کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی (از قلم نیرنگ خیال)

نیرنگ خیال

لائبریرین
ذوالقرنین نیرنگِ خیال
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی!
عمر رسیدہ اور جہاندیدہ لوگوں کی باتیں سن کر میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ان سب کو مصنف ہونا چاہیے۔ کتنا اچھا بولتے ہیں۔ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس خیالات و الفاظ کی کتنی فراوانی ہے۔ کتنی سہولت سے یہ واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ مجھے تو جو دو چار لفظ آتے ہیں، فوراً سے پیشتر نوک قلم کے حوالے کر دیتا ہوں۔ دنیا چیختی رہتی ہے کہ یہ زبان و بیان درست نہیں۔ میاں لکھنے کا یہ انداز درست نہیں۔ تم کب لکھنا سیکھو گے؟ لیکن میں سب سے بےپروا جو الٹا سیدھا دل میں آتا ہے لکھتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں۔
لیکن ہر گزرتا دن مجھے چپ رہنا سکھانے لگا ہے۔ میں چاہ کر بھی نہیں لکھ پاتا۔ میں سوچ کر بھی نہیں بول پاتا۔ میرے الفاظ کے آگے خندق اور میری سوچ کے آگے خلا پیدا ہوگیا ہے۔ نیا سال پرانا سال۔۔۔ نئے دن پرانے دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی باتیں پرانی باتیں۔۔۔ سب کتنا بےمعنی ہے۔ سب کتنا مبہم ہے۔ کوئی بات ، کوئی لمحہ، کوئی دن واضح نہیں ہے۔ کسی لفظ میں اثر نہیں ہے۔ کسی بات میں زندگی کی رمق نہیں ہے۔ میں جی رہا ہوں اس لیے کہ ربِ کائنات کی یہی رضا ہے۔ کوئی مر رہا ہے کیوں کہ کاتبِ تقدیر نے یہ لکھا ہے۔ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔ سردی۔۔۔ پھر سر اٹھاتی بہار۔۔۔ گرماتے ہوئے دن۔۔۔۔۔ مختصر راتیں۔۔۔۔۔۔ پھر خزاں ۔۔۔ اور آخر میں سرد راتیں۔۔۔۔۔۔۔ خاموشی۔۔۔۔۔ غور سے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سال بھی انسانی زندگی گزار رہاہے۔ کسی سرد رات میں کہرے کے پیچھے چھپ کر آخری ہچکی لے گا اور ختم ہوجائے گا۔ اسی سرد رات کی کوکھ سے ایک نیا سال ابھرے گا۔ جب آنکھیں کھولے گا تو بہار لائے گا۔ جوانی میں گرم ہوگا۔ ادھیڑ عمری میں خزاں کے رنگوں سے دل بہلائے گا۔ اور پھر سرد راتوں میں خاموش ہوتا ہوا اپنی آخری ساعت کا انتظار کرے گا۔ کتنی مماثلت ہے اس دورانیے کی انسان کی زندگی سے۔کتنی زندہ لگتی ہے یہ تخیلاتی تقسیم۔ جیسے یہی تو ہے سب کچھ۔ اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو ہیں نہیں۔ ہم کہاں ہیں۔ کس برس میں ہیں۔ بہار میں ہیں کہ خزاں میں۔۔۔۔ سرگرم ہیں کہ سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ کون جانے۔۔۔ انسان اور بدلتی رتوں میں یہی فرق رہ گیا ہے کہ انسان نے ظاہری پہناوے کو اندرونی خوبصورتی پر فوقیت دے دی ہے۔ شاید اسی ظاہری تصنع کی نمود اور برجستگی کی موت کا نام ارتقا ہے۔
