برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا صاحب بہت اچھی غزل ہے اور بہت لمبی بھی ہیں راجا ردیف دیکھ کر یاد آیا اسی طرح محسن نقوی صاحب نے بھی اپنے تخلص کی ردیف رکھی تھی
اب شعر یاد نہیں کل پوسٹ کروں گا
 

الف عین

لائبریرین
آج ہی لے کر بیٹھا تھا یہ غزل۔
ردیف میں تخلص کی تکرار قطعی درست ہے۔ اس پر کوئ اعتراض بجا نہیں۔ دوسری باتیں:
پڑھا تھا کبھی جو کتابوں میں راجا
وہ آتا ہے اب روز خوابوں میں راجا

درست ہے

کہوں میں یہ کیسے کہ ملتا نہیں ہے
وہ ملتا تو ہے پر حجابوں میں راجا

یہ کیسے کہوں میں کہ ملتا نہیں ہے
بہتر ہوگا


سرِ آب میں تو رہا ہوں پر یشاں
ملا ہے سکوں پر سرابوں میں راجا

سرِ آب اور سراب۔۔۔ پسند آیا لیکن معانی واضح نہیں۔ سرِ آب ’مَیں‘ یا ’سرِ آب میں‘ ؟؟اور دوسرے مصرع میں ’پر‘اچھا نہیں لگ رہا۔ اسے یوں کہیں تو:
سرِ آب بھی مَیں پریشاں رہا ہوں
مگر پر سکوں ہوں سرابوں میں راجا

۔۔۔۔ تو کیسا رہے۔ وارث/ فاتح/ فرخ/راجا

لٹے شہر جنکے سبب ہیں وطن کے
وہ چہرے چھپے ہیں نقابوں میں راجا

راجا۔ مجھے یہ الفاظ کی نشست پسند نہیں آتی تمہاری کہ خواہ مخواہ ایسی ترتیب لاتے ہو کہ نثر بنانا مشکل لگتا ہے۔
وہ جن کے سبب شہر کتنے لٹے ہیں
ذرا مصرع تو رواں ہو جاتا ہے نا۔


جو الفت ملے گی غریبوں میں تم کو
ملے گی کہاں وہ نوابوں میں راجا

درست ہے

ملا ہے مجھے کیا سِوا نفرتوں کے
پلا ہوں سدا میں عذابوں میں راجا

درست ہے لیکن نفرتوں کا عذاب کچھ عجیب نہیں لگتا؟


جھکا ہوں کبھی میں، نہ ہی اب جھکوں گا
امیرِ نگر کے جنابوں میں راجا

نگر ہندی لفظ ہے، اس کے ساتھ یہ اضافت کیسے آ سکتی ہے۔ ’امیرِ نگر‘ نہیں ’امیرِ شہر‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن بحرمیں نہیں آتا۔ اس کا تم بھی کچھ سوچو۔ میں بھی سوچتا ہوں۔

صلہ کیا مجھے دے گا نیکی کا کوئی
خدا ہی لکھے گا ثوابوں میں راجا

درست ہے

رواجِ محبت بدل اب چکا ہے
بہے گا نہ کوئی چنابوں میں راجا

وہی بات۔۔۔ بدل اب چکا‘ میں روانی نہیں ہے۔ یہی کمی خرم میں بھی ہے۔ پھر رواج بدلنا سے مطلب؟ کیا محبت اب کوئ نہیں کرتا؟ ہاں دستور کہیں تو شاید بہتر ہو
محبت کا دستور اب وہ نہیں ہپے
بہے گا نہ کوئی چنابوں میں راجا


کئی پھول چہرے چھپے ہیں ابھی تک
شرافت کے موٹے نقابوں میں راجا

درست ہے۔ پھول چہرے اچھا لگتا ہے

چمن در چمن ہے بھری اک عجب بو
نہ خوشبو رہی ہےگلابوں میں راجا

وہی بات۔ بھری اک عجب بو‘ میں روانی نہیں ہے۔ اور ’نہ خوشبو‘ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ آگے کچھ یوں ہوگا کہ نہ خوشبو رہی اور نہ رنگ۔ جب کہ یہاں مراد محض یہ ہے کہ گلابوں میں وہ پہلے جیسی خوشبو نہیں رہی۔

