جاسم محمد

محفلین
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ جی جی شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ پیور یوتھی سول
چلیں آپ بندے رہنے دیں۔ خالی مولانا کی شعلہ بیانیاں انجوائے کریں :)

پیچھے نہیں ہٹیں گے آگے بڑھ کر سخت حملہ کریں گے، مولانا فضل الرحمن
ویب ڈیسک اتوار 3 نومبر 2019
1867496-fazlurrehman-1572804478-556-640x480.jpg

آج اسلام آباد بند ہوا اب پورا پاکستان بند کرکے دکھائیں گے، دھرنے سے خطاب (فوٹو: فائل/نیوز ایجنسی)

اسلام: جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم شریعت کی رو سے باطل کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹ جانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آگے بڑھ کر سخت حملہ کریں گے۔

آزادی مارچ دھرنے کے چوتھے روز شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یہاں آئے ہیں تو پیش رفت کرکے ہی جائیں گے، پورے پاکستان کو اجتماع گاہ بنا کر دکھائیں گے یہ سیلاب اب تھمے گا نہیں اور آگے ہی بڑھے گا، آج اسلام آباد بند ہے اب پورا پاکستان بند کرکے دکھائیں گے۔

اس اجتماع سے اسرائیلی اور قادیانی لابی کو پریشانی ہے

انہوں نے کہا کہ ڈی چوک تو تنگ جگہ ہے جبکہ یہ جگہ کشادہ ہے لیکن یہ جگہ بھی ہم پر تنگ کردی گئی ہے، اس اجتماع سے اسرائیل اور قادیانی لابی کو پریشانی ہے، موجودہ حکومت کی وجہ سے اس خطے میں اسرائیل کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا کیوں کہ اسرائیل کی سرمایہ کاری پر اس اجتماع نے پانی پھیر دیا ہے، یہاں کے حکمراں بیرونی دباؤ پر آئین پاکستان کی اسلامی دفعات میں تحریف پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن اب اس اجتماع کے بعد آئندہ کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ اسلامی دفعات میں ردوبدل کی کوشش کرے۔

الیکشن کمیشن سے کیسے رجوع کریں؟ وہ تو خود بے بس ہے

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے معاملے پر الیکشن کمیشن سے رجوع کریں، یہاں تو ہرالیکشن میں مداخلت کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن بے بس نہ ہوتا تو آج یہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہوتے، پانچ برس گزر گئے پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا اب تک فیصلہ نہیں ہوا تو دھاندلی کے معاملے کا فیصلہ کیسے آجائے گا؟

عوام کے ووٹ کو عزت دینی ہوگی

انہوں نے کہا کہ دراصل جمہوری ادارے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں، اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ آئین کی بالادستی اور اس کی عمل داری قائم رہے، اب فیصلے عوام اور ان کا ووٹ کرے گا، عوام کے ووٹ کو عزت دینی ہوگی عوام جو فیصلہ کریں گے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔

مدارس کے خلاف سازش کرنے والے خود ختم ہوجائیں گے

مدراس کے نصاب میں تبدیلی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سازش کے تحت مدارس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا، سازش کرنے والے خود ختم ہوجائیں گے، مدارس میں مفت تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے جب کہ ایلیٹ کلاس کے تعلیمی نظام میں لوگ لاکھوں روپے خرچ کررہے ہیں آخر وہاں تبدیلی کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟

یہ اتنا آسان نہیں کہ لوگ یہاں آگئے اور چلے جائیں

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں کہ لوگ یہاں آگئے اور اتنی آسانی سے واپس چلے جائیں، اس اجتماع میں متعدد سیاسی جماعتوں کے کارکنان، تاجر، کسان، مزدور اور دیگر شعبہ جات کے لوگ موجود ہیں جو امید لے کر آئے ہیں ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے، سوشل میڈیا کے لب و لہجے پر نہیں جائیں اپنی قیادت پر اعتماد کریں، قیادت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ آپ کو مستقبل میں آگے لے کر جائے گا۔

ہم نے مذہبی نوجوان کو قابو میں رکھ کر ملک کےخلاف سازش ناکام بنائی

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ واحد جماعت ہے جس نے مذہبی نوجوانوں کو اعتدال کا اور سیاسی راستہ دکھایا، ان کی تربیت کی، نائن الیون کے بعد میں نے اپنے نوجوانوں کو قابو میں رکھ کر امریکا کی سازش کو ناکام بنایا اور انہیں اعتدال کا راستہ دکھا کر پاکستان اور آئین سے وابستہ کرکے اسلحے اور بغاوت سے دور رکھا، یہ صلاحیت ہم رکھتے ہیں تم ہمیں راستے نہیں دکھاؤ۔

