کبھی کبھار کی باتیں

سکول بند ہیں ، لیکن ہفتے میں ایک دن جانا پڑتا ہے ۔ایک رفیق کار کے ساتھ موٹر سائیکل پہ جا رہا تھا، رستے میں اس نے کہا کہ اس چھوٹی نہر کے سامنے ایک گھر والوں کے پاس بطخیں ہیں ، ان سے انڈے پوچھتے ہیں۔ وہاں چلے گئے، چند خواتین بیٹھی تھیں ، پوچھنے پہ کہنے لگیں، کہ یہ بطخیں نہیں ، مرغابیاں ہیں ۔ غور سے دیکھنے پہ مجھے بھی لگا کہ ان میں سے اسی فیصد مرغابیاں ہی لگ رہی تھیں۔ گو کہ میں ابھی تک سوچ میں ہوں کہ مرغابیاں پالتو بھی ہوتی ہیں بھلا!
ایسا سنا تو نہیں کبھی ۔ خیر ، یہ بھی ادھر رادھر کی ہی بات تھی ، سو چپکا دی ۔ محمداحمد بھائی، مرغابی کھائی کبھی آپ نے؟
مرغابی کے بارے یہ دیکھیے

یہ مراسلہ تو مندرجہ ذیل لڑی میں ہونا چاہیے۔

قسم قسم کے جانور کا گوشت
 

محمداحمد

لائبریرین
سکول بند ہیں ، لیکن ہفتے میں ایک دن جانا پڑتا ہے ۔ایک رفیق کار کے ساتھ موٹر سائیکل پہ جا رہا تھا، رستے میں اس نے کہا کہ اس چھوٹی نہر کے سامنے ایک گھر والوں کے پاس بطخیں ہیں ، ان سے انڈے پوچھتے ہیں۔ وہاں چلے گئے، چند خواتین بیٹھی تھیں ، پوچھنے پہ کہنے لگیں، کہ یہ بطخیں نہیں ، مرغابیاں ہیں ۔ غور سے دیکھنے پہ مجھے بھی لگا کہ ان میں سے اسی فیصد مرغابیاں ہی لگ رہی تھیں۔ گو کہ میں ابھی تک سوچ میں ہوں کہ مرغابیاں پالتو بھی ہوتی ہیں بھلا!
ایسا سنا تو نہیں کبھی ۔ خیر ، یہ بھی ادھر رادھر کی ہی بات تھی ، سو چپکا دی ۔ محمداحمد بھائی، مرغابی کھائی کبھی آپ نے؟
مرغابی کے بارے یہ دیکھیے

ہم نے تو کبھی مرغابی نہیں کھائی ۔ بلکہ ہم نے مرغابی شاذ ہی دیکھی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیکھی ہو اور تعارف نہ ہوا ہو۔ :)

بھیا جی نے کھا رکھی ہے۔ :)

اُن سے پوچھیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی مجھے یہی لگا کہ ان کےاضطراب میں لکھے خط کو پڑھ کر محبوب سے اضطراری حرکت سرزد ہوئی ہے

یعنی اضطرابی حالت میں کسی کو خط نہ لکھیں ۔ :)

بلکہ

خط ہی کیوں لکھے جائیں!

ویسے ہو سکتا ہے کہ مومن نےیہ بات مذاق میں کی ہو۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
خط ہی کیوں لکھے جائیں!
کیونکہ اس وقت نہ تو ای میل کی سہولت موجود تھی، نہ موبائل فون تھا کہ واٹس ایپ پر چیٹنگ کر لیے۔ آ جا کے یہی ایک طریقہ تھا آدھی ملاقات کا کہ یا تو خط لکھا جائے یا پھر قاصد کے ہاتھ رقعہ بھیجا جائے۔
 

فاخر رضا

محفلین
کیونکہ اس وقت نہ تو ای میل کی سہولت موجود تھی، نہ موبائل فون تھا کہ واٹس ایپ پر چیٹنگ کر لیے۔ آ جا کے یہی ایک طریقہ تھا آدھی ملاقات کا کہ یا تو خط لکھا جائے یا پھر قاصد کے ہاتھ رقعہ بھیجا جائے۔
کم از کم کبوتر تو تھے اسی کے ہاتھ بھیج دیتے. ناحق قاصد مروا دیا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج یہ شعر پڑھا ۔ ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ ایسا کیا لکھ دیا مومن بھیا نے۔ :)

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

مومن خاں مومن
کچھ ایسی باتاں لکھی ہوں گی۔۔۔ جن کا ذکر جاوید لکھنوی صاحب نے یوں کیا۔۔۔ شعر سے بہرحال ظاہر ہے کہ اصل صورتحال کا جاوید صاحب کو بھی علم نہیں۔

