آورکزئی

محفلین
سنا ہے نیازی کی ٹیم پھر سے این ار او لینے مولانا کے گھر گئی ہے۔۔۔
ارے کوئی نیازی کو بتا دیں این ار او نہیں ملے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاسم صاحب۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں:
اُس نے مطالبہ مانتے ہوئے اگر واقعی استعفیٰ دے دیا تو ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔ پورے 70سال کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مطالبہ مان کر یا غلطی تسلیم کر کے مستعفی ہوا ہو اس لئے وہ استعفیٰ دے کر اور بھی بڑا کلغی دار بن جائے گا۔

اس کے حامی اس کی اصول پسندی پر تالیاں بجائیں گے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کریں گے کہ وہ تو ملک کی قسمت بدلنے والا تھا، مولانا نے اسے یہ موقع نہیں دیا۔

اس کے عقیدت مندکہیں گے معاشی اشاریے بہتری دکھا رہے تھے، صدیوں کی کرپشن ختم ہونے والی تھی مگر اسے چلنے نہیں دیا گیا، یوں ملک نے سنہری موقع ضائع کر دیا۔ یوتھ کہے گی کہ وہ تو نئی اسکیمیں لا رہا تھا، پرانا نظام توڑ رہا تھا مگر مافیا نے اس کو کچھ کرنے نہیں دیا۔ اس کے حامی اوورسیز پاکستانی کہیں گے کہ جاہل لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں سکے، یہ ان پڑھ گنوار اپنی بہتری ہی نہیں چاہتے اسی لئے وہ مجبوراًمستعفی ہو گیا۔

انصافی بقراط یہ دلیل بھی لائیں گے کہ دراصل یہ عالمی سازش تھی، اقوام متحدہ میں اس کی تقریر کے بعد یہود و ہنود نے اسے نکلوائے بغیر چین سے کہاں بیٹھنا تھا غرضیکہ اگر اس نے استعفیٰ دے دیا تو وہ اپنے حامیوں کے لئے سیاسی شہید بن جائے گا اور اپوزیشن اس سیاسی شہید کی تارا مسیح ٹھہرے گی۔

وہ ملک اور ہیں جہاں ٹرین حادثوں پر وزیرمستعفی ہو جاتے ہیں، وہ شایدکہیں طلسماتی دنیا کی کہانی ہے جہاں مہنگائی پر مظاہرے ہوں تو وزیراعظم گھر چلا جائے، وہ بھی کہیں بہت دور کی بات لگتی ہے کہ لوگ ٹینکوں پر چڑھ کر نظام کو بچا لیں یا ترکی میں جہازوں کی بمباری برداشت کر لیں یہاں تو موہنجو دڑو سے لے کر آج تک کی تاریخ میں ظلم، جبر اور مزاحمت کا چکر ہی چل رہا ہے۔ ضمیر، اخلاقیات اور بھلائی کا درس صرف کتابوں میں بند ہے۔

عملی سیاسی دنیا ہو یا امورِ مملکت، ان میں بے حسی، ظلم اور زبردستی کا چال چلن ہی جاری ہے اور ابھی دور تک اس میں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس ظلم کے خلاف لڑنے والے احمد خان کھرل ہوں، نواب مظفر خان ہوں، بھٹوز ہوں یا سینکڑوں گم نام لوگ، وہ اپنا سرخ خون دے کر کالی تاریخ کو سنہرا تو بنا جاتے ہیں مگر ابھی تک اسے بدلنے پر قادر نہیں ہوئے۔ ظلم رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے مگر اس کا انداز وہی بے رحمانہ ہے۔ مظلوم البتہ قربانی کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔

دھرنے اور لانگ مارچ اصولی طور پر غلط ہیں مگر آج کا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہزاروں لوگوں کی اشک شوئی کیسے کی جائے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائیں کیونکہ ان کو شکست یا ہار نظر آئی تو ہنگامہ آرائی ہو سکتی ہے، جانیں بھی جا سکتی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ اس بڑی تعداد کے مجمع کو طاقت کے بل پر روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اسے زور زبردستی سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ علامہ خادم رضوی کے دھرنے کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے اٹھانے کی کوشش کی گئی، ہزیمت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا بالآخر ان سے مجبوراًتحریری معاہدہ کرنا پڑا۔

خبر یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سندھ اور پنجاب کی سرحد پر مولانا کے قافلے کو روکنے کی منصوبہ بندی کی گئی مگر جب تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی تو یہ طے ہو گیا کہ انہیں روکنا خطرناک ہو گا اور حالات کی جو خرابی چند دن بعد ہوسکتی ہے وہ اسی دن سے شروع ہوسکتی تھی۔

