ہفتہ 2 نومبر 2019 23:30

50816-281993943.jpg


آزادی مارچ میں شامل جے یو آئی ۔ف کی رضاکار فورس کے کارکن (اے ایف پی)

واہ ، کیا بات ہے ، یہ تو بالکل انٹیل، مائیکروسوفٹ، آریکل، سیسکو کے وفٹ وئیر ڈیویلپرز لگ رہے ہیں :) یا پھر امریکی سینیٹ کے نمائندگے لگ رہے ہیں :)

کا کہہ رہے ہو بھئی ، عجب کہہ رہے ہو بھئی ۔۔۔ ڈھائی فی صد ٹیکس ، مولانا کو واجب واجب الادا سے بلک چلے گا تو ایسی ہی مخلوق جنم لے گی ۔ حکومت کے پاس تعلیم پر روزگار پر خرچ کرنے کے لئے ہے کیا ؟ صفر فی صد؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔
آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے مولانا کو دانش اور فراست والا سیاست دان سمجھ رکھا تھا۔ خیر چلیں اس دھرنے کی برکت سے یہ تاثر بھی ختم ہو گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناجائز حکمرانوں کو جانا ہوگا اس سے کم پر بات نہیں ہوگی،مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019
1868030-fazalurrehman-1572884551-745-640x480.jpg

سیاسی جماعتوں نے یقین دلایا ہے کہ ہم جے یو آئی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، سربراہ جے یو آئی (ف) فوٹو : فائل


اسلام آباد: جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ناجائز حکمرانوں کو جانا ہوگا اس سے کم پر بات نہیں ہوگی جب کہ سیاسی جماعتوں نے جے یو آئی کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی ہے اور کہا ہے کہ جے یو آئی کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔

دھرنے کے پانچویں روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جس استقامت اور عزم کے ساتھ شرکا دھرنا دیے بیٹھے ہیں میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں، ہم اپنے مقصد کے حصول کے قریب پہنچ گئے ہیں، آج آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں سب نے دھرنے کے شرکا کو خراج تحسین پیش کیا، سیاسی جماعتوں نے یقین دلایا ہے کہ ہم جے یو آئی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور قدم قدم کا ان ساتھ دیں گے، حزب اختلاف کے تمام قائدین نے متفقہ طور پر کہا ہے کہ اس دھرنے کے خاتمے کا فیصلہ بھی ہم سب مل کر کریں گے جس کے بعد اب یہ بات دم توڑ گئی ہے کہ کون سی جماعت آپ کے ساتھ ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سال 2014ء کے دھرنے میں تمام جماعتیں ایک طرف تھیں اور عمران خان ایک طرف تھا جب کہ آج بھی تمام جماعتیں ایک طرف اور عمران خان ایک طرف تنہا ہے، وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں تنہا ہی رہتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ یہاں کسی کا نمائندہ نہیں بیرونی نمائندہ ہے، معاملہ سلیکٹڈ سے آگے نکل گیا ہے عمران خان سلیکٹڈ نہیں رجیکٹڈ ہے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ ہم پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو محترم، مضبوط اور تنہائی سے دور دیکھنا چاہتے ہیں، آج ہم تنہا ہیں اور ہم نے ہرطرف محاذ کھول رکھے ہیں اس لیے کہ حکومت اپنے پڑوسی ممالک کو اعتماد میں نہیں لے سکی، عمران خان کی سوچ تھی کہ مودی میرے لیے رحمت کا باعث بنے گا، اسے امید تھی کہ بھارتی الیکشن میں مودی جیتے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا، یہ اسی سودے بازی کا نتیجہ تھا کہ آج کشمیر کے ساتھ جو ہوا، کشمیری باشندوں کو پیغام دیتا ہوں کہ جے یو آئی آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

مولانا نے کہا کہ آج کے نوجوان کی آواز اس بے روزگار نوجوان اور پریشان تاجر کی آواز ہے جو اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکا ہے، ہم مسلسل زوال کی طرف جارہے ہیں، 70 سال میں جتنے قرضے لیے گئے وہ ایک طرف اور گزشتہ ایک سال میں جو قرضے لیے گئے وہ ایک طرف ہیں، ہم مکمل طور پر آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، عالمی ادارے ملک کو دیوالیہ قرار دینے کے قریب ہیں، جتنا وقت اس حکومت کو دیا گیا اتنا پاکستان کو زوال کی طرف گامزن کرنا ہوگا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹی نے شرط عائد کرکے مذاکرات کی بات کی جو کہ عجیب بات ہے، متاثرہ اور مدعی ہم ہیں شرط عائد کرنے کا حق ہمارا ہے ان کا نہیں، تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم ملکی نظام اور آئین کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں اور آئین کی عمل داری چاہتے ہیں، مذہبی جماعتوں نے شدت پسندی کو رد کیا ہے، آج اتنا بڑا مجمع اس بات کا ثبوت ہے کہ جے یو آئی چاروں صوبوں کے لوگوں کو جمع کرکے ایک قوم بنانا چاہتی ہے، شرکا نے جس پرامن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے میں ان سے آئندہ بھی اسی کی توقع کرتا ہوں۔