فطرت کا ساتھ مجھے ہمیشہ سے بھلا لگتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جو میرے بکھرے حروف کو الفاظ کی شکل عطا کرتا ہے۔ یہ ہی وہ پانی ہے جس کی بدولت الفاظ جملوں کی فصل میں ڈھل جاتے ہیں۔ ذرا اس درخت کو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک درخت سامنے کھڑا ہوں۔ بظاہر کتنا ہرابھرا۔۔۔ اور جڑیں دیکھو تو۔ دیمک چاٹ گئی ہے۔ تنا بالکل کھوکھلا ہو چکا ہے۔ کسی لمحے یہ درخت گر جائےگا۔ لیکن شاید یہ بھی انسانوں سے متاثر ہوگیا ہے۔ جب تک زندہ ہے ہرا بھرا نظر آنا چاہتا ہے۔ میں اس لمحے میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ دھوکا درخت خود کو دے رہا ہے کہ دیکھنے والوں کو۔ میں اس دوراہے کا بھی شکار ہوں کہ دھوکا دہی انسان نے فطرت سے سیکھی ہے یا اس کا خمیر ہے۔ اور یہ درخت کچھ خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ۔۔۔ کچھ سرخ پتے ہیں اس کے اور کچھ ہرے بھی۔ کتنے بھلے رنگ ہیں اس کے۔ پر یہ پتے سرخ کیوں ہیں۔ کیا درختوں پر بھی جذباتی رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کیا جذبات کے اظہار کا طریقہ تمام حیات میں فطری طور پر ایک سا ہے؟ اس میں تنوع کیوں نہیں؟
اور یہ پتھر سے پھوٹتا پانی۔ تو کیا ہم ساری عمر چشمے کے لیے کسی بیرونی ضرب کے منتظر رہیں گے؟ کیا ان تمام پتھروں سے پانی پھوٹ سکتا ہے؟ یا کوئی کوئی پتھر ہی پانی جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا انسان بھی اپنی صلاحیتوں کو دنیا پر آشکار کرنے کے لیے کسی ضرب کا منتظر رہے؟ کوئی واقعہ کوئی حادثہ ، بےاحتیاطی میں لگی ٹھوکر یا نادانستگی میں لگی کوئی ضرب؟ اور جو پھر بھی پانی نہ پھوٹا تو؟ پھر بھی زمین بنجر رہ گئی تو؟ شاخ پر پھول نہ کھلا تو؟ شاید ان سب سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ شاید ان سب سوالوں کا جواب "شاید" ہی ہے۔ اسی اضطراب میں ایک چھوٹا سا کنکر سامنے بہتے پانی میں پھینکتا ہوں۔ کچھ لہریں پیدا ہوتی کناروں کی طرف بڑھتی ہیں۔ پر جوں جوں اپنے مرکز سے دور ہوتی ہیں، مدہم ہوتی غائب ہونے لگتی ہیں۔ ایسے میں ایک لہر ختم ہونے سے پہلے سرگوشی کرتی ہے۔ نادان! ضرب تو ہر پل، ہر ماہ اور ہر سال لگ رہی ہے۔ گزرتے لمحے جو دنوں میں بدل رہے، دن جو ہفتوں سے مہینوں کا سفر کر رہے، مہینے جو سال کے لفافے میں لپٹ رہے، یہ سب ضربیں ہی تو ہیں۔ ۔۔احساس پر۔۔۔۔۔۔۔۔خیال پر۔ اگر پھر بھی ندامت
آ نکھوں سے چشموں کی صورت نہیں بہہ رہی، اگر پھر بھی ذہن و دل کی زمیں پر نئی سوچ، نئے راستوں کے تعین کی فصل نہیں بیجی گئی، اگر پھر بھی شاخِ تخیل پر نئے عزم کے پھول نہیں کھل رہے۔ تو پھر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضرب تو لگ رہی ہے مگر یہ پتھر کسی چشمے کا ماخذ بننے کا اہل نہیں۔ یہ مٹی بنجر ہے، فصل کا بار نہیں اٹھا سکتی۔ یہ شاخ اپنی اصل سے جدا ہوگئی ہے۔
سال بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ دیکھا جائے تو ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو کسی شمار میں نہیں۔ ان دنوں کا گوشوارہ ہے جن کا احتساب نہیں۔ یوں ہی سورج کی طرح طلوع ہوتا ہے، یوں ہی سورج کی طرح غروب ہورہا ہے۔ اور میں بےبسی سے اس بوڑھے سال کو دفناتے اس نومولود سال کا شور سن رہا ہوں۔ جبکہ میرے پاس کسی بوڑھے کا خوبصورت بیان نہیں ۔ کسی داستان گو کی زبان نہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ محشؔربدایونی کا یہ شعر مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔​
کچھ آگہی کی سبیلیں ہیں انتشار میں بھی
کبھی کبھی نکل آیا کرو۔۔ غبار میں بھی​
آپ ہمیں محفل پر کتاب کا مزا دے رہے ہیں۔۔۔۔ شکیل بھائی۔۔۔
 
