مجھ پر بنائے کیسز میں میرے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے، پرویز مشرف

جاسم محمد

محفلین
مجھ پر بنائے کیسز میں میرے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے، پرویز مشرف
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1903978-musharrafvideobayan-1575402736-622-640x480.jpg

کمیشن میرا بیان ریکارڈ کرلے تو عدالت میں میرے وکیل کی بات بھی سنی جائے، سابق صدر۔ فوٹو: اسکرین گریب


دبئی: سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ آئین شکنی کیس بے بنیاد ہے مجھ سے زیادتی ہورہی ہے انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں مجھ پر بنائے کیسز میں میرے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے، عدالت میں میرے وکیل کو بھی نہیں سنا جارہا، کیس میں میری شنوائی نہیں ہو رہی، اگر کمیشن میرا بیان ریکارڈ کرلے تو عدالت میں میرے وکیل کی بات بھی سنی جائے۔

سابق صدر نے کہا کہ میری نظر میں آئین شکنی کیس بےبنیاد ہے، غداری چھوڑیں میں نے ملک کے لیے بہت خدمات انجام دیں، جنگیں لڑیں اور دس سال ملک کی خدمت بھی کی، اب میری طبیعت خراب ہے اور اسپتال میں آنا جانا لگا رہتا ہے، ابھی بھی چکر آنے کے باعث بے ہوش ہوا تو مجھے اسپتال پہنچا دیا گیا، کیس میں کمیشن میرا بیان ریکارڈ کرے، امید ہے مجھے عدالت سے انصاف ملے گا۔
 
عام طور پر اس حالت میں سابقہ لیڈرز یا اہم شخصیات کے بیانات وغیرہ منظر عام پر نہیں لائے جاتے۔ اس معاملے میں غالبا قوم کی تسلی کے لئے ایسا کیا گیا ہے کہ قوم جان لے کہ اس کے مجرم کا احتساب (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) شروع ہے، اور ابھی آخرت کی عدالت باقی ہے۔ کاش ہمیں احساس کی دولت اس وقت حاصل ہو جایا کرے جب ہم طاقتور ہوتے ہیں۔
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
جہاں تک جنرل مشرف کی بیماری اور موت کا مسئلہ ہے تو مشرف پہلے ہی ایک پاکستانی کی اوسط عمر سے دس بارہ برس زیادہ جی چکا ہے، اب اس عمر میں بھی کسی نے بیمار نہیں ہونا تو کب ہونا ہے اور موت برحق ہے سب کو آنی ہے چاہے کوئی غدار ہو چاہے کوئی مولانا یا ولی اللہ۔

باقی مشرف بغاوت کیس بھی قوم کے ساتھ محض ایک مذاق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مشرف کے خلاف کیس 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی لگانے پر بنایا گیا ہے۔ مشرف کا اصل کارنامہ تو 1999ء میں آئین کو معطل یا کالعدم کرنا اور ایک جمہوری منتخب حکومت کو ختم کرنا تھا، اُس پر کیس کیوں نہیں بنا۔ کیوں مشرف اتنے سال تک ان "جمہوریوں" کی ناک کے نیچے آزاد گھومتا پھرتا رہا بلکہ انہوں نے اسے اپنا حکمران بھی قبول کیا۔ کیوں اس کے 1999ء کے تمام اقدامات معاف کیے۔ کیوں اس کے فیصلے کالعدم قرار نہیں دیئے۔ مشرف کے ساتھ ان کی کیا ڈیل ہوئی تھی، این آر او کی اصل شقیں کیا تھیں، کیا لیا تھا کیا دیا تھا، اس کی حقیقت سے کون مائی کا لعل پردہ اٹھائے گا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اقتدار کے لیے سیاستدانوں کا ان آئین شکن جنرلوں سے مفاہمت کرنے پر ایک قصہ یاد آ گیا۔

