حسان خان

لائبریرین
«قِندیلِ ترسا» اُس قِندیل کو کہتے تھے جو مسیحیوں کے کلیسا میں ہمیشہ آویزاں ہوتی تھی اور کلیسا میں مسیحیان اُس کو افروختہ و رَوشن کرتے تھے۔ «خاقانی شِروانی» نے ایک بیت میں اِس ترکیب کو استعمال کیا ہے:

زبانِ رَوغَنینم زآتشِ آه
بِسوزد چون دلِ قندیلِ ترسا
(خاقانی شِروانی)


آتشِ آہ سے میری زبانِ رَوغَنِیں، قِندیلِ مسیحی کے دِل کی طرح جلتی ہے۔۔۔

× شاعر نے اپنی «زبان» کو اُس کی نرم‌گُفتاری، خوش‌زبانی، چرب‌سُخنی، شیرین‌گویی اور روانی کے باعث «رَوغَنِیں» کی صِفَت سے مُتّصِف کیا ہے۔ جس چیز پر روغَن ہو وہ جَلدی آتش پکڑتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خاقانی شِروانی» قفقازی آذربائجان کے خِطّے «شِیروان» کے شاعر تھے، اور خِطّۂ «شیروان» مسیحی گُرجیوں کے وطن «گُرجِستان» (جارجیا) کے نزد واقع ہے۔ یقیناً اُس مسیحی گُرجی قَوم کے ساتھ «خاقانی» کا اِرتِباط رہا تھا، جبھی اُنہوں نے ایک رُباعی میں کسی مسیحی معشوق سے مُخاطِب ہو کر ایک گُرجی لفظ «مویی» استعمال کیا ہے جس کا معنی «آؤ!» ہے۔

ترسا صنَما هم‌دمِ عیسی‌ست دمَت
روحُ‌القُدُسی چگونه خوانم صنمَت
چون مُوی شدم ز بس که بُردم سِتمَت
مویی مویی که موی مویم ز غمت
(خاقانی شِروانی)


اے بُتِ [زیبائے] مسیحی!۔۔۔ تمہارا نفَس (سانس) «حضرتِ عیسیٰ» کا ہم‌دم ہے۔۔۔ تم «رُوحُ‌القُدُس» ہو، میں کیسے تم کو بُت پُکاروں؟۔۔۔ میں نے تمہارا اِتنا زیادہ سِتم اُٹھایا کہ میں بال کی مانند [لاغر و باریک] ہو گیا۔۔۔ آ جاؤ! آ جاؤ! کہ میں تمہارے غم کے باعث بالوں کی مانند [آشُفتہ و ژولیدہ] ہوں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«رایج سیالکوتی» ایک بَیت میں کہتے ہیں کہ جب تک شاعر کا جِگر خُون نہیں ہو جاتا، گُل و چمنِ سُخن‌وَری رنگین نہیں ہوتا۔۔۔ یعنی خُوب و زیبا شاعری کرنا جِگر کو خون کرنے کا نام ہے۔

به آسانی گُلِ طرزِ سُخن رنگین نمی‌گردد
جگر تا خون نگردد این چمن رنگین نمی‌گردد
(رایج سیالکوتی)


گُلِ طرزِ سُخن بہ آسانی رنگین نہیں ہوتا۔۔۔ جِگر جب تک خُون نہ ہو جائے، یہ چمن رنگین نہیں ہوتا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
بِلادِ عظیمۂ «شام» کا عظیم شہر «حلَب» ہماری شعری روایات میں اپنی شیشہ‌سازی کی صنعت اور اپنے شیشوں کے لیے مشہور رہا ہے۔۔۔ «رایج سیالکوتی» نے بھی ایک بیت میں شہرِ «حلَب» اور وہاں کی شیشہ‌سازی و شیشہ‌فروشی کی جانب اشارہ کیا ہے:

در جلوه بُوَد هر طرفم معنیِ نازُک
عالَم سُخنِ من همه بازارِ حلَب کرد
(رایج سیالکوتی)