جمعیت علما اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ہم ان حکمرانوں کو جانا ہوگا اس سے کم پر بات نہیں ہوگی، ہم تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں جب کہ ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے، ناجائز حکمرانوں کے ہوتے ہوئے مثبت مذاکرات نہیں ہوسکتے کیوں کہ ہم پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے حق رکھتے ہیں کہ ہمارے اضطراب اور مسائل کو دور کیا جائے، ناجائز حکمران جتنا جلد جائے گا اضطراب دور ہوجائے گا، اپوزیشن متحدہ ہے فیصلہ اسے ہی کرنا ہے کہ یہاں کب تک بیٹھنا ہے یا جانا ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ اور دھرنے کا آج پانچواں روز ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر جے یو آئی کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں حکومت کے خلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا اور اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن پر بھی مشاورت ہوئی۔

بلاول اور شہباز کی عدم شرکت

اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے بجائے ان کی سیاسی جماعتوں کے وفود شریک ہوئے۔ (ن) لیگ کے وفد کی قیادت ایاز صادق نے کی، پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر، اے این پی کی طرف سے زاہد خان ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اور دیگر سیاسی رہنما اے پی سی میں شریک ہوئے۔

پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ

آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی عدم شرکت پر مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا حکومت کے خلاف احتجاج صرف جے یو آئی کا فیصلہ تھا؟ آپ لوگ ناجائز حکومت سے نجات چاہتے ہیں یا ان کے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں؟ اگر مشترکہ فیصلہ کرنا ہے تو ہماری جماعت اسمبلیوں سے استعفوں کے لیے بھی تیار ہے۔

استعفے میرے پاس پڑے ہیں

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کی حکمرانی کے لیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنائیں، موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ سب اپنے مفادات کو عوامی مشکلات پر ترجیح نہ دیں، سیاسی جماعتیں اسٹینڈ لیں، جے یو آئی ہراول دستہ ہوگی، عوامی بالادستی چاہتے ہیں تو فیصلے کا یہی وقت ہے، میری جماعت کے ارکان کے استعفے میرے پاس پڑے ہیں۔

اپوزیشن کا دھرنا اور احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ

اجلاس میں شریک جے یو آئی قیادت اور اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج اور دھرنا جاری رہے گا تاہم اپوزیشن جماعتوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کا آپشن اس صورت میں بھی کھلا رہے گا۔

واضح رہے کہ جے یو آئی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لیے دی گئی 2 روز کی ڈیڈ لائن میں توسیع کردی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سال 2014ء کے دھرنے میں تمام جماعتیں ایک طرف تھیں اور عمران خان ایک طرف تھا جب کہ آج بھی تمام جماعتیں ایک طرف اور عمران خان ایک طرف تنہا ہے، وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں تنہا ہی رہتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ یہاں کسی کا نمائندہ نہیں بیرونی نمائندہ ہے، معاملہ سلیکٹڈ سے آگے نکل گیا ہے عمران خان سلیکٹڈ نہیں رجیکٹڈ ہے۔
چلو شکر ہے مولانا نے مان لیا گیا کہ وہ نہ صرف 2014 میں ان چور، کرپٹ جماعتوں کے نمائندے تھے بلکہ آج بھی ہیں۔
اپوزیشن اور حکومت دونوں صورتوں میں اگر ملک کی تمام بڑی جماعتیں تحریک انصاف کے خلاف ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے عمران خان کچھ ایسا کام کر رہا ہے جس سے ان کرپٹ اپوزیشن جماعتوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اور انہوں نے کنٹینر لگا کر رونا دھونا شروع کر دیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:

مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔

اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔

اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!
آپ بالکل صحیح نکتہ پر پہنچے ہیں۔ پاکستان میں نظریات کی نہیں شخصیات کی سیاست ہوتی تھی۔ اسے مائنس کردو، اسے شامل کر لو۔ ہر الیکشن میں ہوا کا رُخ کر دیکھ روایتی سیاسی لوٹے آپس میں گٹھ جوڑ کر حکومتیں بنا لیتے۔ پانچ سال سرکاری خزانہ پر عیاشی کرتے اور پھر پارٹیاں بدل کر دوبارہ دھیاڑی لگانے کیلئے تیار ہو جاتے۔
عمران خان نے آکر اس کرپٹ روایتی سیاسی کلچر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جس کا ثبوت آپ کو آجکل کنٹینر پہ موجود بائیں بازو سے لیکر دائیں بازو کی متحدہ اپوزیشن کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔

مولانا کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا
207645_7224454_updates.JPG

بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا: فوٹو اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے نجانے کس کس نے اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ نہ صرف تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہمارے لبرلز بھی مولانا کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ کچھ تو مولانا کے کنٹینر پر بھی چڑھے نظر آئے۔

