ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک سہ غزلہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے ۔ اس میں پہلی غزل تو تین چار سال پرانی ہے لیکن بقیہ دو غزلیں رواں سال کا حاصل ہیں ۔ اس سال وطنِ عزیز جن نشیب و فراز سے گزرا وہ تمام محبِ وطن حلقوں میں ہر ہر پہلو سے گفتگو کا محور رہے ہیں ۔ آخری دو غزلیں انہی فکری مباحث کا نتیجہ ہیں ۔ ان دو غزلوں کا رنگ پہلی غزل سے نمایاں طور پر مختلف ہے ۔ ان تینوں کو ایک ساتھ پیش کرنے کا مقصد کچھ یہ بھی ہے کہ شاعر کا فکری ارتقا قارئین پر واضح ہوسکے ۔ سہ غزلہ پیشِ خدمت ہے ۔ امید ہے کہ چند اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔

٭٭٭

عبیر و عنبر و مشکِ ختن کی بات کرو
ہر استعارے میں اُس گلبدن کی بات کرو

سحر شگفتنِ غنچہ کے انتظار میں ہے
صبا سے پھر کسی غنچہ دہن کی بات کرو

ہیں سنگ ریزے رہِ یار کے سپاس طلب
عقیقِ طوسی و لعلِ یمن کی بات کرو

طوافِ شمع میں رقصاں ہیں لاکھوں پروانے
حجابِ شعلۂ جلوہ فگن کی بات کرو

دریدہ جامۂ حرفِ ہنر ہے شکوہ کناں
سخنورو! کسی خوش پیرہن کی بات کرو

بڑھے گی اور بھی شیرینیِ مقال ذرا
بجائے وہم و گماں حسنِ ظن کی بات کرو

وہ جس کے دم سے تھی رنگینیِ بہارِ سخن
ظہیؔر تم اُسی طرزِ کہن کی بات کرو

٭٭٭


سکوتِ کنجِ چمن میں چمن کی بات کرو
جہاں کے ہیں ہم اُسی انجمن کی بات کرو

بساطِ ہست ہماری بسیطِ خاک پہ ہے
اِسی کے رنگ میں ہر فکر و فن کی بات کرو

ملے جو شکوۂ بادِ خزاں سے کچھ فرصت
تو آبیاریِ خاکِ چمن کی بات کرو

فلک سے فرشِ تپاں کی شکایتیں کیسی
ردائے پرچمِ سایہ فگن کی بات کرو

زوالِ نعمتِ دنیا نہ ہوگا دامن گیر
عطائے بارگہِ ذوالمنن کی بات کرو

ہزار عقدۂ باہم اِسی سے وا ہوں گے
ظہیؔر اپنے زمین و زمن کی بات کرو

٭٭٭٭


غمِ فراق نہ رنج و محن کی بات کرو
دیارِ غیر میں یارو وطن کی بات کرو

حصارِ محبسِ دیوار و در تڑخ جائے
فروغِ دامنِ کوہ و دمن کی بات کرو

مہک مہک اٹھے ویرانیِ خس و خاشاک
بہارِ سنبل و سرو و سمن کی بات کرو

یہ سرد مہریِ موسم پگھل پگھل جائے
جمالِ لالۂ شعلہ بدن کی بات کرو

نہ کور چشمِ تماشہ ، نہ دستِ اہلِ ستم
گلوئے نعرۂ مستانہ زن کی بات کرو

فسانے شمعِ شبستاں کے مت سناؤ مجھے
چراغِ جادۂ ظلمت شکن کی بات کرو

کوئی تو حرفِ ملامت خلافِ جور و ستم
کبھی تو شورشِ اہلِ فتن کی بات کرو

مثالِ نیزہ اتر جائے سینۂ شب میں
ہر ایک بات میں ایسی کرن کی بات کرو

یہ کیا کہ تم بھی نصیحت کرو شعار ظہیؔر
دوانے ہو کوئی دیوانے پن کی بات کرو

٭٭٭

ظہیؔر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۲
 

سیما علی

لائبریرین
غمِ فراق نہ رنج و محن کی بات کرو
دیارِ غیر میں یارو وطن کی بات کرو

حصارِ محبسِ دیوار و در تڑخ جائے
فروغِ دامنِ کوہ و دمن کی بات کرو
ظہیر بھائی
بہت اعلیٰ و ارفع !!
شاید دیارِ غیر میں وطن سے محبت اور سوا ہوتی ہے !
آپُکی وطن سے محبت نے آپکے مقام کو ہمارے دل میں بہت بلند کردیا !!سلامت رہیں ملک سے دور رہ کر اس سے محبت کرنے اور اس پاک وطن کا درد رکھنے والے آمین !!!
مثالِ نیزہ اتر جائے سینۂ شب میں
ہر ایک بات میں ایسی کرن کی بات کرو

