ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

علی وقار

محفلین
ہر مسلمان اور ہندو انسان ہے۔
ایسا ہی ہے، بالکل ایسا ہی ہے مگر کیا پاکستان میں ہندو، اور ہندوستان میں مسلمان، آئینی لحاظ سے نہیں، بلکہ عملی طور پر، برابر کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خوش آئند بات ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو، یہ جان لینا چاہیے کہ یہ سب ایک خواب و سراب ہے۔ دونوں طرف مذہبی انتہاپسندی ہے جس کے باعث اقلیتیں اچھوت بن کر رہ گئی ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
ایسا ہی ہے، بالکل ایسا ہی ہے مگر کیا پاکستان میں ہندو، اور ہندوستان میں مسلمان، آئینی لحاظ سے نہیں، بلکہ عملی طور پر، برابر کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خوش آئند بات ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو، یہ جان لینا چاہیے کہ یہ سب ایک خواب و سراب ہے۔ دونوں طرف مذہبی انتہاپسندی ہے جس کے باعث اقلیتیں اچھوت بن کر رہ گئی ہیں۔

ہندو اور مسلمان کیا اور بھی بے شمار اقلیتیں قدیم ہندوستان میں مل جل کر رہتی آئیں ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہندوستان میں انسانوں کا ایک سمندر مل جل کر رہ ہی رہا ہے۔ یہ خوف کی مسلم لیگی سیاست اور دو قومی نظریے کا غیر اسلامی زہر ہے جو اسکے برعکس سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آئین میں ہر شہری کا لحاظ رکھ کر حکومت چلانے کے لیے یورپی ممالک کافی کام کر چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
1946ء کے الیکشنز کے بعد مولانا ابوالکلام بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور پنجاب میں مسلم لیگ جو اکثریتی پارٹی تھی اس کے حکومت بنانے کے خلاف ڈٹ گئے، اور جوڑ توڑ کر کے (یہی وہی رول ہے جو آج کل پاکستان میں ایک سابقہ صدرِ مملکت ادا کرتے ہیں) یونینسٹ پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا جو کہ نشتوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر تھا۔ اسی ایک مثال پر قیاس کر لیں کہ متحد رہنے کی صورت میں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں بالعموم کس طرح کی سیاست ہوتی!
اسکا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ مولانا آزاد دور حاضر کے زرداری لیول کے آدمی تھے جو اکثریتی ووٹ (جمہوریت) کیخلاف جوڑ توڑ کر کے اقلیت میں سے وزیر اعلی پنجاب بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سید رافع بھائی اب اپنا چورن کہیں اور جا کر بیچیں۔ مولانا آزاد کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ وہ باتیں اتحاد و جمہوریت والی کر کے حرکتیں زرداری والی کرتے تھے
 

محمداحمد

لائبریرین
بحث ہو یا کتابیں وقت، تجربات، علم اور افراد کے تبدیل ہوجانے سے گو موضوع کے اعتبار سے پرانی ہوں، مضمون کے لحاظ سے نئی ہوتی ہیں۔

جی!

اب یہی دیکھ لیجے کہ مولانا آزاد کو عہدِ قدیم کا زرداری ہونے کا اعزاز مل گیا۔

ہے نا نئی بات۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
1946ء کے الیکشنز کے بعد مولانا ابوالکلام بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور پنجاب میں مسلم لیگ جو اکثریتی پارٹی تھی اس کے حکومت بنانے کے خلاف ڈٹ گئے، اور جوڑ توڑ کر کے (یہی وہی رول ہے جو آج کل پاکستان میں ایک سابقہ صدرِ مملکت ادا کرتے ہیں) یونینسٹ پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا جو کہ نشتوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر تھا۔ اسی ایک مثال پر قیاس کر لیں کہ متحد رہنے کی صورت میں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں بالعموم کس طرح کی سیاست ہوتی!
جی!
اب یہی دیکھ لیجے کہ مولانا آزاد کو عہدِ قدیم کا زرداری ہونے کا اعزاز مل گیا۔
زرداری کے علاوہ بھی ایک بدنام زمانہ شخصیت جنرل یحیی کا نام ذہن میں آ رہا ہے۔ جس نے ۱۹۷۰ کے الیکشن نتائج کے مطابق اکثریتی جماعت عوامی لیگ کی حکومت نہیں بننے دی اور یوں پاکستان دو ٹکڑے کروا کر دم لیا۔
 