اقبال اخوند 1988ء میں بننے والی بے نظیر کی پہلی حکومت میں بے نظیر کے قومی سلامتی اور امورِ خارجہ کے مشیر تھے۔ ان کے مراسم بہت عرصے سے ذوالفقار علی بھٹو اور انکی فیملی کے ساتھ تھے۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا کے ہاتھوں جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد الیکشنز کا شور تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ بے نظیر یہ الیکشنز جیت جائے گی۔ اسی سلسلے میں جنرل ضیا کی موت اور الیکشنز سے پہلے اقبال اخوند کی بے نظیر سے ایک ملاقات ہوئی تو انہوں نے بے نظیر سے پوچھا کہ اگر آپ مجوزہ الیکشنز جیت گئیں تو آپ کو جنرل ضیا سے، جو آرمی چیف کے ساتھ صدر بھی ہیں، حلف لینا پڑے گا تو کیا آپ اپنے والد کے قاتل سے حلف لے لیں گی اور ان کو قبول بھی کر لیں گی؟ اقبال اخوند لکھتے ہیں کہ بے نظیر نے اس بات کا دو ٹوک جواب نہیں دیا لیکن یہ کہا کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ جنرل ضیا آرمی چیف نہ رہیں۔

اقبال اخوند اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نہ صرف بے نظیر جنرل ضیا سے حلف لینے پر تیار تھیں بلکہ ان کو صدر برقرار رکھنے اور ان کےساتھ کام کرنے کو بھی تیار تھیں۔ جہاں تک جنرل ضیا کو آرمی چیف کے طور پر بدلنے کی بات تھی تو اخوند لکھتے ہیں کہ یہ بھی ممکن نہ تھا کیونکہ اس وقت آئین کے مطابق (آٹھویں ترمیم کے بعد) سروس چیفس کی تقرری کا مطلق اختیار بھی صدر کے پاس تھا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
باقی مشرف بغاوت کیس بھی قوم کے ساتھ محض ایک مذاق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مشرف کے خلاف کیس 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی لگانے پر بنایا گیا ہے۔ مشرف کا اصل کارنامہ تو 1999ء میں آئین کو معطل یا کالعدم کرنا اور ایک جمہوری منتخب حکومت کو ختم کرنا تھا، اُس پر کیس کیوں نہیں بنا۔ کیوں مشرف اتنے سال تک ان "جمہوریوں" کی ناک کے نیچے آزاد گھومتا پھرتا رہا بلکہ انہوں نے اسے اپنا حکمران بھی قبول کیا۔ کیوں اس کے 1999ء کے تمام اقدامات معاف کیے۔ کیوں اس کے فیصلے کالعدم قرار نہیں دیئے۔ مشرف کے ساتھ ان کی کیا ڈیل ہوئی تھی، این آر او کی اصل شقیں کیا تھیں، کیا لیا تھا کیا دیا تھا، اس کی حقیقت سے کون مائی کا لعل پردہ اٹھائے گا؟
بھائی آپ نے تو ان نہاد جمہوریوں کو پھاڑ کر رکھ دیا۔ زبردست!!!
اب سمجھ میں آیا آپ نے تحریک انصاف کو ووٹ کیوں دیا تھا :)
 

جاسم محمد

محفلین
اقتدار کے لیے سیاستدانوں کا ان آئین شکن جنرلوں سے مفاہمت کرنے پر ایک قصہ یاد آ گیا۔
فرقان احمد ابھی بھی چاہتے ہیں کہ ملک اسی طرح مفاہمت، این آر او، کچھ لو کچھ دو، نورا کشتی کی بنیاد پر چلایا جائے۔ حد ہے ویسے!
اگر ملک میں سیاسی استحکام لانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز (مافیاز) کو ہمہ وقت خوش رکھا جائے تو پھر اس پورے کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہئے!
 