اب بھی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب پولیس یا اسلام آباد پولیس کو اگر اس مجمع سے محاذ آرائی کی مجبوری پڑی گئی تو پولیس اسے ہینڈل نہیں کر سکے گی اور اگر رینجرز یا ریگولر دستوں کے ساتھ ہجوم کا آمنا سامنا ہوا تو خون خرابہ ہوگا جس کے انتقامی اثرات خوف ناک ہوں گے۔

لال مسجد میں اسی طرح کا آپریشن ہوا تو خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو تھمنے میں نہیں آتا تھا۔ سیاسی طور پر آزادی مارچ کے ذریعے عمران خان کا جانا عمران خان کے لئے فائدہ مند اور اپوزیشن کے لئے نقصان دہ ہوگا۔

مولانا اور اپوزیشن کو اپنی شرائط میں جمہوری آزادیوں، الیکشن میں غیرجانبداری، احتساب میں زیادتیوں اور اسمبلیوں کی بہتر کارکردگی کو شامل کرنا چاہئے، ان مطالبات یا شرائط پر اتفاق رائے ہوا تو یہ عمران خان کی شکست اور اپوزیشن کی فتح ہوگی۔

خانِ اعظم جو بھی کہتے رہیں حکومت کا اصل امتحان اس کی کارکردگی ہو تی ہے۔ دنیا بھر میں کامیابی کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے عام لوگوں کی معاشی حالت بہتر کی ہے یا خراب؟ پی ٹی آئی اس حوالے سے ابھی تک کوئی بڑا دعویٰ بھی نہیں کر سکتی، گورنر اسٹیٹ بینک البتہ بہتری کی نوید ضرور سنا رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شرح سود کم ہونے والی ہے، ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ مگر سچ تو یہ ہے کہ دانش وری کی ان باتوں سے عام آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔

جس طرح دباو میں خان کا استعفیٰ دینا غلط روایت ہو گا اسی طرح یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو کیا حکومتِ وقت سیاسی ڈائیلاگ کے بارے میں سوچتی۔ بظاہر حکومت سیاسی ڈائیلاگ سےکوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔

وہ اگر مذاکرات کا دروازہ کھول بھی رہے ہیں تو مصلحتاً اور مجبوری کے تحت۔ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو نواز شریف جیل میں ہی مر جاتے، زرداری کو اسپتال نہ لیجانے کے حیلے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ تاجروں کو فکسڈ ٹیکس لگانے کے بجائے نوٹس دیئے جا رہے ہوتے۔

اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو چند اور بیورو کریٹ بھی نیب کے شکنجےمیں آ چکے ہوتے۔ یہ دھرنا نہ ہوتا تو تحریک انصاف ابھی تک خواب غفلت میں ہوتی ساتھ ہی سیاسی انتقام کا ٹوکہ اور تیزی سے چلتا ہوا کئی اور سیاسی سر بھی کاٹ چکا ہوتا۔

کاش یہ دھرنا امن سے ختم ہو، مولانا وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط ختم کر کے جمہوری آزادیوں کی شرط منوا کر تاریخ میں سرخرو ہوں۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اس دھرنے سے سبق سیکھیں، انتقام اور احتساب کے سرکش گھوڑے سے نیچے اتر کر فلاح و بہبود کے پھریرے لہرائیں۔ پارلیمان کے اندر افہام و تفہیم سے قانون سازی شروع کریں۔

صدارتی آرڈیننسوں کی فیکٹری بند کریں۔ نیب قوانین کے بارے میں اتفاق رائے کریں۔ کشمیر پر ایک متفقہ پالیسی بنا کر حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹیاں بنائیں۔ کاش اس دھرنے سے دبائو، زیادتی اور جبر و ظلم ختم ہو کر امن و آشتی کا دور شروع ہو۔

یاد یہ رکھنا چاہئے کہ یہ ملک نہ کسی ایک فرد کا ہے اور نہ کسی ایک ادارے کا، یہ ہم سب کا ہے۔ حکومت اکیلی ریاستی گاڑی نہیں چلا سکتی اپوزیشن کی شرکت ناگزیر ہے۔ اسی طرح آزاد میڈیا پر پابندیوں سے ریاست کی جمہوری صحت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔

نواز شریف سزا یافتہ سہی، انسان تو ہیں انہیں انسانی حقوق تک نہ دینا سراسر زیادتی تھی۔ آصف زرداری بدنام سہی بیمار تو ہیں، انہیں طبی سہولتیں تک نہ دینا ظلم ہے۔ حکومت نے چلنا ہے تو اسے بدلنا ہو گااور اگر حکومت نے اپنے طور اطوار نہ بدلے تو پھر حکومت کا رہنا مشکل ہو گا۔

یہ کرکٹ نہیں کہ سب ٹیموں اور سب کھلاڑیوں سے لڑ کر آپ جیت جائیں۔ اِس کھیل میں جتنے زیادہ اتحادی ہوں ، جتنی مفاہمت ہواتنا ہی سیاسی کھیل کامیاب رہتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پارلیمان کے اندر افہام و تفہیم سے قانون سازی شروع کریں۔
ان اینکروں اور صحافیوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ قوم اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کے نظریات کو مسترد کر دیا ہے۔ پچھلے 10 سال سے حکومتیں افہام و تفہیم (مک مکا) کے ساتھ ہی تو چل رہی تھی۔ پھر ایسے میں تحریک انصاف کی کیا ضرورت تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
جس طرح دباو میں خان کا استعفیٰ دینا غلط روایت ہو گا اسی طرح یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو کیا حکومتِ وقت سیاسی ڈائیلاگ کے بارے میں سوچتی۔ بظاہر حکومت سیاسی ڈائیلاگ سےکوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔
اینکر اور صحافی مسترد شدہ اپوزیشن کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ پر بضد کیوں ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
یاد یہ رکھنا چاہئے کہ یہ ملک نہ کسی ایک فرد کا ہے اور نہ کسی ایک ادارے کا، یہ ہم سب کا ہے۔ حکومت اکیلی ریاستی گاڑی نہیں چلا سکتی اپوزیشن کی شرکت ناگزیر ہے۔
تحریک انصاف کو اپوزیشن کی صفوں میں موجود قومی چوروں اور لٹیروں کو پکڑنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ ان کے ساتھ افہام و تفہیم ، مک مکا، ڈیل یا ڈھیل کر کے 5 سال پورے کرنے کا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف سزا یافتہ سہی، انسان تو ہیں انہیں انسانی حقوق تک نہ دینا سراسر زیادتی تھی۔ آصف زرداری بدنام سہی بیمار تو ہیں، انہیں طبی سہولتیں تک نہ دینا ظلم ہے۔
صحیح کہا۔ ملک کے 90 ہزار دیگر عام قیدی جو قید و بند کی تکالیف سے گزر رہے ہیں وہ انسان نہیں ہیں۔ صرف بڑے بڑے قومی چور اور لٹیرے انسان ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کرکٹ نہیں کہ سب ٹیموں اور سب کھلاڑیوں سے لڑ کر آپ جیت جائیں۔ اِس کھیل میں جتنے زیادہ اتحادی ہوں ، جتنی مفاہمت ہواتنا ہی سیاسی کھیل کامیاب رہتا ہے۔
مفاہمت مفاہمت مفاہت، بس کر دو بس! یہ پی پی پی، ن لیگ اور دیگر کرپٹ جماعتوں والا نظریہ قوم اور اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
استعفے کے علاوہ تمام جائز مطالبات ماننے کو تیار ہیں، وزیراعظم
ویب ڈیسک منگل 5 نومبر 2019
وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں حکومتی کمیٹی آج رہبر کمیٹی سے ملاقات کرے گی فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ استعفے کے علاوہ تمام جائز مطالبات ماننے کو تیار ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی، اس موقع پر پرویزخٹک اور چوہدری پرویز الٰہی نے اپوزیشن کے مطالبات سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی۔اجلاس کے دوران آزادی مارچ سے متعلق حکومتی حکمت عملی طے کی گئی۔

ملاقات کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ حکومتی کمیٹی مکمل طور پر بااختیار ہے، اپوزیشن سنجیدہ مذاکرات چاہتی ہے تو مثبت جواب دیا جائے، استعفے کے علاوہ تمام جائز مطالبات ماننے کو تیار ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں حکومتی کمیٹی آج رہبر کمیٹی سے ملاقات کرے گی۔

واضح رہے کہ آزادی مارچ کے ہر مرحلے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں، مذاکرات ہی کے نتیجے میں مارچ کے شرکا کے لیے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن میں جگہ مختص کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز بھی حکومتی کمیٹی نے رہبرکمیٹی سے ملاقات کی تھی دوسری جانب چوہدری برادران نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرکے معاملہ حل کرانے کی کوششیں کی تھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
صدقے جاواں مولانا
جاوید چوہدری پير 4 نومبر 2019