حکومتی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کی مخالفت میں ان لبرلز کو مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا۔ لبرلز کا ایک طبقہ تو اس صورتحال سے واقعی پریشان اور کنفیوزڈ ہے۔ ہمارے سینئر اور محترم مظہر عباس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی یہ رائے دی کہ اُن کے خیال میں پاکستانی لبرلز اور سیکولرز وہی غلطی کر رہے ہیں جو اُن سے 1977ء میں سرزد ہوئی جب اُنہوں نے پی این اے کو سپورٹ کیا تھا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پاکستانی لبرلز کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے جہاں ایک طرف عمران خان کھڑے ہیں جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور جنہیں یہ لبرلز تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تو دوسری طرف وہ اُن مولانا فضل الرحمٰن سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں جن کی جماعت ہے ہی اسلامی اور جنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر نہ صرف ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اور اسلام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

اور اب تو بلاول بھٹو جو اب تک پاکستانی لبرلز کی ترجمانی کرتے رہے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتے رہے، نے بھی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘ کے وعدے کو پورا کرنے کی بات کر دی ہے جس پر مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ بلاول بھٹو اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے روشنی میں اب اسلامی پاکستان کے ایجنڈے پر ہی کاربند رہیں گے۔

جب مولانا اسلام، پاکستان اور پھر آئین پاکستان کے مطابق ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کر رہے تھے تو بلاول بھٹو اُس وقت کنٹینر پر اُن کے ساتھ کھڑے مسکر ا رہے تھے۔ شاید بلاول بھٹو بھی سمجھ گئے ہوں کہ مذہب کارڈ کی تکرار کرنے والوں کا اصل مقصد تو پاکستان کو اسلام سے دور کرنا ہے جو ممکن نہیں اور اس حقیقت کو اُن کے نانا نے بھی تسلیم کیا اور اسی لیے پاکستان کو ایک اسلامی آئین دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں کوئی ایک آدھ جھنڈا افغان طالبان کا بھی نظر آیا جس پر حکومت اور میڈیا کے ایک حصہ نے خوب شور مچایا کہ اس سے تو پاکستان کا دنیا میں امیج خراب ہو گا۔ اگرچہ اس پروپیگنڈا پر مولانا نے کڑاکے کا جواب دیا کہ اُن طالبان کی ہی بات ہو رہی ہے نا جن کے ایک وفد کو حکومت پاکستان نے حال ہی میں بڑے پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں خوش آمدید کہا اور جن کے ساتھ امریکہ، روس اور دوسرے اہم ممالک بات چیت کر رہے ہیں۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کے طالبان کے حق میں دیے گئے کچھ پرانے وڈیو کلپ چلا کر تحریک انصاف والوں کو مخاطب کر کے کہا مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں افغان طالبان کے جھنڈے پر سیخ پا ہونے والے ذرا سن لیں عمران خان طالبان کے دفاع میں کیا کچھ کہتے رہے۔ گویا آج مولانا فضل الرحمٰن تو کیا افغان طالبان کے دفاع کے لیے بھی ہمارے لبرلز بھائی سب سے آگے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان لبرلز کی اکثریت بغضِ عمران میں یہ سب کچھ کر رہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی واقعی حق کو پہچان کر ماضی کے اپنے رویے سے شرمندہ ہوں گے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کریں گے۔

داڑھی والوں اور جے یو آئی کی رضاکار فورس انصار الاسلام کو ڈنڈا بردار جتھہ اور نجانے کیا کچھ کہنے والے سب حیران و پریشان ہیں کہ مولانا کا کراچی سے اسلام آباد تک مارچ انتہائی منظم رہا، کوئی ایک گملا بھی نہ ٹوٹا بلکہ ٹریفک تک کو نہ روکا گیا، ایمبولنس کو جگہ دی گئی۔ اسلام آباد میں دھرنے میں جانے والے میڈیا نمائندگان بھی شرکاء کے رویے سے بہت متاثر نظر آئے۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز کے مطابق اُن کے رپوٹرز تو مولانا کے مارچ کے نظم اور دوستانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔

حکومت کی طرف سے ایک خاتون صحافی کو اُس کے لباس پر اعتراض کی وجہ سے دھرنے میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ سے کافی شور کیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہ سودا بھی نہ بکا بلکہ دھرنے والوں نے خواتین صحافیوں کو ویلکم کیا اور اُن سے بہت عزت کے ساتھ پیش آئے۔ اکثر خواتین اینکرز نے دھرنے والوں کے احترام میں خود چادریں اوڑھ لیں۔