علی وقار

محفلین
اسکا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ مولانا آزاد دور حاضر کے زرداری لیول کے آدمی تھے جو اکثریتی ووٹ (جمہوریت) کیخلاف جوڑ توڑ کر کے اقلیت میں سے وزیر اعلی پنجاب بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سید رافع بھائی اب اپنا چورن کہیں اور جا کر بیچیں۔ مولانا آزاد کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ وہ باتیں اتحاد و جمہوریت والی کر کے حرکتیں زرداری والی کرتے تھے
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری تو بد نام ہیں ہی، ان سے قبل جہانگیر ترین نے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسلم لیگ نون پنجاب میں 2018 میں زیادہ نشستیں جیت کر سامنے آئی تھی۔ اس حساب سے تو ان کی حکومت بننے دینی چاہیے تھی، مگر جہانگیر ترین اور مقتدر قوتوں نے تحریک انصاف کے لیے جوڑ توڑ کر کے ان کی حکومت بنوائی تھی۔ تحریک انصاف کی مسلم لیگ نون کے مقابلے میں آٹھ نشستیں کم تھیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسکا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ مولانا آزاد دور حاضر کے زرداری لیول کے آدمی تھے جو اکثریتی ووٹ (جمہوریت) کیخلاف جوڑ توڑ کر کے اقلیت میں سے وزیر اعلی پنجاب بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سید رافع بھائی اب اپنا چورن کہیں اور جا کر بیچیں۔ مولانا آزاد کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ وہ باتیں اتحاد و جمہوریت والی کر کے حرکتیں زرداری والی کرتے تھے
آپ میرا مدعا صحیح سمجھے نہیں۔ میرا زور "جوڑ توڑ" پر تھا۔ کسی اکثریتی پارٹی کے خلاف مختلف پارٹیوں کا مل کر حکومت بنا لینا غیر آئینی یا غیر جمہوری نہیں ہے لیکن اس عمل کے پیچھے کیا کیا کچھ ہوتا ہے اس کو کم از کم "غیر اخلاقی "ضرور کہہ سکتے ہیں۔

اسی 1946ء والی پنجاب کی مثال کو لیجیے۔ مولانا لاہور میں صرف ایک ہی مشن لے کر آئے تھے کہ پنجاب میں لیگ کی حکومت نہیں بننی چاہیئے، چاہے اس کے لیے کانگریس کو کسی بھی حد تک جانا پڑے۔ اس مشن کے نتیجے میں جو مخلوط حکومت بنی اس میں کانگریس، اکالی دل اور یوننیسٹ پارٹی شامل تھی۔ ان کی ہیئت ترکیبی بھی دیکھ لیں، کانگریس سخت انگریز مخالف تھی اور یونینسٹ انگریزوں کی بی ٹیم تھی لیکن کانگریس اپنے سارے اصول بالائے طاق رکھ کر لیگ کی حکومت روکنے کے لیے یونینسٹ پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنانے پر آمادہ ہو گئی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس لین دین اور جوڑ توڑ میں کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا۔ دوسرا کانگریس کے پاس رقم کی کمی نہیں تھی، برلا اور ٹاٹا ہاؤسز کا خاص دست شفقت کانگریس پر تھا اور اب ایسی خط و کتابت سامنے آ چکی ہے کہ مولانا کی سفارشات پر کانگریس نے لاکھوں روپے نیشنلسٹ مسلمانوں کو دیئے۔ یہ بھی جوڑ توڑ ہی کی ایک قسم ہے!
 

