اسلامی معیشت

سعود الحسن

محفلین
میں نے موجودہ دور میں چلنے والی اسلامی معیشت کو جیتنا دیکھا ہے اسے ایک دھکاوے سے زیادہ نہیں سمجھتا- بنیادی طور پر پروڈکٹ وہی ہے صرف لفافہ بدلہ گیا ہے۔ اور ان میں سے اکثر حیلوں سے سود کو جائز کرنے کی کوشش ہیں۔
 

وجی

لائبریرین
میں نے موجودہ دور میں چلنے والی اسلامی معیشت کو جیتنا دیکھا ہے اسے ایک دھکاوے سے زیادہ نہیں سمجھتا- بنیادی طور پر پرڈکٹ وہی ہے صرف لفافہ بدلہ گیا ہے۔ اور ان میں سے اکثر حیلوں سے سود کو جائز کرنے کی کوشش ہیں۔

سعود صاحب پہلے تو اپنے ذہن پر اتنا ذورنہ دیں‌ آپکے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے صحیح غلط اور غلط صحیح نہیں ہوگا پاکستان میں تمام اسلامی بینک بڑے علماء کے ذیرے نگرانی کام کررہیں ہیں اور اگر آپ کولگتا ہے کہ وہ غلط ہیں تو ان علماء کو سمجھائیں کہ وہ غلط کررہے ہیں اور آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں
بھائی قتل کرنے کی سزا اسلام میں بھی موت ہے اب آپ اس کو گولی مار کر دیں ، لٹکا کر دیں ، زہر دیں کر دیں یا سر قلم کر کے دیں بات تو ایک ہی ہے
لیکن اسلام میں طریقہ بیان ہے کہ سر قلم کرکے دیا جائے اگر آپکے نذدیک اسلام نظام ضابطائے حیات نہیں تو پھر آپ جو کچھ بھی کہ سکتیں ہیں یہ آپکی اپنی مرضی پر ہے
میرا تایازاد بھائی ایک اسلامی بینک میں ملازم ہے وہ بھی اکثر آپ جیسے لوگوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے کہ ایک اسلامی طریقہ ہے اور ایک غیر اسلامی طریقہ ہے اور اب تو وہ کسی سے اس بارے میں بحث بھی نہیں کرتا کہ یہ کرنا فضول ہے ان پر االلہ رحم کریں آمین
 

arifkarim

معطل
بھائی ہر بینک سود کیساتھ ہی چلتا ہے، سود کے بغیر کوئی بینک بنا کر دکھا دیں،،،، وہی صحیح اسلامی بینک ہوگا
 

سعود الحسن

محفلین
سعود صاحب پہلے تو اپنے ذہن پر اتنا ذورنہ دیں‌ آپکے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے صحیح غلط اور غلط صحیح نہیں ہوگا پاکستان میں تمام اسلامی بینک بڑے علماء کے ذیرے نگرانی کام کررہیں ہیں اور اگر آپ کولگتا ہے کہ وہ غلط ہیں تو ان علماء کو سمجھائیں کہ وہ غلط کررہے ہیں اور آپ بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں
بھائی قتل کرنے کی سزا اسلام میں بھی موت ہے اب آپ اس کو گولی مار کر دیں ، لٹکا کر دیں ، زہر دیں کر دیں یا سر قلم کر کے دیں بات تو ایک ہی ہے
لیکن اسلام میں طریقہ بیان ہے کہ سر قلم کرکے دیا جائے اگر آپکے نذدیک اسلام نظام ضابطائے حیات نہیں تو پھر آپ جو کچھ بھی کہ سکتیں ہیں یہ آپکی اپنی مرضی پر ہے
میرا تایازاد بھائی ایک اسلامی بینک میں ملازم ہے وہ بھی اکثر آپ جیسے لوگوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے کہ ایک اسلامی طریقہ ہے اور ایک غیر اسلامی طریقہ ہے اور اب تو وہ کسی سے اس بارے میں بحث بھی نہیں کرتا کہ یہ کرنا فضول ہے ان پر االلہ رحم کریں آمین

