ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

سید رافع

محفلین
مولانا ابوالکلام آزاد 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ابو الکلام نے جدوجہد آزادی پر ایک کتاب انڈیا ونس فریڈم لکھی۔ اس کتاب میں مسٹر جناح اور مسلم لیگ کی سیاست پر مولانا نے ایک سیاسی مدبر کی حیثیت سے جابجا تبصرے کیے ہیں جو دلچسپی کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔

مولانا شملہ کانفرنس کی ناکامی مسٹر جناح کی فرقہ وارنہ مطالبے پر ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ۔۔۔

کونسل کی رکنیت کے بارے میں اختلافات پیدا ہوئے۔ مسٹر جناح کا کہنا تھا کہ کانگریس تمام ہندو ممبروں کو نامزد کر سکتی ہے اور لیگ تمام مسلمان ممبروں کو نامزد کرے گی۔ میں (مولانا ٓزاد) نے کہا کہ کانگریس کسی ایسے مطالبے کو منظور نہیں کر سکتی۔ تمام سیاسی معاملوں میں وہ ہندو مسلمان کے امتیاز کو صحیح نہیں تسلیم کر سکتی تھی۔ وہ کسی حالت میں اس پر راضی نہیں ہو سکتی کہ اسے صرف ہندووں کی پارٹی قرار دیا جائے۔

مولانا مذید تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

دس برس بعد بھی جب میں ان واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے عجیب صورت حال پر حیرت ہوتی ہے جو مسلم لیگ کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ مسٹر جناح کو یہ بات بہت بری لگی کہ ایگزیکٹیو کونسل میں دو مسلمان ہوں جو ان کے نامزد کردہ نہ ہوں۔ اس لیے اگر (شملہ) کانفرنس مسٹر جناح کی مخالفت کی وجہ سے ناکام نہ ہوجاتی تو اسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ کونسل کے چودہ ممبروں میں سے سات مسلمان ہوتے، اگرچہ پوری آبادی کے وہ پچیس فیصد تھے۔ یہ کانگریس کی فیاضی کا ثبوت ہے، اور اس سے مسلم لیگ کی حماقت پر ایسی روشنی پڑتی ہے جس میں وہ خاصی بھیانک معلوم ہوتی ہے۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی محافظ سمجھی جاتی تھی مگر اسی کی مخالفت کے سبب مسلمان غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی حکومت میں ایک معقوم حصہ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ مسلم لیگ کی انتہا پسندی کا انجام یہ ہوا کہ (شملہ) کانفرنس ناکام قرار پا کر برخاست کر دی گئی۔

مولانا فرماتے ہیں کہ

ہم نے جس حد تک ممکن تھا مسٹر جناح کی خواہشوں کا لحاظ کیا، مگر ہم ان کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی واحد اور مختار نمائندہ جماعت مسلم لیگ ہے۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بھی لیگ وزارت نہیں بنا سکی ہے۔

عام انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نشاندہی کرتے ہیں کہ

ان تینوں صوبوں ( یعنی بنگال، پنجاب اور سندھ) میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلم لیگ نے مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ جذبات پیدا کرنے کے لیے پروپیگینڈا کیا تھا۔

اشتراک اور تعاون پر مسٹر جناح کی ضرب کاری کا ذکر یوں کرتے ہیں

میں (مولانا آزاد) نے یہ طے کر لیا تھا کہ وزارتیں بنانے کے معاملے میں ہمیں لیگ کے ساتھ فیاضی سے کام لینا چاہیے۔ مجھے معلوم تھا کہ کئی صوبوں اور خاص طور سے بہار، آسام اور پنجاب میں مسلم لیگی ممبر بہت خوشی سے شریک ہوئے۔ لیکن مسٹر جناح کی پالیسی تھی کہ انہیں کانگریس کے ساتھ اشتراک کرنے سے روکا جائے۔