زیک

مسافر
باقی مشرف بغاوت کیس بھی قوم کے ساتھ محض ایک مذاق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ مشرف کے خلاف کیس 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی لگانے پر بنایا گیا ہے۔ مشرف کا اصل کارنامہ تو 1999ء میں آئین کو معطل یا کالعدم کرنا اور ایک جمہوری منتخب حکومت کو ختم کرنا تھا، اُس پر کیس کیوں نہیں بنا۔ کیوں مشرف اتنے سال تک ان "جمہوریوں" کی ناک کے نیچے آزاد گھومتا پھرتا رہا بلکہ انہوں نے اسے اپنا حکمران بھی قبول کیا۔ کیوں اس کے 1999ء کے تمام اقدامات معاف کیے۔ کیوں اس کے فیصلے کالعدم قرار نہیں دیئے۔ مشرف کے ساتھ ان کی کیا ڈیل ہوئی تھی، این آر او کی اصل شقیں کیا تھیں، کیا لیا تھا کیا دیا تھا، اس کی حقیقت سے کون مائی کا لعل پردہ اٹھائے گا؟
یہ تو کافی سادہ سی بات ہے۔ 1999 میں مشرف جیت گیا تھا اور 2007 میں ہار گیا تھا۔ تخت کی جنگ میں سزا ہار ہی پر ملتی ہے
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو کافی سادہ سی بات ہے۔ 1999 میں مشرف جیت گیا تھا اور 2007 میں ہار گیا تھا۔ تخت کی جنگ میں سزا ہار ہی پر ملتی ہے
لیکن محمد وارث یہ کہہ رہے ہیں کہ تختہ الٹنا زیادہ بڑا جرم ہے بجائے ایمرجنسی لگانے۔ اصل کیس غیر آئینی طور پر تختہ الٹنے پہ ہونا چاہئے اور کر دیا ایمرجنسی لگانے پر۔
 

جاسم محمد

محفلین
اقبال اخوند اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نہ صرف بے نظیر جنرل ضیا سے حلف لینے پر تیار تھیں بلکہ ان کو صدر برقرار رکھنے اور ان کےساتھ کام کرنے کو بھی تیار تھیں۔
اگر یہ بات سچ ہے تو اس کے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہو جانے چاہئے کہ شریف ، بھٹو اور زرداری خاندان کس مقصد کے تحت سیاست میں آیا۔ کیونکہ اگر ملک و قوم کی خدمت کیلئے آتا تو اس طرح ملک کے آئین و قانون توڑنے والوں کے ساتھ بار بار مفاہمت نہ کرتا۔ اقتدار کی خاطر آئین شکنوں کے ساتھ مفاہمت کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ دونوں مافیا جماعتیں اور ان کے لیڈران ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں۔
دوسری طرف شیخ مجیب الرحمان نے اقتدار کی خاطر جنرل یحییٰ کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی۔ اور یوں اپنا ملک لے کر الگ ہو گئے۔ جس کا ثمرآج ان کی بیٹی شیخ حسینہ بنگلہ دیش کو دن دگنی رات چگنی ترقیات سے منور کرکے ملک و قوم کو کھلا رہی ہیں۔
gdp-info-1570990385652.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
اب سمجھ میں آیا آپ نے تحریک انصاف کو ووٹ کیوں دیا تھا :)
تحریکِ انصاف کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ مجھے معاشرے والے جینے نہیں دے رہے تھے کہ ووٹ قومی امانت ہے اسے ضائع نہ کریں وغیرہ وغیرہ سو مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق lesser evil کو ووٹ دے دیا۔ اگر 'نوٹا' کا آپشن ہوتا تو نوٹا پر سب سے پہلے مہر لگانے والا میں خود ہوتا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ تو کافی سادہ سی بات ہے۔ 1999 میں مشرف جیت گیا تھا اور 2007 میں ہار گیا تھا۔ تخت کی جنگ میں سزا ہار ہی پر ملتی ہے
ہم لوگ جو پچاس کے ہیر پھیر میں ہیں، اپنی مختصر سی زندگی میں دو مطلق العنان فوجی آمر دیکھ چکے ہیں جنہوں نے صریح طور پر آئین توڑا یا معطل کیا یا کالعدم قرار دیا۔ حسرت ہی رہی کہ کوئی "جمہوریا" سیاستدان ان آمروں کے کسی غیر قانونی اقدام کو غلط قرار دے۔ ہر بار ان سیاستدانوں نے ان آمروں کو جمہوری تحفظ دیا، ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو آئین کو حصہ بنایا۔

