زیک

مسافر
ڈشن ڈشن ڈشن۔۔۔ نجانے کہاں سے کچھ تجسس اور کچھ خوفزدہ کرنے والی موسیقی یا آواز آ رہی ہے۔ نجانے موسیقی ہے یا کچھ اور۔ صحیح سے فرق نہیں کیا جا رہا۔ مجلس میں بیٹھے لوگ تھوڑا گھبرا رہے ہیں۔ کئی کے چہروں پہ سراسیمگی نظر آ رہی ہے۔
نیرنگ خیال اپنے ساتھ ایک لمبے تڑنگے بندے کو، کہ جس کے بال بھی لمبے ہیں اور پونی میں جکڑے ہیں، لیے چلے آرہے ہیں۔ حلیے سے چست و چالاک نظر آنے والی شخصیت کا تعارف بھی ان ہی کے ذمہ ہے۔
صاحبو! ان سے ملیے۔
"ڈشن ڈشن ڈشن۔۔۔ " یہ آواز محفل میں سے آ رہی ہے۔ نجانے کون ہے؟ لیکن اس آواز پہ صاحب کے ماتھے پہ ایک لکیر نظر آئی ہے۔
"نا پسندیدہ "

"یہ ہیں اردو محفل فورم کے بانیان میں سے ایک۔" نیرنگ نے ابھی بات شروع ہی کی ہے ۔۔۔
" میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ " ۔ محمد عبدالرؤوف نے معصومیت سے نعرہ لگایا۔
"اردو محفل کے ابنِ بطوطہ۔۔۔" عبدالرؤوف نے خوشدلی سے اعلان کیا۔
"صاحب" نے بائیں سر ہلایا۔
"ہیں!! یہ تو غیر متفق کی ریٹنگ ہے۔ " عبدالرؤوف جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔
"جناب یہ محفل کے بہترین فوٹو گرافر ہیں۔ " عبید انصاری نے انکشاف کیا۔
صاحب خاموش۔ کچھ اندازہ نہیں کہ بات پسند آئی یا نہیں۔ بڑا غور کرنے سے معلوم پڑا کہ ایک چھوٹی سی لکیر سی ہونٹوں کے گرد نظر آئی تھی۔ جب تک اس کی ہئیت پہ غور کرتے، غائب ہو چکی تھی۔
"بہترین سائیکلسٹ!" سیما علی نے انکشاف کیا۔
صاحب نے ان کے احترام میں سر کو نیچے کی جانب ہلکی سی جنبش دی۔
ماشاءاللہ بڑوں کا خاص احترام کرتے ہیں۔

"کوئی دیکھے نہ دیکھے، شبیر تو دیکھے گا۔۔۔ اور ہر مراسلے پہ نظر۔۔۔یقین مانو ۔۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ زیک کی نظر اتنی تیز کیسے ہے۔ کیا یہ کوئی "جن" ہیں جو ابھی اس لڑی پہ، ابھی اس لڑی پہ۔۔۔" کسی نے سرگوشی کی لیکن آواز بہرحال بلند تھی۔
صاحب کے ماتھے پہ دو شکنیں ابھریں۔ مطلب "مضحکہ خیز".
"آپ لوگوں نے ابھی تک صاحب کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔ بری بات!" نیرنگ نے احساس دلایا تو یکایک سب نے اٹھ کے اپنی اپنی کرسی پیش کرنا شروع کر دی۔ لیکن محمد تابش صدیقی نے فوراً معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور زیک کو لیے سٹیج پہ پہنچے جہاں بہت اچھی سجاوٹ کے ساتھ نشست کا انتظام تھا۔
وہاں@ نبیل پہلے سے موجود تھے۔