آپ کو 2014 اچھی طرح یاد ہو گا‘ عمران خان نے اپنے کزن علامہ طاہر القادری کے ساتھ وزیراعظم میاں نواز شریف کو گریبان سے پکڑ کر اقتدار کی کرسی سے اتارنے‘ وزیراعظم کا استعفیٰ لینے اور نیا پاکستان بنانے کے لیے اسلام آباد پر دھاوا بول دیا تھا‘ یہ ایک تاریخی مگر عین حلال یلغار تھی‘ حلال دھرنا کیل لگے ڈنڈوں‘ کٹرز‘ کرینوں اور ڈی جے بٹ سے لیس تھا‘ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کے بل بھی جلائے‘ سول نافرمانی کا اعلان بھی کیا اور عوام سے بل ادا نہ کرنے کی اپیل بھی کی‘عمران خان کے ٹائیگر پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلے توڑ کر اسمبلی کے احاطے‘ ایوان صدر کا گیٹ توڑ کر ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاؤس کی حدود پھلانگ کر وزیراعظم ہاؤس اور پی ٹی وی کی باؤنڈری کراس کر کے سرکاری ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیوز میں بھی داخل ہوگئے اور مظاہرین نے ایس ایس پی اسلام آباد کو بھی سڑک پر لٹا کر ڈنڈوں سے زخمی کر دیا‘ وہ ایک سنہری دور تھا۔

اس سنہری دور کی سنہری یادیں آج تک پورے پاکستان کی یادداشت کا حصہ ہیں‘ یہ ایک حقیقت تھی اور اب آپ دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے‘عمران خان کی یلغار نے میاں نواز شریف کو اچانک پارلیمنٹ اور اپوزیشن دونوں کی اہمیت یاد دلا دی‘ یہ قومی اسمبلی پہنچ گئے‘ پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن تھا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن نے تقریر کی‘ یہ ایک دھواں دھار مگر توہین آمیز تقریر تھی لیکن آپ سیاست کی مجبوریاں دیکھیے‘ میاں نواز شریف کے پاس یہ تقریر برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ یہ دل پر پتھر رکھ کر وہ تقریر سنتے رہے‘ چوہدری نثار نے اچھلنے کودنے کی کوشش کی مگر ن لیگ کے وزراء نے انھیں پکڑ کر بٹھا دیا‘ میاں نواز شریف کا چہرہ غصے سے سرخ تھا لیکن یہ چپ چاپ تقریر سنتے رہے‘ چوہدری اعتزاز احسن نے تقریر میں پنجابی ماں کا ایک لطیفہ سنایا‘ لطیفہ کچھ یوں تھا‘ پنجاب کا کوئی بدمعاش بہت ضدی‘ بہت اتھرا تھا‘ وہ کسی کا احترام‘ کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔

پولیس نے چھاپا مارا اور بدمعاش کو گرفتار کر لیا‘ بدمعاش کو تھانے لے جایا گیا‘ وہاں تھانے دار نے اسے لتر مارنا شروع کر دیے‘ ماں بیٹے کی محبت میں تھانے پہنچ گئی‘ ماں نے دیکھا بیٹے کو لتر پڑ رہے ہیں اور ہر لتر پر اس کے منہ سے نکل رہا ہے ’’ہائے او میری ماں‘‘ ماں نے یہ منظر دیکھا اور اونچی آواز میں کہا ’’صدقے جاواں وے تھانے دارا تم نے اسے آج کم از کم ماں تو یاد کرا دی‘‘ چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا ہم عمران خان اور اس کے دھرنے کے خلاف ہیں لیکن ہم اس کے باوجود اس کے صدقے جا رہے ہیں‘ اس نے کم از کم حکومت کو پارلیمنٹ تو یاد کرا دی‘ آج حلف لینے کے بعد پوری حکومت پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔

چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر توہین آمیز تھی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو 2014 میں دودھ میں مینگنیاں نہیں ڈالنی چاہیے تھیں‘ پارٹی کے اپنے لوگوں نے بے عزت کر کے حکومت کا ساتھ دینے کی حکمت عملی کو پسند نہیں کیا تھا مگر اس کے باوجود چوہدری صاحب کی بات ٹھیک تھی‘ ہماری حکومتیں صرف اس وقت پارلیمنٹ کو یاد کرتی ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا‘ ماں ہمیشہ لتروں کے درمیان ہی یاد آتی ہے‘یہ ایک تلخ حقیقت ہے‘ ہم اگر چوہدری اعتزاز احسن کی مثال کو آج کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں آج بے اختیار یہ کہنا پڑے گا ’’صدقے جاواں مولانا‘ آپ نے کم از کم حکومت کا سریا تو نکال دیا‘‘۔

یہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی ’’شان دار‘‘ ترین حکومت ہے‘ حکومت کی پرفارمنس صفر‘ ڈیلیوری صفر‘ عقل صفر‘ قوت فیصلہ صفر اور میرٹ صفر ‘ یوٹرن میں گولڈ میڈل‘ حماقتوں میں سپر اسٹار‘ زبان درازی کے امام اور کم عقلی کے پیغمبر!یہ ہے ہماری حکومت‘ یہ کمبی نیشن اگر یہاں تک رہتا تو بھی شاید قوم برداشت کر جاتی لیکن آپ ان کا تکبر‘ ان کا غرور‘ ان کی غیر سنجیدگی اور ان کی انا ملاحظہ کیجیے‘ یہ روز اٹھ کر آسمان کی طرف تھوکتے تھے‘ آپ کسی وزیر کی گفتگو سن لیں آپ کو یوں محسوس ہو گا یہ ابھی کرسی سمیت پرواز کرے گا اور سیدھا جا کر مریخ پر لینڈ کر جائے گا‘ میں 27 سال سے صحافت میں ہوں‘ میں نے آج تک کوئی حکومت اتنی ’’من حیث المتکبر‘‘ نہیں دیکھی‘ خان تو خان‘ خان کے چپڑاسیوں کی گردنوں میں بھی فولاد تھا‘ ان لوگوں نے 14 ماہ میں پورے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں مگر آپ اس کے باوجود ان کی گفتگو سنیں‘ یہ اپنی ہر حماقت کو بھی ماضی کی جھولی میں ڈال دیں گے اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور اگر آپ یہ گستاخی کر بیٹھیں ’’جناب آپ کا سفید تھوڑا سا میلا ہے‘‘ تو یہ آپ سے لڑ پڑیں گے‘ قوم ایک سال سے پرویز خٹک اور شفقت محمود جیسے مفکرین کی شکل کو ترس گئی تھی۔

یہ اپنے دفتر کو بھی تشریف آوری کے قابل نہیں سمجھتے تھے لیکن مولانا کے صدقے جائیں ان کی برکت سے قوم کو پوری حکومت کی زیارت بھی ہو گئی‘ قوم نے وزراء کی آوازیں بھی سن لیں اور ان کی گردنوں کے سریے بھی نکل گئے‘ یقین کریں قوم کو سریوں کے بغیر گردنیں دیکھ کر جتنی خوشی ہو رہی ہے ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے چناں چہ میں پوری قوم کی طرف سے مولانا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘ صدقے جاواں مولانا آپ کی برکت سے سریے بھی غائب ہو گئے اور قوم کو پرویز خٹک‘ اسد عمر اور شفقت محمود کے منہ سے یہ سننے کا موقع بھی مل گیا لانگ مارچ اور دھرنا برا ہوتا ہے‘ یہ جمہوریت کی توہین ہوتا ہے اور یہ کوئی جمہوریت نہ ہوئی جتھے آئیں اور حکومت کو چلتا کر دیں وغیرہ وغیرہ۔

شکر ہے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو کم از کم یہ تو معلوم ہو گیا معاہدے کتنے عظیم ہوتے ہیں اور ریڈزون‘ وفاقی سیکریٹریٹ‘ وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر‘ پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ کتنے مقدس ادارے ہیں اور ان کی طرف قدم بڑھانے کا مطلب ملک کے مقتدر اداروں کی توہین ہوتی ہے‘ صدقے جاواں مولانا آپ نے کم از کم حکومت کو ریڈزون اور معاہدوں کی حرمت تو سمجھا دی‘ آپ نے ان کو یہ تو بتا دیا ہجوم جب حکومتوں کا محاصرہ کرتے ہیں تو ریاست کتنی کم زور‘ ملک کتنا پیچھے چلا جاتا ہے اور آپ نے عوام کو بھی یہ سمجھا دیا 2014 میں پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہوا تھا اور یہ لوگ آج اپنے دھرنے کو حلال اور مولانا کے مارچ کو حرام قرار دے کر کس منافقت کا اظہار کر رہے ہیں۔