میرے دوست میں جب یہ پوسٹ کررہا تھا تو مجھے ایسے ہی کسی ردعمل کی امید تھی۔ میں عام طور پر اس طرح کے موضوعات جن سے لوگوں کی جزباتی وابستگی ہوتی ہے پر بحث سے ہر ممکن بچتا ہوں، لہٰزا میں یہ پوسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں کر گیا- تمہیں اور دوسرے لوگ جن کا اس پوسٹ سے دل دکھا ہے ان سے معزرت خواہ ہوں۔

لیکن آپ نے جس انداز میں یہ پوسٹ لکھی ہے ، اور میرے اور شائد معیشت اور اسلامی معیشت اور اسلامی بنکاری، اسلامی انشورنس کے متعلق کچھ نہ جانتے ہوے جو طرز تخاطب اختیار کیا ہے اس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔بحرحال میری کوشش یہی ہوگی کہ میری تحریر میں تلخی نہ آے۔

سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کرادوں، آپ نے کہا کہ میں اپنے زہن پہ زور نہ دوں، اب اتفاق یہ ہے کہ میرا کام ہی زہن پر زور دینا ہے، میں ایک ٹیکس پروفیشنل ہوں ، اور بہت بڑی اکاونٹنٹ فرم میں تقریبا دس سال سے کام کررہا ہوں۔
اتفاق سے پاکستان میں اسلامی معیشت پر کام کے حوالے سے میری فرم سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی ہے، مزید اتفاق یہ ہے کہ پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اکثر بڑے بینک اور انشورنس کمپنیز اور کی اسلامی بنک اور انشورنس کمپنیز میری پورٹفولیو میں شامل ہیں۔ اور میں انہیں مختلف ٹرانزیکشنس کے سلسلے میں ٹیکس ایڈوایز دیتا رہتا ہوں۔اور اس دوران اکثر ان کے ٹیکس اور فانینشل ہیڈس اور کبھی کبھار شریعہ بورڈ کے ممبر سے بھی ملاقات یا فون پر گفتگو ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اسلامی نظام حکومت و معیشت اور اس کے نفاز کا مطالہ کرنا بھی میرا شوق ہے۔ اور پھر ایک وکیل کی حثیت سے بھی اسلامی قوانین کا کافی مطالعہ کیا ہے۔
امید ہے میرے اس پس منظر کو دیھکتے ہوے اب آپ مجھے کم از کم اپنے زہن پر زور دینے کی اجازت تو مرحمت فرما ہی دینگے ۔
جناب میرے خیال میں، میں شاید آپ سے زیادہ اسلامی معیشت اور اسلامی نظام کے نفاز کا متمنی ہوں گا، لیکن اس کے لیے میں سیاہ کو سفید نہیں کہ سکتا-
میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس کے لیے میں خود کو اخلاقی طور پر پابند سمجھتا ہوں۔

یہ پوسٹ اس امید کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اس کہ اس جواب میں آپ کم از کم مجھے کافر قرار نہیں دے دیں گے۔
 

دوست

محفلین
اس سلسلے میں واقعی بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ میرے اردگرد بھی اکثر دوست عزیز اسے ڈھونگ ہی سمجھتے ہیں۔
 

باسم

محفلین
ظاہر بات ہے کہ اسلام کا آئیڈیل بینکاری نظام وہ ہے جو شرکت اور مضاربت کے اسلامی قوانین کے مطابق ہو جس میں غریب کے حق کی حفاظت بہترین طریقے سے کی گئی ہو۔
جو کہ موجودہ اسلامی بینکوں میں پوری طرح سے نہیں ہے
اس لیے کہ ایک بینکاری نظام پرانا ہے جو اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے اور دوسرا نیا ہے جسے کاغذ سے باہر آئے ہوئے بمشکل ایک دہائی گزری ہے
ایک پھل دے رہا ہے دوسرا محنت مانگ رہا ہے۔
پھر صارف کو وہ سب کچھ طریقہ کار کی مکمل تبدیلی کے بغیر چاہیے جو دوسرا بینک دے رہا ہے۔
اسلامی بینک کو دوسرے بینک سے بھی معاملہ رکھنا ہے اور اسٹیٹ بینک کی اسلامی بینک کے ساتھ بھی وہی شفقت ہے جو دوسرے بینک کے ساتھ ہے۔
لیکن پھر بھی اسلامی بینکاری بہتر ہے کہ ایک راستہ تو ہے ایک ابتدا تو ہے اسے اتنا موقع ضرور دیجیے جو آپ نے دوسرے نظام کو دیا ہے۔

