آیا نہیں مگر خرم
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سوچ کس کی ہے دھیان کس کا ہے
دل میں میرے مکان کس کا ہے

اپنی مستی میں اب نہیں جیتا
جان کس کی جہان کس کا ہے

اڑ رہا ہوں مگر نہیں معلوم
سر پہ یہ آسمان کس کا ہے

کون تنہا ہے آج دنیا میں
دشت میں یہ مکان کس کا ہے

وہ تو آیا نہیں مگر خرم
ہر گھڑی یہ گمان کس کا ہے

بہت شکریہ سر جی اب ٹھیک ہو گی ہے نا
 

ایم اے راجا

محفلین
تبدیلیوں کے بعد غزل کی شکل کچھ یو ہو گئی ہیکہ،

بات میری یہ دھیان میں رکھنا
سوچ کو آسمان میں رکھنا

سب کی آنکھوں کا ہو ستارہ تو
وہ بلندی اڑان میں رکھنا

لفظ تصویر بنکے ابھریں سب
وہ اثر داستان میں رکھنا

رخ عدو کی صفوں کا جو الٹے
تیر ایسا کمان میں رکھنا

بے وفاہو تے ہیں اجالے سو
تیرگی بھی مکان میں رکھنا

قافلے منزلوں پہ لٹتے ہیں
بات یہ بھی گمان میں رکھنا

نام پر جو وفا کے مرتے ہوں
لوگ وہ کاروان میں رکھنا

ہر نظر میں نئی امنگیں ہیں
ہر نظر کو توُدھیان میں رکھنا

میں ہو ں بےگھرمجھےذرا کوتم
اپنے دل کے مکان میں رکھنا

اسکی مرضی ہے رات دن مجھکو
اک کڑے امتحان میں رکھنا

ہیں بہت کانٹے راہ میں میری
اے الٰہی امان میں رکھنا

خواب تو خواب ہوتے ہیں راجا
ان کو دل میں نہ جان میں رکھنا​
 

نوید صادق

محفلین
تبدیلیوں کے بعد غزل کی شکل کچھ یو ہو گئی ہیکہ،




سب کی آنکھوں کا ہو ستارہ تو
وہ بلندی اڑان میں رکھنا



"تو" کی جگہ "تم" کر لیں۔ دوسرے مصرعہ میں سے وہ نکال دیں۔ کچھ اور لائیں جیسے "اک" اگر "وہ" لگانا ضروری ہو تو پہلا والا تھوڑا بدل لیں۔
باقی آپ سمجھدار ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اسکو
سب کی آنکھوں کا ہو ستارہ تو
وہ بلندی اڑان میں رکھنا
اگر مندرجہ ذیل سے بدلیں تو ذیل کے دونوں میں سے کونسا بہتر رہے گا، مشورہ دیں
سب کی نظروں میں جگمگاؤ تم
سو بلندی اڑان میں رکھنا

یا

گر زمانے میں جگمگانا چاہو ( میرے خیال میں یہ ٹھیک ہے)
تو بلندی اڑان میں رکھنا


اور
میں ہو ں بےگھرمجھےذرا کوتم
اپنے دل کے مکان میں رکھنا

کو یوں کریں تو

درد اوروں کا بھی ذرا سا تم
اپنے دل کے مکان میں رکھنا
 

ایم اے راجا

محفلین
اب ذرا ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔

بات میری یہ دھیان میں رکھنا
سوچ کو آسمان میں رکھنا

گر زمانے میں جگمگانا چاہو
تو بلندی اڑان میں رکھنا


لفظ تصویر بنکے ابھریں سب
وہ اثر داستان میں رکھنا

رخ عدو کی صفوں کا جو الٹے
تیر ایسا کمان میں رکھنا

بے وفاہو تے ہیں اجالے سو
تیرگی بھی مکان میں رکھنا

قافلے منزلوں پہ لٹتے ہیں
بات یہ بھی گمان میں رکھنا

نام پر جو وفا کے مرتے ہوں
لوگ وہ کاروان میں رکھنا

ہر نظر میں نئی امنگیں ہیں
ہر نظر کو توُدھیان میں رکھنا

درد اوروں کا بھی ذرا سا تم
اپنے دل کے مکان میں رکھنا

اسکی مرضی ہے رات دن مجھکو
اک کڑے امتحان میں رکھنا

ہیں بہت کانٹے راہ میں میری
اے الٰہی امان میں رکھنا

خواب تو خواب ہوتے ہیں راجا
ان کو دل میں نہ جان میں رکھنا
 
Top