ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ڈاروینین ایولوشن اپنی اصل میں کسی ’’اٹیلیجنٹ ڈیزائن‘‘ کو تسلیم نہیں کرتی ۔۔۔ سو معاملہ بڑا نازک ہے :)
لیکن چارلس ڈارون سے پہلے یہ نظریہ موجود تھا حتی کہ مسلمان مفکرین میں بھی ۔ جس میں الکندی اور جاحظ وغیرہ ہیں ۔ ڈارون کے ساتھ ہی مشرقی مہمات میں الفریڈ رسل والس بھی انہی مشاہدات کو اکٹھا کر رہے تھے جن کو ڈارون نے مغربی جزیروں میں جمع کیا تھا ۔
پھر ڈارون کو کیوں اتنی کوریج ملی ایک سوال ؟
 

سید رافع

محفلین
لیکن چارلس ڈارون سے پہلے یہ نظریہ موجود تھا حتی کہ مسلمان مفکرین میں بھی ۔ جس میں الکندی اور جاحظ وغیرہ ہیں ۔ ڈارون کے ساتھ ہی مشرقی مہمات میں الفریڈ رسل والس بھی انہی مشاہدات کو اکٹھا کر رہے تھے جن کو ڈارون نے مغربی جزیروں میں جمع کیا تھا ۔
پھر ڈارون کو کیوں اتنی کوریج ملی ایک سوال ؟

یہ سب علمی تیزیاں پہلے صنعتی انقلاب کے خاتمے یعنی 1850 کے قرب و جوار کی ہیں۔ اس زمانے میں سر سید اس حد تک گئے کہ فرشتوں کو بھی انرجی قرار دے دیا۔ بلکہ سب کچھ ہی انرجی ہے۔ یہ سب علوم صدیوں سے معروف اور حد اعتدال و بر مبنی انصاف تھے۔

اب اسی دور میں آئسٹائن نے کشش ثقل اور ڈارون نے ارتقاء کے ذریعے وہی کام کیا جو اسٹیٹ سے مذہب کو نکالنے سے صادر ہوا۔ یعنی جو کچھ ہے مادہ اور توانائی ہی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
قرآن تو بالصراحت ایک ہی آدم کا تذکرہ کرتا ہے۔

قرآن میں کل پچیس دفعہ لفظ آدم آیا ہے جن میں سے صرف ایک جگہ ان کی تخلیق کا ذکر ہے اور وہ کچھ یوں ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ
ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ
ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

7:11

اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ 7:11

خَلَقْنٰكُمْ جمع کی ضمیر ہے۔ یعنی ایک آدم کی بات نہیں ہو رہی جسے خلق کیا گیا تھا۔ جیسے کہ اوٹنیاں تو بہت ہیں لیکن جناب سیدنا صالح علیہ السلام کی اوٹنی ایک ہے۔ مراحل تین ہیں کہ خلق آدموں کو کیا گیا، صورت گری بھی آدموں کی ہوئی اور سجدہ مخصوص آدم ع کو ہوا۔

یوں بھی ایک یہی عالم تو ہے نہیں۔ قرآن میں بالکل پہلی سورت میں الحمد للہ رب العالمین فرمایا گیا اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام عالَم کا پیدا کرنے والا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ اس جیسے اٹھارہ ہزار عالَم دنیا میں موجود ہے، ان سب میں اللہ کی مخلوق موجود ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے "رب اللعالمین " کی تفسیر میں یہ بات منقول ہے کہ کل اٹھارہ ہزار عالم ہیں، عالمِ دنیا ان میں سے ایک ہے۔ اور تفسیر روح البیان مذکور ہے کہ اسی ہزار عالم ہیں۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ ہزار عالم ہیں واللہ اعلم۔ لیکن ایک سے زیادہ ہیں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنی لاکھ بار اس دنیا اور ان عالموں کو بنایا اور تباہ کیا جا چکا ہے۔ جیسا کہ آئس ایج، ڈائنسور ایج وغیرہ۔ آج بھی ستارے اور ان سے منسلکہ نظام بنتے نابود ہوتے رہتے ہیں۔

