فرقان احمد

محفلین
مولانا اِس مارچ سے جس قدر بڑی کامیابی سمیٹ چکے، اُس کا اندازہ لگانا مُشکل ہے۔ اُن کے لیے مناسب ہو گا کہ کسی ممکنہ بڑی ناکامی سے بچیں۔ بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے 'اصرار' پر دھرنا دینے سے رُک جائیں اور دیگر مقاصد کے لیے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔ حکومت کی کمزوری آشکار ہو چکی۔ جلسے کا سائز واقعی بڑا تھا۔ اس کا امپیکٹ کافی گہرا ہے۔ تاہم، اگر کوئی ناخوشگوار صورت حال رونما ہو گئی تو مستقبل میں اُن کی آواز پر لبیک کہنے والے ممکنہ طور پر کم پڑ جائیں گے۔یوں بھی حکومت کو چلتا کرنے کا یہ طریقہ قطعی طور پر مناسب نہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا موقف جاندار ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا اِس مارچ سے جس قدر بڑی کامیابی سمیٹ چکے، اُس کا اندازہ لگانا مُشکل ہے۔ اُن کے لیے مناسب ہو گا کہ کسی ممکنہ بڑی ناکامی سے بچیں۔ بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے 'اصرار' پر دھرنا دینے سے رُک جائیں اور دیگر مقاصد کے لیے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔ حکومت کی کمزوری آشکار ہو چکی۔ جلسے کا سائز واقعی بڑا تھا۔ اس کا امپیکٹ کافی گہرا ہے۔ تاہم، اگر کوئی ناخوشگوار صورت حال رونما ہو گئی تو مستقبل میں اُن کی آواز پر لبیک کہنے والے ممکنہ طور پر کم پڑ جائیں گے۔یوں بھی حکومت کو چلتا کرنے کا یہ طریقہ قطعی طور پر مناسب نہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا موقف جاندار ہے۔
متفق ہوں۔ اس سے پہلے کے حالات تصادم کی طرف جائیں، دھرنا ختم کر دینا چاہیے۔ وگرنہ پی ٹی آئی کے بند گلی دھرنے جیسا انجام ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
متفق ہوں۔ اس سے پہلے کے حالات تصادم کی طرف جائیں، دھرنا ختم کر دینا چاہیے۔ وگرنہ پی ٹی آئی کے بند گلی دھرنے جیسا انجام ہوگا۔
تجویز اچھی ہے اس کے ساتھ ایک درجن حلوے اور بریانی کی دیگیں بھی بھیجی جائیں تو کچھ غور کیا جاسکتا ہے۔
ورنہ ۔۔۔ والی دھمکی کسی اور کو دیں مولانا کے ساتھ ن+ش=ت + ت بھی موجود ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین

محمد وارث

لائبریرین
فرقان احمد محمد وارث جاسم محمد
اس وقت جیو مثبت رپورٹنگ کر رہا ہے یا اے آر وائی؟
اس جیو اور اے آر وائی سے ایک شیعہ مقرر کا ایک جملہ یاد آ گیا۔ عمران خان کے دھرنے کے تناظر میں فرماتے ہیں کہ حال موجود میں، تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود، جیو اور اے آر وائی ایک دھرنے کے بارے میں متفق نہیں ہیں کہ کتنے لوگ تھے، ایک لاکھوں بتاتا ہے اور دوسرا چند ہزار تو چودہ سو سال پہلے، ہر قسم کی ٹیکنالوجی کے بغیر، اسلامی واقعات کے بارے میں مختلف مؤرخ کیسے متفق ہو سکتے ہیں۔ (انہوں نے واقعات کا نام لیا تھا جو یہاں غیر ضروری ہے)۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
بیگانے شادی میں عبدالله دیوانہ
EIYr-C-BXk-AMGg5r.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
لوگ آگے جانا چاہتے ہیں ہم نے انہیں روکا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1866166-fazalx-1572709552-936-640x480.jpg

حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے اس کے اوسان خطا ہوچکے ہیں، فضل الرحمان، فوٹو: فائل

اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء کا ہم پر دباؤ ہے کہ وہ آگے جانا چاہتے ہیں لیکن ہم نے انہیں روکا ہوا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج کے اینکر رحمان اظہر سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لیے 2 دن کی مہلت دی ہے جس کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ لوگوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ وہ آگے جانا چاہتے ہیں لیکن ہم نے آگے نہیں جانے دے رہے، ہم نے انہیں روکا ہوا ہے اور ہم مشاورت کے ساتھ تمام فیصلے کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا موڈ جارحانہ نہیں بلکہ ہمارا موڈ جارحانہ ہے، حکومت تو دفاعی پوزیشن میں ہے اس کے اوسان خطا ہوچکے ہیں، یہاں جو لوگ دھرنے میں آئے ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں کچھ ثبت کرنا چاہتے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اداروں کے حوالے سے احتیاط سے کام لے رہے ہیں، کل کی تقریر میں جو باتیں ہوگئیں وہ ٹھیک تھیں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کے سوال میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ طاقت کے استعمال کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، پچھلے دھرنے جائز حکومت کے خلاف تھے یہ دھرنا ناجائز حکومت کے خلاف ہے ہماری طرف سے ایک ہی آپشن ہے وہ صرف وزیراعظم کا استعفیٰ ہے۔

اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے سوال پر جے یو آئی ف کے سربراہ نے کہا کہ اس حوالے سے فوری نہیں کہہ سکتا لیکن اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مولانا کی ایک بات تو ماننے والی ہے کہ سب لبرل جماعتوں کو ساتھ ملا کر خود اپوزیشن لیڈر بن گئے۔
کون کہتا ہے مولوی کو سیاست نہیں آتی:)
یہ تو ان کی ناکامی ہے ۔ اپوزیشن تو ان کے منسٹرانہ مزاج کے لیے قفس رہی ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا وزیراعظم مستعفی ہوجائیں گے؟
اظہر تھراج ہفتہ 2 نومبر 2019
1865612-wazeerazammustafi-1572678845-661-640x480.jpg

اس وقت اپوزیشن اسی اسکرپٹ پر کام کر رہی ہے جس کے تحت کپتان نے کیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر ان کے سامنے کوئی ڈھال پائیدار نہیں رہتی۔ رکاوٹیں ریت کی دیواریں بن جاتی ہیں، تماشا دیکھنے والے بھی ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہوا کا رخ بدلنے پر کشتیوں کے رخ موڑ دیئے جاتے ہیں، صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔

برطانیہ میں عوام کے موڈ کے خلاف فیصلے کرنے کی کوشش میں دو وزرائے اعظم کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، تیسرا لائن میں لگا ہوا۔ برطانوی پالیمان نے 12 دسمبر کو قبل از وقت انتخابات کا بل پاس کرلیا ہے۔ لبنان میں حکومت مخالف ہوا چلی تو طوفان بن کر سعد حریری کو لے اڑی۔ عراق میں بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ لوگ سڑکوں پر آئے تو عراقی وزیر اعظم اپنے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ ہانگ کانگ میں عوامی اشتعال چین کےلیے درد سر بنا ہے جسے لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں دبا پارہا۔ وینزویلا میں عوامی تحریک حکمرانوں کو کھا گئی۔ شام میں لوگ نکلے تو ملک خانہ جنگی کا ایسا شکار ہوا کہ پتا نہیں چلتا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہے بھی یا نہیں۔ اسپین، چلی میں ایسی صورتحال ہے، مطلب کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔

پاکستان میں موسم سرد ہوتے ہی سیاست کا میدان گرم ہوگیا، اس کی حدت سے کوئٹہ سے پنڈی تک لوگوں کے پسینے چھوٹ چکے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک سرد ہوا بھی گرم لُو کی طرح تھپیڑے مار رہی ہے۔ قصہ مختصر جس کھیل کےلیے مولانا فضل الرحمان ایک عرصے سے تیاری کررہے تھے، وہ انہوں 27 اکتوبر سے شروع کردیا۔ کراچی اور کوئٹہ سے شروع ہونے والا میچ اب اسلام آباد کے گراؤنڈ میں کھیلا جارہا ہے۔ مولانا اسے ٹیسٹ نہیں ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ انتہائی جارحانہ موڈ میں ہیں، جارحانہ کھیل کھیلنے کے بعد مولانا فارم میں آگئے ہیں۔ اب وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔

صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مارچ آگے بڑھے گا، یہ نہیں پتا کہ کتنا بڑھے گا؟ مولانا اب ایک استعفے پر راضی نہیں ہوں گے، ان کے دل میں دو اور استعفوں کی بھی خواہش جنم لے رہی ہے۔ دو دن کے اندر ایک استعفیٰ نہ ملا تو بات تین استعفوں کی طرف بھی جاسکتی ہے۔ مارچ کا رخ موڑا بھی جاسکتا ہے۔ فی الحال ان کو اتحادیوں نے روکا ہوا ہے۔ گلگت میں ہونے والی تقریر نے جلتی پر تیل ڈالا ہے، شاید وہ بھانپ گئے ہیں کہ ’’ایمپائرز‘‘ایک ہی سال میں بیزار ہوگئے ہیں۔

صرف وہی نہیں، عوام بھی ان کے بیانیے سے بیزار نظر آتے ہیں۔ ان کی حمایت کرنے والے کارکن اب صرف ضد پر قائم ہیں۔ دفاع کےلیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ سابقہ حکومتوں پر الزام دینے اور خود کچھ نہ کرنے کا چورن اب مارکیٹ کی ڈسٹ بن کا حصہ بن چکا ہے۔

گیلپ نے حال ہی میں ایک سروے کیا جس کے مطابق 53 فیصد پاکستانی مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں جب کہ صرف 4 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 23 فیصد افراد نے بے روزگاری، 8 فیصد نے کشمیر اور 2 فیصد نے سیاسی عدم استحکام کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ سروے میں 4 فیصد نے پانی کے بحران، ایک فیصد نے لوڈ شیڈنگ اور ایک فیصد نے ڈینگی وائرس کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ جی ہاں! مہنگائی ہی وہ چیز ہے جو کسان، مزدور، طالب علم، مرد و خواتین، سبھی کی چیخیں نکال رہی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں کے بدلے لاکھوں افراد کو بے روزگار ہونا پڑا۔ 50 لاکھ گھروں کا پتا نہیں، لیکن تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تجاوزات کے نام پر لوگ بے گھر ضرور ہوئے ہیں۔

میرا بھی خیال تھا کہ اپوزیشن جھوٹ بولتی ہے، یہ نعرے لگاتی ہے، یہ صرف عوام کو دھوکا دے رہی، میری آنکھیں اس وقت کھلیں جب میں نے عام پبلک سے سوال کیا کہ آپ ’’عمران خان کی حکومت سے کتنے خوش اور مطمئن ہیں؟‘‘ کسی نے مجھے برا بھلا کہا تو کسی نے ووٹ لینے والوں کو۔ ستر فیصد افراد نے مہنگائی کا رونا رویا، سب نے یہی کہا کہ عمران خان ہماری امید تھے، ہماری جینے کی وجہ تھے، ہم نے اسے دوسروں سے بہتر سمجھا، ان کے وعدوں پر ایمان کا حصہ سمجھ کر یقین کیا۔

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا

جس حکومت کے قائم ہونے کے صرف ایک سال بعد ہی استعفیٰ مانگ لیا جائے، اسے ہم آئیڈیل تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن پانچ سال کےلیے منتخب کردہ حکومت بزور طاقت ختم کرنے کا رواج غلط ہے۔ یہ اپوزیشن سے پی ٹی آئی کے کیے کی سزا ہے۔ جو روایت انہوں نے شروع کی، آج انہیں اس کا سامنا ہے۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس وقت اپوزیشن اسی اسکرپٹ پر کام کر رہی ہے جس کے تحت کپتان نے کیا تھا، لیکن اس بار رائٹر کوئی اور ہے۔

