غزل

صابرہ امین

لائبریرین
کردار کی پرکھ کو تو چند لمحے ہی درکار

خورشید کی کرن پتہ دیتی ہے سحر کا



کیونکر ہو وہ شمشیر بکف برسر میداں

عادی ا گر ہو جائے بد ن لقمہء تر کا



احبا ب تو کیا سایہ بھی پھر ساتھ نہ دے گا

تقدیر کے بھنور میں گھرے بندہ بشر کا



اوروں کی بھری جھولی اور میں تہی داماں

رکھا نہ بھرم اس نے میرے کاسہء سر کا



کس زعم سے دل رکھا تھا پہلو میں چھپا کے

لو پار ہوا جاتا ہے اب تیر نظر کا



_صابرہ امین
 

صابرہ امین

لائبریرین
محترمین الف عین صاحب، شاہد شاہنواز صاحب، خلیل الرحمن صاحب، سیّد عاطف علی صاحب

آداب
آپ سب سے رھنمائ کی درخواست ہے ۔ دعاؤں کے ساتھ
 
آپ کی غزل " مفعول مفاعیل مفاعیل فاعلن" بحر میں ہے۔ اسی بحر میں غالب کا یہ شعر دیکھیے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

کردار کی پرکھ کو تو چند لمحے ہی درکار

خورشید کی کرن پتہ دیتی ہے سحر کا[/QUOTE
پہلا شعر بحر سے خارج ہے۔ نظر ثانی کرلیجیے]

کیونکر ہو وہ شمشیر بکف برسر میداں

عادی ا گر ہو جائے بد ن لقمہء تر کا
دوسرے مصرع کو یوں کرسکتے ہیں

ہو جائے گر عادی جو بدن لقمۂ تر کا

احبا ب تو کیا سایہ بھی پھر ساتھ نہ دے گا

تقدیر کے بھنور میں گھرے بندہ بشر کا
دوسرا مصرع بحر میں نہیں

اوروں کی بھری جھولی اور میں تہی داماں

رکھا نہ بھرم اس نے میرے کاسہء سر کا
پہلا مصرع بحر میں نہیں۔

کس زعم سے دل رکھا تھا پہلو میں چھپا کے

لو پار ہوا جاتا ہے اب تیر نظر کا
خوبصورت شعر۔ کیا بات ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
کردار کی پرکھ کو محض لمحہ ہی درکار
یا
کردار کی پرکھ کو چند لمحے ہی درکار
یا
کردار کے پرکھنے کو چند لمحے ہی درکار
یا
کردار کے پرکھنے کو لمحات ہی کافی

سر کونسا مناسب ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فاعلن یہ سب بھی نہیں پتہ مگر کوشش کر رہی ہوں۔
غالب کے ساتھ اپنے ناچیز کام کا موازنہ دیکھ کر حیران ہوِں ۔ ۔ آپ غلط بھی نہیں ہو سکتے ۔ ۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اسلام و علیکم
آپ کے وقت کا شکریہ ۔ ۔ آخری شعر کی تعریف کا شکریہ ۔ ۔ اللہ کا کرم ہو گیا تھا بس اچانک ذہن میں آگیا تھا بلا ارادہ
جن اشعار کو آپ نے بحر میں لانے کا کہا ہے وہ بالکل بحر میں آ سکتے ہیں مگر ناچیز کو بحر کا "ب" بھی معلوم نہیں ۔ ۔ اگر پتہ ہوتا تو بحر سے خارج ہی نہ ہونے دیتی ۔ ۔ ابھی گوگل کر کے دیکھتی ہوں ۔ ۔ ایک اور لڑی حاضر ٰہے ۔ ۔ بحر سیکھنے کے بعد سب کو ایک ساتھ ہی بحر برد کر دوں گی،:) انشااللہ
جزاک اللہ
 