میں تو سمجھا پنجابی فلم شروع ہوئی ہے۔۔۔ سلطان راہی کی اینٹری ہوگی۔۔۔ زیک کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا۔۔۔۔ مگر آپ نے تو تابش کی تابش سے ہماری آنکھیں خیرہ کر دیں۔۔۔ اعلی اعلی
نیرنگ خیال آپ سے تو ملاقات ہے لہذا بتائیں کہ یہ منظرکشی کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
"کوئی دیکھے نہ دیکھے، شبیر تو دیکھے گا۔۔۔ اور ہر مراسلے پہ نظر۔۔۔یقین مانو ۔۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ @زیک کی نظر اتنی تیز کیسے ہے۔ کیا یہ کوئی "جن" ہیں جو ابھی اس لڑی پہ، ابھی اس لڑی پہ۔۔۔" کسی نے سرگوشی کی لیکن آواز بہرحال بلند تھی۔
صاحب کے ماتھے پہ دو شکنیں ابھریں۔ مطلب "مضحکہ خیز".
بال برابر شک کی گنجائش نہیں ۔۔۔سچ انکی نظر اتنی تیز ہے جتنی ہمارے ایک باس کی نظر وہیں پر رکتی ہے جہاں کچھ آڑھا ٹیڑھا ہوگا ۔۔۔بالکل جن کی طرح ہر سطر پہ نظر یہ ہیں ہمارے زیک 🤓
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
"صاحبان! میں۔۔۔۔" میں نے کھنکار کر جیسے ہی بات شروع کی۔
ایک چوپالی نے ٹوکا "او بھائی، بیٹھ جا، پہلے بڑوں کی بات پوری ہو لینے دے، پھر شوق سے بولتے رہنا"۔
ایک معمر شخص نے اُس شخص کی بات کاٹتے ہوئے کہا " نہیں، انہیں بات کرنے دو"
پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا، جی فرمائیے! ہم سن رہے ہیں۔
میں نے پھیکی پھیکی سی ہنسی ہنس کر دوبارہ اپنی بات شروع کی۔ "صاحبان! میں جس شخصیت کا تعارف کرانے جا رہا ہوں، وہ ہیں۔۔۔۔۔"۔
ایک اور چوپالی نے ٹوکتے ہوئے کہا "او بھائی کسی اور کا تعارف کرانے سے پہلے یہ تو بتائیں کہ آپ ہیں کون؟؟؟"
چوپال میں موجود ہر شخص کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں تیرنے لگیں۔
میں کچھ لمحے توقف سے (ہلکے سے تبسم کے ساتھ) "دوستو! آپ سب مجھ سے تو بخوبی واقف ہوں گے۔۔۔۔"
ایک طرف سے آواز آئی، " کیسے؟ کیا تم کوئی منتظم یا مدیر ہو؟"
دوسری طرف سے کوئی بولا کہ "منتظم یا مدیر ہوتا تو یہاں کہاں سے آتا، کہیں گوشہ نشین ہوتا نا!!!"
پوری چوپال قہقہوں سے گونج اٹھی۔ ۔۔
دوبارہ اسی معمر شخص نے اپنے دونوں ہاتھوں کے اشارے سے سب چوپالیوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے میری طرف متوجہ ہوا۔ لیکن مجھے کچھ بھی نہ سوجھ رہا تھا۔
"بھائیو! میں ایک چوپالی ہوں، میرا نام عبدالرؤف ہے"
چوپال ایک بار پھر قہقہوں میں ڈوب گئی۔۔۔۔۔
خوب ماشاء اللہ روفی بھائی خوب !
ملائم انداز میں بین السطور بہت کچھ لکھ دیا۔نثر بھی لکھا کریں ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس لڑی میں کودنے کے بعد ارادہ تو یہ تھا کہ نین بھائی المعروف بہ نیرنگ خیال کا اچھی طرح تعارف کرواکے پچھلے تمام قرض چکادیئے جائیں ۔:D لیکن برا ہو کہ میرا قلم بے وفا نکلا اور ان کی طرف داری پر اتر آیا ۔ کسی طور تیار ہی نہیں ہورہا کہ محفلین سے ان کا کماحقہ تعارف کروایا جائے ۔ اس صورتحال کے ازالے کے طور پر میں یہ ایک پرانی تحریر یہاں لگارہا ہوں ۔شاید اس تحریر میں آپ کو ان کی رنگارنگ شخصیت کی ایک جھلک نظر آئے ۔ :) :) :)

