اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا

عاطف ملک

محفلین

اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا
لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا

خدا کی وسعتِ رحمت سے لو لگاؤں گا
میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا

ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں
میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا

بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا

اسی کے نام سے پہچان ہے مری عاطفؔ
میں تا بہ حشر یہ وابستگی نبھاؤں گا


عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰
 
اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا
لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا

خدا کی وسعتِ رحمت کو آزماؤں گا
میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا

ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں
میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا

بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا

اسی کے نام سے پہچان ہے مری عاطفؔ
میں تا بہ حشر یہ وابستگی نبھاؤں گا

عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰
خوبصورت خوبصورت!!!
 
اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا
لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا

خدا کی وسعتِ رحمت کو آزماؤں گا
میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا

ہو جس میں میرے مقابل وہ دشمنِ ایماں
میں جان بوجھ کے وہ جنگ ہار جاؤں گا

بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا

اسی کے نام سے پہچان ہے مری عاطفؔ
میں تا بہ حشر یہ وابستگی نبھاؤں گا

عاطفؔ ملک
دسمبر ۲۰۲۰

عاطف صاحب ، آداب عرض ہے!

عمدہ غزل ہے . میری ناچیز داد اور مبارکباد پیش ہے .

نیازمند،
عرفان عؔابد
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی غزل ہے عاطف بھائی !
معذرت ، لیکن ایک دو اشعار پڑھ کر یوں لگا کہ آپ نے اس غزل کو وہ توجہ نہیں دی کہ جس کی یہ حقدار تھی۔ :) کچھ مصرع آپ کی مزید توجہ چاہتے ہیں ۔ مثلاً :
بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا
میری ناقص رائے میں اگر آپ ان مصرعوں کو کچھ وقت دیتے تو ان کی روانی بہتر بنائی جاسکتی تھی ۔
بلا جواز خفا ہوگیا وہ پھر مجھ سے
وہ جانتا ہے کہ میں ہی اُسے مناؤں گا

دخل در منظومات کے لئے معذرت خواہ ہوں عاطف بھائی ۔ اگرمیری ناقص رائے ناگوار گزرے تو اس سے صرفِ نظر اور مجھ سے درگزر فرمائیے گا ۔ :)

نیز دوسرے شعر پر بھی نظرِ ثانی کیجئے ۔ خدا کی رحمت کو آزمانا تو اچھی بات نہیں ۔ عاطف بھائی ، یہ پیرایۂ اظہار ٹھیک نہیں ہے ۔ ان معاملات میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا کیجئے۔ یہاں لغزشِ لسانی کی قطعی گنجا ئش نہیں ہوتی ۔
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف صاحب ، آداب عرض ہے!

عمدہ غزل ہے . میری ناچیز داد اور مبارکباد پیش ہے .

نیازمند،
عرفان عؔابد
بہت شکریہ محترمی
سلامت
بہت خوب! اچھی غزل ہے عاطف بھائی !
شکریہ ظہیر بھائی
معذرت ، لیکن ایک دو اشعار پڑھ کر یوں لگا کہ آپ نے اس غزل کو وہ توجہ نہیں دی کہ جس کی یہ حقدار تھی۔ :)
آپ کی باریک بینی کی داد تو بنتی ہے کہ یہ اشعار واقعی میں بہت زیادہ سکروٹنی سے نہیں گذرے:)
کچھ مصرع آپ کی مزید توجہ چاہتے ہیں ۔ مثلاً :
بلاجواز وہ پھر ہو گیا خفا مجھ سے
کہ جانتا ہے وہ، میں ہی اسے مناؤں گا
میری ناقص رائے میں اگر آپ ان مصرعوں کو کچھ وقت دیتے تو ان کی روانی بہتر بنائی جاسکتی تھی ۔
بلا جواز خفا ہوگیا وہ پھر مجھ سے
وہ جانتا ہے کہ میں ہی اُسے مناؤں گا
پہلے مصرع میں میری کج فہمی کا قصور ہے:unsure:
دوسرا مصرع۔۔۔۔وہ ناراض اس لیے ہوا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں ہی اسے مناؤں گا۔
نیز دوسرے شعر پر بھی نظرِ ثانی کیجئے ۔ خدا کی رحمت کو آزمانا تو اچھی بات نہیں ۔ عاطف بھائی ، یہ پیرایۂ اظہار ٹھیک نہیں ہے ۔ ان معاملات میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا کیجئے۔ یہاں لغزشِ لسانی کی قطعی گنجا ئش نہیں ہوتی
اس پر میں غور کرتا ہوں۔
میں تو
قال بلیٰ ولٰکن لیطمئن قلبی
جیسا کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔:quiet:
رہ گئی آپ کی معذرت تو وہ قبول نہیں کی گئی اور گذارش ہے کہ آئندہ بھی ایسے ہی کلام کیا کریں تاکہ ہم مزید سیکھ سکیں
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس پر میں غور کرتا ہوں۔
میں تو
قال بلیٰ ولٰکن لیطمئن قلبی
جیسا کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔:quiet:

اللہ کی رحمت آزمانا اور بات ہے ۔ اپنے دل کی تسلی کے لئے اللہ سے اس کی قدرت دکھانے کی فرمائش کرنا اور بات ہے ۔اسی لئے تو کہا کہ ان معاملات میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔

لفظ بہت ہی طاقتور چیز ہے ۔ عاطف بھائی ، یہ اقتباس پڑھئے ۔
 
Top