سیاسی میدان میں کیا ہوتا ہے، ایک استعفیٰ آتا ہے یا کسی دوسرے استعفے کی بھی کوئی بات ہے، آنے والے دنوں میں مولانا کیسے کیسے حربے آزما کر وزیراعظم کو چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سب کا فیصلہ تو آنے والے دن ہی کریں گے لیکن ایک بات کا فیصلہ ہو چکا کہ مولانا آج اپوزیشن کے ساتھ ساتھ لبرلز کی بھی واحد امید بن چکے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔
فضل الرحمان کو نوازشریف، زرداری، لبرلز، جنگ جیو اور تمام لفافہ صحافیوں نے بری طرح استعمال کیا۔ فضل الرحمان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بہت کایاں اور زیرک سیاستدان ہے لیکن آزادی مارچ کے حوالے سے فضل الرحمان جس طرح استعمال ہوا، اس سے لگتا ہے کہ وہ زیرک کی نسبت معصوم زیادہ تھا ۔ ۔ ۔
میرا ٹارگٹ ہمیشہ سے شریف اور زرداری خاندان رہے، ان کے ساتھ ساتھ خونی لبرل اور لفافہ برادری بھی میرے نشانے پر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد جماعت اسلامی پر میرا فوکس ختم ہوگیا اور اب اگر کبھی کوئی پوسٹ کروں بھی تو وہ شغل کیلئے ہی کی جاتی ہے۔ آزادی مارچ کے بعد یہی رویہ میرا فضل الرحمان کی طرف بھی ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا ہے کہ کس طرح ماروی سرمد، امتیاز عالم سمیت تمام خونی لبرلز نے مولانا کو کھمبے پر چڑھایا اور نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔
ہوسکتا ہے کہ فضل الرحمان اب بھی اپنا یہودی ایجنٹ والا بیانیہ جاری رکھے لیکن اب مجھے اس بیانئے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، اسی لئے آپ اب میری طرف سے جے یو آئی پر زیادہ تنقید بھی نہیں دیکھیں گے۔
ہدف واضح رہے ۔ ۔ ۔۔ نوازشریف، مریم صفدر، زرداری، لفافہ برادری اور خونی لبرلز ۔ ۔ ۔ ۔!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے، اکرم درانی
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019
1868167-akramkhandurani-1572856971-102-640x480.jpg

ہمارا دھرنا صرف عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، کنوینئررہبر کمیٹی


اسلام آباد: اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینیئر اکرم درانی کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا 500 لوگ کہیں تو استعفیٰ دے دوں گا، ہم 9 اپوزیشن جماعتوں کے 4 کروڑ 72 لاکھ لوگ لے آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین اپنی پارٹی اور ووٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اکرم درانی کا کہنا تھا کہ پوری اپوزیشن آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی، ہمارا دھرنا عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، ہم جمہوری لوگ ہیں احتجاج کے دوران ایک گملا یا پتہ نہیں ٹوٹا، لوگوں کے اتنے بڑے مجمعے پر طاقت کے استعمال کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے اور جیل بھرو تحریک شروع کریں گے۔

کنوینئر رہبر کمیٹی نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مجبوریاں تھیں، جس وجہ سے وہ آج نہیں آئے، مریم نواز کی ضمانت کے فیصلے کے باعث شہباز شریف کو وہاں جانا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں ظاہر کر چکا ہوں، ایف آئی اے، نیب اور ایجنسیاں ظاہر کردہ اثاثوں سے ایک مرلہ زیادہ زمین یا ایک روپیہ زیادہ لے آئیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے مولانا کو دانش اور فراست والا سیاست دان سمجھ رکھا تھا۔ خیر چلیں اس دھرنے کی برکت سے یہ تاثر بھی ختم ہو گیا۔
دانش تو خیر اُن میں ہے ہی؛ اس میں اب بھی کوئی شبہ نہیں؛ بلاشبہ وہ ایک زیرک سیاست دان ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد بھی اُن کے مارچ میں شامل ہوئی تاہم، اگر اُن کا دھرنا کسی منطقی انجام کی طرف نہیں بڑھتا ہے تو پھر، اُن کی فراست پر شبہ تو بنتا ہے۔ البتہ، رات ابھی باقی ہے، بات ابھی باقی ہے۔ دیکھتے جائیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ بالکل صحیح نکتہ پر پہنچے ہیں۔ پاکستان میں نظریات کی نہیں شخصیات کی سیاست ہوتی تھی۔ اسے مائنس کردو، اسے شامل کر لو۔ ہر الیکشن میں ہوا کا رُخ کر دیکھ روایتی سیاسی لوٹے آپس میں گٹھ جوڑ کر حکومتیں بنا لیتے۔ پانچ سال سرکاری خزانہ پر عیاشی کرتے اور پھر پارٹیاں بدل کر دوبارہ دھیاڑی لگانے کیلئے تیار ہو جاتے۔
عمران خان نے آکر اس کرپٹ روایتی سیاسی کلچر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جس کا ثبوت آپ کو آجکل کنٹینر پہ موجود بائیں بازو سے لیکر دائیں بازو کی متحدہ اپوزیشن کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔

مولانا کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا
207645_7224454_updates.JPG

بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا: فوٹو اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے نجانے کس کس نے اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ نہ صرف تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہمارے لبرلز بھی مولانا کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ کچھ تو مولانا کے کنٹینر پر بھی چڑھے نظر آئے۔

حکومتی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کی مخالفت میں ان لبرلز کو مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا۔ لبرلز کا ایک طبقہ تو اس صورتحال سے واقعی پریشان اور کنفیوزڈ ہے۔ ہمارے سینئر اور محترم مظہر عباس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی یہ رائے دی کہ اُن کے خیال میں پاکستانی لبرلز اور سیکولرز وہی غلطی کر رہے ہیں جو اُن سے 1977ء میں سرزد ہوئی جب اُنہوں نے پی این اے کو سپورٹ کیا تھا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پاکستانی لبرلز کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے جہاں ایک طرف عمران خان کھڑے ہیں جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور جنہیں یہ لبرلز تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تو دوسری طرف وہ اُن مولانا فضل الرحمٰن سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں جن کی جماعت ہے ہی اسلامی اور جنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر نہ صرف ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اور اسلام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