************************************************************************

میں اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا کمر ٹکائے پاؤں پھیلائے فکرِ سخن میں مصروف تھا کہ اچانک کرسی کےبرابر سے کسی کے سبکیاں لینے کی آواز آئی۔ کاغذ قلم گود میں رکھ کر میں نے ہاتھوں سے عینک درست کی۔ دیکھا تو ایک مطلع منہ بسورے کرسی کے برابر میں کھڑا سسک رہا تھا۔ کان سرخ ہورہے تھے ، گال سوجے ہوئے اور گردن پر خراشیں تھیں۔
"ہائیں ، یہ تمہیں کیا ہوا؟! ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک ٹھاک گئے تھے یہاں سے"۔ میں نے پوچھا۔ مطلع کی سبکیوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔
"ارے میاں بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا تمہیں؟"
مطلع تو چپ رہا لیکن کرسی کے پیچھے سے ایک دوسرا شعر بولا۔ "نین انکل نے پٹائی کی ہے۔ کان بھی بہت زور سے کھینچے اور گلا بھی دبایا۔" یہ کہہ کر وہ شعر سامنے آیا تو دیکھا کہ اس کی حالت بھی مطلع سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا ایک اور چھوٹا سا شعر کرسی کے پیچھے سے روتا ہوا سامنے چلا آیا۔ اس کا بھی چہرہ سرخ اور بدن خراش آلود تھا۔ ہچکیاں لے لے کر رورہا تھا۔
"ارے یہ کیا ہوا ہےتم تینوں کو۔ مطلعے کو تو نین انکل نے مارا لیکن یہ منجھلے کی دھنائی کس نے کی؟"
"نین انکل نے"۔ تینوں ہم زبان ہوکر بولے۔
"لیکن کیوں؟ کیا کیا تھا تم لوگوں نے؟"
"کچھ بھی نہیں۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔"
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بلاوجہ تم لوگوں پر کیوں ظلم کریں گے۔ انکل نین ہیں،پاگل نین تھوڑی ہیں جو یوں ستم ڈھائیں۔"
"آپ نہیں جانتے انہیں۔ بہت ظالم ہیں وہ۔ ہر شعر ڈرتا ہے ان سے۔ ردیف قافیہ ایک کردیتے ہیں مار مار کے۔" منجھلا حشو و زوائد سے ناک پونچھتے ہوئے بولا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ابھی تین ہفتے پہلے تو وہ تم لوگوں کی اتنی تعریفیں کرکے گئے تھے۔ کہہ رہے تھے ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔"
مطلع بولا ۔"اجی وہ تو آپ کے سامنے تعریفیں کررہے تھے۔ جاتے وقت آنکھ بچا کر ہم سے کہہ رہے تھے بچّو تم لوگ ذرا اکیلے میں ملو پھر داد دیتا ہوں تم کو۔ اور جاتے جاتے زبان بھی چڑا ئی تھی۔"
"ہیں۔" میں نے ذرا حیرت سے کہا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ایسے ہیں کیا انکل نین؟!"
منجھلے کی ذرا ہمت بڑھی اور بولا۔ "اور نہیں تو کیا جی! غزل آپا تو ان کے سامنے گزرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ ہر وقت بس دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔۔۔ تشریح کردوں گا ، تشرٰیح کردوں گا۔"
اس پر چھوٹا بولا۔ "اور ابھی کچھ دن پہلے نا ایک مصرعے کو ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہے تھے۔۔۔ "
"کیا کہہ رہے تھے؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"کہہ رہے تھے میرے متّھے مت لگو ورنہ وزن برابر کردوں گا۔" چھوٹو نے سکتہ نگلتے ہوئے کہا ۔"اور نا پچھلے سال احمد انکل کی چھوٹی سی معصوم نظم کی ٹانگ بھی توڑدی تھی انہوں نے۔"
"اچھا ، اچھا۔ اگر تمہیں یہ سب باتیں معلوم تھیں تو ان کی طرف گئے کیوں؟"
میرا سوال سن کر تینوں کے تینوں نظریں جھکا کر چپ ہوگئے۔ ذرا گھبرائے گھبرائے پُر تعقید سے لگے۔
"تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟" میں نے چھوٹے سے ذرا سختی سے پوچھا۔ وہ پھر چپ رہے۔
"وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ اصل میں ۔۔۔" چھوٹا ہکلایا ۔
"بتاتے ہو یا کروں تقطیع؟" میں نے سختی سے گھورا تو بولا۔ "وہ جی ہم ان کے احاطۂ خیال میں کود گئے تھے۔"
"احاطۂ خیال میں کود گئے تھے؟! کیوں کود گئے تھے؟"
"نارنگیاں توڑنے کے لئے۔" منجھلا اپنی ردیف سہلاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے بولا ۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "نارنگیاں؟ نارنگیاں؟! نین انکل کا ذہن ہے یا کمپنی باغ؟ تم سے کس نے کہا کہ وہاں نارنگیاں ہیں۔"
مطلع بولا۔ " جاسمن آپا کی رباعی نے بتایا تھا۔"
" جاسمن آپا کی رباعی؟ ۔۔۔۔۔۔ وہی جو تتلا تتلا کر اٹک اٹک کر بولتی ہے؟" میں نے پوچھا تو تینوں نے بیک وقت اثبات میں منڈیا ہلادی ۔
اب مجھے بات سمجھ میں آئی۔
"ہائیں! ابے نالائقو! نارنگیاں نہیں اس میں نیرنگیاں ہیں۔"
"نے۔۔رنگ۔۔گیاں۔۔" میں نے زور دے دے کر کہا۔
وہ تینوں کچھ خفیف سے ہوگئے۔ مطلع بولا۔"املا کی غلطی ہوگئی۔ معاف کردیجیے۔ آئندہ وہاں نہیں جائیں گے۔"