جاری ہے۔۔۔
 

بندہ پرور

محفلین
مسلمانوں کے عظیم قائد اور بانی ء پاکستان کے بارے میں ایک کانگریسی رہنما کے ان تبصروں کو پڑھ کر دکھ ہو رہا ہے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت بہت اہم ہے، وہ امام الہند بھی کہلاتے تھے اور اپنے عہد کے نابغہ تھے۔ ان کی مذہبی، علمی اور ادبی حیثیت مسلم ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن یہی بات ان کی سیاست اور سیاسی حیثیت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ ان کی سیاست مخصوص حوالے سے تھی اور ہر سیاسی شخصیت کی طرح ان کے حامی بھی تھے اور مخالف بھی۔ اس لیے ان کی ہر سیاسی رائے پر نہ ہر کوئی یقین کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے درست سمجھ سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب صرف اتنا سا ہے کہ ان کے کسی مذہبی فتوے پر تو عامۃ الناس آمین کہہ سکتی ہے لیکن کسی سیاسی رائے پر قوم بٹی ہوئی ہی نظر آئے گی۔
 

سید رافع

محفلین
کسی سیاسی رائے پر قوم بٹی ہوئی ہی نظر آئے گی۔
یہی حال کسی بھی علمی فکر کا ہوتا ہے جیسے سائنس، فقہ، حدیث، تفسیر۔ اسکے لیے سیاست مخصوص نہیں ہے۔ کہیں بھی عامۃ الناس آمین بغیر عقیدت یا دلیل کے نہیں کہتی۔ ہاں بعض فکریں گمراہ کن اور بعض ہدایت پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ بحث و جراح سے اندازہ ہوتا ہے کہ کونسی فکر کس نوعیت کی ہے۔ مسٹر جناح کی بصیرت کا پھل پاکستان ہے اور پاکستانی اس سے خوش نہیں۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
مسلمانوں کے عظیم قائد اور بانی ء پاکستان کے بارے میں ایک کانگریسی رہنما کے ان تبصروں کو پڑھ کر دکھ ہو رہا ہے ۔

یہ غم ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو ایک نئے پس منظر میں سمجھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاں بعض فکریں گمراہ کن اور بعض ہدایت پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ بحث و جراح سے اندازہ ہوتا ہے کہ کونسی فکر کس نوعیت کی ہے۔
محض بحث و جراح کسی بھی فکر کے ہدایت یافتہ یا گمراہ کن ہونے کا تعین نہیں کر سکتی۔ اس کیلئے اس فکر کے عملی مظاہر بھی دیکھنے ہوں گے۔ قائد اعظم کی فکر پاکستان آج ۷۵ سال بعد عملی طور پر کتنا کامیاب رہی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے مقابلہ میں ابوالکلام کی فکر والا بھارت آج دنیا میں کہاں کھڑا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
مسلمانوں کے عظیم قائد اور بانی ء پاکستان کے بارے میں ایک کانگریسی رہنما کے ان تبصروں کو پڑھ کر دکھ ہو رہا ہے ۔
ایک سیاسی لیڈر کے اپنےمخالف سیاسی لیڈر کےبارے میں خیالات ہیں۔ مولانا کے "ممدوح' بھی مولانا کو کانگریس کا "شو بوائے" کہا کرتے تھے!
 

سید رافع

محفلین
محض بحث و جراح کسی بھی فکر کے ہدایت یافتہ یا گمراہ کن ہونے کا تعین نہیں کر سکتی۔ اس کیلئے اس فکر کے عملی مظاہر بھی دیکھنے ہوں گے۔ قائد اعظم کی فکر پاکستان آج ۷۵ سال بعد عملی طور پر کتنا کامیاب رہی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے مقابلہ میں ابوالکلام کی فکر والا بھارت آج دنیا میں کہاں کھڑا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
یہ صحیح ہے کہ قوموں کو مذہب میں تقسیم کرنا جمہوری رویہ نہیں اور نا ہی موجودہ دور کی ضروریات پوری کرتا ہے لیکن کیا معاشی اعشاریے کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی واحد دلیل ہے؟ ہندوستانی اکثر غریب ہیں۔ کشمیر اور بابری مسجد ہمارے سامنے ہے۔ بی جے پی کی فاسشٹ سیاست بھی سب دیکھ رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن کیا معاشی اعشاریے کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی واحد دلیل ہے؟
واحد تو نہیں لیکن ایک بہت بڑی دلیل تو ہے۔ بھارت پہلی اور آخری بار کشکول پکڑ کر آئی ایم ایف کے پاس ۱۹۹۱ میں گیا تھا۔ جبکہ پاکستان ۱۹۵۸ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا شروع ہوا اور ۲۲ بار جانے کے بعد بھی کشکول توڑ نہیں سکا