اور اب تو بلاول بھٹو جو اب تک پاکستانی لبرلز کی ترجمانی کرتے رہے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتے رہے، نے بھی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘ کے وعدے کو پورا کرنے کی بات کر دی ہے جس پر مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ بلاول بھٹو اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے روشنی میں اب اسلامی پاکستان کے ایجنڈے پر ہی کاربند رہیں گے۔

جب مولانا اسلام، پاکستان اور پھر آئین پاکستان کے مطابق ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کر رہے تھے تو بلاول بھٹو اُس وقت کنٹینر پر اُن کے ساتھ کھڑے مسکر ا رہے تھے۔ شاید بلاول بھٹو بھی سمجھ گئے ہوں کہ مذہب کارڈ کی تکرار کرنے والوں کا اصل مقصد تو پاکستان کو اسلام سے دور کرنا ہے جو ممکن نہیں اور اس حقیقت کو اُن کے نانا نے بھی تسلیم کیا اور اسی لیے پاکستان کو ایک اسلامی آئین دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں کوئی ایک آدھ جھنڈا افغان طالبان کا بھی نظر آیا جس پر حکومت اور میڈیا کے ایک حصہ نے خوب شور مچایا کہ اس سے تو پاکستان کا دنیا میں امیج خراب ہو گا۔ اگرچہ اس پروپیگنڈا پر مولانا نے کڑاکے کا جواب دیا کہ اُن طالبان کی ہی بات ہو رہی ہے نا جن کے ایک وفد کو حکومت پاکستان نے حال ہی میں بڑے پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں خوش آمدید کہا اور جن کے ساتھ امریکہ، روس اور دوسرے اہم ممالک بات چیت کر رہے ہیں۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کے طالبان کے حق میں دیے گئے کچھ پرانے وڈیو کلپ چلا کر تحریک انصاف والوں کو مخاطب کر کے کہا مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں افغان طالبان کے جھنڈے پر سیخ پا ہونے والے ذرا سن لیں عمران خان طالبان کے دفاع میں کیا کچھ کہتے رہے۔ گویا آج مولانا فضل الرحمٰن تو کیا افغان طالبان کے دفاع کے لیے بھی ہمارے لبرلز بھائی سب سے آگے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان لبرلز کی اکثریت بغضِ عمران میں یہ سب کچھ کر رہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی واقعی حق کو پہچان کر ماضی کے اپنے رویے سے شرمندہ ہوں گے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کریں گے۔

داڑھی والوں اور جے یو آئی کی رضاکار فورس انصار الاسلام کو ڈنڈا بردار جتھہ اور نجانے کیا کچھ کہنے والے سب حیران و پریشان ہیں کہ مولانا کا کراچی سے اسلام آباد تک مارچ انتہائی منظم رہا، کوئی ایک گملا بھی نہ ٹوٹا بلکہ ٹریفک تک کو نہ روکا گیا، ایمبولنس کو جگہ دی گئی۔ اسلام آباد میں دھرنے میں جانے والے میڈیا نمائندگان بھی شرکاء کے رویے سے بہت متاثر نظر آئے۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز کے مطابق اُن کے رپوٹرز تو مولانا کے مارچ کے نظم اور دوستانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔

حکومت کی طرف سے ایک خاتون صحافی کو اُس کے لباس پر اعتراض کی وجہ سے دھرنے میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ سے کافی شور کیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہ سودا بھی نہ بکا بلکہ دھرنے والوں نے خواتین صحافیوں کو ویلکم کیا اور اُن سے بہت عزت کے ساتھ پیش آئے۔ اکثر خواتین اینکرز نے دھرنے والوں کے احترام میں خود چادریں اوڑھ لیں۔

سیاسی میدان میں کیا ہوتا ہے، ایک استعفیٰ آتا ہے یا کسی دوسرے استعفے کی بھی کوئی بات ہے، آنے والے دنوں میں مولانا کیسے کیسے حربے آزما کر وزیراعظم کو چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سب کا فیصلہ تو آنے والے دن ہی کریں گے لیکن ایک بات کا فیصلہ ہو چکا کہ مولانا آج اپوزیشن کے ساتھ ساتھ لبرلز کی بھی واحد امید بن چکے ہیں۔
مشترکہ نکات پر اکھٹے ہو جانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ خان صاحب نے بھی تو بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اُن کے ایک طرف شجاعت و پرویز الٰہی ہیں، تو دوسری جانب، ایم کیو ایم کی قیادت موجود ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے، اکرم درانی
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019
1868167-akramkhandurani-1572856971-102-640x480.jpg

ہمارا دھرنا صرف عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، کنوینئررہبر کمیٹی


