La Alma
لائبریرین
اب پانیوں کا ناؤ سے ناطہ نہیں رہا
کرنا تھا جس کو پار وہ دریا اتر گیا
منزل نہ راہِ شوق، نہ ہی کوئی رہنما
ہر شخص ابتلائے سفر میں ہے مبتلا
مدت تلک رہا تھا جو مجھ سے گریز پا
اک روز آکے مجھ سے وہ سایہ لپٹ گیا
بنتی ہیں ایک بات سے باتیں کئی ہزار
بنتی ہے جس سے بات، نہ کوئی بنا سکا
مہندی لگے جو ہاتھ پہ، یا زخم ہوں ہرے
چڑھتا نہیں ہے ہر کسی پر رنگ ایک سا
ڈھلتا رہا خیال کسی صورتِ بتاں
اڑتی رہی تھی خاک حقیقت کی جا بجا
المٰیؔ عذابِ ہجر کا کیوں تذکرہ کریں
ذکرِغمِ وصال جب اِس سے بھی ہے سوا
کرنا تھا جس کو پار وہ دریا اتر گیا
منزل نہ راہِ شوق، نہ ہی کوئی رہنما
ہر شخص ابتلائے سفر میں ہے مبتلا
مدت تلک رہا تھا جو مجھ سے گریز پا
اک روز آکے مجھ سے وہ سایہ لپٹ گیا
بنتی ہیں ایک بات سے باتیں کئی ہزار
بنتی ہے جس سے بات، نہ کوئی بنا سکا
مہندی لگے جو ہاتھ پہ، یا زخم ہوں ہرے
چڑھتا نہیں ہے ہر کسی پر رنگ ایک سا
ڈھلتا رہا خیال کسی صورتِ بتاں
اڑتی رہی تھی خاک حقیقت کی جا بجا
المٰیؔ عذابِ ہجر کا کیوں تذکرہ کریں
ذکرِغمِ وصال جب اِس سے بھی ہے سوا