جاسم محمد

محفلین
طالبان خان بمقابلہ مولانا کے حامی لبرل
EIXiesPXUAEcIaN.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
سویلین بالادستی کے حوالے سے جو آواز بلند ہو گی، ہم اُس میں اپنی آواز شامل کر دیں گے، یہ ہمارا اُصولی موقف ہے کیونکہ اس ملک کی اصل تباہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اُس کے پلانٹ کردہ سیاست دانوں نے مچا رکھی ہے۔ ہمیں بہرصورت اپنی سمت درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ :)
 
یہ ایک اور دھاگے میں لکھا، یہاں دہرا رہا ہوں۔
آپ کو ساتھ کس کا دینا چاہئے ، ملاء کے نظام کا یا اللہ کے نظام کا؟ مسلمان آج بہت ہی کنفیوژ ہے کہ اللہ کا نظام ، ملاء کے نظام میں پوشیدہ ہے۔ کیا ایسا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

ہم سب کو حکومت کی ضرورت کیوں ہے؟ تاکہ یہ حکومت ایک بہترین معیشیت قائم کرے اور ان آئیڈیالوجیز کا نفاذ کرے جو اللہ کا نظام ہے۔

ملاء کا نظام ، بغداد شریف سے آتا ہے اور اللہ تعالی کا نظام قرآن شریف سے۔

دونوں کا فرض ملاحظۃ فرمائیے۔ آپ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے، اب آپ کیا کریں؟ ویسے تو بہت سے امور ہیں ، لیکن میں یہاں ایک امر پر زیادہ توجہ دوں گا، وہ امر ہے،
وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ

آپ صلاۃ قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا جو بھی نظریہ رکھتے ہیں ،آپ اس نظریہ کو ذہن میں لائیے، اور ذرا تصور کیجئے کہ کچھ ایسی یہ نماز ، رسول اکرم بھی پڑھا رہے ہیں۔ قرآن کی آیات کی تلاوت فرمائی، لوگوں نے سنی، نماز ختم، اور لوگ اپنے اپنے گھر گئے؟ کیا ایسا ہی ہوتا ہوگا یا رسول اکرم کوئی تعلیم بھی دیا کرتے تھی، کوئی باہمی مشاورت بھی ہوتی تھی اس کانگریگیشن میں ؟

اب ذرا زکواۃ کا جو بھی تصور آپ کے ذہن میں ہے ، وہ تصور لائیے اپنے ذہن میں، کہ ڈھائی فی صد زکواۃ ، مسجد کو ملاء کو اور کبھی دل چاہا تو غریبوں کو بانٹ دی ورنہ نہیں ، اور صاحب حکومت وقت کرتی پھرے دوسروں سے جنگ ورنہ اس حکومت کی حالت پتلی۔

ذرا سوچئے کہ امریکہ پر ملاء کا قبضہ ہوجاتا ہے ، اور ملاء شریعت نافذ کردیتا ہے۔ وہی شریعت جس میں مسجد، مندر، کلیسا کو ڈھائی فی صد زکواۃ ادا کی جائے ، حکومت کو کچھ نہیں؟ کیا اس ڈھائی فی صد زکواۃ کی خیرات سے امریکہ چل پائے گا؟ ملاء یہ تکا مارے گا، "ہم چلا کے دکھائیں گے" - جیسے 55 اسلامی ممالک چل رہے ہیں۔ :) ۔۔ ہی ہی ہی ہی

ہوا یہ ہے کہ مسلمانوں سے ان جانے میں غلطی ہوگئی کہ وہ بغداد شریف کا نظام ، اللہ تعالی کا نظام سمجھ کر اپنا بیٹھے اور سلطنت عثمانیہ جیسی طاقت بننے کی خوہش میں امریکی ، قرآن حکیم کا نظام اپنا بیٹھے۔

آج "کافر" امریکہ میں اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق ہر بڑھوتری÷اضافہ کا 20 فی صد وصول کیا جاتا ہے اور "مومن" مسلم ممالک میں لوگ اپنے ایمان کے مطابق ،ٍڈھائی فی صد، مسجد، ملاء ، غریب کو ادا کرتے ہیں۔

یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے سارے مسلم ممالک بہت ہی مردنی کا شکار ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پھر بھی ملاء کے گیت گاتے ہیں۔ ملاء کی پاکستان مخالفت کسی سے چھپی نہیں۔ پاکستان جنرل بادشاہ یہ خوب جانتے ہیں کہ ملاء ، پاکستان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ پاکستان کی پیدائش پر ہی اس کو غیر ضرور ، فالتو قرار دے دیا تھا۔

یہ کہنا کہ سیاست دان اپنا کام کررہے ہیں اور فوج اپنا تو جنرل حمید گل کا آخری انٹرویو ملاحظہ فرمالیجئے، جس میں جنرل حمید گل نے فوج کے پاور سینٹڑ کی خوب نشاندہی کی ہے۔

یہ میرا صد فی صد یقین ہے کہ پاکستان کی دفاع فوج ہی کرتی ہے اور پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی فوج ہے جو، سیاست چمکانے کی کوشش میں سب گنوا دیتی ہے۔

اپنے اپ سے سوال کیجئے کہ آپ کو قرآن شریف کا اللہ کا نظام چاہئے یا بغداد شریف کا اللہ کا نظام ۔ بغداد شریف، جس کے نمائندے ہیں ، نظامی (بریلوی) اور دیو بندی ، اہل حدیث، اہل سنت، اور سی طرح کے طرح طرح کے گروہ و گروپ :) ان کو شرم نہیں آتی کہ آج بھی سب کچھ سامنے آجانے کے بعد بھی یہ گمراہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ نظامی، بریلوی، دیوبندی لگاتے ہیں؟

رب کریم ، یا اللہ، تیری پناہ کہ میں جاہلوں میں سے نا ہوجاؤں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
انٹرنیٹ ایک بڑی مارکیٹ ہے، یہاں کوئی بھی اپنی چیز مفت لے کر نہیں بیٹھا، ہر شخص اپنا سودا کسی نہ کسی عوض پر دینے کا خواہشمند ہے۔ کوئی اپنی چیز کا سودا اخلاق کی قیمت پر کرنا چاہتا ہے تو کسی کو فکری انتشار کی تجارت پسند ہے۔ بعض کا مقصد شہرت اور حبِ جاہ ہے اور ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس لیئے خریداری سے پہلے سامان کی خوب چانچ پڑتال کرو۔
(منقول)
 

الف نظامی

لائبریرین
حکومت اپوزیشن کی تحقیر کر رہی ہے
اپوزیشن حکومت کی تضحیک کر رہی ہے
جمہوریت کی برکت سے سیاسی فرقہ واریت اور عوام الناس میں نفاق پھیل رہا ہے۔ اے مسلمانو! ایک بنو اور نیک بنو۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت اپوزیشن کی تحقیر کر رہی ہے
اپوزیشن حکومت کی تضحیک کر رہی ہے
جمہوریت کی برکت سے سیاسی فرقہ واریت اور عوام الناس میں نفاق پھیل رہا ہے۔ اے مسلمانو! ایک بنو اور نیک بنو۔
جس طرح مومن اور کافر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ویسے ہی صاف ستھری قیادت اور کرپٹ قیادت مل کر ملک نہیں چلا سکتی۔ اب وہ زمانہ گزر گیا جب ملک چلانے کیلئے چوروں کو این آر او دے کر مفاہمت کر لی جاتی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ: حکومت اور اپوزیشن کے موقف میں مزید سختی
حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا جبکہ رہبر کمیٹی نے کہا ہے وزیر اعظم نہ گئے تو حزب اختلاف کے پارلیمان میں استعفے، پورے ملک کے لاک ڈاؤن اور شٹر ڈاؤن کا آپشن زیر غور ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو
ہفتہ 2 نومبر 2019 23:30