محفل پر کتاب کا مزا
یہ الفاظ،یہ طرز و اُسلوب یہ اندازآپ نے ہم نے سب نے کتاب سے ہی سیکھے ہیں توکیوں نہ کتاب سے یہ تعلق ہر حال میں قائم و اُستوار رہے اور نظر بھی آئے(۔’’۔نظربھی آئے ‘‘چندےغور طلب ہے) ۔کمپیوٹر جس قوم کی کی ایجاد تھی اب بھی اُس کی تابع ہے ۔ اور تو اور اِسی عالم میں اِس کا دائرہ ٔ اثر پھیل کر شش جہات پر محیط ہوگیاہے اورپوری قوت سے اپنی قوم کی برتری کا نغمہ ٔ پرشور دنیا کے گوش وخیال اور اعصاب و حواس میں اُنڈیل رہا ہے۔تاہم یہ صرف ایک عہد اور زمانے کی بات ہےکل اِس کا اثرو نفوذ وقت کی کوئی اورنئی ایجاد پسِ پشت دھکیل دے گی ۔ کتاب بھی ایک عہد اور زمانے کی ایجاد ہے مگراب اِس کا وجود ہر عہد اور ہرزمانے سے ہوتا ابد تک جائے گا۔یعنی کمپیوٹر کی جگہ کوئی نئی مشین ایجادہو کر اِسے ازکار رفتہ بنا سکتی ہے مگر کتاب کے معاملے میں ایسا نہیں ، کتاب کی جگہ صرف کتاب ہے،جس سے اکثرکا تعلق کمزور ہے تو ہواکرے کتاب کا رتبہ بدل نہیں سکتا:​
کیوں اور کسی چیز سے کرتا ہے۔ اِسے بند
میں آنکھ ہی رکھ دوں نہ ترے روزنِ درمیں​
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ الفاظ،یہ طرز و اُسلوب یہ اندازآپ نے ہم نے سب نے کتاب سے ہی سیکھے ہیں توکیوں نہ کتاب سے یہ تعلق ہر حال میں قائم و اُستوار رہے اور نظر بھی آئے(۔’’۔نظربھی آئے ‘‘چندےغور طلب ہے) ۔کمپیوٹر جس قوم کی کی ایجاد تھی اب بھی اُس کی تابع ہے ۔ اور تو اور اِسی عالم میں اِس کا دائرہ ٔ اثر پھیل کر شش جہات پر محیط ہوگیاہے اورپوری قوت سے اپنی قوم کی برتری کا نغمہ ٔ پرشور دنیا کے گوش وخیال اور اعصاب و حواس میں اُنڈیل رہا ہے۔تاہم یہ صرف ایک عہد اور زمانے کی بات ہےکل اِس کا اثرو نفوذ وقت کی کوئی اورنئی ایجاد پسِ پشت دھکیل دے گی ۔ کتاب بھی ایک عہد اور زمانے کی ایجاد ہے مگراب اِس کا وجود ہر عہد اور ہرزمانے سے ہوتا ابد تک جائے گا۔یعنی کمپیوٹر کی جگہ کوئی نئی مشین ایجادہو کر اِسے ازکار رفتہ بنا سکتی ہے مگر کتاب کے معاملے میں ایسا نہیں ، کتاب کی جگہ صرف کتاب ہے،جس سے اکثرکا تعلق کمزور ہے تو ہواکرے کتاب کا رتبہ بدل نہیں سکتا:​
کیوں اور کسی چیز سے کرتا ہے۔ اِسے بند
میں آنکھ ہی رکھ دوں نہ ترے روزنِ درمیں​
متفق
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نیرنگ خیال ، یہ آپ کی بہترین تحریروں میں سے ایک ہے ! قلم کی روانی نے خیال کی روانی کا خوب ساتھ دیا ہے اس نثر پارے میں!
ہر سال کے پہلے دن ایک انشائیہ لکھنے کی اس روایت نے اردو محفل کو کئی اچھے تحفے دیئے ہیں ۔ اس روایت کو جاری رکھیےگا!
 