ہم اپنے کاروبار کو مکمل اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کو تیار نہیں ہاں بینک کے اندر انہیں مکمل اسلام چاہیے کیونکہ پہلا کام مشکل ہے دوسرا آسان ہے۔
 

وجی

لائبریرین
میرے دوست میں جب یہ پوسٹ کررہا تھا تو مجھے ایسے ہی کسی ردعمل کی امید تھی۔ میں عام طور پر اس طرح کے موضوعات جن سے لوگوں کی جزباتی وابستگی ہوتی ہے پر بحث سے ہر ممکن بچتا ہوں، لہٰزا میں یہ پوسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں کر گیا- تمہیں اور دوسرے لوگ جن کا اس پوسٹ سے دل دکھا ہے ان سے معزرت خواہ ہوں۔

لیکن آپ نے جس انداز میں یہ پوسٹ لکھی ہے ، اور میرے اور شائد معیشت اور اسلامی معیشت اور اسلامی بنکاری، اسلامی انشورنس کے متعلق کچھ نہ جانتے ہوے جو طرز تخاطب اختیار کیا ہے اس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔بحرحال میری کوشش یہی ہوگی کہ میری تحریر میں تلخی نہ آے۔

سب سے پہلے تو میں اپنا تعارف کرادوں، آپ نے کہا کہ میں اپنے زہن پہ زور نہ دوں، اب اتفاق یہ ہے کہ میرا کام ہی زہن پر زور دینا ہے، میں ایک ٹیکس پروفیشنل ہوں ، اور بہت بڑی اکاونٹنٹ فرم میں تقریبا دس سال سے کام کررہا ہوں۔
اتفاق سے پاکستان میں اسلامی معیشت پر کام کے حوالے سے میری فرم سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی ہے، مزید اتفاق یہ ہے کہ پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے اکثر بڑے بینک اور انشورنس کمپنیز اور کی اسلامی بنک اور انشورنس کمپنیز میری پورٹفولیو میں شامل ہیں۔ اور میں انہیں مختلف ٹرانزیکشنس کے سلسلے میں ٹیکس ایڈوایز دیتا رہتا ہوں۔اور اس دوران اکثر ان کے ٹیکس اور فانینشل ہیڈس اور کبھی کبھار شریعہ بورڈ کے ممبر سے بھی ملاقات یا فون پر گفتگو ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اسلامی نظام حکومت و معیشت اور اس کے نفاز کا مطالہ کرنا بھی میرا شوق ہے۔ اور پھر ایک وکیل کی حثیت سے بھی اسلامی قوانین کا کافی مطالعہ کیا ہے۔
امید ہے میرے اس پس منظر کو دیھکتے ہوے اب آپ مجھے کم از کم اپنے زہن پر زور دینے کی اجازت تو مرحمت فرما ہی دینگے ۔
جناب میرے خیال میں، میں شاید آپ سے زیادہ اسلامی معیشت اور اسلامی نظام کے نفاز کا متمنی ہوں گا، لیکن اس کے لیے میں سیاہ کو سفید نہیں کہ سکتا-
میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس کے لیے میں خود کو اخلاقی طور پر پابند سمجھتا ہوں۔

یہ پوسٹ اس امید کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ اس کہ اس جواب میں آپ کم از کم مجھے کافر قرار نہیں دے دیں گے۔