بیشک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔
3:33

چنانچہ آدم علیہ السلام جو قریبا 5775 سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے وہ ان تمام عالموں میں موجود آدم سے بزرگ و برتر علم الاسماء کی وجہ سے ہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی اور عالم میں آدم ہیں ہی نہیں۔ یا دوسری بات یہ کہی جائے کہ دوسرے عالمین کے آدم علم الاسماء کے تحمل کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پہلی بات سے یہ دنیا بڑی خصوصی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے کہ اس جیسی مخلوق کہیں اور نہیں البتہ دیگر انوع کی مخلوق موجود ہے۔ جبکہ دوسری بات ماننے سے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کی چکی ہر چھ دن میں ایک نئی صورت میں سامنے آتی ہے جو پچھلی صورت سے بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ ساتویں روز یہ نابود ہوتی ہے۔ اسی دنیا میں آدموں کی تخلیق کی گئی۔ وہ دیکھنے میں عام آدمی کی طرح تھے۔ چلتے پھرتے کھاتے پیتے۔ پھر ان میں سے ایک کو چن کر ان میں علم الاسماء وحی کیا گیا۔ کیونکہ آدم ع کو آئے 5775 سال ہوگئے ہیں سو ہم اس کائنات کی آخری نابود کے قریب ہیں۔ جو کہ کامل نابود ہو گی کیونکہ دین کامل ہو چکا ہے۔ اب نئی تخلیق کی ضرورت نہیں۔

بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے۔ 7:54

یہ چھ روز 24 گھنٹوں کے نہیں ہیں۔

مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہُوا کرتا ہے۔ 22:47


آج کے سائنسدان مختلف ہیں لیکن بھلے ادوار سے پتہ چلتا ہے کہ خود نیوٹن مذہبی انسان تھا۔ اسکی ہزاروں صفحات کی بائبل کی تفسیر موجود ہے۔
 

زیک

مسافر
لیکن چارلس ڈارون سے پہلے یہ نظریہ موجود تھا حتی کہ مسلمان مفکرین میں بھی ۔ جس میں الکندی اور جاحظ وغیرہ ہیں ۔ ڈارون کے ساتھ ہی مشرقی مہمات میں الفریڈ رسل والس بھی انہی مشاہدات کو اکٹھا کر رہے تھے جن کو ڈارون نے مغربی جزیروں میں جمع کیا تھا ۔
پھر ڈارون کو کیوں اتنی کوریج ملی ایک سوال ؟
ڈارون اور والس ایک ہی تھیوری پر متفق تھے اور ہم عصر تھے۔ لیکن دیگر مفکرین جن کی آپ بات کر رہے ہیں وہ natural selection کی بات نہیں کر رہے تھے۔ تغیر اور تمام جانداروں کا ایک ہی لائن سے ہونا تو بہت زمانے سے ذکر چل رہا تھا
 

عرفان سعید

محفلین
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے
قرآن میں کل پچیس دفعہ لفظ آدم آیا ہے جن میں سے صرف ایک جگہ ان کی تخلیق کا ذکر ہے اور وہ کچھ یوں ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ
ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ
ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

7:11

اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ 7:11

خَلَقْنٰكُمْ جمع کی ضمیر ہے۔ یعنی ایک آدم کی بات نہیں ہو رہی جسے خلق کیا گیا تھا۔ جیسے کہ اوٹنیاں تو بہت ہیں لیکن جناب سیدنا صالح علیہ السلام کی اوٹنی ایک ہے۔ مراحل تین ہیں کہ خلق آدموں کو کیا گیا، صورت گری بھی آدموں کی ہوئی اور سجدہ مخصوص آدم ع کو ہوا۔
لیکن اس کے بعدکی ساری بحث کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ خواہ مخواہ کی کھینچا تانی کی گئی ہے۔
یوں بھی ایک یہی عالم تو ہے نہیں۔ قرآن میں بالکل پہلی سورت میں الحمد للہ رب العالمین فرمایا گیا اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام عالَم کا پیدا کرنے والا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ اس جیسے اٹھارہ ہزار عالَم دنیا میں موجود ہے، ان سب میں اللہ کی مخلوق موجود ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے "رب اللعالمین " کی تفسیر میں یہ بات منقول ہے کہ کل اٹھارہ ہزار عالم ہیں، عالمِ دنیا ان میں سے ایک ہے۔ اور تفسیر روح البیان مذکور ہے کہ اسی ہزار عالم ہیں۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ ہزار عالم ہیں واللہ اعلم۔ لیکن ایک سے زیادہ ہیں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنی لاکھ بار اس دنیا اور ان عالموں کو بنایا اور تباہ کیا جا چکا ہے۔ جیسا کہ آئس ایج، ڈائنسور ایج وغیرہ۔ آج بھی ستارے اور ان سے منسلکہ نظام بنتے نابود ہوتے رہتے ہیں۔