یہ کیا کہ تم بھی نصیحت کرو شعار ظہیؔر
دوانے ہو کوئی دیوانے پن کی بات کرو
دل میں اُتر جانے والی بات کی بھائی آپ نے !!
ڈھیر ساری دعائیں آپکے نام !
جیتے رہیے آمین
 

سیما علی

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ وا ۔ ظہیر بھائی بہت خوب مرصع سنگریزے تراشے ہیں ۔
سپاس طلب۔۔۔ واہ۔۔۔
لیکن بسیط کی اضافت کچھ عجیب لگی یہاں خصوصاََ بساط کی اضافت کے پڑوس میں !
دو غزلے اور سہ غزلے تو اب دیکھے ہی مدت ہو گئی تھی ۔آپ نے ارشاد کیا اور دلشاد کیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی
بہت اعلیٰ و ارفع !!
شاید دیارِ غیر میں وطن سے محبت اور سوا ہوتی ہے !
آپُکی وطن سے محبت نے آپکے مقام کو ہمارے دل میں بہت بلند کردیا !!سلامت رہیں ملک سے دور رہ کر اس سے محبت کرنے اور اس پاک وطن کا درد رکھنے والے آمین !!!

دل میں اُتر جانے والی بات کی بھائی آپ نے !!
ڈھیر ساری دعائیں آپکے نام !
جیتے رہیے آمین

کیا بات کہی ! بہت خوب ! بہت خوب
ایک ایک حرف محبت میں ڈوبا ہوا !!!!
آداب ، آداب! بہت نوازش ہے ،سیما آپا! بہت ممنون ہوں ۔
پاکستان تو گھر ہے ، قلب و جاں کا حصہ ہے ۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے لیے والدین نے اپنا صدیوں پرانا آبائی مسکن چھوڑا اور جس کی خاک میں پیوند ہوگئے۔ اللّٰہ کریم انہیں غریقِ رحمت کرے!
اگر وقت ملے اور جی چاہے تو میری ایک پرانی نظم "ترکِ وطن" پڑھیے گا ۔ میں نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کیا ہے اس میں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نوازش، ذرہ نوازی ہے ، عبید بھائی ! اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔
عبید بھائی ، آپ سے باتیں کیے بہت عرصہ ہوا۔ کبھی وقت ملے تو ادھر کا چکر لگا لیا کیجے ۔ ایک دو پرانے لطیفے آپ کو سنادیں گے۔ یعنی وہ لطیفے جن پر ہنسی آتی تھی ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ غزلیں ہیں ظہیر صاحب، ویسے مجھے پہلی زیادہ پسند آئی شاید طرزِ کہن پر اڑے رہنے کی وجہ سے! :)
آداب ، بہت نوازش! ذرہ نوازی ہے ! توجہ کے لئے بہت ممنون ہوں ۔
آپ نے درست کہا ۔غزل کی اصل طرز تو وہی طرزِ کہن ہے ۔ بس ڈھلتی عمر کے تقاضے سمندِ سخن کو کسی اور ہی سمت لے جاتے ہیں ۔ اب اس کا کیا کیجے۔ :)
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں
 