چمن در چمن ہے عجب بو سی پھیلی
کہاں ہے وہخوشبو گلابوں میں راجا
کیسا رہے گا؟

نصیبوں میں جتنا لکھا ہے ملے گا
لگا ہے تو کیسے حسابوں میں راجا

درست ہے

رہی نہ عدالت تو کچھ نہ رہے گا
لکھا ہے یہ سارے نصابوں میں راجا

’نہ‘ کو میں تو کم ز کم بطور ’نا‘ تقطیع کرنا پسند نہیں کرتا اگر چہ یہاں وارث اس کو جائز سمجھتے ہیں، اور بھی دوسرے درست مان لیتے ہیں۔ اس لئے چلا بھی سکتے ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جھکا ہوں کبھی میں، نہ ہی اب جھکوں گا
امیرِ نگر کے جنابوں میں راجا

نگر ہندی لفظ ہے، اس کے ساتھ یہ اضافت کیسے آ سکتی ہے۔ ’امیرِ نگر‘ نہیں ’امیرِ شہر‘ ہو سکتا ہے۔ لیکن بحرمیں نہیں آتا۔ اس کا تم بھی کچھ سوچو۔ میں بھی سوچتا ہوں۔


[/COLOR]
بہت خوب جناب سر جی راجا بھائی کچھ تبدیلیاں کرنے کے بعد غزل کمال کی ہو جائے گی پہلے سے بھی بہت بہتر تو جلدی اس کو ٹھیک کر کے پوسٹ کرے


اس پر غور کرئے شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ استادِ محترم، آپ کے حکم موجب تبدیلیاں کی ہیں اور نگر کو وطن کیا ہے ذرا ملاحظہ ہو۔

پڑھا تھا کبھی جو کتابوں میں راجا
وہ آتا ہے اب روز خوابوں میں راجا

یہ کیسے کہوں میں کہ ملتا نہیں ہے
وہ ملتا تو ہے پر حجابوں میں راجا

سرِ آب بھی میں پر یشاں رہا ہوں
مگر پرسکوں ہوں سرابوں میں راجا

وہ جن کے سبب شہر کتنے لٹے ہیں
چھپے ہیں وہ چہرے نقابوں میں راجا

جو الفت ملے گی غریبوں میں تم کو
ملے گی کہاں وہ نوابوں میں راجا

ملا ہے مجھے کیا سِوا نفرتوں کے
پلا ہوں سدا میں عذابوں میں راجا

جھکا ہوں کبھی میں، نہ ہی اب جھکوں گا
امیرِ وطن کے جنابوں میں راجا

صلہ کیا مجھے دے گا نیکی کا کوئی
خدا ہی لکھے گا ثوابوں میں راجا

محبت کا دستور اب وہ نہیں ہے
بہے گا نہ کوئی چنابوں میں راجا

کئی پھول چہرے چھپے ہیں ابھی تک
شرافت کے موٹے نقابوں میں راجا

چمن در چمن ہے عجب بو سی پھیلی
کہاں ہے وہ خوشبوگلابوں میں راجا

نصیبوں میں جتنا لکھا ہے ملے گا
لگا ہے تو کیسے حسابوں میں راجا

رہی نہ عدالت تو کچھ نہ رہے گا
لکھا ہے یہ سارے نصابوں میں راجا
شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم آپکے شکریہ کا مطلب کہ اب غزل درست ہے، سو شکریہ۔
وارث بھائی اور مغل صاحب آپکا بھی بہت شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
حاضر ہے ایک اور غزل، یہ غزل میں نے ایک ناانصافی کے واقعہ پر کہی ہے اصلاح کا طلبگار ہوں، اپنے خیالات کو من و عن بحر کی صورت میں پیش کیا ہے۔

گھٹا ظلم کی پھر اٹھائی گئی ہے
شرافت، صداقت مٹائی گئی ہے

بنایا گیا عدل کو پھر اپاہج
عدالت یہ فرضی سجائی گئی ہے

یہاں منصفوں کو خریدا گیا ہے
کتابِ عدالت جلائی گئی ہے

کسی کو ضرورت نہیں منصفی کی
چنابِ جہالت بہائی گئی ہے

اجازت نہیں لب کشائی کی اب تو
لبوں پر ہتھیلی جمائی گئی ہے

گلہ کس سے راجا کرے گا یہاں تو
یہ بستی تو بے حس بنائی گئی ہے​

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔ اگرچہ امیرِ وطن میں وہ بات نہیں جو امیرِ شہر میں ہوتی ہے، پھر بھی پہلے سے بہتر ہے۔
نئی غزل پھر کاپی پیسٹ کر کے رکھ رہا ہوں۔ یار تم تو سانس بھی نہیں لینے دیتے!!!
 