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اسلام و علیکم
آپ کے وقت کا شکریہ ۔ ۔ آخری شعر کی تعریف کا شکریہ ۔ ۔ اللہ کا کرم ہو گیا تھا بس اچانک ذہن میں آگیا تھا بلا ارادہ
جن اشعار کو آپ نے بحر میں لانے کا کہا ہے وہ بالکل بحر میں آ سکتے ہیں مگر ناچیز کو بحر کا "ب" بھی معلوم نہیں ۔ ۔ اگر پتہ ہوتا تو بحر سے خارج ہی نہ ہونے دیتی ۔ ۔ ابھی گوگل کر کے دیکھتی ہوں ۔ ۔ ایک اور لڑی حاضر ٰہے ۔ ۔ بحر سیکھنے کے بعد سب کو ایک ساتھ ہی بحر برد کر دوں گی،:) انشااللہ
جزاک اللہ
وعلیکم السلام،
صابرہ بہن آپ اس کتاب کا مطالعہ کریں۔یہ کتاب شاعری سیکھنے میں آپ کے لیے مددگار ثابت ہوگی ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس بحر میں یہ کنفیوژن بہت سے مبتدیوں کو ہو جاتا ہے کہ وہ دو بحور کو خلط ملط کر دیتے ہیں، مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن اور مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
فاعلن/فاعلات یعنی آدھا مصرع اس بھر میں اور آدھا مصرع دوسری بحر میں ہو جاتا ہے، اس غزل میں بھی دو ایک جگہ تم سے یہی غلطی ہوئی ہے
مطلع بھی کہہ لو تو غزل مکمل کہی جا سکے

کردار کی پرکھ کو تو چند لمحے ہی درکار

خورشید کی کرن پتہ دیتی ہے سحر کا
... الفاظ بدلنے سے روانی بھی محسوس ہوتی ہے اور بحر بھی درست ہو جاتی ہے، اسے یوں دیکھو
کردار کو پرکھو گے تو کچھ پل ہی لگیں گے
سورج کی کرن جوں پتہ دیتی ہے سحر کا
تکنیکی طور پر تو درست ہو گیا، لیکن واضح نہیں ہو رہا ہے مفہوم کے اعتبار سے

کیونکر ہو وہ شمشیر بکف برسر میداں

عادی ا گر ہو جائے بد ن لقمہء تر کا
... 'اگرو جائے' تقطیع ہوتا ہے یعنی ہو جائے کی ہ کا اسقاط غلط ہے
ہو جائے جو عادی یہ بدن.....
سے درست ہو جائے گا


احبا ب تو کیا سایہ بھی پھر ساتھ نہ دے گا

تقدیر کے بھنور میں گھرے بندہ بشر کا
.. دوسرا مصرع وہی دو بحور کے اختلاط کا نتیجہ ہے جیسا شروع میں کہا تھا میں نے، اس مصرعے کو درست کیا جا سکتا ہے اگر مطلب واضح ہو، موجودہ صورت میں شعر دو لخت لگ رہا ہے



اوروں کی بھری جھولی اور میں تہی داماں

رکھا نہ بھرم اس نے میرے کاسہء سر کا
... پہلے مصرع میں بحر کی معمولی سی غلطی ہے
اوروں کی تو جھولی ہے بھری، میں تہی داماں
کر دو، درست اور اچھا ہو جائے گا شعر


کس زعم سے دل رکھا تھا پہلو میں چھپا کے

لو پار ہوا جاتا ہے اب تیر نظر کا
.. مکمل درست ماشاء اللہ
 

الف عین

لائبریرین
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
اسلام و علیکم
آپ کے وقت کا شکریہ ۔ ۔ آخری شعر کی تعریف کا شکریہ ۔ ۔ اللہ کا کرم ہو گیا تھا بس اچانک ذہن میں آگیا تھا بلا ارادہ
جن اشعار کو آپ نے بحر میں لانے کا کہا ہے وہ بالکل بحر میں آ سکتے ہیں مگر ناچیز کو بحر کا "ب" بھی معلوم نہیں ۔ ۔ اگر پتہ ہوتا تو بحر سے خارج ہی نہ ہونے دیتی ۔ ۔ ابھی گوگل کر کے دیکھتی ہوں ۔ ۔ ایک اور لڑی حاضر ٰہے ۔ ۔ بحر سیکھنے کے بعد سب کو ایک ساتھ ہی بحر برد کر دوں گی،:) انشااللہ
جزاک اللہ
بحر برد مت کرو، ہم لوگ ہیں نا انہیں بچانے کے لئے!
 