اس سے پہلے کہ میں انہیں مزید ڈانٹتا ڈپٹتا میری آنکھ کھل گئی۔ دور باورچی خانے سے بیگم کی آواز آرہی تھی۔ "یہ بھی خوب ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے سوگئے۔ ذرا لیٹے نہیں کہ آنکھ لگ گئی۔ اٹھیے ! جائیے ذرا بازار سے کچھ نارنگیاں لادیجیے۔ فروٹ کیک بنانا ہے۔"
 

جاسمن

لائبریرین
اس لڑی میں کودنے کے بعد ارادہ تو یہ تھا کہ نین بھائی المعروف بہ نیرنگ خیال کا اچھی طرح تعارف کرواکے پچھلے تمام قرض چکادیئے جائیں ۔:D لیکن برا ہو کہ میرا قلم بے وفا نکلا اور ان کی طرف داری پر اتر آیا ۔ کسی طور تیار ہی نہیں ہورہا کہ محفلین سے ان کا کماحقہ تعارف کروایا جائے ۔ اس صورتحال کے ازالے کے طور پر میں یہ ایک پرانی تحریر یہاں لگارہا ہوں ۔شاید اس تحریر میں آپ کو ان کی رنگارنگ شخصیت کی ایک جھلک نظر آئے ۔ :) :) :)