50816-281993943.jpg


آزادی مارچ میں شامل جے یو آئی ۔ف کی رضاکار فورس کے کارکن (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے معاملے پر آمنے سامنے آگئی ہیں اور بظاہرایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف سیاسی تناؤ ختم کرنے کے لیے حل موجود نہیں۔

ہفتے کو حزب اختلاف نے اسلام آباد میں ا حتجاج جاری رکھنے اور حکومت نے اس سے نمٹنے سے متعلق سخت فیصلے اور اعلانات کیے۔

اسلام آباد میں ہفتے کی شام تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کے الگ الگ اجلاس ہوئے، جن میں وفاقی دارالحکومت میں اپوزیشن کے جاری احتجاج سے متعلق اہم فیصلے ہوئے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

ان کے مطابق کور کمیٹی اس بات پر متفق تھی کہ ملک میں کوئی ایسے حالات نہیں ہیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں یا نئے انتخابات کرائے جائیں۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا حکومت حزب اختلاف کے احتجاج سے خوف زدہ نہیں، وہ جب تک چاہیں احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ف)اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے درمیان آزادی مارچ سے متعلق معاہدہ ہوا ہے اور اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو انتظامیہ خود بخود حرکت میں آئے گی۔

انہوں نے کہا پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف رواں دواں ہے اور حکومت یا وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔

دوسری طرف ،حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کے سربراہ محمد اکرم خان درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبے پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا وزیر اعظم عمران خان اور بعض وفاقی وزرا کے اپوزیشن سے متعلق حالیہ بیانات کے بعد حکومت سے مذاکرات کی وجہ باقی نہیں رہتی۔

انہوں نے کہا حکومتی عہدے داروں کو اپوزیشن رہنماؤں سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے مزید کہا رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کی لیڈر شپ سے متعلق بیانات میں بہتری آنےکے بعد ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

رہبر کمیٹی میں لیے گئے فیصلوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ کئی آپشنز پر گفتگو ہوئی، جن میں حزب اختلاف کے پارلیمان میں استعفے، پورے ملک کا لاک ڈاؤن اور ملک بھر میں شٹر ڈاؤن شامل ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا رہبر کمیٹی کے اجلاس میں موجود حزب اختلاف کی جماعتوں کے نمائندے یہ تجاویز اپنی اپنی جماعتوں کے پاس لے کر جائیں گے۔

اکرم درانی کا کہنا تھا احتجاج سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل رکن جماعتوں کا جواب آنے کے بعد کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے آج جلسہ گاہ پر موجود اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا عمران خان اب ملک کے حکمران نہیں رہے۔

’میں عمران خان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ پاکستان کے حکمران نہیں رہے، اب اس ملک کو ہم چلائیں گے، اب آپ کی رٹ ختم ہو چکی، کرسی پر بیٹھے رہنے سے کوئی حکمران نہیں بنتا۔‘

اپنے آزادی مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر منتقل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا ہے۔

’ہم جانتے ہیں حکومتی انتظامیہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی رو سے معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ حالات خراب نہیں کرنا چاہتے اور آج رہبر کمیٹی نے اتفاق کیا ہے کہ ڈی چوک تک جانا تجاویز میں شامل ہے۔

پاکستان میں سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات ڈیڈ لاک کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔

سینیئر صحافی مظہر عباس نے کہا دونوں اطراف سے درمیانی راستے کی بات نہیں ہو رہی ہے، بلکہ معاملات کو مزید گمبھیر بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا پرویز خٹک کو کور کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے تھی، اس مقصد کے لیے کسی دوسرے وزیر یا معاون خصوصی کو آگے لانا چاہیےتھا۔

ان کا خیال تھا کہ پرویز خٹک کی میڈیا گفتگو سے تلخیوں میں اضافہ ہوا ، جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا اسلام آباد میں اتنا بڑا اجتماع موجود ہے اور اتنے زیادہ لوگوں کو سنبھالنا انتظامیہ کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

سینیئر صحافی سلیم صافی کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمٰن ایک غلط کام دوسرے غلط کام سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا دھرنوں اور احتجاجوں کے ذریعے حکومتوں کو ہٹانے کی کوشش کرنا بالکل غلط ہے۔