اسلام آباد: اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینیئر اکرم درانی کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا 500 لوگ کہیں تو استعفیٰ دے دوں گا، ہم 9 اپوزیشن جماعتوں کے 4 کروڑ 72 لاکھ لوگ لے آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین اپنی پارٹی اور ووٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اکرم درانی کا کہنا تھا کہ پوری اپوزیشن آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی، ہمارا دھرنا عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، ہم جمہوری لوگ ہیں احتجاج کے دوران ایک گملا یا پتہ نہیں ٹوٹا، لوگوں کے اتنے بڑے مجمعے پر طاقت کے استعمال کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے اور جیل بھرو تحریک شروع کریں گے۔

کنوینئر رہبر کمیٹی نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مجبوریاں تھیں، جس وجہ سے وہ آج نہیں آئے، مریم نواز کی ضمانت کے فیصلے کے باعث شہباز شریف کو وہاں جانا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں ظاہر کر چکا ہوں، ایف آئی اے، نیب اور ایجنسیاں ظاہر کردہ اثاثوں سے ایک مرلہ زیادہ زمین یا ایک روپیہ زیادہ لے آئیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
مشکل ہے کہ ہائی ویز کو بند کر دیا جائے۔ دھرنا جب اُٹھ گیا، تو بس، اُٹھ گیا ہی سمجھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشترکہ نکات پر اکھٹے ہو جانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ خان صاحب نے بھی تو بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اُن کے ایک طرف شجاعت و پرویز الٰہی ہیں، تو دوسری جانب، ایم کیو ایم کی قیادت موجود ہے۔ :)
حکومت بنانے کیلئے ان جماعتوں سے اتحاد تحریک انصاف کی آئینی و قانونی مجبوری ہے۔ اسے بنیاد بنا کر پی پی پی، ن لیگ اور ایم ایم اے سے اتحاد یا مفاہمت کی ترغیب دینا کوئی منطقی دلیل نہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
حکومت بنانے کیلئے ان جماعتوں سے اتحاد تحریک انصاف کی آئینی و قانونی مجبوری ہے۔ اسے بنیاد بنا کر پی پی پی، ن لیگ اور ایم ایم اے سے اتحاد یا مفاہمت کی ترغیب دینا کوئی دلیل نہیں۔
ہم نے ترغیب نہیں دی بلکہ آپ نے ہمارے دیے گئے پھولوں کو تصور ہی تصور میں گملے کے ساتھ کیچ کرنے کی کوشش کی ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رُخ اپوزیشن کی طرف پھیر لیا۔ اس صورت میں، اگلے تین سے چھ ماہ میں ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے۔
پنجاب میں تبدیلی کا امکان موجود ہے :)

ویلڈن! آپ نے کام کر دکھایا، فروری، مارچ تک آپ کو "اہم ذمے داری" مل جائے گی
شہباز شریف کو خوشخبری سنا دی گئی ہے، حالات بدلتے رہتے ہیں، یہ خوشخبری مریم نواز کیلئے بری خبر بن سکتی ہے: سینئر صحافی کا دعویٰ

1530281096_admin.jpg._1
محمد علی پیر 4 نومبر 2019 23:48

pic_75a98_1541693407.jpg._3


لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 نومبر2019ء) ویلڈن! آپ نے کام کر دکھایا، فروری، مارچ تک آپ کو "اہم ذمے داری" مل جائے گی، سینئر صحافی کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف کو خوشخبری سنا دی گئی ہے، حالات بدلتے رہتے ہیں، یہ خوشخبری مریم نواز کیلئے بری خبر بن سکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی کی جانب سے صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کے حوالے سے تہلکہ خیز دعویٰ کیا گیا ہے۔ عارف حمید بھٹی کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف کو خوشخبری سنائی گئی ہے اور انہوں بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ویلڈن۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا ہے کہ جب آپ 4 گھنٹے کا سفر 40 گھنٹے میں طے کریں گے، تو پھر آپ کو اچھی خبر ملنے کی ہی امید ہوتی ہے۔ شہباز شریف کو کہا گیا ہے کہ ان کو فروری یا مارچ کے مہینے تک اپم ذمے داری مل جائے گی۔

عارف حمید بھٹی کہتے ہیں کہ یہ واضح نہیں کہ شہباز شریف کو کس قسم کی ذمے داری ملے گی، تاہم سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں۔

شہباز شریف نے نواز شریف کی وطن واپسی کے وقت اور مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو ناکام بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ کچھ حلقے شہباز شریف سے کافی خوش ہیں اور سابق وزیر اعلی پنجاب کو جلد بڑی خوشخبری سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم شہباز شریف کیلئے یہ خوشخبری شریف خاندان میں دراڑ ڈالنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ شہباز شریف کو جو خوشخبری سنائی جا سکتی ہے وہ خوشخبری ممکنہ طور پر نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کیلئے بہت بری خبر ثابت ہو سکتی ہے ۔ اس تمام صورتحال کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں واضح ہو گا کہ مسلم لیگ ن کس کے کنٹرول میں ہوگی۔ اب تک تو شہباز شریف نے پارٹی کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہے، تاہم مریم نواز کی رہائی کے بعد ن لیگ کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہوگی، جلد یہ واضح ہو جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا اب کیا کریں گے؟
خورشید ندیم


