ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

جاسم محمد

محفلین
بقیہ معاملات ایک طرف
میرا اصل مدعا یہ تھا:
اگر ہندوستان کے بٹوارے کا نتیجہ اتنا بھیانک نکلنا تھا کہ اس سے پاکستان کے مسلمان خوش رہ سکے نہ کشمیر کے مسلمان نہ بھارت کے مسلمان نہ بنگلہ دیش کے مسلمان تو پھر ایسے بٹوارے کا عملی طور پر فائدہ کیا ہوا اور کسے ہوا؟ ہندو تو آج بھی بھارت میں متحد ہیں۔ بٹوارے سے تو صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے
 

سید رافع

محفلین
پاکستانی یقیناً خوش نہیں لیکن اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کس بات پر خوش نہیں؟ کیا عام پاکستانی، پاکستان کے عام حالات پر خوش نہیں یا پاکستان اور پاکستان کی تخلیق ہی سے خوش نہیں؟ مثال کے طور پر عصرِ حاضر کا عام مسلمان، پوری دنیا میں مسلمانوں کی عمومی حالت پر خوش نہیں لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلام ہی سے خوش نہیں؟
پاکستانی آئین پاکستان کی بالا دستی نہ ہونے پر ناخوش ہیں۔ پاکستان کی تخلیق جن وعدوں پر کی گئی ہے اس سے آئین پاکستان وجود میں آیا ہے۔ آئین پاکستان پر عمل لاینحل ہے ۔ سو عام پاکستانی کو تخلیق پاکستان کا مقصد فوت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اسلام اور مسلمان کے درمیان تعلق مثبت ہے اور پاکستان اور پاکستانی جیسا منفی نہیں۔ کیونکہ آج کے دور کا مسلمان صحیح احادیث سے یہ جانتا ہے کہ قرب قیامت کے نزدیک مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا ہو گا۔ لیکن پاکستانی یہ نہیں جانتا کہ کب آئین پر عمل شروع ہو گا۔
 

علی وقار

محفلین
میرا اصل مدعا یہ تھا:
ایک ضرب المثل مشہور ہے، پھوٹ ہندوستان کا میوہ ہے۔ :) بس، مسلمان جہاں ہوں گے، یہی کچھ کریں گے۔ انہیں کہیں بھی قرار نہیں۔ :) یہ تو خیر ازراہ تفنن کہا ہے، مگر سچ یہی ہے کہ مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے مگر میرا ماننا یہ ہے کہ اگر بٹوارا تب نہ ہوتا تو بعد میں ہو جاتا کیونکہ اسے تا دیر ٹالا نہ جا سکتا تھا۔ اور اس بٹوارے کا سارا ملبہ صرف مسلمانوں پر نہیں ڈالا جا سکتا جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ کانگریسی قیادت بھی اس کی برابر ذمہ دار تھی۔ آپ 1937 میں کانگریسی وزارتوں کا حال دیکھ لیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم پاکستان کا الحاق دوبارہ ہندوستان سے نہیں کرنا چاہتے۔ سو بہتر ہے کہ اس پرانی بحث سے نکل کر موجودہ مسائل پر توجہ دی جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرا ماننا یہ ہے کہ اگر بٹوارا تب نہ ہوتا تو بعد میں ہو جاتا کیونکہ اسے تا دیر ٹالا نہ جا سکتا تھا
ویسے ۱۹۴۷ میں جو پاکستان وجود میں آیا تھا اس کا بٹوارا بھی ۱۹۷۱ میں ہو گیا۔ اور اس کے بعد کے سیاسی، سماجی، مذہبی حالات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کے سفر پر آج بھی پوری شدت کیساتھ عمل پیرا ہے۔ کرکٹ کے علاوہ کوئی ایک چیز ایسی ہے جس پر آج پاکستانی قوم پوری طرح سے متحد نظر آئے؟ 🤨
 