مانا کہ 1985ء کی جونیجو حکومت یا 2003ء کی قاف لیگ کی حکومت انہی آمروں کی کٹھ پتلیاں تھیں اور انہوں نے ہی ان کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دیا لیکن بعد میں دو تہائی اکثریت والے جمہوری بغل بچے کیا ہوئے۔ 1997ء میں تیرہویں آئینی ترمیم کر کے آمر صدر کے اختیارات ختم کیے جا سکتے ہیں تو اسی آمر صدر کے تمام اقدامات غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ 2010ء کی اٹھارویں آئینی ترمیم کر کے 'تیسری بار وزیر اعظم' بننے والی پابندی ختم کی جا سکتی ہے تو اسی آمر کے باقی غیر آئینی اقدامات کیوں کالعدم قرار نہیں دیئے جا سکتے؟

فوجی آمروں کو ہمیشہ اپنے غیر آئینی اقدامات کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور افسوس صد افسوس کہ ہمارے یہی جمہوری سیاستدان ان کو ہر بار یہ بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
ہر بار ان سیاستدانوں نے ان آمروں کو جمہوری تحفظ دیا، ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو آئین کو حصہ بنایا۔
صرف سیاست دان ہی کیوں؟ اس بہتی گنگا میں ججوں نے بھی اپنے ہاتھ پاؤں بلکہ پورا جسم اچھی طرح دھو کر حلال کیا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
فوجی آمروں کو ہمیشہ اپنے غیر آئینی اقدامات کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور افسوس صد افسوس کہ ہمارے یہی جمہوری سیاستدان ان کو ہر بار یہ بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں!
بالکل صحیح کہا۔ حالیہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لئے بھی اسٹیبلشمنٹ، ججوں اور سیاست دانوں کا شرم ناک کردار واضح طور پر کھل کر سامنے آیا ہے۔ کونسے ملک میں عدالت قانون بننے سے قبل ہی ایک خلاف قانون کام کو عارضی طور پر جائز قرار دیتے ہوئے 6 ماہ کی ایکسٹینشن یا رعایت دیتی ہے کہ جاؤ جا کر اس دوران قانون سازی کر لو؟ ایسے کام صرف بنانارپبلک میں ہی ہو سکتے ہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان احمد ابھی بھی چاہتے ہیں کہ ملک اسی طرح مفاہمت، این آر او، کچھ لو کچھ دو، نورا کشتی کی بنیاد پر چلایا جائے۔ حد ہے ویسے!
اگر ملک میں سیاسی استحکام لانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز (مافیاز) کو ہمہ وقت خوش رکھا جائے تو پھر اس پورے کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہئے!
جی ہاں! ریاست کو افراتفری اور انارکی سے بچانے کے لیے مفاہمت کی پالیسی بہتر ہے، اگر ہم نے واقعی یہ نظام چلانا ہے۔ اسی میں سے بہتری کے آثار رفتہ رفتہ برآمد ہو سکتے ہیں۔ وگرنہ، فرشتے لائیے جو ملک چلائیں۔ اس وقت انقلابی حکومت ہوتی تو علیمہ خانم، فیصل واؤڈا، علیم خان، جہانگیر ترین، پرویز خٹک، زلفی بخاری (ایک طویل فہرست ہے ویسے) شاید سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ اگر آپ انقلاب برپا نہیں کر سکتے ہیں تو یہ کھوکھلے نعرے بھی نہ لگائیے۔ ابھی تو جب یہ 'فرشتے'جائیں گے تو معلوم پڑے گا کہ انہوں نے کس حد تک بدعنوانی اور اقرباپروری کی۔ :)
 