مولانا فضل الرحمن کے موقف سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود‘ میرے لیے ان کی حکمتِ عملی سے پوری طرح اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
مولانا کا موقف دو اہم نکات پر مشتمل ہے۔ایک یہ کہ 2018 ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی کوئی اخلاقی بنیادنہیں ہے۔ وہ اسے قبول نہیں کرتے۔اس لیے وزیراعظم استعفیٰ دیں۔دوسرایہ کہ ریاستی اداروں کو حکومت سازی اور سیاسی عمل سے دور رہنا چاہیے کہ وہ قوم کا مشترکہ اثاثہ اور سیاسی تقسیم سے ماورا احترام کے مستحق ہیں۔ جب یہ ادارے کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت کی سرپرستی کرتے ہیں تو پھر وہ متنازعہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی ملک کے استحکام کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
ان کی سیاسی حکمتِ عملی کے بھی دو نکات ہیں۔ایک یہ کہ وہ اس سیاسی بندوبست کے خلاف احتجاج اور اس کے لیے ملک گیر مارچ کا حق رکھتے ہیں تاکہ عوام کو اپنے موقف کے حق میں متحرک کر سکیں۔دوسرا یہ کہ وہ حق رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کو استعفے کے لیے دو دن کا نوٹس دیں۔اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے تو پھر عوام کا ہجوم انہیں گھر سے گرفتار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مجھے مولانا کے موقف سے پورا اتفاق ہے۔کوئی محب ِ وطن آدمی نہیں چاہے گا کہ ریاستی ادارے متنازعہ بنیں۔عوام میں سیاسی و مسلکی بنیادوں پر اختلاف ہو تا ہے جو فطری ہے۔اسی کے نتیجے میں مذہبی مسالک اور سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔فوج یا عدلیہ جیسے ریاستی ادارے ایک شعوری کوشش کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے بلند رہیں۔کسی کو شائبہ تک نہ ہو کہ وہ کسی مسلک یا سیاسی جماعت کے خلاف ہیں۔مولانا اگر یہی بات کہتے ہیں تویہ پوری قوم کی آواز ہے۔
2018ء کے انتخابات کے باب میں بھی مولانا قوم کے ایک بڑے حصے بلکہ اکثریت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔تما م بڑی سیاسی جماعتیں یہی موقف رکھتی ہیں اور مولاناکے کنٹینر پر کھڑاہوکر‘ان کی قیادت نے اس رائے کا ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں اظہار کر دیا ہے۔خان صاحب کا استعفیٰ‘ تنہا مو لانا کا نہیں‘ان سب جماعتوں کا مطالبہ ہے۔
رہی حکمت ِ عملی تو اس کے پہلے نکتے سے حکومت سمیت پوری قوم کو اتفاق ہے۔ا حتجاج ہر جماعت کا حق ہے اور وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اس حق کا اظہار کر سکتی ہے۔جب حکومت نے ا س کی اجازت دی اور عدالتِ عالیہ نے اس حق ِ احتجاج پر قانون کی مہر لگا دی تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک اس حکمتِ عملی کے دوسرے نکتے کا تعلق ہے تواس پر اختلاف کااعلانیہ اظہار ہو رہاہے۔
یہ نکتہ تادمِ ِتحریر‘ابہام کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔اس پرمولانا کو ابھی اپنے مو قف کا اعلان کرناہے۔اس لیے اسے موضوع بنانا قبل از وقت ہو گا۔مولانا جب واضح طور پر کوئی موقف پیش کریں گے تو اس کے بعد ہی اس پر کوئی رائے ظاہر کی جا سکتی ہے‘تاہم جتنا اور جو کچھ کہا گیا‘اس سے جو کچھ اخذہو تا ہے‘ اس سے اتفاق مشکل ہے۔
مولانا کا یہ کہنا ہے کہ عوام اس کی قدرت رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کو ا ن کے گھر سے گرفتار کر لیں‘ایک ایسی بات ہے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی ‘اگر کوئی اسے امرِ واقعہ بنانے کی کوشش کرے گا۔عوام کے حقوق بھی قانون اور ضابطے کے تابع ہیں۔کوئی حق مطلق اورغیر مشروط نہیں ہو تا۔اگر کہیں ایک یا دو لاکھ افراد جمع ہو جا ئیں تو انہیں یہ حق حاصل نہیں ہو جا تا کہ وہ جس گھر میں چاہیں ‘گھس جا ئیں۔مولانا جیسی ذمہ دار شخصیت سے میں تو یہی توقع کروں گا کہ اگر عوام ایسا چاہیں بھی تو وہ اس کی مزاحمت کریں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے موقف کے حق میں جو دینی استدلال پیش کیا ہے‘وہ بھی محلِ نظر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب وہ حکومت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اسے خروج نہیں کہا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کی بیعت ہی نہیں کی۔جب بیعت نہیں توپھر خروج کیسا؟مولانا کی یہ بات محض ایک مغالطہ ہے۔بیعت نہ کرنے سے خروج کا حق ثابت نہیں ہو تا۔