میں یہاں مولانا کی ایک اور خوبی کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں‘ ہم مولویوں کو غیر تہذیب یافتہ اور ان پڑھ سمجھتے تھے لیکن ہم نے اس آزادی مارچ میں علماء کرام‘ مدارس کے طلباء اور مذہبی طبقے کا ایک نیا روپ دیکھا‘ مولانا فضل الرحمن کا مارچ کراچی سے شروع ہوا اور یہ ساڑھے چودہ سوکلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد پہنچا‘ مولانا کے آزادی مارچ نے واقعی راستے میں کوئی پتا توڑا اور نہ ہی گملا‘ پوری قوم نے دیکھا لاہور میں میٹرو کے ٹریکس پر بھی لوگ موجود تھے اور پلوں پر بھی‘ تقریریں بھی چل رہی تھیں اور میٹرو بھی رواں دواں تھی‘ کسی بس کے سفر میں کوئی تعطل نہیں آیا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارچ ہے۔

جس میں اب تک کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا‘ کسی نے کسی سرکاری یا پرائیویٹ پراپرٹی پر حملہ نہیں کیا‘ مارچ نے کوئی سڑک بلاک نہیں کی اور کسی گاڑی کو نہیں روکا تاہم حکومت نے پورے شہر کو کنٹینرستان بنا دیا ہے‘ آپ کو اگر 2014 کا دھرنا یاد ہو تو آپ کو یہ بھی یاد ہو گا ملک کی مہذب ترین جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں نے اس میں کیا کیا تھا؟ علامہ طاہر القادری اور عمران خان دونوں نے ریڈزون کی مت مار کر رکھ دی تھی‘ خندقیں بھی کھودی گئی تھیں‘ قبریں بھی اور درخت اور پودے بھی برباد کیے گئے تھے‘ سرکاری املاک کو بھی کھل کر نقصان پہنچایا گیا تھا‘ پانی کی مین لائن تک توڑ دی گئی تھی اور بجلی براہ راست کھمبوں اور مین لائنز سے اڑا لی گئی تھی‘ 2014کے دھرنے کو قوم نے برداشت کیا تھا جب کہ مولانا کے ضبط نے لوگوں کو حیران کر دیا‘ کاش پاکستان کی تمام تحریکیں‘ تمام مارچز اور تمام دھرنوں میں یہی اسپرٹ ہو‘ ہم سب اتنے ہی مہذب ہو جائیں۔مولانا کرنا کیا چاہتے ہیں؟

ہم اب اس طرف آتے ہیں‘ میرا خیال ہے مولانا ریڈزون بھی جائیں گے اور وفاقی سیکریٹریٹ‘ وزیراعظم سیکریٹریٹ‘ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کا گھیراؤ بھی کریں گے اور اگر حکومت نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو یہ پورا ملک جام کر دیں گے‘ حکومت کی کوشش ہے یہ خود درمیان سے نکل جائے اور یہ لڑائی مولانا اور اداروں کے درمیان شفٹ ہو جائے‘ یہ اگر ہو گیا تو یہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہو گی‘ مولانا پھر ایک استعفے تک محدود نہیں رہیں گے‘ یہ مزید استعفوں کا مطالبہ کریں گے‘ یہ نام لے لے کر خوف ناک تقریریں کریں گے اور ٹیلی ویژن چینلز یہ تقریریں دکھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے‘ یہ تحریک اگر درمیان میں نہ رکی اور اپوزیشن اور حکومت میز پر نہ بیٹھی تو پھر یہ سلسلہ قومی حکومت پر جا کر رکے گا یا پھر محمد میاں سومرو کی سربراہی میں نئی حکومت بنے گی اور یہ ڈیڑھ سال بعد الیکشن کرا دے گی‘ نئے پاکستان کی حکومت کو اب قسمت ہی بچا سکتی ہے‘ ٹونے اور جادو بہرحال فیل ہو چکے ہیں‘ حکومت کا ہر نیا دن اب ایکسٹینشن پر چل رہا ہے‘ یہ ایکسٹینشن کتنی دیر ان کا ساتھ دیتی ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے تاہم میں ایک بار پھر مولانا کو داد دینا چاہتا ہوں‘صدقے جاواں مولانا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حلال کیا اور حرام کیا؟
ارشاد بھٹی