سیما علی

لائبریرین
پاکستان تو گھر ہے ، قلب و جاں کا حصہ ہے ۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے لیے والدین نے اپنا صدیوں پرانا آبائی مسکن چھوڑا اور جس کی خاک میں پیوند ہوگئے۔ اللّٰہ کریم انہیں غریقِ رحمت کرے!
سچ بھائی بڑا دکھ ہوتا ہے جب کوئی کڑوے لہجے میں اس ملک کے لئے بات کرتا ہے ۔بالکل درست بات جب بھی والدین اپنے آبائی مسکن کی بات کرتے تو جو درد اُنکے لہجے میں ہوتا وہ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے !!پر اس وطن سے اُنکی محبت بھی کیسی سچی تھی !
اگر وقت ملے اور جی چاہے تو میری ایک پرانی نظم "ترکِ وطن" پڑھیے گا ۔ میں نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کیا ہے اس میں۔
ضرور پڑھتے ہیں ظہیر بھائی ۔
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے !
ڈھیروں دعائیں اس وطن سے محبت کے نام 🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ وا ۔ ظہیر بھائی بہت خوب مرصع سنگریزے تراشے ہیں ۔
سپاس طلب۔۔۔ واہ۔۔۔
لیکن بسیط کی اضافت کچھ عجیب لگی یہاں خصوصاََ بساط کی اضافت کے پڑوس میں !
دو غزلے اور سہ غزلے تو اب دیکھے ہی مدت ہو گئی تھی ۔آپ نے ارشاد کیا اور دلشاد کیا ۔
آداب ، آداب ! کرم نوازی ہے ، عاطف بھائی ! بہت شکریہ!
عاطف بھائی ، آپ نے حسبِ معمول بہت اچھا نکتہ اٹھایا ہے ۔ اس دقتِ نظر ی کے لئے ممنون ہوں ۔ اردو میں بسیط کے مشہور و معروف معنی تو وسیع اور کشادہ کے ہیں اور اسی اعتبار سے بطور صفت استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن جیالوجی ، جیومیٹری وغیرہ میں اس کے معنی سطح کے ہیں ۔اسی لیے بسیطِ ارض ، بسیطِ زمین ، بسیطِ خاک ، بسیطِ مستوی وغیرہ کی اصطلاحات مستعمل ہیں ۔ میں عموماً کوشش کرتا ہوں کہ کسی معدوم ہوتے ہوئے لفظ یا کسی قلیل الاستعمال لفظ کو شعر میں استعمال کروں تاکہ وہ قارئین کے نظروں کے سامنے ایک بار پھر گزر سکے ۔ بسیطِ خاک استعمال کرنے کا یہی مقصد تھا ورنہ تو اس مصرع کی کئی دوسری صورتیں ممکن تھیں ۔ یہ ممکن ہے کہ بساط اور بسیط کو ایک ہی مصرع میں رکھنے سے کچھ اچھا صوتی تاثر پیدا نہ ہورہا ہو۔ بہرحال ، کلامِ کامل تو بس ایک ہی ہے ۔ ہم کیا ہماری بساط کیا!
عاطف بھائی ، جیالوجی کو اردو میں کیا کہیں گے؟! دماغ پر زور ڈالنے کے باوجود یاد نہیں آرہا۔ ارضیات؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ بہت خوب۔ سَمت کے لئے بھی منتخب کر لیتا ہوں، بہت دن سے ظہیراحمدظہیر کی کوئی غزل نہیں شائع ہوئی
آداب ، آداب ! اس قدر افزائی کے لیے بہت ممنون ہوں ، اعجاز بھائی ! آپ کی قبولیت سخن کے لیے سند ہے ۔
ان اشعار کا سمت میں شامل ہونا میرے لیے باعثِ شرف ہوگا ۔ اللّٰہ کریم آپ کا سایا سلامت رکھے۔ عمر و توانائی میں برکت عطا فرمائے۔ آمین !
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اسی لیے بسیطِ ارض ، بسیطِ زمین ، بسیطِ خاک ، بسیطِ مستوی وغیرہ کی اصطلاحات مستعمل ہیں ۔
میں نے کبھی بسیط ان تکنیکی و اصطلاحی معنوں میں شاید دیکھا نہیں ، یا زیادہ نہیں دیکھا، اسی لیے کچھ تعجب و تردد ہوا۔ تاہم اگر سطح (ریاضی پلین) کی مساوی اصطلاح ہوئی تو اس کے لیے ہم نے اردو ریاضی میں مستوی پڑھا اور اس طرح بسیط مستوی عجیب العجائب لگا۔ :) او پر سے کیوں کہ لفظی شطرنج کی بساط ہی جوار ہی میں بچھی تھی تو اور زیادہ احساس ہوا۔ ویسے صفت کے اعتبار سے ہم مصرع کو اضافت کے بنا بھی اسی طرح مقبول سمجھ سکتے ہیں ۔