علی وقار

محفلین
ویسے ۱۹۴۷ میں جو پاکستان وجود میں آیا تھا اس کا بٹوارا بھی ۱۹۷۱ میں ہو گیا۔ اور اس کے بعد کے سیاسی، سماجی، مذہبی حالات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ معاشرہ تقسیم در تقسیم کے سفر پر آج بھی پوری شدت کیساتھ عمل پیرا ہے۔ کرکٹ کے علاوہ کوئی ایک چیز ایسی ہے جس پر آج پاکستانی قوم پوری طرح سے متحد نظر آئے؟ 🤨
ہم کبھی قوم بن ہی نہ پائے۔ ہم اپنے قیام سے لے کر اب تک مسلسل تجربات کی لپیٹ میں ہیں۔ کبھی ہیٹ کبھی پگڑی، کبھی جمہوریت کبھی آمریت، وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے پاس قوم بننے کا وقت ہی نہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
البتہ جیتنے پر پاکستانی قوم کا بیک وقت جشن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بھارت اور افغانستان سے جیتتے ہیں 😉

بھارت ہی کہہ سکتے ہیں۔

افغانستان سے تو وقتی مخاصمت ہے بلکہ یوں کہیے کہ جوابی مخاصمت ہے۔ افغان قوم غالباً ہماری سیاسی رویّوں کا ردِ عمل کرکٹ میچ میں دینے لگی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
مولانا کا یہ تبصرہ میں شامل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں مولانا سے صد فیصد متفق ہوں۔

مسلم لیگ نے پاکستان کی جو اسکیم تجویز کی ہے، اس پر میں نے پر پہلو سے غور کیا ہے۔ ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے میں نے سوچا ہے کہ پورے ہندوستان کے مستقبل پر اس سے کیا اثر ہو گا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

اسکیم کے تمام پہلووں پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہ صرف بحیثیت مجموعی پورے ہندوستان کے لیے بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی، اور دراصل جتنے مسئلے اس کے ذریعے حل ہوں گے، ان سے زیادہ نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔

مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا، اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور کچھ ناپاک ہیں۔ پاک اور ناپاک علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: خدا نے ساری زمیں کو میرے لیے مسجد بنایا ہے۔

اس کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسکیم شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے اور اسکا خیال اسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے یہودیوں میں قومی وطن کا خیال۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستانی مسلمان، ہندوستان میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتے اور اس پر راضی ہیں کہ ایک کونے میں، جو ان کے لیے مخصوص کر دیا ہو، سمٹ کر بیٹھ جائیں۔

یہوودیوں کی اس آرزو سے ہمدردی کی جاسکتی ہے کہ ان کا ایک قومی وطن ہو کیونکہ وہ پوری دنیا میں منتشر ہیں اور کسی ایک علاقے میں بھی وہ حکومت کے انتظامات پر اثر نہیں ڈال سکتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی تعداد نو کروڑ سے اوپر ہے اور کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے وہ ہندوستانی زندگی کا اتنا اہم عنصر ہیں کہ حکومت کے انتظامات اور پالیسی پر فیصلہ کن حد تک اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرت نے اکو چند مخصوص علاقوں میں بڑی تعداد میں یکجا بھی کر دیا ہے اور اس طرح انہیں تقویت پہنچائی ہے۔

ان حالات میں پاکستان کے مطالبے میں کوئی جان نہیں رہتی، کم از کم میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اس حق کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوں کہ پورے ہندوستان کو میدان عمل سمجھوں اور اسکی سیاسی اور معاشی زندگئ کی تشکیل میں شرکت کروں۔ میرے نزدیک بزدلی کی بات ہے کہ میں اپنی آبائی جائیداد سے دست بردار ہو جاوں اور اس کے ایک ٹکڑے پر قناعت کر لوں۔