سلیم صافی کے خیال میں حکومت میں موجود بعض لوگ اس صورت حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومت عدالت جا رہی ہے

وفاقی حکومت نے مولانافضل الرحمٰن کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم عمران خان کے گھر گھس کر انہیں گرفتار کرنے سے متعلق بیان کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پرویز خٹک نے میڈیا کو بتایا کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کو لوگوں کو اکسانے اور بغاوت کے مترادف سمجھتی ہے، لہذا اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وکلا سے مشاورت ہورہی ہے اور پیر کو عدالت میں درخواست جمع کروا دی جائے گی۔

تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا وزیر اعظم کی گرفتاری سے متعلق بیان غداری یا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل عمران شفیق کا کہنا تھا مولانا فضل الرحمٰن نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کو مظاہرین کے ساتھ مل کر گرفتار کریں گے۔

انہوں نے کہا خواہش کا اظہار قانونا ًغداری یا بغاوت کے زمرے میں نہیں آسکتا۔

بیرسٹر مسرور شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بغاوت یا غداری کسی وردی میں ملبوس ادارےسے متعلق ایسے بیان کو کہا جائے گا۔

انہوں نے کہا مولانا فضل الرحمٰن نے جس قسم کی گرفتاری کا ذکر کیا ہے، اسے سول گرفتاری کہا جاتا ہے۔

بیرسٹر مسرور شاہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا جرم ہوتے دیکھ کر کوئی بھی شہری جرم کرنے والے کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر سکتا ہے۔

ایسی گرفتاری کو سول ارسٹ کہا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن بھی جب وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا ذکر کرتے ہیں تو یقیناً ان کا مطلب یہی ہے کہ گرفتار کر کے وزیر اعظم کو کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کیا جائے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دشمن کی ایک سب سے بڑی سازش امت مسلمہ کو جمہوری نظام کے تحت سیاسی گروہوں میں تقسیم کرنا ہے۔
سیاسی گروہ یا جماعت سے وابستگی کا مطلب دوسری سیاسی جماعت سے منسلک مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کو دل میں جگہ دینا اور ان پر مختلف لیبل لگانا ہے جیسے ڈیزلی ، یوتھیا ، پٹواری ، ملے وغیرہ
یہ سب جمہوری نظام کی نحوستیں ہیں کہ مسلمان باہم دست و گریباں اور اپنے دلوں میں دوسرے مسلمانوں کے لیے نفرت و تعصب پیدا کر چکے ہیں۔
اے مسلمانو!
اے محمد عربی ﷺ کی امت
اے سرکارِ کل عالم کے نام لیوا مسلمانو
اللہ کی غلامی میں آنے کے بعد ، رسول اللہ سے محبت کا دم بھرنے کے بعد تم سب ایک ہو ، تقسیم کو اتحاد سے ، نفرت و تعصب کو الفت و اتفاق سے بدل دو!
یہی ہے اس دور میں باقی رہنے ، جدوجہد کرنے اور سر اٹھا کر چلنے کا طریق اور آئین۔
اے مسلمانو!
ایک بنو اور نیک بنو
دشمن کی چال کو سمجھ کر اس کی کھوپڑی پر اتحاد و اتفاق سے ضرب کاری لگاو۔
 

جاسم محمد

محفلین
دشمن کی ایک سب سے بڑی سازش امت مسلمہ کو جمہوری نظام کے تحت سیاسی گروہوں میں تقسیم کرنا ہے۔
اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہوگی کہ ذولفقار علی بھٹو جس نے ملک کو متفقہ آئین پاکستان دیا اور یہاں دو تہائی اکثریت سے پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیادڈالی، اسے ہی "دشمن کی سازش" کہا جا رہا ہے۔