اب کیا کھیل کھیلا جارہا ہے؟ گراؤنڈ کیا بن رہی ہے؟ جولائی 2018 میں جو جوا کھیلا گیا، کھلاڑیوں نے جس گھوڑے کو پھرتیلا سمجھ کر ڈربی ریس میں اتارا تھا، وہ نکما نکلا۔ ان کو یقین ہوگیا ہے کہ لنگڑے گھوڑے سے ریس نہیں جیتی جاسکتی۔ ’’وہ‘‘ شاید چاہتے بھی یہی ہیں کہ سردست پرانے گھوڑے کو آؤٹ کیا جائے اور فی الوقت ’’نیا گھوڑا‘‘ میدان میں لایا جائے، جبکہ یہ معاملہ بھی ادھر ہی طے ہوا ہے جہاں پہلے ہوتا آیا ہے۔ اسی لیے دھرنا قیادت نے اپنا زور صرف ’’گو نیازی گو‘‘ تک محدود رکھا ہے اور شہبازشریف نے ’’اسٹیج‘‘ سے خود کو موقع دیئے جانے کےلیے ’’آفر‘‘ کردیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کے ذریعے قائدِ حزبِ اختلاف کو نیا قائد ایوان منتخب کروایا جائے۔

جس اسٹیج پر مریم نواز کو ہونا چاہیے تھا، اس پر شہباز شریف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نوازشریف کو ’’اماں‘‘ کے ذریعے فی الحال اپنی صحت پر توجہ دینے کےلیے منا لیا گیا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ممکن کیسے ہوگا؟ وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہیں قومی اسمبلی کے ذریعے فارغ کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت میں اس وقت نمبر گیم میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ بی این پی مینگل، ایم کیو ایم اور باپ کے لوگ کسی بھی وقت ادھر ادھر ہوسکتے ہیں۔ بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم کے ساتھ کیے گئے وعدے حکومت نے پورے نہیں کیے۔ جنہوں نے یہ وعدے کروائے، وہ کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نئے سیٹ اپ کے آتے ہی کیا ہوگا؟

نئے وزیراعظم کے آتے ہی پہلا کام نیب قوانین میں تبدیلی ہوگا، تمام اسیروں کو باہر لایا جائے گا۔ دوسری قانون سازی نواز شریف کی ایوان میں واپسی کےلیے ہوگی۔ تیسرا قانون ایکس ٹینشن کا راستہ روکنے کےلیے ہوگا۔ سیاستدانوں کے مائنس 3 کا جو فارمولا اپنایا گیا تھا، وہ اب کسی اور کےلیے استعمال ہوگا۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ کیا بے پر کی چھوڑ رہا ہے۔ ہم نے پاکستان کی 72 سالہ کی تاریخ میں یہی دیکھا ہے کہ پہلے ہم ہیرو بناتے ہیں، پھر اسی ہیرو کو زیرو بھی بناتے ہیں۔ جو کندھے پر اٹھاتا ہے، وہ نیچے اتار کر تھپڑ بھی مارتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ: ڈی چوک تک جانے، اجتماعی استعفوں اور ہائی ویز بلاک کرنے کی تجاویز
مارچ والے دوسرے میدان میں جائیں گے پھر اور آگے جائیں گے، حکومتی رِٹ ختم ہوچکی، اب ہم حکومت بنائیں گے اور ملک کو ترقی دلائیں گے:فضل الرحمان
ایاز اکبر یوسف زئی ویب ڈیسک

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے آزادی مارچ کے اسلام آباد میں پڑاؤ کا آج تیسرا دن ہے، دھرنے کے شرکاء پشاور موڑ پر ایچ 9 گراؤنڈ میں موجود ہیں۔

جے یو آئی کے رہنما اکرم درانی کی سربراہی میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے پر متفق ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ڈی چوک تک جانے، پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں، ملک گیر شٹر ڈاؤن اور ہائی ویز کو بلاک کرنے کی تجاویز ہیں۔

