برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

ایم اے راجا

محفلین
کافی نظر ثانی کرنے کے بعد غزل اساتذہ کرام کے حضور پیش کرتا ہوں۔

مجھے بھی وہ تھامے کتابوں کی صورت
کبھی تو پڑھے وہ نصابوں‌کی صورت

میں کر بھی چکا کوششیں تو ہزاروں
نکلتی نہیں ہے ثوابوں کی صورت

نہیں دور دن کا اجالا نظر سے
مگر شب پڑی ہے نقابوں کی صورت

نہیں ہے کنارا نظر میں کسی سو
ہے پھیلا ہوا غم چنابوں کی صورت

میں ایسے سوالوں میں الجھا ہوں راجا
نہ نکلے گی جنکے جوابوں کی صورت​
 

ایم اے راجا

محفلین
حضور صرف شکریہ سے کام نہیں چلے گا نظر ثانی کی بھی درخواست ہے، تا کہ پتہ چلے کہ ہم مغل صاحب کے دیئے گئے مشورے پر عمل پیرا ہونے بعد کتنے کامیاب رہے ہیں :)
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ تو عارضی تھا راجا جو بٹن دبانے سے کام دے جاتا ہے۔ در اصل محض رسید کہ ہاں پہلی نظر ڈال لی ہے۔ دوسری نظر کے لئے انتظار کرو۔۔۔
اور اب دوسری نظر ڈالی ہے تو پتہ چلا کہ واقعی سبق اچھا یاد کر لیا ہے۔
یہاں ہی اپنی رائے دے رہا ہوں

مجھے بھی وہ تھامے کتابوں کی صورت
کبھی تو پڑھے وہ نصابوں‌کی صورت

اگر مطلع کے دوسرے مصرع کو پہلا اور پلے کو دوسرا کر دیں تو۔۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ بہتر ہو جائے گا، کیا خیال ہے؟

میں کر بھی چکا کوششیں تو ہزاروں
نکلتی نہیں ہے ثوابوں کی صورت
کوشش کا نتیجہ عذاب و ثواب میں کہاں نکلتا ہے۔ اگر یوں کہیں تو۔۔
ہزاروں ہی اعمال میں کر چکا ہوں
تو


نہیں دور دن کا اجالا نظر سے
مگر شب پڑی ہے نقابوں کی صورت

درست ہے

نہیں ہے کنارا نظر میں کسی سو
ہے پھیلا ہوا غم چنابوں کی صورت

میرا وہی اصول ہے کہ اگر نثر درست ترتیب کے الفاظ میں بحر میں آ جائے تو خواہ مخواہ الفاظ کی ترتیب نہ بدلی جائے۔ اسے یوں کرو تو؟؟
کسی سونظر میں کنارا نہیں ہے


میں ایسے سوالوں میں الجھا ہوں راجا
نہ نکلے گی جنکے جوابوں کی صورت
درست ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ تو عارضی تھا راجا جو بٹن دبانے سے کام دے جاتا ہے۔ در اصل محض رسید کہ ہاں پہلی نظر ڈال لی ہے۔ دوسری نظر کے لئے انتظار کرو۔۔۔
اور اب دوسری نظر ڈالی ہے تو پتہ چلا کہ واقعی سبق اچھا یاد کر لیا ہے۔
یہاں ہی اپنی رائے دے رہا ہوں
استادِ محترم شکریہ۔

مجھے بھی وہ تھامے کتابوں کی صورت
کبھی تو پڑھے وہ نصابوں‌کی صورت


اگر مطلع کے دوسرے مصرع کو پہلا اور پلے کو دوسرا کر دیں تو۔۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ بہتر ہو جائے گا، کیا خیال ہے؟

مطلع کی یہ ترتیب میں نے یہ سوچ کر رکھی تھی کہ کتاب پہلے تھامی جاتی ہے پھر پڑھی جاتی ہے۔