میرے ہر طرف معنیِ نازُک جلوے میں ہے۔۔۔ [گویا] میرے سُخن نے عالَم کو تماماً بازارِ حلَب کر دیا [ہے]۔۔۔ (یعنی جس طرح «حلَب» کے بازار میں ہر طرف روشنیاں اور درَخشَندگیاں مُتَجلّی ہو رہی ہوتی ہیں، اُسی طرح میرے سُخن کے باعث جہان میں بھی ہر طرف معانیِ نازُک جلوے میں ہیں اور میری شاعری نے عالَم کو بازارِ حلَب کے مُشابِہ کر دیا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
«حضرتِ یوسُف» کی داستان میں آیا ہے کہ اُن کے فِراق کے غم میں «حضرتِ یعقوب» اِس قدر زیادہ روتے رہے تھے کہ اُن کے دیدے سیاہ سے سفید ہو گئے، یعنی وہ نابینا ہو گئے تھے۔ «کِشوَرِ کشمیر» کے شاعر «غنی کشمیری» نے اُس داستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ شعری مضمون باندھا ہے:

خضابِ مُویِ زُلیخا مگر کند یوسف
که بُرده‌است سیاهی ز دیدهٔ یعقوب
(غنی کشمیری)


«یوسُف» شاید «زُلیخا» کے بالوں پر [سِیاہ] خِضاب کرے، کہ وہ «یعقوب» کے دیدے سے سیاہی لے گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا به زُلفِ سِیَهش دل بستم
از پریشانیِ عالَم رَستم
(ظهیرالدین محمد بابُر)


جُوں ہی میں نے اُس کی زُلفِ سیاہ سے دل باندھا، مَیں پریشانیِ عالَم سے رَہا ہو گیا۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
شادمانی مکُن که دُشمن مُرد
تو هم از مرگ جان نخواهی بُرد
(سعدی شیرازی)


[اِس چیز پر] شادمانی مت کرو کہ دُشمن مر گیا۔۔۔ [کیونکہ] تم بھی مَوت سے جان بچا نہیں لے جاؤ گے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
عَیب است لافِ عشقِ جوانان و عهدِ شَیب
مُویِ سفیدم از مَیِ گُل‌گُون خِضاب کُن

(عبدالرحمٰن جامی)

سفید بالوں کے زمانے میں (یعنی زمانۂ پِیری میں) جوان زیباؤں کے عشق کی لاف (ڈِینگ) مارنا عَیب ہے۔۔۔۔ [لہٰذا] میرے سفید بالوں کو شرابِ گُل‌رنگ سے خِضاب کر دو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«رایج سیالکوتی» کو اِس آرزوئے شدید نے بے خواب و خوراک کر رکھا تھا کہ وہ کسی وقت «کاشُروں» کے وطن «کشمیر» کے لیے اِحرام باندھ کر وہاں کی جانب عازِمِ سفر ہوں اور مردُمِ «کاشُر» کی اُس سرزمینِ پاک و مُنزّہ کی زیارت و طواف کریں:

در این شوق بی خواب و خور گشته رایج
خوشا دم که احرامِ کشمیر بندد
(رایج سیالکوتی)


«رایج» اِس اِشتِیاق میں بے خواب و خوراک ہو گیا ہے۔۔۔ خوشا وہ لمحہ کہ جب وہ «کشمیر» کے لیے اِحرام باندھے گا! (یعنی خوشا و لمحہ کہ جب وہ «کشمیر» کے سفر کے لیے قصد و عزم کرے گا اور وہاں کی جانب روانہ ہو گا!)
 

حسان خان

لائبریرین
جہانِ اسلام کی قُرونِ وُسطائی کُتُبِ تواریخ میں «افلاطون» کے بارے میں ایک افسانہ نقل ہوا تھا کہ جب وہ سِنِّ پِیری (بُڑھاپے) میں پہنچا تھا تو وہ ایک خُمِ شراب میں بیٹھ گیا تھا اور بعد ازاں اُس کی مرگ کے وقت اُس کے شاگردوں نے اُس کے حُکم کے بمُوجِب خُم کے سر کو مُحکَمی کے ساتھ بند کر کے کسی کوہ کی غار میں رکھ دیا تھا۔۔۔ ہمارے شعر و ادبیات میں اُس افسانۂ «خُمِ افلاطون» کی تلمیح کئی بار استعمال ہوئی ہے، اور «افلاطون» کو «خُم‌نشین» کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔۔۔ «رایج سیالکوتی» نے بھی ایک بَیت میں اُس افسانے کی جانب اِشارہ کیا ہے:

