لفظ "افعی" کا درست تلفظ کیا ہے۔

سید عاطف علی

لائبریرین
اس طرح کے الفاظ کی آخری ی پر کھڑا زبر ضرور لگانا چاہیے:
افعیٰ
میرے خیال میں اردو کتابت میں یہ ہونا چاہیئے ۔
عربی میں ی کو دو نقطوں کے ساتھ لکھا جاتا ہے علي بن ابی طالب ۔اور جس ی میں نقطے نہ ہوں وہ الف مقصورہ ہوتا ہے ، جیسے اعلی ادنی وغیرہ ۔۔ واللہ اعلم۔
عربی میں اگر تلفظ افعی لکھا جائے تو افعي لکھا جائے گا اور اگر افعی عربی میں لکھیں تو افعا پڑھا جائے گا۔ واللہ اعلم ۔
 

فہد اشرف

محفلین
علمی اردو لغت۔
Screenshot-20200627-192853-Adobe-Acrobat.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اور ابی کا تلفظ ابی ہوگا یا ابا؟
اگر یہ عربی لفظ أبي ۔ ہو تو ابی پڑھا جائے گا ۔ جو اسم ہے ۔ یہ چھ خاص اسماء میں سے ہے جس کے لیے عربی زبان میں خصوصی قواعد ہیں ۔ اسی لیے یہ ابو ابی اور ابا کی مختلف حالتوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس قسم کے دیگر اسماء میں ذو ذي اور ذا ۔ أخو اخي اور أخا ۔ وغیرہ ہیں ۔
اگر عربی میں أبی لکھا جائے تو ابا پڑھا جائے گا جو فعل ہے ۔ جیسے ۔
وإذ قلنا للملائكة اسجدوا لآدم فسجدوا إلا إبليس أبى واستكبر ۔۔۔۔
ا
پنی عربی کی استعداد بس اتنی ہی ہے بھئی ۔
 

ابو ہاشم

محفلین
عربی میں ی کو دو نقطوں کے ساتھ لکھا جاتا ہے علي بن ابی طالب ۔اور جس ی میں نقطے نہ ہوں وہ الف مقصورہ ہوتا ہے ، جیسے اعلی ادنی وغیرہ ۔۔ واللہ اعلم۔
عربی میں اگر تلفظ افعی لکھا جائے تو افعي لکھا جائے گا اور اگر افعی عربی میں لکھیں تو افعا پڑھا جائے گا۔ واللہ اعلم ۔
میرے خیال میں یہ بہت حد تک درست ہے لیکن اس اصولِ کتابت کی خلاف ورزی بھی نظر آتی ہے
 
افعیٰ اگر افعِی بن جائے تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے جذبات کو ٹھیس تو اس وقت پہنچتی ہے جب ان چکروں میں ہماری لیلیٰ "لیلِی" بن جاتی ہے:
گفت اي مجنون شيدا ، چيست اين؟
می نویسی نامه ، بهر کيست اين؟
گفت مشق نام ليلي ميکنم
خاطر خود را تسلي ميکنم

:):)
 

رضوان راز

محفلین
خاکسار دستِ ادب جوڑے عرض پرداز ہے کہ
آپ نے جو حوالہ مرحمت فرمایا وہ عربی زبان کے لفظ کا تلفظ ہے جب کہ یہاں اردو زبان میں تلفظ کے متعلق استفسار کیا گیاہے
یہ درست ہے کہ آپ کے فرمان کے بہ موجب عربی میں تلفظ أَفْعَى (الف مفتوح، ف ساکن، ع مفتوح) ہی ہے لیکن فارسی اور اردو میں اَفْعِی (الف مفتوح، ف ساکن، ع مکسور) ہے۔
عربی اور اردو میں ایک ہی لفظ کے تلفظ میں اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
مثلاً اردو کا لفظ تَجَلّی عربی زبان میں تَجَلّٰی ہے۔
اردو کی بیگَم ترکی میں بیگُم (گ مضموم) ہے۔ حالاں کہ بیگم ترکی زبان سے اردو میں آیا ہے لیکن ہمیں اسے بیگَم ( گ مفتوح) ہی پڑھتے اور بولتے ہیں۔

فرہنگِ آصفیہ، فرہنگِ عامریہ اور اردو لغت بورڈ ایسی مستند اور معتبر لغات میں بھی یہ ہی تلفظ مذکور ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
افعیٰ اگر افعِی بن جائے تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے جذبات کو ٹھیس تو اس وقت پہنچتی ہے جب ان چکروں میں ہماری لیلیٰ "لیلِی" بن جاتی ہے:
گفت اي مجنون شيدا ، چيست اين؟
می نویسی نامه ، بهر کيست اين؟
گفت مشق نام ليلي ميکنم
خاطر خود را تسلي ميکنم

:):)

بجا ارشاد
یہ سب فارسی شعراء کا کیا دھرا ہے۔
اردو زبان میں عیسی یا تقوی کے صوتی اثرات اتنے ہی نامانوس اور ناقابلِ قبول ہیں جس قدر تسلّیٰ سننا ناگوار ہے۔ یعنی عربی الفاظ ہوں یا ترکی یا فارسی اردو زبان انہیں اپنے صوتی مزاج سے ہم آہنگ کر لیتی ہے اور ایک نوع کی انفرادیت کی جانب گامزن ہے۔
یہ معاملہ اس جانب بھی رہنمائی کرتا ہے کہ زبان کیوں کر ترقی کرتی ہے اور کیسے اپنی انفرادیت قائم کرتی ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
فہد بھائی ۔ اس غزل میں قافیہ تقوی بھی ہے۔ یہ معاملہ کچھ پیچیدہ ہے۔

اس معاملے میں جناب طباطبائی کی رائے نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ شرحِ دیوانِ غالب میں اسی غزل کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

"قافیہ تقویٰ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمہ میں ی دیکھتے ہیں اُس کو کبھی ’ الف ‘ اور کبھی ’ ی ‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں ۔ ’’ تمنی و تمنا ، تجلی و تجلیٰ وتسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دینی و دُنیا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام میں موجود ہے۔"
 
Top