اسی لیے بسیطِ ارض ، بسیطِ زمین ، بسیطِ خاک ، بسیطِ مستوی وغیرہ کی اصطلاحات مستعمل ہیں ۔ میں عموماً کوشش کرتا ہوں کہ کسی معدوم ہوتے ہوئے لفظ یا کسی قلیل الاستعمال لفظ کو شعر میں استعمال کروں
یہ تو مجھے بھی ایک خوشگوار اور مستحسن اقدام لگتا ہے ۔ خصوصاََ شاعری میں، حتی کہ کئی متروک (یا قریب الترک) اسالیب بھی خوشگوار احساس دلاتے ہیں ۔ بشر طے کہ ان کے استعمال کی نزاکت کا لحاظ رکھا گیا ہو جس کو برتنا اب خال خال ہی کسی کے بس کی بات نظر آتا ہے ۔
کہیں خفیف سا بھرت کا سا احساس ہوا تھا لیکن آپ نے اسے طوس و یمن کے تراشے ہوئے لعل و زمرد میں اور شمع کی کرنوں میں چھپایا کہ گمان ہی نہ ہو یہ کمال کی شکل ہے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تاہم اگر سطح (ریاضی پلین) کی مساوی اصطلاح ہوئی تو اس کے لیے ہم نے اردو ریاضی میں مستوی پڑھا اور اس طرح بسیط مستوی عجیب العجائب لگا۔ :) او پر سے کیوں کہ لفظی شطرنج کی بساط ہی جوار ہی میں بچھی تھی تو اور زیادہ احساس ہوا۔ ویسے صفت کے اعتبار سے ہم مصرع کو اضافت کے بنا بھی اسی طرح مقبول سمجھ سکتے ہیں ۔
عاطف بھائی ، مستوی بمعنی ہموار ہے ۔ بسیطِ مستوی یعنی ہموار سطح۔ مستوی وہ سطح ہے کہ جس پر خط کھینچا جائے تو اس خط کے تمام نقاط ایک ہی سطح پر ہوں ۔ اونچےنیچے نہ ہوں ۔ یعنی شطرنج کے تختے کو مستوی سطح کہیں گے لیکن چوسر کی بساط (جو کپڑے کی بنی ہوتی ہے) اسے غیر مستوی سطح کہیں گے۔ :) :) :)
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء اللہ ظہیر بھائی خوبصورت غزلیں ۔
ان اشعار پہ خصوصی داد

عبیر و عنبر و مشکِ ختن کی بات کرو
ہر استعارے میں اُس گلبدن کی بات کرو

سحر شگفتنِ غنچہ کے انتظار میں ہے
صبا سے پھر کسی غنچہ دہن کی بات کرو

دریدہ جامۂ حرفِ ہنر ہے شکوہ کناں
سخنورو! کسی خوش پیرہن کی بات

بڑھے گی اور بھی شیرینیِ مقال ذرا
بجائے وہم و گماں حسنِ ظن کی بات کرو

وہ جس کے دم سے تھی رنگینیِ بہارِ سخن
ظہیؔر تم اُسی طرزِ کہن کی بات کرو

سکوتِ کنجِ چمن میں چمن کی بات کرو
جہاں کے ہیں ہم اُسی انجمن کی بات کرو

ملے جو شکوۂ بادِ خزاں سے کچھ فرصت
تو آبیاریِ خاکِ چمن کی بات کرو

زوالِ نعمتِ دنیا نہ ہوگا دامن گیر
عطائے بارگہِ ذوالمنن کی بات کرو

غمِ فراق نہ رنج و محن کی بات کرو
دیارِ غیر میں یارو وطن کی بات

مہک مہک اٹھے ویرانیِ خس و خاشاک
بہارِ سنبل و سرو و سمن کی بات کرو

کیا کہ تم بھی نصیحت کرو شعار ظہیؔر
دوانے ہو کوئی دیوانے پن کی بات کرو

مولائے کریم آپ کو خوش وخرم ،شاد و آباد رکھے صحت و عافیت کے ساتھ۔آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاء اللہ ظہیر بھائی خوبصورت غزلیں ۔
ان اشعار پہ خصوصی داد

مولائے کریم آپ کو خوش وخرم ،شاد و آباد رکھے صحت و عافیت کے ساتھ۔آمین
آداب ، بہت نوازش ، ذرہ نوازی ہے ، یاسر بھائی!
بہت ممنون ہوں ۔ دعاؤں کے لیے خصوصی شکریہ! اللّٰہ کریم یہ سب دعائیں آپ کے حق میں بھی قبول فرمائے ۔ آمین
 