ذَوقِ فیضِ دامنِ دشت از کُجا خُم از کُجا
تا توان مجنون شُد افلاطون نمی‌باید شُدن
(رایج سیالکوتی)


کہاں دشت کے دامنِ [وسیع] کے فَیض کا ذَوق اور کہاں خُمِ [تنگ]!!۔۔۔۔ جب تک «مجنون» بنا جا سکتا ہو، «افلاطون» نہیں بننا چاہیے۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جہانِ اسلام کی قُرونِ وُسطائی کُتُبِ تواریخ میں «افلاطون» کے بارے میں ایک افسانہ نقل ہوا تھا کہ جب وہ سِنِّ پِیری (بُڑھاپے) میں پہنچا تھا تو وہ ایک خُمِ شراب میں بیٹھ گیا تھا اور بعد ازاں اُس کی مرگ کے وقت اُس کے شاگردوں نے اُس کے حُکم کے بمُوجِب خُم کے سر کو مُحکَمی کے ساتھ بند کر کے کسی کوہ کی غار میں رکھ دیا تھا۔۔۔ ہمارے شعر و ادبیات میں اُس افسانۂ «خُمِ افلاطون» کی تلمیح کئی بار استعمال ہوئی ہے، اور «افلاطون» کو «خُم‌نشین» کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔۔۔ «رایج سیالکوتی» نے بھی ایک بَیت میں اُس افسانے کی جانب اِشارہ کیا ہے:

ذَوقِ فیضِ دامنِ دشت از کُجا خُم از کُجا

تا توان مجنون شُد افلاطون نمی‌باید شُدن
(رایج سیالکوتی)

کہاں دشت کے دامنِ [وسیع] کے فَیض کا ذَوق اور کہاں خُمِ [تنگ]!!۔۔۔۔ جب تک «مجنون» بنا جا سکتا ہو، «افلاطون» نہیں بننا چاہیے۔۔۔
بے جنوں مباش!
 

محمد وارث

لائبریرین
قطعِ اُمید کردہ نخواہد نعیمِ دہر
شاخِ بریدہ را نظرے بر بہار نیست


ابوطالب کلیم کاشانی

جس کی اُمیدیں ٹُوٹ گئی ہوں وہ دنیا کی نعمتیں اور خوشیاں اور راحتیں نہیں چاہتا، جیسے کہ ٹُوٹی ہوئی ٹہنی کی نظر بہار پر نہیں ہوتی، اور اُسے موسمِ بہار کی آمد کا کوئی انتظار نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خاقانی شِروانی» کے ایک قصیدے سے دو ابیات:

چو مریم سرفِکَنده، ریزم از طعن
سِرِشکی چون دمِ عیسیٰ مُصَفّیٰ
چُنان اِستاده‌ام پیش و پسِ طعن
که اِستاده‌ست الِف‌هایِ اطعنا
(خاقانی شِروانی)


میں «مریَم» کی مانند سر جُھکائے، طعنوں کے باعث، «عیسیٰ» کی سانس جیسے پاکیزہ اشک بہاتا ہوں۔۔۔

میں «طَعن» کے آگے و پیچھے اِس طرح کھڑا ہوں کہ جیسے «اطعنا» کے الِف [«طعن» کے آگے و پیچھے] کھڑے ہیں۔۔۔ (یعنی مجھ پر ہر جانب سے طعن و ملامت کی بارِش ہو رہی ہے۔)

× عرَبی میں «أَطَعْنَا» کا معنی «ہم نے اطاعت کی» ہے۔ اِس لفظ کے اِبتِداء و اِختِتام میں الِف ہے اور درمیان میں «طعن» ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل که شُد تیره ز هم‌صُحبتیِ بی‌بصَران
از خُدا می‌طلَبد صُحبتِ صاحبِ‌نظری
(بانو بی‌بی حیاتی کِرمانی)