صابرہ امین

لائبریرین
محترم عین صاحب
آداب
اشعار کو بچانے کا فریضہ تو اٹھانا ہی پڑے گا کہ یہ بحر، قافیہ اور ردیف کا درد بھی آپ لوگوں کی عطا ہے تو چارہ گری تو کرنی پڑے گی۔ میں میر جیسی سادہ بھی نہیں کہ کسی کے صاحبزادوں سے دوا لوں۔ ۔ ۔ اچھی خاصی شاعری ہو رہی تھی تھوک کے حساب سے۔ احباب بھی تعریفوں کے ڈونگرے پچھلے ایک مہینے سے برسا رہے تھے۔ لاعلمی بھی کیا مزہ رکھتی ہے یہ کوئ مجھ سے پوچھے۔ اور اب آگہی کا عذاب بھی گنوا سکتی ہوں۔ دل تو خاصا مطمئن تھا، یہ سب حسب روایت خرد کا کمال ہے کہ جاؤ بڑوں اور استادوں سے رائے لو۔ ۔ اب حال یہ ہے کہ جیسے ہی کوئ شعر وارد ہونے کی کوشش کرتا ہے قافیہ اور ردیف اسے ڈرانے لگتے ہیں۔ ۔ بحر دانت نکوسے حملہ آور ہوتی ہے ۔ ۔ اور شعر بھاگ جاتا ہے ۔ ۔ کہاں ایک دن میں دس دس بیس بیس اشعار اور کہاں ایک بھی ہاتھ نہیں آرہا ۔ ۔ فعلن فعولن کا ورد اسے پاس ہی پھٹکنے نہیں دیتا ۔ ۔ مگر عقل تسلی دیتی ہے کہ ایک پختہ شعر بہت سے خام اشعار پر فوقیت رکھتا ہے۔ جانتی ہوں تخلیق کا وقتی درد نعمت اور رحمت کی دائمی خوشیوں کے آگے ہیچ ہے ۔ ۔ سو تیار ہیں ۔ ۔ کتاب بھی مل گئ ہے اور چند یو ٹیوب ویڈیوز بھی ۔ ۔ اور اپ لوگ بھی ھمدرد معلوم ہوتے ۔ ۔ نیا پار لگ ہی جائے گی ۔ ۔ انشا اللہ
 
آخری تدوین:
محترم عین صاحب
آداب
اشعار کو بچانے کا فریضہ تو اٹھانا ہی پڑے گا کہ یہ بحر، قافیہ اور ردیف کا درد بھی آپ لوگوں کی عطا ہے تو چارہ گری تو کرنی پڑے گی۔ میں میر جیسی سادہ بھی نہیں کہ کسی کے صاحبزادوں سے دوا لوں۔ ۔ ۔ اچھی خاصی شاعری ہو رہی تھی تھوک کے حساب سے۔ احباب بھی تعریفوں کے ڈونگرے پچھلے ایک مہینے سے برسا رہے تھے۔ لاعلمی بھی کیا مزہ رکھتی ہے یہ کوئ مجھ سے پوچھے۔ اور اب آگہی کا عذاب بھی گنوا سکتی ہوں۔ دل تو خاصا مطمئن تھا، یہ سب حسب روایت خرد کا کمال ہے کہ جاؤ بڑوں اور استادوں سے رائے لو۔ ۔ اب حال یہ ہے کہ جیسے ہی کوئ شعر وارد ہونے کی کوشش کرتا ہے قافیہ اور ردیف اسے ڈرانے لگتے ہیں۔ ۔ بحر دانت نکوسے حملہ آور ہوتی ہے ۔ ۔ اور شعر بھاگ جاتا ہے ۔ ۔ کہاں ایک دن میں دس دس بیس بیسا اشعار اور کہاں ایک بھی ہاتھ نہیں آرہا ۔ ۔ فعلن فعولن کا ورد اسے پاس ہی پھٹکنے نہیں دیتا ۔ ۔ مگر عقل تسلی دیتی ہے کہ ایک پختہ شعر بہت سے خام اشعار پر فوقیت رکھتا ہے۔ جانتی ہوں تخلیق کا وقتی درد نعمت اور رحمت کی دائمی خوشیوں کے آگے ہیچ ہے ۔ ۔ سو تیار ہیں ۔ ۔ کتاب بھی مل گئ ہے اور چند یو ٹیوب ویڈیوز بھی ۔ ۔ اور اپ لوگ بھی ھمدرد معلوم ہوتے ۔ ۔ نیا پار لگ ہی جائے گی ۔ ۔ انشا اللہ
واہ بہنا ،
کیا خوب انداز بیاں ہے،
آپ کو ایک بلکل مفت مشورہ دیں ،
آپ سخن کے ساتھ افسانہ نگاری پر بھی توجہ دیں تو آپ بہترین رائٹر بن سکتی ہیں ۔
 