سید رافع

محفلین
اسکا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ مولانا آزاد دور حاضر کے زرداری لیول کے آدمی تھے جو اکثریتی ووٹ (جمہوریت) کیخلاف جوڑ توڑ کر کے اقلیت میں سے وزیر اعلی پنجاب بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سید رافع بھائی اب اپنا چورن کہیں اور جا کر بیچیں۔ مولانا آزاد کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ وہ باتیں اتحاد و جمہوریت والی کر کے حرکتیں زرداری والی کرتے تھے

آپ خود ہی بتائیں کہ اگر کل نشستیں 175 ہوں اور مسلم لیگ صرف 73 یعنی %41 ںشستیں حاصل کرے اور اپنی فرقہ واریت کے باعث کسی سے اتحاد بنانے میں کامیاب نہ ہو کہ حکومت بنا سکے تو ایسے میں کیا ہونا چاہیے؟ کیا سیاسی خلا بن جائے کہ مسلم لیگ اپنے فرقہ پرستانہ رویے کے باعث اکالی سکھ پارٹی سے بات چیت میں کامیاب نہ ہو سکی جن کے پاس 21 نشستیں تھیں؟

دوسری طرف کانگریس جس کے پاس 51 نشستیں ہیں اور اپنے غیر فرقہ پرستانہ رویے کے باعث نہ صرف اکالی سکھ پارٹی سے بات چیت میں کامیاب ہو جاتی ہے بلکہ انگریز نواز مسلم یونینسٹ پارٹی سے بھی بات چیت میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ کیا آپ اس کو غیر فرقہ پرستانہ اور انسان دوست سیاست کی کامیابی نہ کہیں گے؟ یا یہ چاہیں گے کہ سیاسی خلاء رہے؟
 

سید رافع

محفلین
کسی اکثریتی پارٹی کے خلاف مختلف پارٹیوں کا مل کر حکومت بنا لینا غیر آئینی یا غیر جمہوری نہیں ہے لیکن اس عمل کے پیچھے کیا کیا کچھ ہوتا ہے اس کو کم از کم "غیر اخلاقی "ضرور کہہ سکتے ہیں۔
غیر اخلاقی کی وضاحت درکار ہے تاکہ پتہ چلے کہ وہ اخلاق جو رہ گئے انسانیت کے لیے کس قدر مضر یا مفید ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
مولانا لاہور میں صرف ایک ہی مشن لے کر آئے تھے کہ پنجاب میں لیگ کی حکومت نہیں بننی چاہیئے، چاہے اس کے لیے کانگریس کو کسی بھی حد تک جانا پڑے۔

مولانا انسانوں کے درمیان تفرقہ نہیں چاہتے تھے۔ یہ ایک مفید مشن ہے اور اسکے لیے انکو ایک تفرقہ پرست جماعت کو روکنے کے لیے مروجہ طریقوں میں کسی حد تک جانا پڑے کیا وہ اسکے لیے حق بجانب نہیں؟ کیا انکو اپنے مشن میں سست ہونا چاہیے؟ کیا تالیف قلب کے لیے رقم دینا اور دیگر جماعتوں کو راضی کرنے کے لیے انکی جماعت کا وزیر اعلی بنا دینا انسانیت کے لیے مضر ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
غیر اخلاقی کی وضاحت درکار ہے تاکہ پتہ چلے کہ وہ اخلاق جو رہ گئے انسانیت کے لیے کس قدر مضر یا مفید ہیں۔
جی میرے نزدیک اخلاقی اور غیر اخلاقی کا مطلب تو وہی کچھ ہے جو یہ الفاظ سننے یا پڑھنے پر سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، باقی اس کی وضاحت تو کوئی "فلسفی" ہی کر سکتا ہے۔