زیک

مسافر
ہم لوگ جو پچاس کے ہیر پھیر میں ہیں، اپنی مختصر سی زندگی میں دو مطلق العنان فوجی آمر دیکھ چکے ہیں جنہوں نے صریح طور پر آئین توڑا یا معطل کیا یا کالعدم قرار دیا۔ حسرت ہی رہی کہ کوئی "جمہوریا" سیاستدان ان آمروں کے کسی غیر قانونی اقدام کو غلط قرار دے۔ ہر بار ان سیاستدانوں نے ان آمروں کو جمہوری تحفظ دیا، ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو آئین کو حصہ بنایا۔

مانا کہ 1985ء کی جونیجو حکومت یا 2003ء کی قاف لیگ کی حکومت انہی آمروں کی کٹھ پتلیاں تھیں اور انہوں نے ہی ان کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دیا لیکن بعد میں دو تہائی اکثریت والے جمہوری بغل بچے کیا ہوئے۔ 1997ء میں تیرہویں آئینی ترمیم کر کے آمر صدر کے اختیارات ختم کیے جا سکتے ہیں تو اسی آمر صدر کے تمام اقدامات غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ 2010ء کی اٹھارویں آئینی ترمیم کر کے 'تیسری بار وزیر اعظم' بننے والی پابندی ختم کی جا سکتی ہے تو اسی آمر کے باقی غیر آئینی اقدامات کیوں کالعدم قرار نہیں دیئے جا سکتے؟

فوجی آمروں کو ہمیشہ اپنے غیر آئینی اقدامات کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور افسوس صد افسوس کہ ہمارے یہی جمہوری سیاستدان ان کو ہر بار یہ بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں!
اکثر سیاستدانوں نے آمروں سے کم ہی اختلاف کیا ہے اور ان کی مدد سے اقتدار میں آنے کی کوشش کی ہے۔ مقتدر سیاسی لیڈروں نے سسٹمیٹک طریقے سے فوجی سیاسی دباؤ کم یا ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نواز شریف کا اس سلسلے میں بیانیہ 1993 میں “میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا” سے شروع ہوتا ہے 26 سالوں میں کوئی باقاعدہ اصول نہیں بنایا اور نہ ہی تحریک شروع کی بلکہ آج بھی اس کی پارٹی اس معاملے میں کافی کنفیوز ہے۔

آج آپ نون لیگ یا تحریک انصاف کے کسی لیڈر سے ضیا کے متعلق سوال کر لیں۔ مشکل سے ہی کوئی اس کی مخالفت کرے گا حالانکہ ضیا کو مرے بھی تیس سال سے اوپر بیت گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! ریاست کو افراتفری اور انارکی سے بچانے کے لیے مفاہمت کی پالیسی بہتر ہے، اگر ہم نے واقعی یہ نظام چلانا ہے۔ اسی میں سے بہتری کے آثار رفتہ رفتہ برآمد ہو سکتے ہیں۔
ارے بھائی پچھلے دس سال سے ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان یہ مفاہمت ہی تو چل رہی تھی۔ نہ تم ہمارے کیسز کھولو، نہ ہم تمہارے کھولیں گے۔ مل جل کر باری باری ملک کو لوٹیں گے۔
اگر اسٹیبلشمنٹ مداخلت کر کے تحریک انصاف کو آگے نہ لاتی تو یہ سلسلہ آئندہ بھی کئی سال چلتا رہتا یہاں تک کہ ملک دیوالیہ ہو جاتا۔
معلوم نہیں آپ اس کرپٹ نظام سے کونسی بہتری کے آثار برآمد کروانا چاہتے ہیں؟ :)
 
Top