غزل: نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے ٭ تابش

نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے

طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے

ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے

سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے

وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے

لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے

متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے

طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے

ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے

سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے

وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے

لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے

متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
خوبصورت خوبصورت!!!
 

بہت خوب تابش بھائی

اچھا ہے، اچھا ہے!!! :)
خوب غزل ہے ماشاء اللہ ۔۔۔ مطلع کافی جاندار کہا ہے ۔۔۔ بہت داد۔
آپ احباب کی جانب سے پذیرائی پر شکر گزار ہوں۔ :)
 

اے خان

محفلین
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے

طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے

ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے

سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے

وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے

لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے

متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
واہ بہت خوب تابش بھائی
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب تابش بھائی!

عمدہ غزل ہے۔
طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے
لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے

کیا کہنے !

بہت سی داد اور مبارکباد خاکسار کی طرف سے۔:in-love:
 
عمدہ کہہ گئے۔۔تابش بھائی۔۔۔بہت اچھے۔۔۔

بہت خوب تابش بھائی!

عمدہ غزل ہے۔




کیا کہنے !

بہت سی داد اور مبارکباد خاکسار کی طرف سے۔:in-love:
محبتوں کے لیے شکر گزار ہوں۔
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے
جزاک اللہ خیر استادِ محترم
 
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے

طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے

ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے

سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے

وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے

لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے

متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی

تابش صاحب، سلام عرض ہے ۔ بہت عمدہ غزل ہے ۔ مبارکباد اور داد حاضر ہے ۔
نیازمند،
عؔرفان عابد
 
Top