مولانا انسانوں کے درمیان تفرقہ نہیں چاہتے تھے۔ یہ ایک مفید مشن ہے اور اسکے لیے انکو ایک تفرقہ پرست جماعت کو روکنے کے لیے مروجہ طریقوں میں کسی حد تک جانا پڑے کیا وہ اسکے لیے حق بجانب نہیں؟ کیا انکو اپنے مشن میں سست ہونا چاہیے؟ کیا تالیف قلب کے لیے رقم دینا اور دیگر جماعتوں کو راضی کرنے کے لیے انکی جماعت کا وزیر اعلی بنا دینا انسانیت کے لیے مضر ہے؟
معذرت کے ساتھ مولانا انسانیت کے مصلح و ہادی تو تھے نہیں (ویسے ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ وہ ایک زمانے میں امام مہدی ہونے کا اعلان کرنے والے تھے لیکن پھر رک گئے)، ایک کانگریسی سیاستدان تھے اور سیاسی طور پر وہی کچھ کرتے رہے جو کہ عام طور پر سیاستدان کرتے ہیں یعنی مخالف کو زک پہنچانے اور اس کا راستہ روکنے کے لیےکسی بھی حد تک چلے جانا، اب اس کا نام آپ "راضی کرنا" رکھیں، "انسانیت کی خدمت "کرنا رکھیں یا کچھ اور رہتا یہ ایک سیاسی مشن ہی ہے اور فائدہ بھی اس سے سیاسی ہی اٹھایا جاتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین

ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست​


اس عنوان کا کیا مطلب ہوا؟

قائدِ اعظم نے کسی فرقہ کا نام نہیں لیا۔

ہاں وہ مسلمانوں کے لئے کام کر رہے تھے تو آپ زیادہ سے زیادہ اُنہیں علیحدگی پسند کہہ سکتے ہیں۔ اور قائدِ اعظم نے جو بھی کیا بالکل درست کیا۔ آج ہندوستان کے حالات، بی جے پی اور آر ایس ایس کی حرکتوں سے یہ بات بہت زیادہ واضح ہو چکی ہے۔

میری سمجھ نہیں آیا کہ اس موضوع کو اس انداز میں زیر بحث لا کر آپ یعنی سید رافع اور آپ کے مددگار یعنی جاسم محمد آخر کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟؟؟
 
آپ یعنی @سید رافع اور آپ کے مددگار یعنی @جاسم محمد آخر کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟؟؟
رافع صاحب کی شخصیت، بصد معذرت، مجھے شروع سے مشکوک لگتی ہے، عجیب متضاد باتیں کرتے ہیں ... جاسم کے بارے میں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاید اس سب میں سے "اسلامی صدارتی نظام" برآمد کرناچاہتے ہوں ... کیونکہ ان کے ممدوح نے آج کل پھر یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
قائد اعظم محمد علی جناح یا مولانا ابوالکلام آزاد دونوں ایک قد آور شخصیات ہیں۔ ان کے اختلافات پر ازسرنو بات کرنے کا مطلب دونوں کی شخصیتوں کو داغدار کرنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
دونوں اب اُس کے حضور ہیں جہاں دلوں کے راز بھی نہیں چھپ سکتے۔
ہمیں اگر کچھ فکر کرنے کی ضرورت ہے تو اپنے اعمال کی اور ملک و ملت کی زبوں حالی کی۔ ہم اپنے ذمے کا کام چھوڑ کر اس کام میں دخل اندازی کرنا چاہ رہے ہیں جو خالصتاً اُس ذات کا کام ہے جس کی بادشاہت میں کسی وزیر کسی معاون کی حاجت تک نہیں ہے۔
 

سید رافع

محفلین
میری سمجھ نہیں آیا کہ اس موضوع کو اس انداز میں زیر بحث لا کر آپ یعنی @سید رافع اور آپ کے مددگار یعنی @جاسم محمد آخر کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟؟؟
تاریخ کا مطالعہ

ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست​


اس عنوان کا کیا مطلب ہوا؟

کہ ابو الکلام آزاد مسٹرجناح کو ایک فرقہ پرست سمجھتے تھے۔
 

سید رافع

محفلین
Top