شب وصل کیا جانے کیا یاد آیا
وہ کچھ آپ ہی آپ شرما رہے ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اضطراب میں کوئی انتہائی انقلابی بات لکھ ڈالی ہو گی مومن نے، جس کا جواب قاتل ادا، سحاب صفت، موصول کنندہ نے بطرزِ سلف یعنی بزورِ شمشیر نقد قاصد کے حوالے کیا، جو وہ بجسدِ خود اما بشانہ ہائے دگراں لے کر لوٹے۔
استغفراللہ۔۔۔ قاصد کو جوابا ایسا ہی جواب سننے کو ملا ہوگا۔۔۔ اور وہ غش کھا کر مر گیا ہوگا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ اس حادثے کے بعد عاشقوں کو خط کی ایک نقل ضرور رکھنی چاہیے اپنے پاس !

تاکہ پتہ چلے کہ اشتعالِ معشوق باطنی تھا یا خارجی۔ :)
وہ جو بیک اپ لیوے ہیں وٹس ایپ و دیگر معاصر قاصد۔۔۔۔ وہ ایسی ہی باتوں کا تو لیوے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج صبح میں ایک صاحب کو دیکھ رہا تھا کہ وہ دو سڑکوں کے بیچ فُٹ پاتھ پر کھڑے ہیں اور انتظار کر ر ہے کہ ٹریفک کا زور کچھ کم ہو تو سڑک کراس کریں۔ کچھ دیر اُن کو انتظار کرنا پڑا پھر جیسے تیسے جان پر کھیل کر اُنہوں نے سڑک پار کی۔

اس طرف پہنچے تو ایک خاتون کو کھڑے پایا ۔ خاتون نے غالبا ً اُن سے درخواست کی (دور ہونے کی وجہ سے میں اُن کی گفتگو نہیں سُن سکا) کہ اُنہیں سڑک کے اُس پار جانا ہے سو وہ ( صاحب ) اُنہیں (اُن خاتون کو) سڑک پار کرو ا دیں۔ وہ صاحب کچھ سٹپٹائے۔ ایک آدھ جملوں کا مزید تبادلہ ہوا ۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ صاحب اُن خاتون کے ساتھ پھر سڑک کے اُس پار جانے کی کوشش کر رہے تھے جہاں سے وہ بامشکل یہاں پہنچے تھے۔ صبح کا وقت تھا ، اُن صاحب کو جلدی بھی ہوگی۔ لیکن پھر بھی اُنہوں نے انکار نہیں کیا ۔

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں​
دور سے فلک بھائی جیسے تو نہیں لگ رہے تھے۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سکول بند ہیں ، لیکن ہفتے میں ایک دن جانا پڑتا ہے ۔ایک رفیق کار کے ساتھ موٹر سائیکل پہ جا رہا تھا، رستے میں اس نے کہا کہ اس چھوٹی نہر کے سامنے ایک گھر والوں کے پاس بطخیں ہیں ، ان سے انڈے پوچھتے ہیں۔ وہاں چلے گئے، چند خواتین بیٹھی تھیں ، پوچھنے پہ کہنے لگیں، کہ یہ بطخیں نہیں ، مرغابیاں ہیں ۔ غور سے دیکھنے پہ مجھے بھی لگا کہ ان میں سے اسی فیصد مرغابیاں ہی لگ رہی تھیں۔ گو کہ میں ابھی تک سوچ میں ہوں کہ مرغابیاں پالتو بھی ہوتی ہیں بھلا!
ایسا سنا تو نہیں کبھی ۔ خیر ، یہ بھی ادھر رادھر کی ہی بات تھی ، سو چپکا دی ۔ محمداحمد بھائی، مرغابی کھائی کبھی آپ نے؟
مرغابی کے بارے یہ دیکھیے

ہم نے تو کبھی مرغابی نہیں کھائی ۔ بلکہ ہم نے مرغابی شاذ ہی دیکھی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیکھی ہو اور تعارف نہ ہوا ہو۔ :)

بھیا جی نے کھا رکھی ہے۔ :)

اُن سے پوچھیے۔
اگر مرغابی یہاں پر تمثیلی نہیں ہے تو میں جواب دیتا ہوں۔ کہ بھائی ہر سال ہجرت کے موسم میں ہمارے علاقے میں مرغابیاں آجاتی ہیں۔ آجکل بھی آئی ہوئی ہیں۔ تو مگ اور مرغابی اس معصوم کو بہت مرغوب ہے۔
 
Top