سعود بھائی میں نے کسی کو کافر نہیں کہا اورمیں مانتا ہوں کے میری بات آپ کو بری اور تلخ لگی ہوگی
لیکن بھائی شاید یہ ہمارے معاشرے کے ساتھ کا ایک مسئلہ ہے کہ ہم جلدباز ہیں اور اکثر چیزوں میں جلدی کرتے ہیں
آپ نے ٹھیک کہا کہ میرا معیشت وبینکاری کے بارے میں علم محدود ہے لیکن مجھے یہ سن کر اور پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم چھوٹے بچے کو بڑی جلدی بڑا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اکثر دیکھا ہے کہ کسی نے داڑھی رکھی ہے تو اسکو یہ کہتے تھکتے نہیں کہ مش بھر داڑھی افضل ہے مش بھر داڑھی اصل اسلامی داڑھی ہے اس شخص نے ابھی قدم رکھا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ آخری قدم رکھے
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ بہت سے اسلامی بینک جو فکس دیپازیٹ پر منافع دیں رہے ہیں وہ ایک حد میں ہوتا ہے یعنی ایک دو ہزار کا فرق میں رہتا ہے اور شاید اور بھی ایسے کئی معاملات میں غیر اسلامی اصول اپنا رکھے ہونگے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اس کو آگے بڑھنے کا موقعہ ہی نہ دیا جائے اور تنقید کر کے اسکو دوسروں کے ساتھ ملا دیا جائے
 

محسن حجازی

محفلین
حضور غلط غلط ہی ہوتا ہے اس میں تھوڑا یا کم نہیں ہوتا۔
میں سعود بھائی کی بات کی تائید کرنا چاہوں گا اور یہ اضافہ کروں گا کہ یہ مکمل دھوکہ دہی ہے۔ وہی سود ہے بس نام بدل دیا گیا ہے۔
یہ بات میں سنی سنائی نہیں کہہ رہا بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔
حقیقت جاننے پر میرا پارہ اس قدر چڑھ گیا کہ جی میں آئی انہیں بے نقط سناؤں
اس بارے میں تفصیلات بھی بتاتا ہوں فرصت میں۔
باقی رہے علما تو یہود کی طرح ہمارے ہاں بھی مناسب نرخوں پر کرائے کے لیے دستیاب ہیں۔
یہ جنہیں آپ عالم کہتے ہیں ان سے زیادہ جاہل میری نظر میں نہیں۔

تاہم یہ میری ذاتی آرا ہیں ان کی صحت و درستگی کی طرح آپ کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
اس حوالے سے ایک ساتھی نے بتایا ہے کہ درست اسلامی بینکاری اس وقت پورے پاکستان میں صرف "میزان بینک" کر رہا ہے۔ باقی سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور اسلامی بینکاری کے نام پر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ابھی کل ہی ایم سی بی کا اشتہار اخبارات میں آیا ہے، اسلامی حلال منافع کے نام سے۔ اس کو تو پڑھ کر ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ اسلام کا نام لے کر سود کھلایا جا رہا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ علاوہ ازیں کچھ باہر کے بینک بھی اس حوالے سے اچھی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
 

دوست

محفلین
یہ منافع، مارک اپ اور شراکت وغیرہ میں سب کچھ کاغذی کاروائی ہی ہوتا ہے۔ بچت جمع کروانے والے کو بھی پتا ہے کہ مجھے ایک مقررہ شرح سے ہی "منافع" ملنا ہے اور قرض لینے والے کو بھی پتا ہے کہ مجھے مقرر شرح سے ہی مارک اپ ادا کرنا ہے (ہاں اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔) جبکہ اسلامی شراکت کے اصولوں کے تحت اگر بچت جمع کروائی گئی ہے تو اس پر منافع ایک شرح سے نہیں بلکہ متعلقہ کاروبار کی آمدن کے حساب سے کم زیادہ ہونا چاہیے۔ یہی حال کاروبار کے لیے لِیے جانے والے قرض پر ادا کیے جانے والے مارک اپ یا جو بھی ہے کا ہو۔ کاروبار کی سالانہ آمدن کے حساب سے بینک جو کہ قرض دینے کی وجہ سے کاروبار میں حصہ دار ہے منافع وصول کرے۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ سب کچھ قرض دار پر چھوڑ کر بس اپنی اصل رقم اور مارک اپ کی فکر کی جاتی ہے بس۔ تو سود میں اور مارک اپ میں فرق کیا رہ گیا۔ بس نام کا ہی فرق ہے۔
وسلام
 