************************************************************************

میں اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا کمر ٹکائے پاؤں پھیلائے فکرِ سخن میں مصروف تھا کہ اچانک کرسی کےبرابر سے کسی کے سبکیاں لینے کی آواز آئی۔ کاغذ قلم گود میں رکھ کر میں نے ہاتھوں سے عینک درست کی۔ دیکھا تو ایک مطلع منہ بسورے کرسی کے برابر میں کھڑا سسک رہا تھا۔ کان سرخ ہورہے تھے ، گال سوجے ہوئے اور گردن پر خراشیں تھیں۔
"ہائیں ، یہ تمہیں کیا ہوا؟! ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک ٹھاک گئے تھے یہاں سے"۔ میں نے پوچھا۔ مطلع کی سبکیوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔
"ارے میاں بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا تمہیں؟"
مطلع تو چپ رہا لیکن کرسی کے پیچھے سے ایک دوسرا شعر بولا۔ "نین انکل نے پٹائی کی ہے۔ کان بھی بہت زور سے کھینچے اور گلا بھی دبایا۔" یہ کہہ کر وہ شعر سامنے آیا تو دیکھا کہ اس کی حالت بھی مطلع سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا ایک اور چھوٹا سا شعر کرسی کے پیچھے سے روتا ہوا سامنے چلا آیا۔ اس کا بھی چہرہ سرخ اور بدن خراش آلود تھا۔ ہچکیاں لے لے کر رورہا تھا۔
"ارے یہ کیا ہوا ہےتم تینوں کو۔ مطلعے کو تو نین انکل نے مارا لیکن یہ منجھلے کی دھنائی کس نے کی؟"
"نین انکل نے"۔ تینوں ہم زبان ہوکر بولے۔
"لیکن کیوں؟ کیا کیا تھا تم لوگوں نے؟"
"کچھ بھی نہیں۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔"
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بلاوجہ تم لوگوں پر کیوں ظلم کریں گے۔ انکل نین ہیں،پاگل نین تھوڑی ہیں جو یوں ستم ڈھائیں۔"
"آپ نہیں جانتے انہیں۔ بہت ظالم ہیں وہ۔ ہر شعر ڈرتا ہے ان سے۔ ردیف قافیہ ایک کردیتے ہیں مار مار کے۔" منجھلا حشو و زوائد سے ناک پونچھتے ہوئے بولا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ابھی تین ہفتے پہلے تو وہ تم لوگوں کی اتنی تعریفیں کرکے گئے تھے۔ کہہ رہے تھے ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔"
مطلع بولا ۔"اجی وہ تو آپ کے سامنے تعریفیں کررہے تھے۔ جاتے وقت آنکھ بچا کر ہم سے کہہ رہے تھے بچّو تم لوگ ذرا اکیلے میں ملو پھر داد دیتا ہوں تم کو۔ اور جاتے جاتے زبان بھی چڑا ئی تھی۔"
"ہیں۔" میں نے ذرا حیرت سے کہا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ایسے ہیں کیا انکل نین؟!"
منجھلے کی ذرا ہمت بڑھی اور بولا۔ "اور نہیں تو کیا جی! غزل آپا تو ان کے سامنے گزرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ ہر وقت بس دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔۔۔ تشریح کردوں گا ، تشرٰیح کردوں گا۔"
اس پر چھوٹا بولا۔ "اور ابھی کچھ دن پہلے نا ایک مصرعے کو ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہے تھے۔۔۔ "
"کیا کہہ رہے تھے؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"کہہ رہے تھے میرے متّھے مت لگو ورنہ وزن برابر کردوں گا۔" چھوٹو نے سکتہ نگلتے ہوئے کہا ۔"اور نا پچھلے سال احمد انکل کی چھوٹی سی معصوم نظم کی ٹانگ بھی توڑدی تھی انہوں نے۔"
"اچھا ، اچھا۔ اگر تمہیں یہ سب باتیں معلوم تھیں تو ان کی طرف گئے کیوں؟"
میرا سوال سن کر تینوں کے تینوں نظریں جھکا کر چپ ہوگئے۔ ذرا گھبرائے گھبرائے پُر تعقید سے لگے۔
"تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟" میں نے چھوٹے سے ذرا سختی سے پوچھا۔ وہ پھر چپ رہے۔
"وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ اصل میں ۔۔۔" چھوٹا ہکلایا ۔
"بتاتے ہو یا کروں تقطیع؟" میں نے سختی سے گھورا تو بولا۔ "وہ جی ہم ان کے احاطۂ خیال میں کود گئے تھے۔"
"احاطۂ خیال میں کود گئے تھے؟! کیوں کود گئے تھے؟"
"نارنگیاں توڑنے کے لئے۔" منجھلا اپنی ردیف سہلاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے بولا ۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "نارنگیاں؟ نارنگیاں؟! نین انکل کا ذہن ہے یا کمپنی باغ؟ تم سے کس نے کہا کہ وہاں نارنگیاں ہیں۔"
مطلع بولا۔ " جاسمن آپا کی رباعی نے بتایا تھا۔"
" جاسمن آپا کی رباعی؟ ۔۔۔۔۔۔ وہی جو تتلا تتلا کر اٹک اٹک کر بولتی ہے؟" میں نے پوچھا تو تینوں نے بیک وقت اثبات میں منڈیا ہلادی ۔
اب مجھے بات سمجھ میں آئی۔
"ہائیں! ابے نالائقو! نارنگیاں نہیں اس میں نیرنگیاں ہیں۔"
"نے۔۔رنگ۔۔گیاں۔۔" میں نے زور دے دے کر کہا۔
وہ تینوں کچھ خفیف سے ہوگئے۔ مطلع بولا۔"املا کی غلطی ہوگئی۔ معاف کردیجیے۔ آئندہ وہاں نہیں جائیں گے۔"

اس سے پہلے کہ میں انہیں مزید ڈانٹتا ڈپٹتا میری آنکھ کھل گئی۔ دور باورچی خانے سے بیگم کی آواز آرہی تھی۔ "یہ بھی خوب ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے سوگئے۔ ذرا لیٹے نہیں کہ آنکھ لگ گئی۔ اٹھیے ! جائیے ذرا بازار سے کچھ نارنگیاں لادیجیے۔ فروٹ کیک بنانا ہے۔"
لاجواب!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
Top