احبابِ کرام ! ایک سہ غزلہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے ۔ اس میں پہلی غزل تو تین چار سال پرانی ہے لیکن بقیہ دو غزلیں رواں سال کا حاصل ہیں ۔ اس سال وطنِ عزیز جن نشیب و فراز سے گزرا وہ تمام محبِ وطن حلقوں میں ہر ہر پہلو سے گفتگو کا محور رہے ہیں ۔ آخری دو غزلیں انہی فکری مباحث کا نتیجہ ہیں ۔ ان دو غزلوں کا رنگ پہلی غزل سے نمایاں طور پر مختلف ہے ۔ ان تینوں کو ایک ساتھ پیش کرنے کا مقصد کچھ یہ بھی ہے کہ شاعر کا فکری ارتقا قارئین پر واضح ہوسکے ۔ سہ غزلہ پیشِ خدمت ہے ۔ امید ہے کہ چند اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔

٭٭٭

عبیر و عنبر و مشکِ ختن کی بات کرو
ہر استعارے میں اُس گلبدن کی بات کرو

سحر شگفتنِ غنچہ کے انتظار میں ہے
صبا سے پھر کسی غنچہ دہن کی بات کرو

ہیں سنگ ریزے رہِ یار کے سپاس طلب
عقیقِ طوسی و لعلِ یمن کی بات کرو

طوافِ شمع میں رقصاں ہیں لاکھوں پروانے
حجابِ شعلۂ جلوہ فگن کی بات کرو

دریدہ جامۂ حرفِ ہنر ہے شکوہ کناں
سخنورو! کسی خوش پیرہن کی بات کرو

بڑھے گی اور بھی شیرینیِ مقال ذرا
بجائے وہم و گماں حسنِ ظن کی بات کرو

وہ جس کے دم سے تھی رنگینیِ بہارِ سخن
ظہیؔر تم اُسی طرزِ کہن کی بات کرو

٭٭٭


سکوتِ کنجِ چمن میں چمن کی بات کرو
جہاں کے ہیں ہم اُسی انجمن کی بات کرو

بساطِ ہست ہماری بسیطِ خاک پہ ہے
اِسی کے رنگ میں ہر فکر و فن کی بات کرو

ملے جو شکوۂ بادِ خزاں سے کچھ فرصت
تو آبیاریِ خاکِ چمن کی بات کرو

فلک سے فرشِ تپاں کی شکایتیں کیسی
ردائے پرچمِ سایہ فگن کی بات کرو

زوالِ نعمتِ دنیا نہ ہوگا دامن گیر
عطائے بارگہِ ذوالمنن کی بات کرو

ہزار عقدۂ باہم اِسی سے وا ہوں گے
ظہیؔر اپنے زمین و زمن کی بات کرو

٭٭٭٭


غمِ فراق نہ رنج و محن کی بات کرو
دیارِ غیر میں یارو وطن کی بات کرو

حصارِ محبسِ دیوار و در تڑخ جائے
فروغِ دامنِ کوہ و دمن کی بات کرو

مہک مہک اٹھے ویرانیِ خس و خاشاک
بہارِ سنبل و سرو و سمن کی بات کرو

یہ سرد مہریِ موسم پگھل پگھل جائے
جمالِ لالۂ شعلہ بدن کی بات کرو

نہ کور چشمِ تماشہ ، نہ دستِ اہلِ ستم
گلوئے نعرۂ مستانہ زن کی بات کرو

فسانے شمعِ شبستاں کے مت سناؤ مجھے
چراغِ جادۂ ظلمت شکن کی بات کرو

کوئی تو حرفِ ملامت خلافِ جور و ستم
کبھی تو شورشِ اہلِ فتن کی بات کرو

مثالِ نیزہ اتر جائے سینۂ شب میں
ہر ایک بات میں ایسی کرن کی بات کرو

یہ کیا کہ تم بھی نصیحت کرو شعار ظہیؔر
دوانے ہو کوئی دیوانے پن کی بات کرو

٭٭٭

ظہیؔر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۲
ظہیر بھائی ، تینوں غزلیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں . بہت ساری داد پیش ہے .
 
Top