 

محمد وارث

لائبریرین
مسٹر جناح کی بصیرت کا پھل پاکستان ہے اور پاکستانی اس سے خوش نہیں۔
پاکستانی یقیناً خوش نہیں لیکن اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کس بات پر خوش نہیں؟ کیا عام پاکستانی، پاکستان کے عام حالات پر خوش نہیں یا پاکستان اور پاکستان کی تخلیق ہی سے خوش نہیں؟ مثال کے طور پر عصرِ حاضر کا عام مسلمان، پوری دنیا میں مسلمانوں کی عمومی حالت پر خوش نہیں لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلام ہی سے خوش نہیں؟
 
مولانا کے سیاسی تبصرے شاید 1990 کی دہائی تک تو لائق اعتنا گردانے جا سکتے تھے ۔۔۔ مگر اس کے بعد سے ہند کی سیاسی صورت حال میں جو تبدیلیاں ظاہر ہوئی ہیں ان کا مشاہدہ کرنے بعد بھی ان کی رائے کو صواب سمجھنے کو زیادہ سے زیادہ تجاہل عارفانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔۔۔ آر ایس ایس اور بی جے پی جیسے گروہوں کی بے انتہا عوامی مقبولیت ایک بین حقیقت ہے ۔۔۔ ہندوستان کے انتخابات پر بالعموم کسی بڑی دھاندلی کا الزام نہیں لگتا ۔۔۔ ایسے میں بی جے پی اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کا پے در پے انتخابی کامیابیاں حاصل کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فی الوقت وہاں عوام کی واضح اکثریت انہی نظریات کی حامی ہے اور ہم جیسے لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ہمارے اجداد نے بھی وہیں رہ جانے کا فیصلہ کیا ہوتا تو ہمارے حالات کسی صورت اس سے بہتر نہ ہوتے جو پاکستان میں ہیں ۔۔۔ ہندوستانی سوشل میڈیا کا معروضی جائزہ ہی یہ دکھانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد واقعتا ٰ’’ہزار سالہ غلامی‘‘ کا حساب برابر کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ قیام پاکستان سے متعلق مولانا آزاد کے تبصروں اور تجزیوں کا غلط ثابت ہوتا کم از کم میرے لیے تو کوئی خوشی کی بات نہیں ۔۔۔ کیونکہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ہی تباہ حالی کی صورت نکل رہا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایسی بحث، بحث برائے بحث کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر محمد علی جناح رح کے ورثاء اپنے خطے کو نہ سنبھال سکے تو اس میں جناح رح کا کیا قصور ہے۔ دوسری طرف بھی تو وہی حال ہے۔ جس مذہبی رواداری کے بھارت کا ابو الکلام آزاد رح نے خواب دیکھا تھا کیا وہ بھارت اب کسی کو دکھائی دیتا ہے۔
عوام الناس کو تو چھوڑیئے بڑے بڑے بالی وڈ کے اداکار اس کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو انہیں مسلمان (نام) ہونے کی وجہ مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مثال کے طور پر عصرِ حاضر کا عام مسلمان، پوری دنیا میں مسلمانوں کی عمومی حالت پر خوش نہیں لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اسلام ہی سے خوش نہیں
افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے اگر دنیا کے مسلمانوں کے بارے میں اُنکی حالت کے بآرے میں بات کی جائے تو اُسکو بھی اسلام سے جوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا کے سیاسی تبصرے شاید 1990 کی دہائی تک تو لائق اعتنا گردانے جا سکتے تھے ۔۔۔ مگر اس کے بعد سے ہند کی سیاسی صورت حال میں جو تبدیلیاں ظاہر ہوئی ہیں
۹۰ کی دہائی سے پہلے کشمیر جہاد اور اس کے معا بعد بھارت میں دھماکوں و دہشت گردی کی لہر کا آغاز ہوا۔ پھر ۱۹۹۱ میں بھارت معاشی طور پر قریبا دیوالیہ ہو گیا تھا۔ ان جیسے اور بہت سے سانحات نے ہندو انتہا پسندوں کو سیاست میں اپنی جگہ بنانے کا موقع دیا
 