محترم محمد عدنان اکبری صاحب
آداب
آپ کے قیمتی مشورے سے بالکل اتفاق ہے۔ بس ذرا شاعری سے دودو ہاتھ ہو جائیں، پھرانشااللہ ۔ آپ کی حوصلہ افزائ کا شکریہ۔ جزاک اللہ
ان شاء اللہ ،
ہم پر امید ہیں کہ آپ ضرور میدان سخن میں کامیاب ہوں گی اور آپ کی ہنستی مسکراتی اور شگفتہ انداز بیان سے بھرپور تحریر کے منتظر ہیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آداب
کہیے غزل میں کچھ بہتری آئ یا نہیں

موجوں کی روا نی میں جو حصہ ہے لہر کا
سورج کی کرن یوں پتہ دیتی ہے سحر کا


کردار کو پرکھو گے تو کچھ پل ہی لگیں گے
وہ شخص بھلے ہو کسی گاؤں یا شہر کا
یا
وہ شخص ہو چاہے کسی گاؤں یا شہر کا

کیونکر ہو وہ شمشیر بکف برسر میداں
ہو جائے جو عادی یہ بدن لقمئہ تر کا

احبا ب تو کیا سایہ بھی پھر ساتھ نہ دے گا
حا لات کی چکی میں پسے بندہ بشر کا

اوروں کی تو جھولی ہے بھری، میں تہی داماں
رکھا نہ بھرم اس نے میرے کاسہء سر کا

کس زعم سے دل رکھا تھا پہلو میں چھپا کے
لو پار ہوا جاتا ہے اب تیر نظر کا
 
مدیر کی آخری تدوین:
آداب
کہیے غزل میں کچھ بہتری آئ یا نہیں

موجوں کی روا نی میں جو حصہ ہے لہر کا
سورج کی کرن یوں پتہ دیتی ہے سحر کا


کردار کو پرکھو گے تو کچھ پل ہی لگیں گے
وہ شخص بھلے ہو کسی گاؤں یا شہر کا
یا
وہ شخص ہو چاہے کسی گاؤں یا شہر کا

کیونکر ہو وہ شمشیر بکف برسر میداں
ہو جائے جو عادی یہ بدن لقمئہ تر کا

احبا ب تو کیا سایہ بھی پھر ساتھ نہ دے گا
حا لات کی چکی میں پسے بندہ بشر کا

اوروں کی تو جھولی ہے بھری، میں تہی داماں
رکھا نہ بھرم اس نے میرے کاسہء سر کا

کس زعم سے دل رکھا تھا پہلو میں چھپا کے
لو پار ہوا جاتا ہے اب تیر نظر کا
اب بہت بہتر صورتحال ہے۔ سوائے قوافی کے دو الفاظ کے پوری غزل بحر میں ہے۔ لہر، بحر، شہر ان تینوں الفاظ میں درمیانی حرف ساکن ہے جبکہ آپ نے وزن کے حساب سے تینوں کے درمیانی حرف کو متحرک باندھا ہے۔
 
Top