مو جودہ حکومت کی ا خلاقی بنیادوں کو چیلنج کر نے کے باوجود‘ اکثریت نے اس کو بالفعل(defecto) حکومت کے طور پرقبول کر لیا ہے۔بادلِ نخواستہ ہی سہی‘نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس سیاسی بندوبست کوتسلیم کیا ہے۔انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت کو اختیار کیاہے۔شہبازشریف صاحب بحیثیت قائدحزب ِ اختلاف اس سیاسی بندوبست کا حصہ ہیں۔اگر کسی اجتماعی نظم کو عوام کی اکثریت بالفعل قبول کر لے تواس کے خلاف کسی اقلیتی گروہ کا حقِِ بغات ثابت نہیں ہو تا‘ باوجود اس کے کہ اس نے اسے قبول نہ کیا ہو۔
ماضی میں جن انتہا پسند گروہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی‘ان کا استدلال بھی یہی تھا کہ وہ اس نظام کو بنیاد ہی سے قبول نہیں کرتے۔ان کے اس موقف کو مولانا فضل الرحمٰن سمیت کسی نے قبول نہیںکیا۔اگر اسے مان لیاجا ئے تو پھر دنیا میں کوئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ سو فی صداعتماد تو کسی حکومت کو حاصل نہیں ہوتا۔اس صورت میں ہرگروہ اس استدلال کی بنا پر حکومت کے خلاف بغاوت کر دے گا کہ اس سے چونکہ اسے قبول ہی نہیں کیا‘لہٰذا اس کے لیے بغاوت جائز ہے۔
احتجاج مولاناسمیت سب جماعتوں کا حق ہے‘لیکن اسے قانون اخلاق‘روایت اورآئین کے دائرے ہی میں رہنا چا ہیے۔مولانا نے اس مہم جوئی میں ایک بنیادی غلطی یہ کی کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے مشورے کے برعکس تنہا آزادی مارچ کا فیصلہ کیا اور پھر اصرار کیا کہ دوسرے ان کا ساتھ دیں۔ایک مرتبہ پھروہ یہی چاہ رہے ہیں اور دوسری جماعتیں اس دفعہ بھی کسی دھرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
اپوزیشن احتجاج کا حق رکھتی ہے۔اس کا امتحان یہ ہے کہ قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر‘وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پراپویشن اجتماعی استعفے دے سکتی ہے۔جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ استعفیٰ دیں گے توپھر ا س سیاسی بندوبست کا اخلاقی جواز ختم ہو جا ئے گا۔اس کے بعد اگر اسے چلانے پر اصرار ہو گا تواسے عوامی سند حاصل نہیں رہے گی۔استعفیٰ اکثریت کا اس سیاسی بندو بست پر عدم اعتماد ہو گا۔
اس کے علاوہ بھی احتجاج کی صورتیں تلاش کی جا سکتی ہیں جوآئین اور قانون کے دائرے میں ہوں۔اس سیاسی رویے کی کسی طرح حوصلہ افزائی نہیں ہو نی چاہیے جس میںفیصلے کا اختیار‘ بے مہارعوامی جذبات کے ہاتھ میںدے دیا جائے۔عمران خان نے اگر ماضی میں یہ غلطی کی تو اسے مثال بنانے کے بجائے‘ایسی فضا پیدا کی جائے کہ خان صاحب کو بھی اس کا ذکر کرتے وقت شرمندگی کا احساس ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اپنا اخلاقی جواز کھو چکا۔ لاکھوں افرادنے جس طرح دارالحکومت میں جمع ہو کر‘اس پر عدم اعتماد کا ظاہر کیا ہے‘اس کے بعداس کی ساکھ مزید مجروح ہو ئی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ جن کے ہاتھ میں اس نظام کی باگ ہے ‘وہ عوامی جذبات کا ادراک کرلیں‘ قبل اس کے کہ خرابی کے اثرات‘ معاملات کو نا قابلِ تلافی نتائج تک لے جائیں۔
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ میرااختلاف مولاناکے موقف سے نہیں‘ا ن کی حکمتِ عملی سے ہے۔یہ ان کی بصیرت کا امتحان ہو گا کہ ان کی حکمت ِ عملی اخلاقی اور آئینی تقاضوں سے کتنی ہم آہنگ ہے ۔یہ بحران مولاناکا یا عوام کاپیدا کردہ نہیں ہے۔یہ اُن کی عطا ہے جو اس سیاسی بندوبست کے خالق ہیں۔صحیح معنوں میںاس کی اصلاح اسی وقت ہو سکے گی جب اس کی باگ دوبارہ عوام کے ہاتھ میں دے دی جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اپنا اخلاقی جواز کھو چکا۔ لاکھوں افرادنے جس طرح دارالحکومت میں جمع ہو کر
دھرنے میں لاکھوں لوگ تو موجود نہیں ہیں ہاں یہ فوج اور حکومت مخالف کالم لکھوانے کیلئے لاکھوں کا لفافہ ضرور ملا ہے۔
 
Top