بیشک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔
3:33

چنانچہ آدم علیہ السلام جو قریبا 5775 سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے وہ ان تمام عالموں میں موجود آدم سے بزرگ و برتر علم الاسماء کی وجہ سے ہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی اور عالم میں آدم ہیں ہی نہیں۔ یا دوسری بات یہ کہی جائے کہ دوسرے عالمین کے آدم علم الاسماء کے تحمل کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پہلی بات سے یہ دنیا بڑی خصوصی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے کہ اس جیسی مخلوق کہیں اور نہیں البتہ دیگر انوع کی مخلوق موجود ہے۔ جبکہ دوسری بات ماننے سے ارتقاء کا نظریہ سامنے آتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کی چکی ہر چھ دن میں ایک نئی صورت میں سامنے آتی ہے جو پچھلی صورت سے بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ ساتویں روز یہ نابود ہوتی ہے۔ اسی دنیا میں آدموں کی تخلیق کی گئی۔ وہ دیکھنے میں عام آدمی کی طرح تھے۔ چلتے پھرتے کھاتے پیتے۔ پھر ان میں سے ایک کو چن کر ان میں علم الاسماء وحی کیا گیا۔ کیونکہ آدم ع کو آئے 5775 سال ہوگئے ہیں سو ہم اس کائنات کی آخری نابود کے قریب ہیں۔ جو کہ کامل نابود ہو گی کیونکہ دین کامل ہو چکا ہے۔ اب نئی تخلیق کی ضرورت نہیں۔

بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے۔ 7:54

یہ چھ روز 24 گھنٹوں کے نہیں ہیں۔

مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہُوا کرتا ہے۔ 22:47


آج کے سائنسدان مختلف ہیں لیکن بھلے ادوار سے پتہ چلتا ہے کہ خود نیوٹن مذہبی انسان تھا۔ اسکی ہزاروں صفحات کی بائبل کی تفسیر موجود ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ڈارون اور والس ایک ہی تھیوری پر متفق تھے اور ہم عصر تھے۔
بالکل اور دونوں خطوط کے ذریعے رابطے میں بھی رہتے تھے ۔ (ڈیوڈ اٹیمبرو سے ایک ڈاکیومینٹری میں سنا تھا) ۔
لیکن دیگر مفکرین جن کی آپ بات کر رہے ہیں وہ natural selection کی بات نہیں کر رہے تھے۔
لیکن زیک! یہ بات تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں لگتا بھئی مجھے تو ۔ "نیچر" تو انسان کے لیے ایک بہت ہی فطری قسم کا تصور ہے جسے ہر زمانے کے عوام و خواص اپنی اپنی سمجھ اور عقلی تجزیئے کے مطابق تسلیم کرتے آئے ہیں حتی کہ یہ اتنی سادہ بات ہے کہ شاید ہی کسی دلیل کی محتاج ہو ۔اب خواہ وہ جاحظ ہو یا کوئی اور ۔
جاحظ کے سیکڑوں حیوانات کے احوال پر مرتب کردہ انسائیکلو پیدیا میں یہ موجود ہے کہ "نیچرل ورلڈ" میں بقا کے لیے کامیاب حیوانات اپنی خصوصیات نسل میں منتقل کرتے ہیں حتی کہ حیوانات کی ایک نوع سے دوسری نوع بھی وجود میں آتی ہے ۔ اس میں سروائیول اف دی فٹیسٹ کا تصور تک موجود ہے ۔
ایسے میں "نیچرل سیلیکشن" کے جدید نام کا تصور کچھ نئی بات تو نہیں۔ سو اس کا سہرا کس کے سر ہو گا ؟
ڈارون نے جو مشاہدات سمندروں اور جزیروں میں گھوم کر برسوں تک کیے اور تحقیقات کے نمونے جس بے مثال جانفشانی سے منظم انداز میں جمع کیے ، اس کی بیٹلز ۔ فنچز اور ٹرٹلز کی تحقیقات یقینا اتنی منظم اور شاندار ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس سے انکار ڈارون کی تحقیق کی ناقدری ہے ۔ لیکن ارتقاء جیسے مانے ہوئے تصور کو ڈارون سے ہی منسوب کردینا ایک عجیب بات ہے ۔ جیسا کہ دھاگے کے عنوان میں بھی ہے ۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
میرا مقصد اسلام یا غیر اسلام کی بحث تازہ کرنا نہیں ۔ بس ایک نکتے کا اظہار کرنا ہے ۔
تغیر اور تمام جانداروں کا ایک ہی لائن سے ہونا تو بہت زمانے سے ذکر چل رہا تھا
بے شمار تسلیمات ۔
 

