چائے کے رسیا متوجہ ہوں :)

آپ کتنی چائے پیتے ہیں؟

  • بہت زیادہ

    Votes: 6 15.8%
  • بہت

    Votes: 16 42.1%
  • بس پی لی

    Votes: 13 34.2%
  • شاذ و نادر

    Votes: 3 7.9%
  • کبھی نہیں پی

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    38

محمداحمد

لائبریرین
فیس بک سے نقل بصد معذرت!

پتا نہیں جی کون سا نشہ کرتا ہے
یہ جو واعظ یوں یاوہ گوئی کرتا ہے
چائے کوثرِ زمین ہے، چائے سلسبیلِ دنیا ہے،چائے آبِ حیات ہے، چائے شراب طہور ہے، چائے ام المشروبات ہے، چائے مُسکر نہیں مُفرح ہے، مُسہل نہیں مُقوّی ہے،نشہ آور نہیں کیف آور ہے -
چائے قلب کو حرارت بخشتی ہے، بدن کو کیف پہنچاتی ہے،تنِ مردہ میں روح پھونکتی ہے،شعور کو بالیدہ کرتی ہے، عقل کو تیز کرتی ہے،عزائم کو حوصلہ دیتی ہے اور حد شمار سے ادھک جلوے دکھاتی ہے_____
چائے کی خوبیاں بے انتہا ہیں،اس کے فوائد بے شمار ہیں، اس کے منافع لاتعداد ہیں، اس کے محاسن ہزاروں ہیں اور انسانی زندگی پر اس کے خوش کن، مسرت انگیز اور روح افزا اثرات و نتائخ آسمان کے تاروں کے بہ قدر ہیں.
.لیکن یہ باتیں کوڑھ مغزوں، بے توفیقوں، ذوق سلیم سے عاری نمونوں، اور حسن و عشق کی دولت گراں مایہ سے تہی دامنوں کے کہاں پلے پڑنے والی ہیں.......
چائے عطیہ خداوندی ہے .. قابلِ محبت ہے، لائقِ الفت ہے اور باعث عزت ہے .. چائے ہمارا پیار نہیں عشق ہے. چائے کے بغیر زندگی بیکار ہے....اس کے بنا جیون کا ہرلمحہ بے مزہ اور پھیکا ہے.
چائے سے ہمارے تعلق کی داستان سننا چاہتے ہو تو سنو! چائے سے محبت ہمیں اس وقت سے ہے جب ہم خوئے وفا سے بالکل بے خبر تھے گویا
اتانی ھواھا قبل ان اعرف الھوی
فصادف قلبا فارغا فتمکنا
جس وقت ہمارا دل بنجر تھا، جب وہاں کوئی آشیانہ نہ تھا. جب ہمارے دل کے لق و دق صحرا میں نہ آدم تھا نہ آدم زد. نہ کسی پری چہرہ کا تصور تھا نہ کسی غارت گر ایمان قتالہ کی تصویر آویزاں تھی اور نہ ہی کسی نشیلے نین و نقشہ والی چڑیل کا صنم اس میں نصب تھا ... اس وقت اگر کسی کی آہٹ وہاں محسوس ہوتی تھی تو وہ یہی ایک مسکین چائے تھی.. اس کی محبت کی خوشبو ہمیں اس وقت بھی محسوس ہوتی تھی، ہم اس کی زلف گرہ گیر کے اس وقت بھی اسیر تھے، ہم اس کے حسن کے تب بھی والہ تھے، ہم اس کے تیوروں کے اس لمحہ بھی شیدائی تھے، ہم اس کی سانؤلی رنگت کو اس زمانہ میں بھی عظمت،وقعت، محبت، الفت، اپنائیت، حیرت، رشک سے دیکھتے اور چولہے پر دھیمی آنچ میں گرم ہونے والی چائے اس وقت بھی اپنی بھانپوں سے ہمارے مشام جاں کو معطر کیا کرتی تھی.