غیرملکی میڈیا اجتماع کے منظم ہونے کا اعتراف کررہا ہے

انہوں نے کہا کہ امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسی یہ تھی کہ انہیں اشتعال دلا کر ریاست کے خلاف کھڑا کیا جائے جو حالات ایران، افغانستان، شام، یمن میں پیدا ہوئے اور سعودی عرب میں پیدا کیے جارہے ہیں ایسا کرنے کی پاکستان میں کوشش کی گئی لیکن یہاں ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا گیا، حتی کہ اتنا بڑا اجتماع ہوا لیکن ہم پرامن رہے، چار دن سے دیکھ رہا ہوں غیرملکی میڈیا اعتراف کررہا ہے کہ ایسا منظم اجتماع نہیں دیکھا۔

ڈی چوک پر جو جنسی آلودگی پھیلائی گئی اس سے سر شرم سے جھک گئی

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ڈی چوک خرافات کی جگہ ہے، جو جنسی آلودگی ڈی چوک پر پھیلائی گئی اس سے پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے، تم نشے میں دھت کو پاکستان کی قیادت کرنے چلے ہو جب کہ ہم تم سے بہتر قائد اور سیاست کرنے والے ہیں، کوشش کررہا ہوں کہ کل آل پارٹیز کانفرنس ہوسکے تاکہ معاملات میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔

جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار ہمیں نہ بتائیں کہ سیاست کیا ہوتی ہے

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے دھرنے کو مہینوں تک جاری رکھنے کی بات نہیں کی ہم جب تک چاہیں جاری رکھیں، آپ کون ہیں ہمارے فیصلے کرنے والے، ہمارے فیصلے ہم خود کریں گے، ہم ابھی سے نہیں ہیں ہماری تاریخ کئی سوسال پرانی ہے جو پاکستان بننے سے پہلے سے ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار اور سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے ہمیں بتائیں گے کہ سیاست کیا ہوتی ہے؟

وزیر اعظم ہاؤس جانے کا فیصلہ کرلیں کسی کا باپ نہیں روک سکتا

جمعیت علما اسلام کے قائد نے کہا کہ عمران خان سن لو! یہ سیلاب بڑھتا جائے گا حتی کہ تمہیں اقتدار سے باہر پھینک دے گا، وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر عمران خان کو گرفتار کرنے کے معاملے پر میرے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات گئی، اگر یہ سیلاب وزیر اعظم ہاؤس بڑھنے کا فیصلہ کرلے تو کسی کا باپ بھی اسے نہیں روک سکتا لیکن ہم بغاوت نہیں کرنا چاہتے، اسی لیے جو بھی بولو سوچ سمجھ کر بولو کیوں کہ ہم بغاوت سے آگے نکل آئے ہیں اور ہم نے اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ لی ہے۔

پیچھے ہٹ جانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں

فضل الرحمن نے دھرنے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ لوگوں کو ایک ماہ کا کہوں تو وہ چھ ماہ دھرنا دینے کی بات کریں گے مجھے دھرنے والوں کے خلوص پر کوئی شک نہیں، لیکن ہم حکمت عملی پہلے اور جذبات کو بعد میں رکھتے ہیں جیسا کہ سنت رسولؐ ہے لیکن یہ بھی طے ہے کہ ہم شریعت کی رو سے باطل کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹ جانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، یہ تو پلان اے ہے ابھی ہمارا پلان سی اور ڈی بھی موجود ہے۔
 

آورکزئی

محفلین
عوام نے مولانا کو دو حلقوں سے مسترد کیا ہے۔ اب تو اس کی جان چھوڑ دیں
EIYr-Mtf-X0-AAmi-JB.jpg

اپ بالکل فواد ڈبو بن رہے ہو بالکل اسی انداز میں مسخرے کرتے ہو۔۔۔ عوام نے مسترد کیا ؟؟؟ یا اپکے غفورے اور باجوے نے ؟؟؟
جاسم بھائی کبھی تو سچ بھی بولا کریں۔۔ خدا کے لیے
 

جاسم محمد

محفلین
دھرنے والے 4 سال تک بیٹھے رہیں، فیصل جاوید
696257_5251280_Faisal_updates.jpg


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ جب تک عمران خان نہیں جائیں گے تو بیٹھے رہیں گے، ان سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ 4 سال تک بیٹھے رہیں۔

