جاسمن

لائبریرین
سرسید کے اسی مقالہ میں لکھنے کے لیے چاہئیں اور ان اشعار سے ہٹ کے۔
اشعار تو میں نے اپنے بیٹے کو بتا دیے ہیں لیکن اقوال نہیں مل رہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم عرحمتہ اللہ۔
اپنی مدد آپ سے متعلق اگر کسی کو کسی "بڑے" شخص کا قول آتا ہو تو بتائیں۔
اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
ہمارے گھر کے بل کھاتے ہوئے زینوں سے چھت کی اونچائی 20 فٹ سے اوپر ہے۔ ہم نے تنِ تنہا سارے گھر کو رنگ کر ڈالا لیکن اتنی اونچائی تک کیسے پہنچا جائے اس نے ہمیں شدید الجھن میں ڈالے رکھا۔

روزمرہ کی باتیں

آپ خود دیکھیں ان مڑتے زینوں پر ہموار سطح انتہائی کم ہے۔ حفاظتی تدابیر مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی کوئی سیڑھی کھڑی کر کے اس پر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔
c2GTnBk.jpg

EjfHYhX.jpg

NEGsckx.jpg


کسی پیشہ ور کی خدمات لیتے ہوئے معاوضے پر یہ کام کروانا چنداں مشکل نہیں۔ لیکن ہم نے سارا گھر خود پینٹ کیا تھا اور جس طرح اپنی غزل کہہ کر کسی اور کا مقطع نہیں لیا جا سکتا اس طرح ہمیں ایسی کوئی خدمت لینے میں اپنی عزتِ نفس کا سودا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ ٹھان لیا تھا کہ کرنا خود ہے اور اس وقت تک نہیں کرنا جب تک مکمل طور پر خود کو محفوظ ہونے کا احساس نہ ہو۔

ہم نے بھی در در کی خاک چھانی۔ دو چار تعمیراتی کمپنیوں سے بھی بات کی کہ وہ کوئی عارضی پلیٹ فارم بنانے کا خام مواد کرائے پر مہیا کر دیں تو پلیٹ فارم خود بنا کر رنگ کی اس بازی کو ہم تمام کریں۔ لیکن طویل گفت و شنید کے بعد بھی جو حل انہوں نے تجویز کیے ان میں بھی یک گونہ خطرہ تھا۔ ہمارے گھر والوں اور رفقا کا خیال تھا کہ ہم اس رنگ بازی سے باز آ جائیں گے لیکن ہمارے ذہن میں اقبال کے یہ الفاظ "خودی کو کر بلند" بار بار گونج رہے تھے۔ آخر ہمارے ذہن میں ایک حل آ ہی گیا۔ ایک پورا دن ہمیں سوچتے، سیڑھیوں کی پیمائش کرتے اور نقشہ پیمائی کرتے گزر گیا۔ آخر کار اپنے خیال کو ایک ڈیزائن کی شکل میں ہم نے کاغذ پر منتقل کیا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں اب قلی، مستری اور مزدور کے ساتھ ساتھ ترکھان بھی بننا تھا۔
ہم ایک لکڑیوں کی دوکان پر گئے، مطلوبہ لکڑیاں خرید کر انہیں پیمائش کے مطابق خود آریوں سے کاٹتے چلے گئے۔

KgdIjuC.jpg

foIs9C7.jpg

Z9nFn0A.jpg


اب مرحلہ تھا ان لکڑیوں کو ڈیزائن کے مطابق زینوں پر پلیٹ فارم بنانے کے لیے فٹ کرنا۔ چار پانچ گھنٹے کی محنتِ شاقہ کے بعد تنِ تنہا ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
n1E8ZIW.jpg


پلیٹ فارم کو متوازن رکھنے کے لیے ہم نے کل 9 ٹانگیں لگائیں۔
HANuPzP.jpg


یہ رہا ہمارا بنایا ہوا لکڑی کا پلیٹ فارم
joojWSk.jpg


بلندی سے پلیٹ فارم

v0P7op9.jpg

yg0asMJ.jpg


اس پلیٹ فارم پر سیڑھی رکھتے ہوئے ہم نے آخر کار اپنی رنگ بازی کی داستان مکمل کر لی۔
عمدہ
ایم ڈی ایف اور ٹو بائے فور آپس میں کیسے جڑے ہیں؟کوئی مکینیکل فاسٹنر واضح نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
بعض لڑیوں کا پہلا اور آخری مراسلہ پڑھیں تو کبھی تعجب ہوتا ہے اور کبھی ہنسی آتی ہے۔:)
تجربہ کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ملکہ ترنم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں اسد اللہ خان غالب کی لاجوا ب غزل سن رہا ہوں:

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

بات ہی کچھ ایسی ہے:

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

آج قیدِ با مشقت کو اکیس سال ہو گئے:

موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے۔ :)
 
Top