یار لوگ کثرت سے سوال کرتے ہیں کہ تم نے تعلیمی زندگی کس طرح گزاری،اس دور کے اوقات کہاں صرف ہوئے، اس زمانہ کے لمحات کہاں بسر کرتے تھے اور اس عرصہ کے محبوب مشاغل کیا تھے. .......اب انہیں کیا بتائیں کہ ہم نے سوائے چائے نوشی کے کچھ کیا ہی نہیں. ہمارا شغل محض چائے نوشی تھا، اس کا قرب پانا تھا،لیلائے چائے کی برہم زلفیں سلجھانا تھا،اسے ہاتھوں میں لے کر ہونٹوں سے لگانا تھا،مقامات چائے کو طے کرکے فنائیت کے سب سے اونچے مرتبہ پر فائز ہونا تھا... کبھی کبھار ہمارے مابین تعلقات بگڑتے لیکن پھر بھی وہ ہمیں اپنے وش میں رکھتی اور اپنے سحر کا تعویز ہمارے گل سے اترنے نہ دیتی.....
بہ قول ذوق
اے ذوق! اتنا دختر رز کو نہ منھ لگا
چھوٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی....
.
اس زمانہ میں ہم نے اس کثرت اور اخلاص سے چائے پی کہ ہمارے جسم کا رواں رواں اس کا عاشق ہوگیا،آنکھوں سے ہمہ دم چائے چھلکنے لگی، دل چائے سے لبریز ہوگیا، آنتوں میں سرایت کرگئی، پھیپھڑوں میں اس نے ڈیرا جما لیا، رگوں کے لہو کو وظیفہ یاب کرکے خود مزدوری کرنی لگی،خون کی جگہ اس نے بدن میں رقصِ روانی شروع کیا تو بس مت پوچھئے بدن کو اس نے وہ حرات، توانائی اور قوت سے شادکام کیا جس کا تصور بھی کوئی کافرِچائے کرنے سے رہا...
ایک دفعہ کا ذکر ہے. جاڑوں کا زمانہ تھا. کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی،بادلوں کے تیور بہت سخت تھے، سورج میاں ان کے خوف سے نکلنے کی جرات کرسکنے سے عاجز تھے.. ہم صبح چائے کی دسیوں پیالیاں لنڈھا کر خیالات کی دنیا میں کھوئے ہوئے چلے جارہے تھے چلتے چلتے ناگاہ ایک شریر اور بدقماش پتھر نے ہم سے متاثر ہوکر ہمارا پاؤں پکڑ لیا. اس عزت افزائی سے ہمارا ایسا متواضع شخص پگھل گیا اور اسے اٹھانے کے لئے جھک گیا..لیلائے پتھر ہماری اس ادا سے از حد مسرور ہوئی اس نے خوش کر ہماری پیشانی کو ایک بوسہ دے دیا جس کی وجہ سے ہماری پیشانی مارے شرم کے سرخ ہوگئی..ہم ایسے سخت کنواروں پر ایک پارسا اور عفت مآب کی یہ عنایت دیکھ کر ہماری آنکھیں ساگر بن کر برسنے لگیں....اب ظاہر سی بات ہے سر راہ کوئی اس قسم کی بے حیائی اور بوس و کنار کرے گا تو وہ مرکز توجہ تو بنے گا ہی.چند ہی لمحوں میں ہمارے اردگرد بھیڑ لگ گئی.مجمع ہمیں ایسے حیرت سے تک رہاتھا گویا ہم کوئی خلائی مخلوق یا مریخی باشندہ ہیں. ان کے لئے یہ نظار ناقابل یقین تھا.. بھلا کسی کے زخمی حصہ سے خون کی بہ جائے بہا کرتی ہے کیا؟ لیکن اس وقت ہماری جبین ناز سے چائے کا فوارہ ابل رہا تھا اور اپنی روانی کے ساز سے حاضرین کے بربط دل کو چھیڑ رہا تھا.....اب ہم انہیں کیونکر سمجھاتے کہ میاں یہ کوئی تماشا نہیں ہے بلکہ عشق چائے کی ایک زندہ، لازوال اور نادر مثال ہے
خیر یہ تو بس ایکشن کا ری ایکشن تھا. ہر عمل کا رد عمل تو ہوا ہی کرتا ہے. اب ہم آئن اسٹائن،شیکسپیئر اور اسٹیفن ایسے صف اول کے جینئسوں کی کہکشاں میں سے ایک تابناک ستارہ کی زبانی اس بات کا جواب دیتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں

کیا کہا چائے حرام ہے
چلا جا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالمالک بلندشہری
نزیل ٹی شاپ آف بٹلہ ہاؤس
 

محمداحمد

لائبریرین
فیس بک سے نقل بصد معذرت!

پتا نہیں جی کون سا نشہ کرتا ہے
یہ جو واعظ یوں یاوہ گوئی کرتا ہے
چائے کوثرِ زمین ہے، چائے سلسبیلِ دنیا ہے،چائے آبِ حیات ہے، چائے شراب طہور ہے، چائے ام المشروبات ہے، چائے مُسکر نہیں مُفرح ہے، مُسہل نہیں مُقوّی ہے،نشہ آور نہیں کیف آور ہے -
چائے قلب کو حرارت بخشتی ہے، بدن کو کیف پہنچاتی ہے،تنِ مردہ میں روح پھونکتی ہے،شعور کو بالیدہ کرتی ہے، عقل کو تیز کرتی ہے،عزائم کو حوصلہ دیتی ہے اور حد شمار سے ادھک جلوے دکھاتی ہے_____
چائے کی خوبیاں بے انتہا ہیں،اس کے فوائد بے شمار ہیں، اس کے منافع لاتعداد ہیں، اس کے محاسن ہزاروں ہیں اور انسانی زندگی پر اس کے خوش کن، مسرت انگیز اور روح افزا اثرات و نتائخ آسمان کے تاروں کے بہ قدر ہیں.
.لیکن یہ باتیں کوڑھ مغزوں، بے توفیقوں، ذوق سلیم سے عاری نمونوں، اور حسن و عشق کی دولت گراں مایہ سے تہی دامنوں کے کہاں پلے پڑنے والی ہیں.......
چائے عطیہ خداوندی ہے .. قابلِ محبت ہے، لائقِ الفت ہے اور باعث عزت ہے .. چائے ہمارا پیار نہیں عشق ہے. چائے کے بغیر زندگی بیکار ہے....اس کے بنا جیون کا ہرلمحہ بے مزہ اور پھیکا ہے.
چائے سے ہمارے تعلق کی داستان سننا چاہتے ہو تو سنو! چائے سے محبت ہمیں اس وقت سے ہے جب ہم خوئے وفا سے بالکل بے خبر تھے گویا
اتانی ھواھا قبل ان اعرف الھوی
فصادف قلبا فارغا فتمکنا
جس وقت ہمارا دل بنجر تھا، جب وہاں کوئی آشیانہ نہ تھا. جب ہمارے دل کے لق و دق صحرا میں نہ آدم تھا نہ آدم زد. نہ کسی پری چہرہ کا تصور تھا نہ کسی غارت گر ایمان قتالہ کی تصویر آویزاں تھی اور نہ ہی کسی نشیلے نین و نقشہ والی چڑیل کا صنم اس میں نصب تھا ... اس وقت اگر کسی کی آہٹ وہاں محسوس ہوتی تھی تو وہ یہی ایک مسکین چائے تھی.. اس کی محبت کی خوشبو ہمیں اس وقت بھی محسوس ہوتی تھی، ہم اس کی زلف گرہ گیر کے اس وقت بھی اسیر تھے، ہم اس کے حسن کے تب بھی والہ تھے، ہم اس کے تیوروں کے اس لمحہ بھی شیدائی تھے، ہم اس کی سانؤلی رنگت کو اس زمانہ میں بھی عظمت،وقعت، محبت، الفت، اپنائیت، حیرت، رشک سے دیکھتے اور چولہے پر دھیمی آنچ میں گرم ہونے والی چائے اس وقت بھی اپنی بھانپوں سے ہمارے مشام جاں کو معطر کیا کرتی تھی.