[میرا] دل، کہ جو بےبصَروں کی ہم‌صُحبَتی سے تِیرہ و تاریک و کُدُورت‌زدہ ہو گیا ہے، خُدا سے کسی صاحِب‌نظر کی صُحبت کی خواہش کرتا ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
همه اهلِ مسجد و صَومَعه پَیِ وِردِ صُبح و دُعایِ شب
من و ذکرِ طلعت و طُرّهٔ تو مِنَ الغَداةِ اِلَی العِشا
(عبدالرحمٰن جامی)


تمام اہلِ مسجد و خانقاہ وِردِ صُبح و دُعائے شب کے درپَے ہیں۔۔۔ [جبکہ] مَیں ہوں اور صُبح سے شب تک تمہارے چہرہ و زُلف کا ذِکر ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
كاش بودم همچو عنقا بی‌نشان در روزگار
تا نبيند چشمِ تنگِ مردُمِ دُنيا مرا
(غُلام‌رِضا قُدسی)


کاش مَیں پرندۂ عنقا کی طرح زمانے میں بےنِشان ہوتا تاکہ مردُمِ دُنیا کی چشمِ تنگ مجھ کو نہ دیکھتی!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تماشایِ گُلی کرد آن‌چُنان محوِ گُلستانم
که گردید آشیانِ عندلیبان چشمِ حیرانم
(قُدسی مشهدی)


ایک گُل کے نظارے نے مجھ کو اِس قدر محوِ گُلستاں کر دیا کہ میری چشمِ حَیراں بُلبُلوں کا آشیاں بن گئی۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
جب کوئی شخص وفات کر جاتا ہے تو اُس کی نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہی جاتی ہیں، اِسی لیے زبانِ فارسی میں «چار تکبیر زدن» (چار تکبیریں مارنا) کی عِبارت «نمازِ جنازہ کرنا» کے معنی میں، یا پھر کسی شَے کو بہ کُلّی و تماماً تَرک کر دینے اور اُس سے مُطلَقاً دُور ہو جانے کے کِنائی معنی میں استعمال ہوتی آئی ہے، کیونکہ نمازِ جنازہ میں میِّت پر چار تکبیریں کہہ دینے کے بعد اُس کو ہمیشہ کے لیے سُپُردِ خاک کر دیا جاتا ہے۔۔۔ «حافظِ شیرازی» کی ایک مشہور بیت میں اِس عِبارت کا استعمال دیکھیے:

من همان دم که وُضو ساختم از چشمهٔ عشق
چار تکبیر زدم یک‌سره بر هر چه که هست
(حافظ شیرازی)


میں نے اُسی لمحہ کہ جب میں نے چشمۂ عشق سے وُضو کیا، جہانِ ہستی میں موجود ہر ایک چیز پر ایک ہی بار چار تکبیریں کہہ دیں (یعنی میں نے چشمۂ عشق سے وُضو کرتے ہی دُنیا و مافِیہا پر نمازِ جنازہ پڑھ کر اُس کو کُلّاً اور برائے ابَد تَرک کر دیا)۔۔۔

«حافظ» سُنّی تھی، اِس لیے یہاں فِقہِ اہلِ سُنّت کی مُوافقت میں "چار تکبیر زدم" کہا گیا ہے، ورنہ فِقہِ جعفری میں نمازِ جنازہ میں چار کی بجائے پانچ تکبیریں کہی جاتی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بِکرد بر خور و بر خواب چارتکبیری
هر آن کسی که بر او کرد عشق نیم سلام
(مولانا جلال‌الدین رومی)


جس بھی شخص پر عشق نے ذرا سا سلام کیا، اُس نے خوراک و نیند پر چار تکبیریں کہہ دیں (یعنی جس بھی شخص کے ساتھ عشق کی ذرا آشنائی ہوئی، اُس نے طعام و خواب و راحت پر نمازِ جنازہ پڑھ کر اُن کو کُلّاً تَرک کر دیا۔)
 
Top