میں کر بھی چکا کوششیں تو ہزاروں
نکلتی نہیں ہے ثوابوں کی صورت
کوشش کا نتیجہ عذاب و ثواب میں کہاں نکلتا ہے۔ اگر یوں کہیں تو۔۔
ہزاروں ہی اعمال میں کر چکا ہوں
تو

یہاں ثواب سے مینے کسی اچھائی کے اجر کےملنے کا خیال باندھا تھا، اور اجر حاصل کرنے کے لیئے کوشش کا خیال باندھا ہے۔


نہیں دور دن کا اجالا نظر سے
مگر شب پڑی ہے نقابوں کی صورت

درست ہے

نہیں ہے کنارا نظر میں کسی سو
ہے پھیلا ہوا غم چنابوں کی صورت

میرا وہی اصول ہے کہ اگر نثر درست ترتیب کے الفاظ میں بحر میں آ جائے تو خواہ مخواہ الفاظ کی ترتیب نہ بدلی جائے۔ اسے یوں کرو تو؟؟

کسی سونظر میں کنارا نہیں ہے

میں کافی کوشش کرتا ہوں کہ آپ کے احکامات اور اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھوں، استاد محترم، یہاں اگر اس ترتیب میں لفظوں کو باندھا جائے گا تو پہلے مصرع کے آخر میں "ہے" اور دوسرے مصرع کے شروع میں بھی " ہے " آتا ہے کیا یہ ترکیب پڑھنے میں اچھی لگے گی؟

میں ایسے سوالوں میں الجھا ہوں راجا
نہ نکلے گی جنکے جوابوں کی صورت
درست ہے[/quote]


استادِ محترم، میرے مندرجہ بالا خیالات کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کے احکامات کی نفی کر رہا ہوں، میں نےصرف اپنے علم میں اضافے اور آپ کی قیمتی ہدایات حاصل کرنے کی غرض سے یہ کہا ہے، براہِ کرم ذرا توجہ فرمائیے گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ تو عارضی تھا راجا جو بٹن دبانے سے کام دے جاتا ہے۔ در اصل محض رسید کہ ہاں پہلی نظر ڈال لی ہے۔ دوسری نظر کے لئے انتظار کرو۔۔۔
اور اب دوسری نظر ڈالی ہے تو پتہ چلا کہ واقعی سبق اچھا یاد کر لیا ہے۔
یہاں ہی اپنی رائے دے رہا ہوں
استادِ محترم شکریہ۔

مجھے بھی وہ تھامے کتابوں کی صورت
کبھی تو پڑھے وہ نصابوں‌کی صورت


اگر مطلع کے دوسرے مصرع کو پہلا اور پلے کو دوسرا کر دیں تو۔۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ بہتر ہو جائے گا، کیا خیال ہے؟

مطلع کی یہ ترتیب میں نے یہ سوچ کر رکھی تھی کہ کتاب پہلے تھامی جاتی ہے پھر پڑھی جاتی ہے۔

میں کر بھی چکا کوششیں تو ہزاروں
نکلتی نہیں ہے ثوابوں کی صورت
کوشش کا نتیجہ عذاب و ثواب میں کہاں نکلتا ہے۔ اگر یوں کہیں تو۔۔
ہزاروں ہی اعمال میں کر چکا ہوں
تو

یہاں ثواب سے مینے کسی اچھائی کے اجر کےملنے کا خیال باندھا تھا، اور اجر حاصل کرنے کے لیئے کوشش کا خیال باندھا ہے۔


نہیں دور دن کا اجالا نظر سے
مگر شب پڑی ہے نقابوں کی صورت

درست ہے

نہیں ہے کنارا نظر میں کسی سو
ہے پھیلا ہوا غم چنابوں کی صورت

میرا وہی اصول ہے کہ اگر نثر درست ترتیب کے الفاظ میں بحر میں آ جائے تو خواہ مخواہ الفاظ کی ترتیب نہ بدلی جائے۔ اسے یوں کرو تو؟؟