سنا ہے نواز شریف نے شہباز شریف سے پوچھا ’’مولانا کے پیچھے کون، اتنے پُراعتماد کیسے‘‘، سنا ہے شہباز شریف باتوں باتوں میں کئی بار مولانا سے پوچھ چکے، اصل پلان کیا، کس کی مدد حاصل، سنا ہے شہباز شریف نے دو چار دن پہلے ایک سنیئر صحافی سے بھی پوچھا ’’مولانا کرنا کیا چاہ رہے، پیچھے کون‘‘، سنا ہے پی پی والے اب تک پوچھتے پھر رہے، مولانا کے سر پر کس کا ہاتھ، سنا ہے وزیراعظم سے لے کر نِکّے وزیروں، مشیروں تک سب حیرت زدہ، مولانا جیسا بندہ اور یہ سب، سنا ہے مولانا کی اپنی جماعت میں بھی ایک آدھ کے علاوہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ مولانا کا اصل منصوبہ کیا، سنا ہے باخبر صحافی بھی لیفٹ رائٹ پوچھ پوچھ تھک گئے مولانا کے ارادے کیا، تھپکی کس کی، مطلب سب کے سب پلان، غیبی مدد کی ٹوہ میں اور سب کے سب اصل خبر سے بے خبر، اوپر سے مولانا نے کسی کو کچھ بتایا نہ بتا رہے، کچھ شیئر کیا، نہ کر رہے، باقاعدہ منصوبہ بندی سے پُراسراریت پھیلا رکھی، جان بوجھ کر سب کو کنفیوز رکھا، مگر اب وہ مرحلہ، جہاں مولانا کو اپنے کارڈ شو کرنا پڑیں گے، اب فیصلہ کن گھڑیاں، اب کنفیوژن، گومگو سے کام نہیں چلے گا، ایک آدھ دن میں سب پتا چلنے والا۔


اب آ جائیے موجودہ صورتحال پر، وزیراعظم کا غصہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، گزشتہ سے پیوستہ ہفتہ، جس دن مذاکراتی کمیٹی بنائی، اسی شام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرما دیا ’’پہلی اسمبلی جو ڈیزل کے بنا چل رہی‘‘، یہی نہیں مولانا ابھی اسلام آباد میں صحیح طرح سے بیٹھ بھی نہ پائے کہ گلگت بلتستان پہنچے وزیراعظم نے پھر جلتی پر تیل ڈالا، فرمایا ’’بلاول کا لبرل ازم جھوٹ، وہ لبرلی کرپٹ، مسلم لیگ والے جھوٹوں کے سردار، مولانا کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو بھلا سازش کی کیا ضرورت، مولانا مارچ سے پاکستان کے دشمن خوش ہو رہے، مولانا کو دکھا دکھا بھارتی میڈیا تو یوں خوش ہو رہا جیسے وہ بھارتی شہری ہوں، یہ شعلہ بیانیاں صرف وزیراعظم کی نہیں، سب وزراء حتیٰ کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا بھی یہی حال، ہر روز نئی شرلیاں، ہر روز نئی درفنطنیاں، سب کے سب جلتی پر تیل ڈال رہے، کوئی آگ پر پانی نہ ڈال رہا۔

دوسری طرف، مولانا جی ہر حد پھلانگ رہے، جمعے کو حلال دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’دو دن کی مہلت دے رہا، وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، ورنہ ہم انہیں وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار بھی کر سکتے ہیں‘‘، یہی نہیں، اسی تقریر میں آگے چل کر جب مولانا نے یہ جھوٹ بولے، کشمیر بیچ دیا گیا، اسرائیل کو تسلیم کیا جا رہا، عقیدہ ختم نبوت، اسلام خطرے میں، تب اسٹیج پر دائیں جانب کھڑے بلاول مسکرا رہے تھے، وہ بلاول جن کی تین نسلیں مذہبی جنونیت کا شکار ہو چکیں، جن کی والدہ بینظیر بھٹو کے بارے میں مولانا فرما چکے ’’عورت کی حکمرانی برداشت کی، قبول نہیں کی‘‘، یہی نہیں، جب مولانا اپنے مذہبی جھوٹوں سے ’حلال دھرنے‘ کو گرما رہے تھے تب بائیں جانب احسن اقبال، خواجہ آصف کھڑے تھے، وہ احسن اقبال جن کو مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے گولی لگ چکی، وہ خواجہ آصف مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے جن کے منہ پر سیاہی پھینکی جا چکی، یہی نہیں جب مولانا نے کہا، دو دن میں استعفیٰ نہ دیا تو (حلال) دھرنے والے وزیراعظم کو گرفتار بھی کر سکتے ہیں‘‘ تب بھی مولانا کے دائیں بائیں بلاول بھٹو، خواجہ آصف، احسن اقبال کھڑے تھے، بدنصیبی دیکھئے، اب تک مسلم لیگ، پی پی نے مولانا کے جھوٹے مذہبی کارڈ کی مذمت کی نہ دونوں جماعتیں وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے بیان کی مذمت کر سکیں، یہ ہے ہماری سیاست کا اصل چہرہ، بھدا چہرہ، بدصورت چہرہ، مطلبی چہرہ، خود غرض چہرہ۔