جب کہ سب کو یہ معلوم ہے کہ مسٹر جناح کی پاکستان کی اسکیم دو قومی نظریے پر مبنی ہے۔ ان کا دعوی یہ ہےکہ ہندوستان میں بہت سی قومیں آباد ہیں، جن کے درمیان مذہب بنائے امتیاز ہے۔ ان میں جو دو بڑی قومیں ہیں یعنی ہندو اور مسلمان ان کی اس اعتبار سے کہ وہ دو الگ قومیں ہیں، دو الگ ریاستیں ہونی چاہیں۔ ڈاکٹر ایڈورڈ ٹامس نے ایک مرتبہ مسٹر جناح سے کہا کہ ہندو اور مسلمان ہندوستان کے ہزاروں شہروں، قصبوں اور گاوں میں مل جل کر رہتے ہیں تو مسٹر جناح نے جواب دیا کہ اس کا انکی جداگانہ قومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مسٹر جناح کے نظریے کے مطابق چونکہ یہ دونوں قومیں ہر بستی، ہر گاوں اور ہر شہر میں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں، اس وجہ اس وہ چاہتے ہیں کہ ان کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسکیم شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے اور اسکا خیال اسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے یہودیوں میں قومی وطن کا خیال۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستانی مسلمان، ہندوستان میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتے اور اس پر راضی ہیں کہ ایک کونے میں، جو ان کے لیے مخصوص کر دیا ہو، سمٹ کر بیٹھ جائیں۔

یہوودیوں کی اس آرزو سے ہمدردی کی جاسکتی ہے کہ ان کا ایک قومی وطن ہو کیونکہ وہ پوری دنیا میں منتشر ہیں اور کسی ایک علاقے میں بھی وہ حکومت کے انتظامات پر اثر نہیں ڈال سکتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی تعداد نو کروڑ سے اوپر ہے اور کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے وہ ہندوستانی زندگی کا اتنا اہم عنصر ہیں کہ حکومت کے انتظامات اور پالیسی پر فیصلہ کن حد تک اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرت نے اکو چند مخصوص علاقوں میں بڑی تعداد میں یکجا بھی کر دیا ہے اور اس طرح انہیں تقویت پہنچائی ہے۔
یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ دنیا بھر کے یہودیوں نے فلسطین ہجرت کرکے وہاں یکجا ہو کر اپنی ایک یہودی قوم پھر سے آباد کی اور اسے اپنے آبائی وطن اسرائیل کا نام دیا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔ اور یہودیوں کی عالمی طاقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔دوسری طرف ہندوستان کے مسلمان جو صدیوں سے اس خطے میں آباد تھے نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی خاطر پورے ہندوستان کا بٹوارا کروایا۔ جس کے نتیجہ میں خود متحد کیا ہونا تھا الٹا ہندوؤں کو اپنے خلاف مزید متحد کر دیا!
محمد وارث محمداحمد
 

سید رافع

محفلین
تقسیم ہند نہ بھی ہوتی تو جو باہمی رنجشیں اور کدورتیں تھیں، ان کے باعث کسی نہ کسی مرحلے پر بٹوارہ ہو ہی جانا تھا
وہ فطری تقسیم ہوتی۔

اس فطری عمل سے بننے والی قوم پاکستانی قوم کی طرح نہ ہوتی جو اپنے ہی آئین پر نہ چلے۔ پاکستان کا حال 5 ماہ میں قبل از پیدا ہوجانے والے مفلوج بچے کا ساہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ فطری تقسیم ہوتی۔

اس فطری عمل سے بننے والی قوم پاکستانی قوم کی طرح نہ ہوتی جو اپنے ہی آئین پر نہ چلے۔ پاکستان کا حال 5 ماہ میں قبل از پیدا ہوجانے والے مفلوج بچے کا ساہے۔
بالکل۔ غیر فطری بٹوارے کا غیر فطری انجام ہوا 🙁
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہم پاکستان کا الحاق دوبارہ ہندوستان سے نہیں کرنا چاہتے۔ سو بہتر ہے کہ اس پرانی بحث سے نکل کر موجودہ مسائل پر توجہ دی جائے۔
سانپ کو مدت ہوئی نکل گیا ہے اور ہم ابھی تک لکیر پیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
 
Top