زیک

مسافر
بالکل اور دونوں خطوط کے ذریعے رابطے میں بھی رہتے تھے ۔ (ڈیوڈ اٹیمبرو سے ایک ڈاکیومینٹری میں سنا تھا) ۔

لیکن زیک! یہ بات تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں لگتا بھئی مجھے تو ۔ "نیچر" تو انسان کے لیے ایک بہت ہی فطری قسم کا تصور ہے جسے ہر زمانے کے عوام و خواص اپنی اپنی سمجھ اور عقلی تجزیئے کے مطابق تسلیم کرتے آئے ہیں حتی کہ یہ اتنی سادہ بات ہے کہ شاید ہی کسی دلیل کی محتاج ہو ۔اب خواہ وہ جاحظ ہو یا کوئی اور ۔
جاحظ کے سیکڑوں حیوانات کے احوال پر مرتب کردہ انسائیکلو پیدیا میں یہ موجود ہے کہ "نیچرل ورلڈ" میں بقا کے لیے کامیاب حیوانات اپنی خصوصیات نسل میں منتقل کرتے ہیں حتی کہ حیوانات کی ایک نوع سے دوسری نوع بھی وجود میں آتی ہے ۔ اس میں سروائیول اف دی فٹیسٹ کا تصور تک موجود ہے ۔
ایسے میں "نیچرل سیلیکشن" کے جدید نام کا تصور کچھ نئی بات تو نہیں۔ سو اس کا سہرا کس کے سر ہو گا ؟
ڈارون نے جو مشاہدات سمندروں اور جزیروں میں گھوم کر برسوں تک کیے اور تحقیقات کے نمونے جس بے مثال جانفشانی سے منظم انداز میں جمع کیے ، اس کی بیٹلز ۔ فنچز اور ٹرٹلز کی تحقیقات یقینا اتنی منظم اور شاندار ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس سے انکار ڈارون کی تحقیق کی ناقدری ہے ۔ لیکن ارتقاء جیسے مانے ہوئے تصور کو ڈارون سے ہی منسوب کردینا ایک عجیب بات ہے ۔ جیسا کہ دھاگے کے عنوان میں بھی ہے ۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔
میرا مقصد اسلام یا غیر اسلام کی بحث تازہ کرنا نہیں ۔ بس ایک نکتے کا اظہار کرنا ہے ۔

بے شمار تسلیمات ۔
میرا خیال ہے کہ ڈارون کی کتاب آن دا اوریجن آف سپیشیز کا مطالعہ آپ کے لئے مفید ہو گا۔
 

سید رافع

محفلین
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے

لیکن اس کے بعدکی ساری بحث کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ خواہ مخواہ کی کھینچا تانی کی گئی ہے۔

آدم اور عالمین کی تعداد اور عمر اور ان میں موجود مخلوق منسلکہ موضوعات ہیں۔ اس لیے لگے ہاتھ ان کو بھی لکھ دیا۔ یہ دنیا کامل ترین جگہ ہے کیونکہ یہاں کامل ترین ہستی اور کتاب موجود ہے۔ بقیہ عالمین اور اسکی مخلوق چاہئے انسان کی شکل کی ہوں لیکن وہ کمتر درجہ کی ہوں گی۔
 
Top