جاسم محمد

محفلین
افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے اگر دنیا کے مسلمانوں کے بارے میں اُنکی حالت کے بآرے میں بات کی جائے تو اُسکو بھی اسلام سے جوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
جب مسلمان ماضی کی فتوحات کو اسلامی فتوحات اور ماضی کی ترقیات کو اسلامی گولڈن ایج کہیں گے تو موجودہ حالت زار کو بھی اسلام سے ہی جوڑیں گے
 

علی وقار

محفلین
انتہا پسندی یہاں بھی ہے اور سرحد پار بھی ہے۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو دھرتی لہو لہان ہو گئی۔ بے تحاشا خون بہا۔ ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تب بھی یوں خون کی ارزانی ہوتی؟ اس کا قطعیت کے ساتھ جواب دینا ممکن نہیں مگر آج کل انڈیا کی حالت دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید تب بھی خون پانی کی طرح بہتا۔ پاکستان میں بھی انتہاپسندانہ رویے اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں حالانکہ یہاں غیر مسلموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ انتہاپسندانہ رویے انگریز دور میں بھی دیکھنے کو ملتے رہے بالخصوص جب انیس سو تیس کی دہائی میں کانگریس کو مختلف صوبوں میں حکومت کرنے کا موقع ملا تھا تو جس طرز پر کانگریس نے حکومت کی، اس سے مسلمانوں کے دل اُچاٹ ہو گئے۔ ایک زمانہ تھا جب جناح ہندو مسلم سفیر کہلاتے تھے مگر وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ پاکستان نہ بنا تو زیادہ بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ کانگریس سے وابستہ مسلم رہنماؤں کا نکتہ نظر مختلف تھا مگر ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا تاہم سیاست میں جب کبھی مذہبی رہنما شامل ہوئے، انہوں نے اس سے نیک نامی کم ہی کمائی۔ میری نظر میں، تقسیم ہند نہ بھی ہوتی تو جو باہمی رنجشیں اور کدورتیں تھیں، ان کے باعث کسی نہ کسی مرحلے پر بٹوارہ ہو ہی جانا تھا اور یہ بھی امکان رہتا کہ شاید بعدازاں برصغیر میں زیادہ ممالک قائم ہو جاتے جتنے کہ اب موجود ہیں۔ کسی رہنما کی نیت پر شبہ کیے بغیر، ہر دو ممالک کے رہنے والوں کو انتہاپسندانہ رویوں کوترک کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ بد قسمتی یہ ہے کہ تقسیم ہند کے باوجود ہر دو طرف برابر آگ لگی ہوئی ہے۔ جب اس کثرت سے خون بہہ گیا تو اس کا اثر تو ہونا تھا، اور ہو کر رہا۔ یہ خون کے دھبے جانے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے۔ ایک بد نصیبی یہ ہوئی کہ عجلت میں تقسیم کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اگر اس حوالے سے مبنی بر حکمت اقدامات کیے جاتے تو لاکھوں افراد کو ایک بہت بڑے عذاب سے بچایا جا سکتا تھا۔ صرف ایک سیاسی رہنما کو خون خرابے کا ذمہ دار قرار دینا غلط ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تب بھی یوں خون کی ارزانی ہوتی؟ اس کا قطعیت کے ساتھ جواب دینا ممکن نہیں مگر آج کل انڈیا کی حالت دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید تب بھی خون پانی کی طرح بہتا۔
آجکل جو بھارت کے حالات ہیں اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔ بھارت تقسیم کے وقت تو مسلمانوں کیساتھ ایسا نہیں تھا۔ پاکستان کیساتھ کئی جنگوں کے بعد بھی بھارت ایسا نہیں تھا۔ لیکن پھر جو ۹۰ کی دہائی سے قبل کشمیر جہاد شروع ہوا جس کے نتیجہ میں بھارت میں دھماکوں اور دہشت گردی کی ایک لہر اٹھی۔ تو اس کے بعد ہندو انتہا پسندوں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا۔ خاص طور پر ۲۰۰۸ میں ہونے والے ممبئی حملوں اور اس سے قبل دہشت گردی کے چند بڑے سانحات نے بھارتیوں کو ہندو انتہا پسندوں کے نظریات کی طرف مائل کیا۔