ایک بیان میں فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ مفاد پرست ٹولہ ایک طرف ہے عمران خان اور عوام ایک طرف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارے اپنی کرپشن بچانے کے لیے اور این آر او لینے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔

فیصل جاوید نے کہا کہ انہیں نہ ہی وزیراعظم کا استعفا ملے گا اور نہ ہی این آر او ملے گا۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی اس پر کوئی بات ہوسکتی ہے۔

جہانگیرترین نے کہا کہ اپوزیشن کی استعفے سے متعلق ہم بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج انکا حق ہے ہم نے اپوزیشن کو ان کی مرضی کا گراؤنڈ دیا ہے۔

رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ ہم نے آزادی مارچ کو کہیں نہیں روکا بلکہ انہیں سہولتیں دی ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ہم نے اپنا معاہدہ پورا کرلیا ہے، اب مولانا فضل الرحمٰن اپنا معاہدہ پورا کریں۔

انہوں نے کہا کہ جوش خطابت میں باتیں آسان ہوتی ہیں اگر تحریری معاہدے پر بھی عمل کریں گے تو بہتر رہے گا۔
 

آورکزئی

محفلین
دھرنے والے 4 سال تک بیٹھے رہیں، فیصل جاوید
696257_5251280_Faisal_updates.jpg


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ جب تک عمران خان نہیں جائیں گے تو بیٹھے رہیں گے، ان سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ 4 سال تک بیٹھے رہیں۔

ایک بیان میں فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ مفاد پرست ٹولہ ایک طرف ہے عمران خان اور عوام ایک طرف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارے اپنی کرپشن بچانے کے لیے اور این آر او لینے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔

فیصل جاوید نے کہا کہ انہیں نہ ہی وزیراعظم کا استعفا ملے گا اور نہ ہی این آر او ملے گا۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی اس پر کوئی بات ہوسکتی ہے۔

جہانگیرترین نے کہا کہ اپوزیشن کی استعفے سے متعلق ہم بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج انکا حق ہے ہم نے اپوزیشن کو ان کی مرضی کا گراؤنڈ دیا ہے۔

رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ ہم نے آزادی مارچ کو کہیں نہیں روکا بلکہ انہیں سہولتیں دی ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ہم نے اپنا معاہدہ پورا کرلیا ہے، اب مولانا فضل الرحمٰن اپنا معاہدہ پورا کریں۔

انہوں نے کہا کہ جوش خطابت میں باتیں آسان ہوتی ہیں اگر تحریری معاہدے پر بھی عمل کریں گے تو بہتر رہے گا۔

لیکن ہم جنازوں سے نہیں اتریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
دھرنے کے تین ممکنہ نتائج:
1۔ خان صاحب مستعفی ہوں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی ہوں گے۔
2۔ خان صاحب مستعفی نہ ہوں گے۔ جنرل باجوہ استعفیٰ دیں گے یا ایکسٹینشن نہ لیں گے۔
3۔ خان صاحب استعفیٰ نہ دیں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی نہ ہوں گے۔

اگر کوئی استعفیٰ نہ مل سکا تو مولانا صاحب سچ مچ ہار جائیں گے۔ اصل امتحان مولانا صاحب کا ہی ہے۔ مولانا صاحب کو اصل اشارہ تو وہی جرنیل کریں گے، کہ غالباً جن کے کہنے پر، وہ یہاں تشریف لائے ہیں۔ تاہم، دونوں پارٹیوں کی سیاست زندہ رہے گی، اگر وہ دھرنے میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے بچ نکلنے کا امکان زیادہ ہے، تاہم، معاشی چیلنجز ان کے لیے مستقبل میں مسائل کا باعث بنے رہیں گے، بالخصوص، اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رُخ اپوزیشن کی طرف پھیر لیا۔ اس صورت میں، اگلے تین سے چھ ماہ میں ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مریم نواز شریف کو ضمانت مل گئی اور فضل الرحمٰن صاحب کی آج کی اے پی سی میں نون لیگ کا کوئی لیڈر شریک نہیں ہوا!
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈی چوک"
::::::::::::::::
میں شاید دو چار سال قبل بھی ایک پوسٹ میں پوری صراحت کے ساتھ مثالوں سے سمجھا چکا ہوں کہ سیاست اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی یہ اخبارات یا نیوز چینلز میں نظر آتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پوری کامیابی کے ساتھ اپنا ایمج لبرل اور اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کا بنا رکھا تھا لیکن عملا وہ اس کے بالکل برعکس تھیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال افغان طالبان ہیں۔ یہ محترمہ کے حکم پر منظم کئے گئے ورنہ اس وقت کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان کے حق میں نہ تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ کیا وزیر اعظم کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ آرمی چیف یا ڈی آئی ایس آئی کی رائے سے ہٹ کر قدم اٹھا لے ؟ تو جی ہاں ہوتا ہے۔ کیا محترمہ نے جنرل حمید گل سے مشہور زمانہ ناکام "جلال آباد آپریشن" نہیں کروایا تھا ؟ جنرل گل مسلسل محترمہ کو اپنے حکم پر نظر ثانی کا مشورہ دیتے رہے۔ لیکن جب محترمہ نہ مانیں تو آپریشن کردیا گیا جو ناکام ہو کر جنرل گل کے ہی کھاتے میں چلا گیا۔