مغزل

محفلین
ہمممم میں بھی یہی سوچ رہا تھا ۔۔ کہ اسی تھریڈ میں کسی مراسلے میں ، میں راجا صاحب کو لکھا تھا کہ
" کاتا اور لے دوڑی " سے گریز کریں۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ایم اے راجا

محفلین
راجا۔ اگرچہ امیرِ وطن میں وہ بات نہیں جو امیرِ شہر میں ہوتی ہے، پھر بھی پہلے سے بہتر ہے۔
نئی غزل پھر کاپی پیسٹ کر کے رکھ رہا ہوں۔ یار تم تو سانس بھی نہیں لینے دیتے!!!
اعجاز صاحب بہت شکریہ آپکی محنت اور ڈانٹ دونوں کا۔
اصل میں مجھے کم علمی کی وجہ سے اسی معنیٰ میں اور کوئی لفظ ملا نہیں سو وطن باندھ دیا، اگر کوئی اور لفظ ہو تو ضرور بتائیے گا۔ شکریہ، شکریہ، شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ہمممم میں بھی یہی سوچ رہا تھا ۔۔ کہ اسی تھریڈ میں کسی مراسلے میں ، میں راجا صاحب کو لکھا تھا کہ
" کاتا اور لے دوڑی " سے گریز کریں۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود بھائی، شکریہ، اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جب طالبعلم کوئی کام کر لیتا ہے تو وہ فوری طور پر استاد کو اپنا کارنامہ دکھانا چاہتا ہے سو میری مثال بھی اسی چھوٹے سے طالبعلم کی سی ہے :)
یقین کریں میں جہاں ہوں وہاں اردو لکھنے ( بحر میں ) کوئی بھی نہیں یہ تو اردو ویب کا احسان ہے اور خرم بھائی کا جنھوں نے یہاں کی راہ دکھائی اور پھر یہاں وارث بھائی اور اعجاز صاحب جیسے عالی مرتبت اساتذہ مل گئے جنھوں نے مجھے عروض کی راہ پر چلنا سکھایا، جب بندہ گرتا پڑتا کسی راہ پر چلتا ہے تو وہ سہارے بھی ڈھونڈتا ہے، سو میری جلدی کی یہ وجوہات ہیں اور مجھے ان جلد ہونے والی اصلاحات سے جو فائدہ پہنچ رہا ہے وہ مجھے ہی پتہ ہے۔ امید ہیکہ آپ میری بات کو سمجھ گئے ہوں گے۔ شکریہ۔
 

مغزل

محفلین
راجا بھیا میر پور خاص میں بیسیوں شاعر ہیں ۔۔۔ میں وہاں کئی بار مشاعرہ پڑھنے آیا ہو ں۔۔۔
اس محفل کے نئے رکن محمد احمد وہیں رہتے تھے۔۔۔
میں نے " کاتا اور لے دوڑی " کا جملہ ۔۔ صحیح لکھا تھا۔۔۔ آپ لاکھ تاویلیں پیش کریں۔۔۔
امید ہے چند دن میں آپ میرا مطمع ِ نظر جان لیں گے۔۔۔
میری کسی بات کا برا مت منانا ۔۔
(میں بھی یہ دن دیکھ چکا ہوں)
 

ایم اے راجا

محفلین
محمود بھائی میرپورخاص میں کافی شاعر ہیں لیکن میری بدقسمتی کہ میں ایسے کسی شاعر کو نہیں ڈھونڈ پایا جو مجھے بحر کے علم کے متعلق بتاتا، ایک اچھے شاعر نے میری چند غزلوں کی اصلاح فرمائی ہے میں یہاں پیش کروں گا اساتذہ کرام دیکھ لیں گے، اور ہاں میں اب میرپورخاص سے باہر پوسٹیڈ ہوں اور ہفتہ کی شام جاتا ہوں اور پیر کو صبح سویرے واپس آجاتا ہوں، ٹائم جو مجے ملتا ہے وہ ایسا ہوتا ہیکہ کچھ سیکھنے کا نہیں، کبھی کسی اور کبھی کسی ٹائم فارغ ہوتا ہوں، میں برا نہیں مناتا بلکہ سبق سیکھتا ہوں :) باقی اگر ہو سکے تو آپ مجھے کسی شاعر جو کہ با بحر ہو اور مخلص بھی ( میرپورخاص میں ) نام بتا دیں تو رجوّ کر لوں گا۔
میں جانتا ہوں‌کہ میری جلدی جلدی کہی ہوئی غزلوں کا معیار ٹکہ بھی نہیں لیکن میں خوش ہوں کہ میں‌کم سے کم بحر سے واقف ہو گیا ہوں اور بحر میں الٹا سیدھا لکھنے بھی لگا ہوں۔ آپ کی رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
م م مغل صاحب راجا صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ برا نہیں مانتے اور رہی بات اچھے شاعر ہونے کی تو جناب میرپور میں اچھے شاعر ہونگے لیکن میں راولپنڈی سے ہوں اور میرے خیال میں راولپنڈی اسلام آباد میں بھی بہت سارے شاعرے ہیں لیکن بھائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کوئی بھی نئے لکھنے والوں کو سیکھاتا نہیں ہے پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ان کے پاس اگر غزل اصلاح کے لیے لے کر جائے تو ادھر ادھر کر دیتے ہیں لیکن سمجھاتے کچھ نہیں ہیں میں اور راجا بھائی اس سلسلے میں بہت کھچل ہوئے ہیں میرے خیال میں ہم جو جلدی جلدی غزلیں لکھتے ہیں لازمی نہیں کے یہی غزلیں ہمارا سب کچھ ہیں یا ہمارا اچھا کلام ہو ہم تو بحر سیکھنے کے لیے کرتےہیں جب ہمیں سبق ملتا ہے وہ یاد کر کے سنا دیتے ہیں اور آپ جیسے اچھے استاد ہماری رہنمائی کرتے ہیں شکریہ
 