دوسری جانب حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات کو مسترد کردیا ہے جس پر اکرم درانی کا کہنا ہے کہ اگر استعفے پر بات ہی نہیں کرنی تو حکومت ہم سے رابطہ نہ کرے۔

’حکومت کی رِٹ ختم ہوچکی، اب ہم حکومت بنائیں گے ‘
207586_9943937_updates.jpg

اب حکومت ہم چلائیں گے، آپ کی رٹ ختم ہوچکی، ملک کو ہم آگے لیکر جائیں گے اور اسے ترقی دلائیں گے، فضل الرحمان — فوٹو: اے ایف پی
جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج رہبر کمیٹی نے طے کیا ہے کہ ڈی چوک تک جانا بھی تجاویز میں شامل ہے‘۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا، ہم جانتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے معاہدے کو توڑ دیا گیا، یہ ہم ہیں جو اس معاہدے کو پال رہے ہیں۔

انہوں نے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی ناکام خارجہ پالیسی سے ہم نے کشمیر کھودیا‘۔

آزادی مارچ میں طالبان کی موجودگی سے متعلق مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’یہاں پر کسی نے طالبان کا جھنڈا لہرایا تو بڑی بات ہو گئی، یہ بھی ہمارے جلسے کے خلاف سازش ہے، انتظامیہ فساد کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہم ایسا کوئی موقع نہیں دیں گے‘۔

مولانا نے مزید کہا کہ ’ان ہی طالبان کو امریکا اور روس نے بلا کر پروٹوکول دیا، پاکستان میں بھی انہیں صدارتی پروٹوکول دیا گیا‘۔

مودی بڑا خوش ہے کہ عمران خان جیسا وزیر اعظم آ گیا ہے: فضل الرحمان

سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ ’کہا جارہا ہے کہ مودی مجھ سے خوش ہے لیکن میں کہتا ہوں مودی بڑا خوش ہے کہ عمران خان جیسا وزیر اعظم آ گیا ہے، ایک سال میں پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے، 70 سال میں اتنا قرض نہیں لیا گیا جتنا ان کے ایک سال میں لیا گیا‘۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھوٹتی ہم بھی میدان میں رہیں گے، ہم ترقی پسند ہیں اور آگے جا کر بات کرنے والے ہیں، آج کے پاکستان کی بات کروں تو آج کا پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور کا پاکستان نہیں، ہم قائد اور اقبال کے تصور کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔

کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کا نام حکومت نہیں: مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کا نام حکومت نہیں، اب حکومت ہم چلائیں گے، آپ کی رٹ ختم ہوچکی، ملک کو ہم آگے لیکر جائیں گے اور اسے ترقی دلائیں گے۔

سربراہ جے یو آئی نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیر اعظم ہیں تو پھر زبان بھی وزیراعظم والی ہونی چاہیے، انہیں گالی، جھوٹ اور الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، یہ گالی بریگیڈ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فیصلہ کیا ہے کہ پرسوں سے ہم مؤثر میدان میں جائیں، ہم نے جو مقصد حاصل کیا کسی کا تصور بھی نہیں تھا، ایک آواز پر پوری قوم اسلام آباد آگئی، ہم اس سے آگے جائیں گے یہاں تک کہ یہ حکومت ختم ہو جائے گی۔

گزشتہ روز جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزير اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی اور اس مہلت کا آج پہلا دن ہے۔

فضل الرحمان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وزیراعظم نے دو روز میں استعفیٰ نہ دیا تو یہ اجتماع قدرت رکھتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو گھر جا کر گرفتار کر لے البتہ ہم پُرامن لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ پُرامن رہیں، اداروں کے ساتھ کوئی لڑائی یا تصادم نہیں،اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے بھی غیر جانب دار رہیں۔

خیال رہے کہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ اپوزیشن اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی اور وہاں سے آگے نہیں بڑھے گی۔
 
Top