اسی طرح ایک اور معاملہ یہ دیکھ لیجئے کہ محترمہ کے دور میں توہین رسالت قانون کے خلاف امریکہ کا دباؤ آیا کہ اسے ختم کیجئے، تو محترمہ نے وزیر قانون اقبال حیدر کو تو اس قانون اور اس کے حمایتیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اشارہ دیدیا تاکہ امریکہ کو تسلی رہے کہ محترمہ ان کا مطالبہ سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپنے قابل اعتماد دوست مولانا فضل الرحمن کے ذریعے اس مسئلے پر اپنے ہی خلاف مظاہرے کروا دئے۔ جس کے دوران اسلام اباد والے مظاہرے میں پولیس نے گولی بھی چلا دی۔ در پردہ کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا، اسے چھوڑ دیجئے بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس کے فورا بعد محترمہ امریکی سفیر کو یہ کہنے کی پوزیشن میں آگئیں کہ مولوی اس قانون کے لئے جان دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اب اگلے پانچ دس سال تو اس قانون کو آپ بھول ہی جائیں۔

اب آجائیے کل رات والی تقریر کی جانب. اس تقریر میں مولانا نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کا ڈی چوک جانے کا کوئی پروگرام نہیں تو جو بیچارے ایک زبردست "انٹرٹینمنٹ" کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کی آرزوئیں تو ہوگئیں قتل۔ اپنی ان مقتولہ آرزوؤں کا انتقام اب وہ مختلف سیاسی جماعتوں پر غصے یا طنز کی صورت لے رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر آپ واقعی یہ توقع کرکے بیٹھے تھے کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جائیں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ سیاسی شعور ہی نہیں رکھتے۔ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت اس نظام کے گھر کی ہے۔ جمہوریت پارلیمنٹ میں ہی جنم لیتی ہے، پارلیمنٹ میں ہی رہتی ہے اور پارلیمنٹ سے ہی ملک کے طول عرض میں اپنے ثمرات منتقل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری شخص پارلیمنٹ کے احترام پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتا ہے۔ اس کے بالمقابل غیر جمہوری یعنی آمرانہ نظام ہے۔ جس کا مکان ہمارے ہاں راولپنڈی میں واقع ہے اور یہ مکان جی ایچ کیو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مکان کے سیاسی عزائم والے مکین پارلیمنٹ سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔ سو یہ کبھی اس ادارے پر کتے چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی اس میں اپنی کٹھ پتلیاں سجا دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بھارت میں ہندو مسجدوں میں سور وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں. یہ ہر وہ قدم اٹھاتے ہیں جس سے اس ادارے کی توہین یا تذلیل ہو۔ سو آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جانے کا ارادہ رکھتے تھے ؟ کیا وہ اپنے ہی گھر پر چڑھائی کریں گے ؟ فضل الرحمن کیا پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی سمیت جتنی بھی مین سٹریم جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی بھی، کبھی بھی ڈی چوک نہیں جائے گا۔ یہ پارلیمٹ پر چڑھائی کرکے سرے سے جمہوری ورکر نہیں رہ سکتے تو کل اسی پارلیمنٹ کی ممبر شپ کے لئے ووٹ کس منہ سے مانگیں گے ؟ ہر بندہ عمران خان کی طرح بے شرم اور بے غیرت تو نہیں ہوتا. ڈی چوک صرف وہی جاسکتے ہیں جو طاہر القادری یا عمران خان کی طرح کٹھ پتلیاں ہوں۔ چلئے آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے پچھلے دس پندرہ دن کے دوران ہونے والی میری کسی پوسٹ میں اس سے قبل ڈی چوک کا ذکر تک سنا ہے ؟ میری پوسٹوں میں اس ذکر کی نوبت اسی لئے نہیں آئی کہ بطور سیاسی تجزیہ کار میں ان سے یہ توقع ہی نہیں کرتا کہ وہ ڈی چوک جائیں گے۔ ان کا لانگ مارچ بدستور موجود ہے۔ اور یہ ہم سب نے دیکھنا ہے کہ وہ لے کر کیا جاتے ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں فوج سرعام یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ غلطی ہوگئی. غلطی کا احساس انہیں ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کار کردگی سے جی ایچ کیو میں اطمینان کی کیفیت ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ جرنیل رات چار چار گولیاں لے کر سونے کی کوشش کرتے ہوں گے کیونکہ یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ فی الحقیقت عمران نہیں وہ ناکام ہوئے ہیں۔ اور وہ مولانا کے لانگ مارچ سے قبل ہی دونوں بڑی جماعتوں پر واضح کرچکے تھے کہ دسمبر تک صبر کیجئے۔ اور دونوں جماعتیں اس پر ایگری بھی کرچکی ہیں۔ مولانا کو دونوں جماعتوں نے مارچ سے منع کیا تھا کہ آپ ایک طے شدہ معاملہ بگاڑ دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی آئے ہیں. اچھا کیا ہے کہ آئے ہیں۔ جنہیں وہ عوامی طاقت دکھانا چاہتے تھے، انہوں نے دیکھ بھی لی اور سمجھ بھی لی۔ اب آگے کے معاملات اسی عوامی طاقت کے زیر اثر آگے بڑھیں گے۔ بیچ میں نکے اور ابے دونوں کو چلتا کرنے کی ایک تجویز آئی۔ مگر مریم نواز نے سعودی سفیر کی توہین کرکے اس سے ضائع کردیا۔ سفیر کی توہین وہ ریاست بھی نہیں کرسکتی جہاں وہ تعینات ہوتا ہے۔ یہاں تو بہت نچلے لیول پر یہ واقعہ ہوگیا ہے۔ اس کے نتائج مریم کے کیریئر پر تو پڑیں گے۔ دیکھتے ہیں کیا پڑتے ہیں !
(رعایت اللہ فاروقی)
 