کسی سونظر میں کنارا نہیں ہے

میں کافی کوشش کرتا ہوں کہ آپ کے احکامات اور اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھوں، استاد محترم، یہاں اگر اس ترتیب میں لفظوں کو باندھا جائے گا تو پہلے مصرع کے آخر میں "ہے" اور دوسرے مصرع کے شروع میں بھی " ہے " آتا ہے کیا یہ ترکیب پڑھنے میں اچھی لگے گی؟

میں ایسے سوالوں میں الجھا ہوں راجا
نہ نکلے گی جنکے جوابوں کی صورت
درست ہے


استادِ محترم، میرے مندرجہ بالا خیالات کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کے احکامات کی نفی کر رہا ہوں، میں نےصرف اپنے علم میں اضافے اور آپ کی قیمتی ہدایات حاصل کرنے کی غرض سے یہ کہا ہے، براہِ کرم ذرا توجہ فرمائیے گا۔ شکریہ۔[/quote]
حضور بندہ جواب ملنے کے لیئے بیتاب ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔ کل رات گھر میں انتر نیٹ منقطع رہا، اس لئے نہیں دیکھ سکا تھا اب تک۔
۔۔ ثوابوں کی صورت
لیکن جہاں بات رذاب اور ثواب کی ہوتی ہے تو ذہن فوراٰ اسلامی لفظیات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اعمال کا ہی خیال آتا ہے۔ اس لئے میں اپنی رائے پر اب بھی قائم ہوں۔

ہیں ہے کنارا نظر میں کسی سو
ہے پھیلا ہوا غم چنابوں کی صورت
کو اگر یوں کہیں تو؟؟
کسی سونظر میں کنارا نہیں ہے
کہ پھیلا ہے یوں غم چنابوں۔۔۔
بس یہی دو باتیں تم نے میری رائے جاننے کے لئے ہی لکھی ہیں نا!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سمندر سہارے کنارے کنارے
یہ کس کو پکارے کنارے کنارے

نشانی اگر چاہتے ہو تو دیکھو
ملے گے اشارے کنارے کنارے

نجانے یہ کتنے ہی سورج جگر میں
سمندر اتارے کنارے کنارے

یہاں ڈوبتے چاند دیکھے ہیں پھر بھی
ہیں کتنے ستارے کنارے کنارے

بہت حادثے بھی یہاں ہم نے دیکھے
مگر ہیں نظارے کنارے کنارے

سر جی بہت دنوں کے بعد کچھ لکھا ہے اس کی اصلاح بھی فرما دے بہت شکریہ ابھی ایک اور غزل بھی رمل میں لکھی ہیں وہ بھی ارسال کر تھا ہوں دوسرے دھاگے میں بہت شکریہ
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ نعتِ رسول کس بحر میں ہے اور اس کی تقطیع کیسے ہوگی۔
کیا کہوں ان کے لطف سے یوں ہے دل آشنا کہ یوں
ان کی عطا سے پوچھیے بولے گی خود عطا کہ یوں

یوں حرمِ جمال میں قربِ حبیب تھا کہ یوں
کوئی یہ کیا کہے کہ یوں کوئی بتائے کیا کہ یوں

سوچ میں تھے الم نصیب کیسے سکوں سے ہوں قریب
میں نے درودِ پاک انہیں پڑھ کے بتا دیا کہ یوں

مجھ کو یہ فکر تھی کہ میں پہنچوں گا طیبہ کس طرح
باغ جہاں کے صحن میں چلنے لگی ہوا کہ یوں

پردہ سوز و ساز میں یا غمِ جاں نواز میں
یوں کہوں ان کے روبرو درد کا ماجرا کہ یوں

جو یہ کہیں کہ فقر کی شان میں دل کشی کہاں
ان کو درِ رسول کا مجھ سا گدا دکھا کہ یوں

مظہر بے عمل کو بھی ان کی لگن ضرور تھی
خیر یہ بحث چھوڑیے یوں تھا وہ خوش نوا کہ یوں
از حافظ مظہر الدین مظہر
 
Top