مغزل

محفلین
خرم ۔۔
آپ اور راجا نے خاصی تفصیل سے جواب عنایت کیا ہے ۔
اور آپ نے جو بھی معاملات بطور عذر پیش کیئے ہیں اس میں
کوئی دوسری رائے نہیں ہے ۔۔ یقینا فی زمانہ ایسا ہی ہورہا ہے۔۔
میری آج راجا سے خاصی طویل گفتگو رہی ہے اس ضمن میں۔۔
میں نے ان سے بھی عرض کیا اور آپ کی خد مت میں بھی عرض ہے
کہ ۔۔۔ میرا مطمع نظر ۔۔ اب بھی وہی ہے۔۔۔ کہ کاتا اور لے دوڑی کا معاملہ نہ کیا جائے۔۔
راجا سے میں نے کہا تھا ۔۔ کہ بھائی آپ جب غزل کہو ۔۔ اللہ کرے روز دس کہیں۔۔ یہ تو
توفیق کا معاملہ ہے۔۔ لیکن غزل کہنے کے کم از کم تین یا چار دن بعد اسے خود دیکھنے کی
مقدور بھر‌ ( بساطِ علم کے تحت) کوشش کریں۔۔ کچھ معاملات آپ پر عیاں ہوجائیں گے۔۔
دو ایک دن بعد پھر دیکھیں۔۔ یعنی خود سے اپنی اصلاح کیجئے۔۔ اساتذہ کرام اور دیگر
سن رسید ہ شعراء ایسا ہی کرتے چلے آئیں ہیں۔۔۔ اس طرح آپ جمود شکار ہونے کی بجائے
مزید آگے کی طرف پیش قدمی کریں گے۔۔ وگرنہ۔۔۔ ساری عمر ۔۔ کہا۔۔ اصلاح لی ۔۔ اور
پڑھ دیا۔۔ کا سلسلہ دراز رہے گا۔۔۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
امید ہے آپ میری معروضات میں کسی بھی قسم کی رویے اور لہجے کی ناشائستگی
پائیں گے تو درگرز فرمائیں گے۔۔۔

ارادت کیش
م۔م۔مغل
(ہنوز دلّی دور است کے مصداق۔۔ اسیرِ حلقہ ِ آئندگاں)
 