جاسم محمد

محفلین
مریم نواز شریف کو ضمانت مل گئی اور فضل الرحمٰن صاحب کی آج کی اے پی سی میں نون لیگ کا کوئی لیڈر شریک نہیں ہوا!
ڈیل ہو نہیں رہی، ڈیل ہو گئی ہے!!!


مریم نواز کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019

مریم نواز کو 8 اگست کو کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا گیا تھا فوٹو: فائل


لاہور: ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کیس میں مریم نواز کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کیس میں فریقین کا موقف سننے کے بعد 31 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سنایا گیا۔

عدالت نے درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے مریم نواز کو ایک ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے مریم نواز کے خاتون ہونے کی استدعا پر ضمانت منظور کرنے سے اتفاق کیا۔

عدالت کی مریم نواز کو ڈپٹی رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو پاسپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کردی، پاسپورٹ جمع نہ کرانے کی صورت میں 7 کروڑ روپے زرضمانت جمع کرانا ہو گا۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ یہ سچ ہے کہ معاشرے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹس پھیلی ہوئی ہے اور اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، نیب کی جانب سے مریم نواز کے فرار ہونے خدشہ ظاہر کیا گیا، مریم نواز نہ تو کبھی مفرور ہوئی ہیں اور نہ انہوں نے قانون کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت قانونی نکات کو مدنظر رکھتے اپنی آنکھیں نہیں موند سکتی، عدالت ثبوتوں کے معاملے میں ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی، مریم نواز کے اکاؤنٹ سے نکلوائے گئے 7 کروڑ روپے کے الزام میں استغاثہ کے موقف کو تقویت نہیں ملتی، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی جرم ہو چکا ہے، یہ دفعہ یہ معاملہ مزید چھان بین کا متقاضی ہے، ٹرائل کورٹ 2 متوازی قوانین کے اطلاق کے بارے فیصلہ کرے گی۔
عدالت عالیہ کے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کا مدعا نہیں تھا کہ یہ رقم غیر قانونی طور پر آئی، پراسکیوشن کی جانب سے نصیر عبداللہ لوتھا کا پیش کیا گیا بیان وزارت خارجہ سے تصدیق شدہ نہیں تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو قلمبند کروائے گئے نصیر عبداللہ لوتھا کے بیان کے دوران ملزم کا موقف نہیں جانا گیا،چوہدری شوگر ملز میں دیگر غیر ملکیوں کے بیانات تاحال ریکارڈ نہیں کئے گئے۔

عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد عدالت کے احاطے میں موجود (ن) لیگی کارکنوں کی جانب سے بھرپور خوشی کا اظہار کیا گیا۔

واضح رہے کہ 8 اگست کو مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپس جارہی تھیں۔ مریم نواز نے 24 اکتوبر کو اپنے والد نواز شریف کی تیمارداری کے لیے ضمانت کی درخواست دائر کی تھی
 

محمد وارث

لائبریرین
ڈی چوک"
::::::::::::::::
میں شاید دو چار سال قبل بھی ایک پوسٹ میں پوری صراحت کے ساتھ مثالوں سے سمجھا چکا ہوں کہ سیاست اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی یہ اخبارات یا نیوز چینلز میں نظر آتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پوری کامیابی کے ساتھ اپنا ایمج لبرل اور اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کا بنا رکھا تھا لیکن عملا وہ اس کے بالکل برعکس تھیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال افغان طالبان ہیں۔ یہ محترمہ کے حکم پر منظم کئے گئے ورنہ اس وقت کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان کے حق میں نہ تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ کیا وزیر اعظم کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ آرمی چیف یا ڈی آئی ایس آئی کی رائے سے ہٹ کر قدم اٹھا لے ؟ تو جی ہاں ہوتا ہے۔ کیا محترمہ نے جنرل حمید گل سے مشہور زمانہ ناکام "جلال آباد آپریشن" نہیں کروایا تھا ؟ جنرل گل مسلسل محترمہ کو اپنے حکم پر نظر ثانی کا مشورہ دیتے رہے۔ لیکن جب محترمہ نہ مانیں تو آپریشن کردیا گیا جو ناکام ہو کر جنرل گل کے ہی کھاتے میں چلا گیا۔

اسی طرح ایک اور معاملہ یہ دیکھ لیجئے کہ محترمہ کے دور میں توہین رسالت قانون کے خلاف امریکہ کا دباؤ آیا کہ اسے ختم کیجئے، تو محترمہ نے وزیر قانون اقبال حیدر کو تو اس قانون اور اس کے حمایتیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اشارہ دیدیا تاکہ امریکہ کو تسلی رہے کہ محترمہ ان کا مطالبہ سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپنے قابل اعتماد دوست مولانا فضل الرحمن کے ذریعے اس مسئلے پر اپنے ہی خلاف مظاہرے کروا دئے۔ جس کے دوران اسلام اباد والے مظاہرے میں پولیس نے گولی بھی چلا دی۔ در پردہ کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا، اسے چھوڑ دیجئے بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس کے فورا بعد محترمہ امریکی سفیر کو یہ کہنے کی پوزیشن میں آگئیں کہ مولوی اس قانون کے لئے جان دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اب اگلے پانچ دس سال تو اس قانون کو آپ بھول ہی جائیں۔