اگر ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوا ہوتا تو کشمیر تنازعہ پر خطے میں اتنی جنگیں اور سانحات بھی وقوع پزیر نہ ہوتے۔ تو عین ممکن تھا کہ ہندو انتہا پسند بھی آج مسند اقتدار پر بیٹھنے کی بجائے تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو جاتے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
آجکل جو بھارت کے حالات اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔ بھارت تقسیم کے وقت تو مسلمانوں کیساتھ ایسا نہیں تھا۔ پاکستان کیساتھ کئی جنگوں کے بعد بھی بھارت ایسا نہیں تھا۔ لیکن پھر جو ۹۰ کی دہائی سے قبل کشمیر جہاد شروع ہوا جس کے نتیجہ میں بھارت میں دھماکوں اور دہشت گردی کی لہر اٹھی۔ تو اس کے بعد ہندو انتہا پسندوں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا۔ خاص طور پر ۲۰۰۸ میں ہونے والے ممبئی حملوں اور اس سے قبل دہشت گردی کے چند بڑے سانحات نے بھارتیوں کو ہندو انتہا پسندوں کے نظریات کی طرف مائل کیا
جاسم آپ کے خیال میں 1947 و ما قبل ہندو مسلم تعلقات کشیدہ نہ تھے؟ یہ تاثر عام ہے کہ ہندو مسلم تقسیم سے قبل مل جل کر رہتے تھے مگر تب بھی فسادات کا اندیشہ موجود رہتا تھا۔ آج بھی ہندوستان میں ہندو مسلم مل جل کر ہی رہتے ہیں مگر فسادات کا اندیشہ موجود ہے۔ یہ معاملات 1990 کے بعد سے نہیں، بلکہ 1890 کی دہائی سے چلے آ رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم آپ کے خیال میں 1947 و ما قبل ہندو مسلم تعلقات کشیدہ نہ تھے؟ یہ تاثر عام ہے کہ ہندو مسلم تقسیم سے قبل مل جل کر رہتے تھے مگر تب بھی فسادات کا اندیشہ موجود رہتا تھا۔ آج بھی ہندوستان میں ہندو مسلم مل جل کر ہی رہتے ہیں مگر فسادات کا اندیشہ موجود ہے۔ یہ معاملات 1990 کے بعد سے نہیں، بلکہ 1890 کی دہائی سے چلے آ رہے ہیں۔
اس صورت میں ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کو مل بیٹھ کر اس کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہئے تھا۔ اور اگر ہندوستان کا بٹوارا ہی اس کا حل تھا تو بٹوارا کم از کم اس طرح تو کرتے کہ بھارت سے تمام مسلمان پاکستان اور پاکستان سے تمام ہندو با خیریت بھارت جا سکتے۔ آج بھی بھارت کے مسلمانوں کی آبادی تقریباً پاکستان کے مسلمانوں جتنی ہی ہے۔

اس لیے مجھے ہندو مسلم تنازعے کے مستقل حل یعنی بٹوارے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ بٹوارا ٹھیک سے نہیں ہوا جس کے نتیجہ میں تنازعہ ختم یا کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔
ادھر بھارت اور پاکستان انگریز سامراج سے آزاد ہوئے اور ادھر کشمیر کے محاز پر جنگ چھڑ گئی جو آج ۷۵ سال بعد بھی جاری و ساری ہے۔ اسی کشمیر تنازعہ کی بنیاد پر پاک فوج آج تک اپنے ہی ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا کر اس پر ہر طرح سے قابض ہے۔ اگر ہندوستان کے بٹوارے کا نتیجہ اتنا بھیانک نکلنا تھا کہ اس سے پاکستان کے مسلمان خوش رہ سکے نہ کشمیر کے مسلمان نہ بھارت کے مسلمان نہ بنگلہ دیش کے مسلمان تو پھر ایسے بٹوارے کا عملی طور پر فائدہ کیا ہوا اور کسے ہوا؟ ہندو تو آج بھی بھارت میں متحد ہیں۔ بٹوارے سے تو صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے
 
Top