ابوشامل

محفلین
بالکل شاکر بھائی۔ میرے خیال میں اس حوالے سے عام افراد کو بتانے کی بھی ضرورت ہے۔ ایک سادہ سا اصول ہے یہ کہ اگر منافع پہلے سے مقرر ہے تو وہ واضح طور پر سود ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس معاملے کی مزید اور آسان وضاحت کر دی۔ بہت شکریہ۔
 

arifkarim

معطل
سود پر چلائے جانے بینکوں میں برکت نہیں ہوتی۔ پاکستانی معیشت کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
 

وجی

لائبریرین
محسن حجازی صاحب میں آپ کی تفصیل کا انتظار کروں گا
علماء کے بارے میں بھی کچھ تفصیل دے دیجئے گا

عارف کریم صاحب پاکستانی معیشت کی بگڑی ہوئی شکل کی مثال صرف سود پر نہیں آتی کیا ہم اس کے قصور وار نہیں
کبھی ہم اپنا محاسبہ بھی کرکے دیکھے تو بہت ساری برائیاں نظر آئیں گی
 

arifkarim

معطل

عارف کریم صاحب پاکستانی معیشت کی بگڑی ہوئی شکل کی مثال صرف سود پر نہیں آتی کیا ہم اس کے قصور وار نہیں
کبھی ہم اپنا محاسبہ بھی کرکے دیکھے تو بہت ساری برائیاں نظر آئیں گی

بھائی جب پہلے دن سے ہی معیشت سود پر منحصر ہے، تو آج 60 سال بعد یہ سن دیکھنا ایک لازمی بات ہے!
 
میری ذاتی معلومات اس ضمن میں صفر ہیں۔ لہذا کچھ سوالات۔ سود کے بارے میں‌قرانی احکامات لکھئے (‌کٹ پیسٹ‌ نہیں ، تھوڑی سی تکلیف فرمائیے) ، آیات لکھئے اور پھر یہ بتائیے کہ اللہ تعالی کا قران ، سود یعنی ربا، تقسیط یعنی ڈیویڈنڈ اور عشری (یوزری ) سے ملتے جلتے معاملات میں کیا احکامات فراہم کرتا ہے؟ ان میں‌سے ہر ایک کی تعریف ڈیفی نیشن مہیا کیجئے اور بتائیے کہ ان میں‌ سے کیا جائز ہے اور کیا نہیں؟ قرآنی یا سنت (اعمال و افعال رسول ) سے حوالہ ضروری ہیں۔

سود کیا ہے اور تجارت کیا ہے، یہ بھی بتائیے؟
کیا اگر ایک شخص دوسرے شخص سے ادھار لے کر ایک کھیتی اگاتا ہے اور اس کھیتی سے ہر ایک روپے کے دانوں سے 5 ہزار روپے کے دانے پیدا ہوتے ہیں تو قرض‌لینے والا شخص کتنے پیسے قرض دینے والے کو ادا کرے گا؟ قرض‌ دینے والا قرض‌دے ہی کیوں؟ کھیتی کو استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‌

اسی مثال کو آپ کاروبار ، زراعت، فیکٹری، کارخانہ پر لگا کر بتائیے کہ سود کیا ہوگا؟ منافع کیا ہوگا؟ قرآن کی آیات یا سنت رسول (‌قول و فعل ) بہت ضروری ہیں حوالہ کے لئے۔ امید کرتا ہوں کہ بھائی بہن مناسب جوابات سے سب کی رہنمائی فرمائیں گے ۔
 

ابن جمال

محفلین
میں نے آج کل میں ہی ایک آرٹیکل پڑھاہے جس میں لکھاہے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی ایک ہزار روپیہ قرض دیتاہے اورایک سال کے بعد وہ اس رقم میں اضافہ کرکے ایک ہزار تین سو لیتاہے تویہ سود نہیں ہے کیونکہ آج کل جس طرح افراز زر لگاتاربڑھ رہاہے اورروپئے کی قیمت ہرگزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ توآج قرض دینے والے شخص کے ایک ہزار کی جو قیمت ہے کیا ایک سال بعد اس ایک ہزار روپئے کی قیمت اتنی ہی ہوگی یا گھٹ جائے گی۔ گھٹنے کی صورت میں جو یقینی ہے۔ توپھر قرض دینے والا ہمیشہ نقصان میں ہی رہے گا۔پھر کوئی قرض دیناکیوں چاہے گا۔لہذا مضمون نگار کا کہنا ہے کہ آج کل جو اضافی رقم قرض پر لی جاتی ہے وہ سود میں شامل نہیں ہے۔امید ہے کہ تمام احباب اس پر غور کرکے اپنے علم کی روشنی میں مزید نئی باتیں سامنے رکھیں گے۔ والسلام
 