مغزل

محفلین
خرم ۔۔
آپ اور راجا نے خاصی تفصیل سے جواب عنایت کیا ہے ۔
اور آپ نے جو بھی معاملات بطور عذر پیش کیئے ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے ۔۔
یقینا فی زمانہ ایسا ہی ہورہا ہے۔۔ میری آج راجا سے خاصی طویل گفتگو رہی ہے اس ضمن میں۔۔
میں نے ان سے بھی عرض کیا اور آپ کی خد مت میں بھی عرض ہے ........
کہ ۔۔۔ میرا مطمع نظر ۔۔ اب بھی وہی ہے۔۔۔ کہ کاتا اور لے دوڑی کا معاملہ نہ کیا جائے۔۔
راجا سے میں نے کہا تھا ۔۔ کہ بھائی آپ جب غزل کہو ۔۔ اللہ کرے روز دس کہیں۔۔ یہ تو
توفیق کا معاملہ ہے۔۔ لیکن غزل کہنے کے کم از کم تین یا چار دن بعد اسے خود دیکھنے کی
مقدور بھر‌ ( بساطِ علم کے تحت) کوشش کریں۔۔ کچھ معاملات آپ پر عیاں ہوجائیں گے۔۔
دو ایک دن بعد پھر دیکھیں۔۔ یعنی خود سے اپنی اصلاح کیجئے۔۔
اور پھر بعد میں اپنے سے سینیئر سے اصلاح لیجئے۔۔۔
اساتذہ کرام اور دیگر سن رسید ہ شعراء ایسا ہی کرتے چلے آئیں ہیں۔۔۔
اس طرح آپ جمود شکار ہونے کی بجائے مزید آگے کی طرف پیش قدمی کریں گے۔۔
وگرنہ۔۔۔ ساری عمر ۔۔ کہا۔۔ اصلاح لی ۔۔ اور پڑھ دیا۔۔ کا سلسلہ دراز رہے گا۔۔۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
امید ہے آپ میری معروضات میں کسی بھی قسم کی رویے اور لہجے کی ناشائستگی
پائیں گے تو درگرز فرمائیں گے۔۔۔

ارادت کیش
م۔م۔مغل
(ہنوز دلّی دور است کے مصداق۔۔ اسیرِ حلقہ ِ آئندگاں)
 

الف عین

لائبریرین
مغل کے کہنے کے باوجود میں نے کچھ پوسٹ مارٹم کر ہی دیا ہے اس غزل کا:

///گھٹا ظلم کی پھر اٹھائی گئی ہے
شرافت، صداقت مٹائی گئی ہے

جس بات پر یہ غزل وجود میں آئی ہے، اس کے پیشِ نظر بہتر ردیف تو ’دی گئی ہے‘ ہونی چاہئے۔
ظلم کی گھٹا اٹھانا؟ اٹھایا تو پردہ بھی جاتا ہے، کیا ظلم کا پردہ اٹھا دیا گیا ہے؟ ہاں کمان اٹھائی جاتی ہے، تانی جاتی ہے۔ پھر شرافت اور صداقت کا مٹانا بھی واضح نہیں۔ یوں کہیں تو؟؟؟

کماں ظلم کی پھر اٹھا لی گئی ہے
صداقت کی بولی لگا دی گئی ہے

///بنایا گیا عدل کو پھر اپاہج
عدالت یہ فرضی سجائی گئی ہے

درست ہی ہے، بس ردیف کی تبدیلی:
بنایا گیا عدل کو پھر اپاہج
یہ فرضی عدالت سجا دی گئی ہے


///یہاں منصفوں کو خریدا گیا ہے
کتابِ عدالت جلائی گئی ہے
درست ہے، حالاں کہ کتابَ قانون آ سکتا تو بہتر تھا، لیکن اس بحر میں نہیں آتا۔

کسی کو ضرورت نہیں منصفی کی
چنابِ جہالت بہائی گئی ہے

جہالت منصفی کی ضد تو نہیں۔ اگر جہالت کا دریا بہنے کی بات ہوتی تو اس صورت میں کہا جاتا کہ کسی کو علم کی ضرورت نہیں!! پھر چناب ایک ندی کا ہندی/پنجابی نام ہے، اس میں اضافت؟
اس لئے میرا مشورہ: (اگرچہ ’پھر‘ اب بھی حشو ہے، یعنی محض بحر کی ضرورت کی وجہ سے)

کسی کو ضرورت نہیں منصفی کی
ندی ظلم کی پھر بہا دی گئی ہے


///اجازت نہیں لب کشائی کی اب تو
لبوں پر ہتھیلی جمائی گئی ہے

درست تو ہے۔ ’ لبوں پر ہتھیلی جمانا۔‘ اگر منہ بند کرنے کے لغوی معنوں میں ہو تو درست ہے لیکن ذہن فوراً ہتھیلی پہ سرسوں کی طرف جاتا ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمائی جاتی ہے محاورے کے مطابق۔
ردیف کی تبدیلی یہاں بھی بہتر ہے۔ بہر حال مانے لیتا ہوں۔
لبوں پر ہتھیلی جما دی گئی ہے

گلہ کس سے راجا کرے گا یہاں تو
یہ بستی تو بے حس بنائی گئی ہے

’راجا کرے گا‘ اور ’یہاں تو‘ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ تھوڑا سا تبدیل کر کے یوں کہیں تو؟؟

گلہ کس سے راجا کرو گے کہ اب تو
یہ بستی ہی بے حس بنا دی گئی ہے
 
Top