اب آجائیے کل رات والی تقریر کی جانب. اس تقریر میں مولانا نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کا ڈی چوک جانے کا کوئی پروگرام نہیں تو جو بیچارے ایک زبردست "انٹرٹینمنٹ" کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کی آرزوئیں تو ہوگئیں قتل۔ اپنی ان مقتولہ آرزوؤں کا انتقام اب وہ مختلف سیاسی جماعتوں پر غصے یا طنز کی صورت لے رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر آپ واقعی یہ توقع کرکے بیٹھے تھے کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جائیں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ سیاسی شعور ہی نہیں رکھتے۔ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت اس نظام کے گھر کی ہے۔ جمہوریت پارلیمنٹ میں ہی جنم لیتی ہے، پارلیمنٹ میں ہی رہتی ہے اور پارلیمنٹ سے ہی ملک کے طول عرض میں اپنے ثمرات منتقل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری شخص پارلیمنٹ کے احترام پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتا ہے۔ اس کے بالمقابل غیر جمہوری یعنی آمرانہ نظام ہے۔ جس کا مکان ہمارے ہاں راولپنڈی میں واقع ہے اور یہ مکان جی ایچ کیو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مکان کے سیاسی عزائم والے مکین پارلیمنٹ سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔ سو یہ کبھی اس ادارے پر کتے چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی اس میں اپنی کٹھ پتلیاں سجا دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بھارت میں ہندو مسجدوں میں سور وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں. یہ ہر وہ قدم اٹھاتے ہیں جس سے اس ادارے کی توہین یا تذلیل ہو۔ سو آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جانے کا ارادہ رکھتے تھے ؟ کیا وہ اپنے ہی گھر پر چڑھائی کریں گے ؟ فضل الرحمن کیا پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی سمیت جتنی بھی مین سٹریم جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی بھی، کبھی بھی ڈی چوک نہیں جائے گا۔ یہ پارلیمٹ پر چڑھائی کرکے سرے سے جمہوری ورکر نہیں رہ سکتے تو کل اسی پارلیمنٹ کی ممبر شپ کے لئے ووٹ کس منہ سے مانگیں گے ؟ ہر بندہ عمران خان کی طرح بے شرم اور بے غیرت تو نہیں ہوتا. ڈی چوک صرف وہی جاسکتے ہیں جو طاہر القادری یا عمران خان کی طرح کٹھ پتلیاں ہوں۔ چلئے آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے پچھلے دس پندرہ دن کے دوران ہونے والی میری کسی پوسٹ میں اس سے قبل ڈی چوک کا ذکر تک سنا ہے ؟ میری پوسٹوں میں اس ذکر کی نوبت اسی لئے نہیں آئی کہ بطور سیاسی تجزیہ کار میں ان سے یہ توقع ہی نہیں کرتا کہ وہ ڈی چوک جائیں گے۔ ان کا لانگ مارچ بدستور موجود ہے۔ اور یہ ہم سب نے دیکھنا ہے کہ وہ لے کر کیا جاتے ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں فوج سرعام یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ غلطی ہوگئی. غلطی کا احساس انہیں ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کار کردگی سے جی ایچ کیو میں اطمینان کی کیفیت ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ جرنیل رات چار چار گولیاں لے کر سونے کی کوشش کرتے ہوں گے کیونکہ یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ فی الحقیقت عمران نہیں وہ ناکام ہوئے ہیں۔ اور وہ مولانا کے لانگ مارچ سے قبل ہی دونوں بڑی جماعتوں پر واضح کرچکے تھے کہ دسمبر تک صبر کیجئے۔ اور دونوں جماعتیں اس پر ایگری بھی کرچکی ہیں۔ مولانا کو دونوں جماعتوں نے مارچ سے منع کیا تھا کہ آپ ایک طے شدہ معاملہ بگاڑ دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی آئے ہیں. اچھا کیا ہے کہ آئے ہیں۔ جنہیں وہ عوامی طاقت دکھانا چاہتے تھے، انہوں نے دیکھ بھی لی اور سمجھ بھی لی۔ اب آگے کے معاملات اسی عوامی طاقت کے زیر اثر آگے بڑھیں گے۔ بیچ میں نکے اور ابے دونوں کو چلتا کرنے کی ایک تجویز آئی۔ مگر مریم نواز نے سعودی سفیر کی توہین کرکے اس سے ضائع کردیا۔ سفیر کی توہین وہ ریاست بھی نہیں کرسکتی جہاں وہ تعینات ہوتا ہے۔ یہاں تو بہت نچلے لیول پر یہ واقعہ ہوگیا ہے۔ اس کے نتائج مریم کے کیریئر پر تو پڑیں گے۔ دیکھتے ہیں کیا پڑتے ہیں !
(رعایت اللہ فاروقی)
ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:

مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔

اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔

اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
دھرنے کے تین ممکنہ نتائج:
1۔ خان صاحب مستعفی ہوں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی ہوں گے۔
2۔ خان صاحب مستعفی نہ ہوں گے۔ جنرل باجوہ استعفیٰ دیں گے یا ایکسٹینشن نہ لیں گے۔
3۔ خان صاحب استعفیٰ نہ دیں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی نہ ہوں گے۔

اگر کوئی استعفیٰ نہ مل سکا تو مولانا صاحب سچ مچ ہار جائیں گے۔ اصل امتحان مولانا صاحب کا ہی ہے۔ مولانا صاحب کو اصل اشارہ تو وہی جرنیل کریں گے، کہ غالباً جن کے کہنے پر، وہ یہاں تشریف لائے ہیں۔ تاہم، دونوں پارٹیوں کی سیاست زندہ رہے گی، اگر وہ دھرنے میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے بچ نکلنے کا امکان زیادہ ہے، تاہم، معاشی چیلنجز ان کے لیے مستقبل میں مسائل کا باعث بنے رہیں گے، بالخصوص، اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رُخ اپوزیشن کی طرف پھیر لیا۔ اس صورت میں، اگلے تین سے چھ ماہ میں ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے۔
اپوزیشن مولانا کو آگے کر کے پتلی گلی سے اسٹیبلیشیہ کے ساتھ ڈیل کر کے نکل گئی :) :) :)