arifkarim

معطل
میں نے آج کل میں ہی ایک آرٹیکل پڑھاہے جس میں لکھاہے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی ایک ہزار روپیہ قرض دیتاہے اورایک سال کے بعد وہ اس رقم میں اضافہ کرکے ایک ہزار تین سو لیتاہے تویہ سود نہیں ہے کیونکہ آج کل جس طرح افراز زر لگاتاربڑھ رہاہے اورروپئے کی قیمت ہرگزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ توآج قرض دینے والے شخص کے ایک ہزار کی جو قیمت ہے کیا ایک سال بعد اس ایک ہزار روپئے کی قیمت اتنی ہی ہوگی یا گھٹ جائے گی۔ گھٹنے کی صورت میں جو یقینی ہے۔ توپھر قرض دینے والا ہمیشہ نقصان میں ہی رہے گا۔پھر کوئی قرض دیناکیوں چاہے گا۔لہذا مضمون نگار کا کہنا ہے کہ آج کل جو اضافی رقم قرض پر لی جاتی ہے وہ سود میں شامل نہیں ہے۔امید ہے کہ تمام احباب اس پر غور کرکے اپنے علم کی روشنی میں مزید نئی باتیں سامنے رکھیں گے۔ والسلام

بھائی سیدھی سی بات ہے۔ یہ روپیہ کرنسی سب ڈرامہ ہے۔ جب آپ کسی چیز کی اصل قدر کو سونے اور چاندی سے ہٹا کر کاغذ کے نوٹوں میں سجائیں گے، تو مسائل آپکا پیچھا نہیں چھوڑیں گے! ایک زمانہ تھا کہ دنیا کی سب سے مضبوط کرنسی نوٹ "ڈالر "سونے میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ آج فیڈرل ریزرو کے قیام کے بعد صرف سود میں تولا جاتا ہے! :grin: اسی سود کی مدد سے پھر آئندہ مزید ڈالرز ، فیڈرل ریزرو چھاپتا ہے۔ یوں ڈالرز کی قیمت مسلسل ایک جگہ ٹکی رہتی ہے! اس طرح ہمارے ملٹی نیشنل بینکرز نے دنیا سے اصل "دولت" کا صفایا کرکے پیسا صرف نام کا ذریعہ معاش بنا دیا ہے۔ اور اسکی ترسیل کو کنٹرول کرکے انسانوں پر حکومت کرتے ہیں! میں‌جانتا ہوں یہ سب باتیں آپکے لئے ایک شاق سے کم نہیں ہیں۔ لیکن تھوڑی سی ریسرچ پر سب راز سامنے آجاتے ہیں۔:devil:
یہ جو آپنے کہا نا کہ ایک سال بعد روپیہ کی قیمت کم جائے گی۔ لہٰذا قرض خواہ بڑھا کر رقم واپس کرے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ معاشرہ میں روپیہ کے نوٹس زیادہ ہو جائیں گے۔ اور نوٹ ہمیشہ زیادہ اسلئے چھپتے ہیں کیونکہ یہ پچھلے سال کےسود کا "بوجھ" ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی معیشت طاقت ور نہ ہو تو یہ "سودی" نوٹ معیشت کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی بڑھی تباہیاں امریکہ میں کئی بار آچکی ہیں!
پس سود پر چلنے والا معاشی نظام کسی بھی صور ت اسٹیبل نہیں‌ہو سکتا۔ ہر دس بیس سال بعد عالمی معیشت میں بھونچال آنا اسکی زندہ مثالیں ہیں!
 
Top