سیاسی گروہ یا جماعت سے وابستگی کا مطلب دوسری سیاسی جماعت سے منسلک مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کو دل میں جگہ دینا اور ان پر مختلف لیبل لگانا ہے جیسے ڈیزلی ، یوتھیا ، پٹواری ، ملے وغیرہ
ایسا آپ کے ملک کے گرے ہوئے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے ہے۔ جبکہ یہی ملٹی پارٹی جمہوری نظام مغربی ممالک میں بھی نافذ ہو۔ اور وہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔

یہ سب جمہوری نظام کی نحوستیں ہیں کہ مسلمان باہم دست و گریباں اور اپنے دلوں میں دوسرے مسلمانوں کے لیے نفرت و تعصب پیدا کر چکے ہیں۔
جب ابھی ملک میں ملٹی پارٹی جمہوریت نافذ نہیں ہوئی تب بھی مغربی پاکستانی مشرقی پاکستانیوں یعنی بنگالیوں سے تعصب اور نفرت کا رویہ رکھتے تھے۔ جس کا منطقی انجام ملک ٹوٹنے کی شکل میں نکلا۔ اس لئے پہلے اپنے گریبان میں جھانکئے اور اپنی غلطیوں کاالزام جمہوری نظام پہ مت ڈالئے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جمعیت علماء اسلام کے کارکنان آزادی مارچ کے قیام والی جگہ کو صاف کرتے ہوئے۔
نظم و ضبط اور آداب و اخلاق کے بعد صفائی ستھرائی کا بہترین مظاہرہ۔

 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جیسے حکومت والے پاکستانی ہیں اسی طرح دھرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ دونوں کے مابین صلح ہونی چاہیے اور مولانا فضل الرحمن کو چئیرمین کشمیر کمیٹی اور ان کے بھائی کو مشیر مذہبی امور بنا دینا چاہیے۔ باقی تمام اپوزیشن لیڈران کو بھی کسی طرح اکاموڈیٹ کر لیا جائے۔ یوں سب خوش اور پاکستان بھی خوشحال!
کم دھرنے ، خوشحال پاکستان
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جیسے حکومت والے پاکستانی ہیں اسی طرح دھرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ دونوں کے مابین صلح ہونی چاہیے اور مولانا فضل الرحمن کو چئیرمین کشمیر کمیٹی اور ان کے بھائی کو مشیر مذہبی امور بنا دینا چاہیے۔ باقی تمام اپوزیشن لیڈران کو بھی کسی طرح اکاموڈیٹ کر لیا جائے۔ یوں سب خوش اور پاکستان بھی خوشحال!
کم دھرنے ، خوشحال پاکستان
لیکن یہ دیوانے کی بڑ ہے یا خواب ؟ یا پھر انوکھے لاڈلے کی مانگ ؟ :) :) :)
 

الف نظامی

لائبریرین
مولانا نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تو ساتھیوں نے کہا دونوں پارٹیاں تیسری مرتبہ ہم سے ہاتھ کر گئی ہیں، اب ہمیں بھی بند گلی سے نکلنا ہوگا، کوشش کریں کہ الٹی میٹم کے نام پر مزید تھوڑا ٹائم لیں اور پھر اس دوران میں کوئی راستہ نکالا جائے ۔
ذرائع کے مطابق دھرنے میں شامل 6 گروہ ایسے ہیں جو ہر صور ت میں تصادم کیلئے مختلف افراد کو اکسا ر ہے ہیں اور باقائدہ وہ ٹولیوں میں بیٹھ کر کہتے ہیں الٹی میٹم کے بعد ہم نے ہر صورت آ گے جانا ہے ۔
 

شکیب

محفلین
جس طرح مومن اور کافر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ویسے ہی صاف ستھری قیادت اور کرپٹ قیادت مل کر ملک نہیں چلا سکتی۔ اب وہ زمانہ گزر گیا جب ملک چلانے کیلئے چوروں کو این آر او دے کر مفاہمت کر لی جاتی تھی۔
یہ مومن اور کافر اکٹھے نہیں ہو سکتے سے آپ لوگ کیا مراد لیتے ہیں؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟
کئی جگہوں پر پڑھا ہے۔
 
Top