یار لوگ کثرت سے سوال کرتے ہیں کہ تم نے تعلیمی زندگی کس طرح گزاری،اس دور کے اوقات کہاں صرف ہوئے، اس زمانہ کے لمحات کہاں بسر کرتے تھے اور اس عرصہ کے محبوب مشاغل کیا تھے. .......اب انہیں کیا بتائیں کہ ہم نے سوائے چائے نوشی کے کچھ کیا ہی نہیں. ہمارا شغل محض چائے نوشی تھا، اس کا قرب پانا تھا،لیلائے چائے کی برہم زلفیں سلجھانا تھا،اسے ہاتھوں میں لے کر ہونٹوں سے لگانا تھا،مقامات چائے کو طے کرکے فنائیت کے سب سے اونچے مرتبہ پر فائز ہونا تھا... کبھی کبھار ہمارے مابین تعلقات بگڑتے لیکن پھر بھی وہ ہمیں اپنے وش میں رکھتی اور اپنے سحر کا تعویز ہمارے گل سے اترنے نہ دیتی.....
بہ قول ذوق
اے ذوق! اتنا دختر رز کو نہ منھ لگا
چھوٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی....
.
اس زمانہ میں ہم نے اس کثرت اور اخلاص سے چائے پی کہ ہمارے جسم کا رواں رواں اس کا عاشق ہوگیا،آنکھوں سے ہمہ دم چائے چھلکنے لگی، دل چائے سے لبریز ہوگیا، آنتوں میں سرایت کرگئی، پھیپھڑوں میں اس نے ڈیرا جما لیا، رگوں کے لہو کو وظیفہ یاب کرکے خود مزدوری کرنی لگی،خون کی جگہ اس نے بدن میں رقصِ روانی شروع کیا تو بس مت پوچھئے بدن کو اس نے وہ حرات، توانائی اور قوت سے شادکام کیا جس کا تصور بھی کوئی کافرِچائے کرنے سے رہا...
ایک دفعہ کا ذکر ہے. جاڑوں کا زمانہ تھا. کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی،بادلوں کے تیور بہت سخت تھے، سورج میاں ان کے خوف سے نکلنے کی جرات کرسکنے سے عاجز تھے.. ہم صبح چائے کی دسیوں پیالیاں لنڈھا کر خیالات کی دنیا میں کھوئے ہوئے چلے جارہے تھے چلتے چلتے ناگاہ ایک شریر اور بدقماش پتھر نے ہم سے متاثر ہوکر ہمارا پاؤں پکڑ لیا. اس عزت افزائی سے ہمارا ایسا متواضع شخص پگھل گیا اور اسے اٹھانے کے لئے جھک گیا..لیلائے پتھر ہماری اس ادا سے از حد مسرور ہوئی اس نے خوش کر ہماری پیشانی کو ایک بوسہ دے دیا جس کی وجہ سے ہماری پیشانی مارے شرم کے سرخ ہوگئی..ہم ایسے سخت کنواروں پر ایک پارسا اور عفت مآب کی یہ عنایت دیکھ کر ہماری آنکھیں ساگر بن کر برسنے لگیں....اب ظاہر سی بات ہے سر راہ کوئی اس قسم کی بے حیائی اور بوس و کنار کرے گا تو وہ مرکز توجہ تو بنے گا ہی.چند ہی لمحوں میں ہمارے اردگرد بھیڑ لگ گئی.مجمع ہمیں ایسے حیرت سے تک رہاتھا گویا ہم کوئی خلائی مخلوق یا مریخی باشندہ ہیں. ان کے لئے یہ نظار ناقابل یقین تھا.. بھلا کسی کے زخمی حصہ سے خون کی بہ جائے بہا کرتی ہے کیا؟ لیکن اس وقت ہماری جبین ناز سے چائے کا فوارہ ابل رہا تھا اور اپنی روانی کے ساز سے حاضرین کے بربط دل کو چھیڑ رہا تھا.....اب ہم انہیں کیونکر سمجھاتے کہ میاں یہ کوئی تماشا نہیں ہے بلکہ عشق چائے کی ایک زندہ، لازوال اور نادر مثال ہے
خیر یہ تو بس ایکشن کا ری ایکشن تھا. ہر عمل کا رد عمل تو ہوا ہی کرتا ہے. اب ہم آئن اسٹائن،شیکسپیئر اور اسٹیفن ایسے صف اول کے جینئسوں کی کہکشاں میں سے ایک تابناک ستارہ کی زبانی اس بات کا جواب دیتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں

کیا کہا چائے حرام ہے
چلا جا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالمالک بلندشہری
نزیل ٹی شاپ آف بٹلہ ہاؤس

اس قسم کے ردِ عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ چائے بھی بھنگ وغیرہ کی طرح کا ایک نشہ ہے۔ :):wasntme:
 

شمشاد

لائبریرین
جسطرح انسان اشرف المخلوقات ہے، اسی طرح چائے اشرف المشروبات ہے۔

چائے کے آگے بھنگ کیا بیچتی ہے۔

ویسے گرمیوں کے سیزن میں مری میں ایک چائے والا چائے میں بھنگ کے ڈوڈے ملا کر چائے بنایا کرتا تھا لیکن کسی کو بتاتا نہیں تھا۔ اس کی چائے اتنی بکتی تھی کہ دور دور سے لوگ اس کی چائے پینے آتے تھے۔
 

Haider Sufi

محفلین
جسطرح انسان اشرف المخلوقات ہے، اسی طرح چائے اشرف المشروبات ہے۔

چائے کے آگے بھنگ کیا بیچتی ہے۔

ویسے گرمیوں کے سیزن میں مری میں ایک چائے والا چائے میں بھنگ کے ڈوڈے ملا کر چائے بنایا کرتا تھا لیکن کسی کو بتاتا نہیں تھا۔ اس کی چائے اتنی بکتی تھی کہ دور دور سے لوگ اس کی چائے پینے آتے تھے۔
لگتا ہے آپ نے بھی اسکی چائے پی ہو گی
 

شمشاد

لائبریرین
اسی لیے تو کہہ رہا ہوں۔ اس کی چائے پی کر ایسا نشہ آتا ہے کہ بار بار پینے کو جی چاہتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اسی لیے تو کہہ رہا ہوں۔ اس کی چائے پی کر ایسا نشہ آتا ہے کہ بار بار پینے کو جی چاہتا ہے۔
بھیا ہمارے آفس کے پاس پٹھان کی چائے کی دوکان سے منگواتے ہم تو اتنی اعلی چائے بناتا وہ کہ جتنی تعریف کریں کم ہے۔ہم ہمیشہ اپنے خائستہ خان سے کہتے جائیں اور پٹھان والی نسوار والی چائے لائیں وہ بہت ہنستا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
33 سال سے صرف چائے پر گزارا کرنے والی خاتون
ویب ڈیسک 8 جنوری 2021
آپ نے چائے پینے کے شوقین افراد کے بارے میں تو سُنا ہوگا مگر اب بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کی ایک ایسی عجیب و غریب خاتون سامنے آئیں جو گزشتہ 33 سال سے صرف چائے پی کر زندگی گزار رہی ہیں۔

انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع کوریا کے گاؤں بارادیا کی 44 سالہ خاتون پھلی دیوی نے دعویٰ کیا کہ وہ گزشتہ 33 سال سے کچھ کھا نہیں رہیں بلکہ چائے پی کر ہی گزارہ کررہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے گاؤں میں چائے والی چاچی کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔

خاتون کے والد رتی رام کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی نے گیارہ سال کی عمر میں آخری بار کچھ کھایا تھا، وہ ایک دن جانال میں واقع پٹنا اسکول میں ہونے والے مقابلے میں حصہ لینے گئی اور واپس آنے کے بعد اُس نے اچانک کھانا اور پانی پینا مکمل بند کردیا تھا‘۔
والد نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں پھلی دیوی چائے کے ساتھ بسکٹ، ڈبل روٹی کھاتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اُس نے سب کچھ لینا چھوڑ دیا حتی کہ دودھ بھی ڈالنا چھوڑ دیا، وہ گزشتہ 33 برسوں سے صرف کالی چائے (قہوہ) پیتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پھلی دیوی گھر پر ہی رہتی ہے اور باقاعدگی سے عبادت کرتی ہے، وہ سورج غروب ہونے سے پہلے بس ایک کپ قہوہ پیتی ہے۔

اہل خانہ نے خاتون کا کھانا پینا بند ہونے کے بعد ڈاکرز سے بھی رجوع کیا، جہاں ماہرین نے تفصیلی معائنے کے بعد بتایا کہ پھلی کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ مکمل تندرست ہے۔
33 سال سے صرف چائے پر گزارا کرنے والی خاتون

شمشاد بھیا
 

Haider Sufi

محفلین
33 سال سے صرف چائے پر گزارا کرنے والی خاتون
ویب ڈیسک 8 جنوری 2021
آپ نے چائے پینے کے شوقین افراد کے بارے میں تو سُنا ہوگا مگر اب بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کی ایک ایسی عجیب و غریب خاتون سامنے آئیں جو گزشتہ 33 سال سے صرف چائے پی کر زندگی گزار رہی ہیں۔

انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع کوریا کے گاؤں بارادیا کی 44 سالہ خاتون پھلی دیوی نے دعویٰ کیا کہ وہ گزشتہ 33 سال سے کچھ کھا نہیں رہیں بلکہ چائے پی کر ہی گزارہ کررہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے گاؤں میں چائے والی چاچی کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔

خاتون کے والد رتی رام کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی نے گیارہ سال کی عمر میں آخری بار کچھ کھایا تھا، وہ ایک دن جانال میں واقع پٹنا اسکول میں ہونے والے مقابلے میں حصہ لینے گئی اور واپس آنے کے بعد اُس نے اچانک کھانا اور پانی پینا مکمل بند کردیا تھا‘۔
والد نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں پھلی دیوی چائے کے ساتھ بسکٹ، ڈبل روٹی کھاتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اُس نے سب کچھ لینا چھوڑ دیا حتی کہ دودھ بھی ڈالنا چھوڑ دیا، وہ گزشتہ 33 برسوں سے صرف کالی چائے (قہوہ) پیتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پھلی دیوی گھر پر ہی رہتی ہے اور باقاعدگی سے عبادت کرتی ہے، وہ سورج غروب ہونے سے پہلے بس ایک کپ قہوہ پیتی ہے۔

اہل خانہ نے خاتون کا کھانا پینا بند ہونے کے بعد ڈاکرز سے بھی رجوع کیا، جہاں ماہرین نے تفصیلی معائنے کے بعد بتایا کہ پھلی کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ مکمل تندرست ہے۔
33 سال سے صرف چائے پر گزارا کرنے والی خاتون

شمشاد بھیا
حیرت انگیز
ویسے کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
چُھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی
البتہ نشہ والا معاملہ کچھ اس طرح سے ہے کہ پیتے ضرور ہیں مگر نہ بھی پئیں تو مسئلہ نہیں ہوتا۔نہ طبیعت میں اداسی نہ سر درد۔
دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔۔۔ یا تو چائے ہمارے ساتھ باہمی سمجھوتے سے چل رہی ہے یا پھر ہم نے ہر حال میں سر اور دل پہ نہ لینے کی ٹھان لی ہے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
نہیں بھئی، اپنا تو چائے کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے تو چائے لازم و ملزوم ہو چکی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ناممکن، جس دن دنیا سے چائے کی پتی ختم ہو جائے گی، اس دن پاکستان سے بے ایمانی ختم ہو جائے گی۔
 
Top