سوچیے، کل جب جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کیس میں مراد علی شاہ کی گرفتاری کی باتیں ہو رہی تھیں، تب کیسے بلاول بھٹو کی جمہوریت، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی خطرے میں پڑی ہوئی تھی، کیسے کہہ رہے تھے، مراد علی شاہ کی گرفتاری کروڑوں ووٹوں کی توہین، لیکن جب مولانا عمران خان کو گرفتار کرنے کا کہہ رہے تھے تب بلاول کو کوئی اعتراض نہ تھا، حالانکہ عمران خان بھی اسی الیکشن کے بعد وزیراعظم بنے جس الیکشن کے بعد مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنے، پھر یہی بلاول تھے جنہوں نے مریم نواز کی گرفتاری پر قومی اسمبلی میں انتہائی غصے میں ’بے غیرت‘ کہہ دیا مگر جب بات عمران خان کی گرفتاری کی، تب بلاول کی مسکراہٹیں، میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو، آگے سنئے، ایک طرف کہا جائے، مولانا کے بڑوں کا قائداعظم کو کافرِ اعظم کہنا، مولانا کے بڑوں کا کہنا ’’شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے‘‘، سال پہلے مولانا کا یہ فرمانا، دھاندلی ہوئی، احتجاجاً ہم 14اگست نہیں منائیں گے، کہا جائے، یہ باتیں نہ کریں، یہ باتیں پرانی ہو چکیں، گڑے مردے نہ اکھاڑیں، لیکن جب مولانا ’حرام‘ حکومت کے خلاف حلال مارچ کریں تو کہا جائے، کیا ہوا جو مولانا مارچ کر رہے، عمران خان بھی تو یہ کر چکا، جب مولانا حلال دھرنا دیں تو کہا جائے کیا ہوا، عمران خان بھی تو دھرنے دے چکا، جب مولانا حلال لاک ڈاؤن کی حلال دھمکیاں دیں تو کہا جائے کیا ہوا جو مولانا دھمکیاں دے رہے، عمران خان بھی تو سول نافرمانی، لاک ڈاؤن کر چکا، مطلب ہم مولانا جی کا ماضی یاد دلائیں تو چھوڑیں یہ ماضی، لیکن مولانا جب کچھ کریں، یہ جائز، کیونکہ یہ سب ماضی میں بھی ہو چکا۔

اگر تو ہم کو اسی منطق، اصول پر چلنا کہ جو کچھ عمران کر چکا، اب سب کو وہی کرنے کی اجازت تو پھر تیار رہیں، کل عمران خان تھا، آج مولانا، کل کوئی اور ہوگا، پھر یہ سلسلہ رکے گا نہیں، آج ہم غیر آئینی، غیر قانونی اقدامات کو گلیمرائز کرتے رہے، بغضِ عمران، بغضِ اسٹیبلشمنٹ پر حبِّ پاکستان کو ترجیح نہ دی تو آج جتھے وزیراعظم کی گرفتاری کی بات کر رہے ہیں، کل گرفتار بھی کر لیں گے، ویسے بات کتنے مزے کی، حکومت حرام، مولانا کا مارچ، دھرنا، لاک ڈاؤن سمیت سب دھمکیاں حلال، یہ بات تو بہت مزے کی ’آزادی کے رنگ‘ مولانا کے سنگ، توبہ توبہ۔

اب صورتحال ایسی، کچھ بھی ممکن، اچھی، بری خبر کیلئے تیار رہیں، مولانا بند گلی میں، مولانا اکیلے، تنہا، پی پی، ن لیگ عملی طور پر ساتھ نہیں، مولانا کو بلاول بھٹو نے کراچی سے رخصت کیا نہ شہباز شریف نے لاہور میں ریسیو کیا، مولانا کی نواز شریف سے ملاقات چھوڑیں بات بھی نہ ہو پائی، مولانا کو فیس سیونگ چاہئے، یہ فیس سیونگ ملنی چاہئے، وزیراعظم کا استعفیٰ تو بالکل نہیں، مگر درمیانی رستہ نکلنا چاہئے، ورنہ دونوں طرف کے زہریلے مشیر کچھ بھی کرا دیں گے۔
 
Top