سیما علی

لائبریرین
عمر رسیدہ اور جہاندیدہ لوگوں کی باتیں سن کر میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ ان سب کو مصنف ہونا چاہیے۔ کتنا اچھا بولتے ہیں۔ دنیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس خیالات و الفاظ کی کتنی فراوانی ہے۔ کتنی سہولت سے یہ واقعات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔
آج دوبارہ پڑھا تو آپ اور اچھے لگے کہ آپ کی اچھائی آپ کے ہر لفظ میں نظر آتی بس سوچ کا فرق ہے ورنہ ہم تو
obsolete زیادہ updated کم
نین بھیا شکر ہے کسی نے تو دل خوش کیا ۔۔۔ورنہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ؀
نہ کوئی تجربہ مانتا ہے ! نہ کوئی کہتا کبھی ہنر مند تھے اگر کبھی نصیحت کی تو سننے کو ملا " اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسیے مت!اپنے نظریات اپنے تک رکھیں ۔۔
؀جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات🥲
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال ، یہ آپ کی بہترین تحریروں میں سے ایک ہے ! قلم کی روانی نے خیال کی روانی کا خوب ساتھ دیا ہے اس نثر پارے میں!
ہر سال کے پہلے دن ایک انشائیہ لکھنے کی اس روایت نے اردو محفل کو کئی اچھے تحفے دیئے ہیں ۔ اس روایت کو جاری رکھیےگا!
بہت نوازش ظہیر بھائی! آپ کی داد میرے لیے سند سے کم نہیں۔ کوشش تو کرتا رہتا ہوں، مگر پھر سستی اور کاہلی اپنا بسیرا کر لیتی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج دوبارہ پڑھا تو آپ اور اچھے لگے کہ آپ کی اچھائی آپ کے ہر لفظ میں نظر آتی بس سوچ کا فرق ہے ورنہ ہم تو
obsolete زیادہ updated کم
نین بھیا شکر ہے کسی نے تو دل خوش کیا ۔۔۔ورنہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ؀
نہ کوئی تجربہ مانتا ہے ! نہ کوئی کہتا کبھی ہنر مند تھے اگر کبھی نصیحت کی تو سننے کو ملا " اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسیے مت!اپنے نظریات اپنے تک رکھیں ۔۔
؀جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات🥲
آپا لوگ کامیابی کو تجربے کا نعم البدل سمجھتے ہیں، حالانکہ کامیابی اور تجربہ د وبالکل الگ چیزیں ہیں، پھر تس اس پر یہ کہ کامیابی کا معیار بھی پیسہ ہی رہ گیا ہے۔ سو اس عنوان سے جڑے دیگر عنوانات بھی پست اور عامیانہ ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہر وہ چیز جو دولت سمیٹنے میں کام نہیں آ رہی، وہ اضافی محسوس ہوتی ہے۔ بالعموم ہر جگہ یہی رویہ نظر آتا ہے۔
باقی بزرگوں سے زیادہ بہترین داستان گو، قصے سنانے والا، کہانیاں بتانے والا اور زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے والا میں نے نہیں دیکھا۔

اور چونکہ آپ ہمیں شفقت کی نظر سے دیکھتی ہیں، اس لیے ہر بار ہم آپ کو بھلے نظر آتے ہیں۔ اللہ یہ حسن گماں یہ بھرم قائم رکھے۔
 
Top