اے پی سی میں شہباز اور بلاول کی عدم شرکت: فضل الرحمان کا پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019

1868030-apc-1572868637-808-640x480.jpg

جے یو آئی ارکان اسمبلی کے استعفے میرے پاس پڑے ہیں، مولانا فضل الرحمان فوٹو:فائل


اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں غیر حاضری پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے موقف واضح کرنے کا مطالبہ کردیا۔

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ اور دھرنے کا آج پانچواں روز ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر جے یو آئی کی آل پارٹیز کانفرنس جاری ہے جس میں حکومت کے خلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے اور اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن پر بھی مشاورت کی گئی۔

بلاول اور شہباز کی عدم شرکت

اس اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے بجائے ان کی سیاسی جماعتوں کے وفود شریک ہیں۔ (ن) لیگ کے وفد کی قیادت ایاز صادق کررہے ہیں، پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر، اے این پی کی طرف سے زاہد خان ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اور دیگر سیاسی رہنما اے پی سی میں شریک ہیں۔

پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ

مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا حکومت کے خلاف احتجاج صرف جے یو آئی کا فیصلہ تھا؟، آپ لوگ ناجائز حکومت سے نجات چاہتے ہیں یا ان کے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں، اگر مشترکہ فیصلہ کرنا ہے تو ہماری جماعت اسمبلیوں سے استعفوں کے لیے بھی تیار ہے۔

استعفے میرے پاس پڑے ہیں

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کی حکمرانی کے لیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنائیں، موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ سب اپنے مفادات کو عوامی مشکلات پر ترجیح نہ دیں، سیاسی جماعتیں اسٹینڈ لیں، جے یو آئی ہراول دستہ ہوگی، عوامی بالادستی چاہتے ہیں تو فیصلے کا یہی وقت ہے، میری جماعت کے ارکان کے استعفے میرے پاس پڑے ہیں۔

واضح رہے کہ جے یو آئی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لیے دی گئی 2 روز کی ڈیڈ لائن میں توسیع کردی ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
یہ تو خیر انتہائی متوقع ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے یوں بھی دھرنے میں شرکت نہیں کرنی تھی مگر مولانا صاحب کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب یا تو انہیں دھرنا ختم کر دینا چاہیے یا پھر اگلی چال چلنی چاہیے۔ کارکنوں کے قرار پکڑنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر یہی بے مقصدیت چھائی رہی تو یہ تجزیہ درست شمار ہو گا کہ وہ محض ذاتی انتقام کی تسکین کے لیے معاملات کو اس نہج تک لائے اور محض امکانات اور خواہشات کے سہارے چل پڑے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:

مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔

اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔

اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!
1- لبرل مولوی
رعایت اللہ فاروقی کو نہ آپ لبرل ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی مولوی

2-بے نظیر مجبور تھی یا قدرت رکھتی تھی
انٹیلی جنس آپریشنز سے متعلقہ معاملات میں کبھی درست بات نہیں بتائی جاتی یعنی سجی دکھا کر کھبی مارنا ، کچھ باتیں بیرونی ممالک کو ایک خاص تاثر دینے کے لیے کی جاتی ہے۔
جنرل مشرف کی امریکیوں سے ڈبل گیم یا جنرل حمید گل کی امریکیوں سے ڈبل گیم اسی کی غماز ہے۔ جس طرح بیرونی ممالک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں بعینہ پاکستان بھی مفادات کی گیم کھیلتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
2-بے نظیر مجبور تھی یا قدرت رکھتی تھی
انٹیلی جنس آپریشنز سے متعلقہ معاملات میں کبھی درست بات نہیں بتائی جاتی یعنی سجی دکھا کر کھبی مارنا ، کچھ باتیں بیرونی ممالک کو ایک خاص تاثر دینے کے لیے کی جاتی ہے۔
جنرل مشرف کی امریکیوں سے ڈبل گیم یا جنرل حمید گل کی امریکیوں سے ڈبل گیم اسی کی غماز ہے۔ جس طرح بیرونی ممالک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں بعینہ پاکستان بھی مفادات کی گیم کھیلتا ہے۔
فاروقی صاحب جس تیقن سے تفصیلات بتا رہے ہیں اور اس پراپنا مقدمہ کھڑا کر رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے وہ آئی ایس آئی کے اس جلال آباد آپریشن کو نہ صرف شرح و بسیط کے ساتھ جانتے ہیں بلکہ ہر فیصلے میں شاید وہ خود بھی شامل تھے۔
 
Top